اَنا بیل منڈھے نہیں چڑھتی

میری آنا اور عاجزی میں جنگ چھڑی رہتی ہے ۔ جب آنا یا " میں" فتحیاب ہوتی ہے تو سر اونچا تو ہو جاتا ہے لیکن سر چکرانے لگتا ہے ، فاتحانہ مسکراہٹ تو ہوتی ہے لیکن سچی خوشی اور سکون سینے سے رخصت ہو جاتا ہے۔
پھر یوں ہوتا ہے کہ ایک دن خدا کا فضل ہو جاتا ہے ۔ اور میری آنا کو ہروادیا جاتا ہے اور عاجزی یا" کسی کی مان لینا" کو فتح نصیب ہوتی ہے۔ خوشیاں برسنے لگتی ہیں اور آنگن انسانوں کی رضا مندیوں سے بھر جاتا ہے۔ انا کا طوفان تھمنے کے بعد کا سکون اور سکوت دل کو فرحت بخش کر فشار خون اور نبض کی رفتار کو نارمل کر دیتا ہے ۔ ڈاکٹر پریشان ہو جاتا ہے کہ میری دوائ جو اثر نا دکھا سکی وہ ایک انجانی سمت سے انجانی قوت کام دکھا گئ۔
حامد سوچنے لگا کہ جیسا یہ ایک دن گزرا ہے ، کاش!
گزرے برس ایسے ہی گزرے ہوتے ۔ وہ اپنوں کی بات مان لیتا اور اپنوں کو خوش کر دیتا۔ اپنوں کی نہیں تو خدا کی ہی بات مان لیتا۔

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

حامد ابھی ان باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ خوشحال پری کا واٹس ایپ میسیج آتا ہے کہ میرا فون خراب ہے ، آپ ٹھیک کروا دیں ، میرے پاس پیسے نہیں ہیں ۔ وہ ہر حال میں مسکرانے والی پری ہے جس کی ایک مسکراہٹ سے حامد اپنی تمام فکر اور پریشانی بھول جاتا ہے۔

وہ اپنی بہن کے ساتھ آکر ریسٹورنٹ کی ٹیبل پر بیٹھ گئ ۔ اپنا موبائل دے دیا۔ حامد نے انہیں چاے پیش کی ۔ رکشیلا کا رکشہ ڈرائیور جلدی کر رہا ہے ، اسے ہر حال میں رات سے پہلے گھر پہنچنا ہے۔ وہ اٹھ کر جانے لگی ۔ حامد نے کہنا چاہا کہ اپنی ایک سینڈل چھوڑ جائیں ۔ مگر دل کی بات دل میں ہی رہ گئ ۔

کچھ بھی نا کہا اور کہہ بھی گئے
کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے

 

Noman Baqi Siddiqi
About the Author: Noman Baqi Siddiqi Read More Articles by Noman Baqi Siddiqi: 255 Articles with 264609 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.