عائشہ طارق
ہماری generation کا پتہ ہے سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے ہمارا خوف، کہیں پہ لا
علمی کا خوف ہے تو، کہیں پہ سب جان جانے کا خوف۔ ہم 21 صدی میں ہونے کے
باوجود آج بھی بے خبر ہے ہمارے پاس دنیا بھر کی انفارمیشن ایک click پر
موجود ہوتی ہے۔ مگر ہم ساری زندگی گزارنے کے بعد بھی یہ سمجھ نہیں پاتے کہ
کون سا click ہمارے لئے ٹھیک ہے اور کون سا نہیں۔ اور اس بے خبری کے خوف کی
وجہ سے ہم کچھ کر ہی نہیں پاتے۔ کچھ پانے کی خوشی کے اوپر ہمیشہ کچھ کھو
دینے کا خوف حاوی رہا ہے۔
ٹیکنالوجی کی اس دنیا نے ہمارے اندر کے خوف کو بڑھا دیا ہے۔ پہلے کا انسان
آج کے انسان سے زیادہ daring اور بہادر تھا مگر آج کا انسان ہر وقت کچھ
کھونے کے خوف کا شکار رہتا ہے۔ اور اسی خوف نے انسان سے فیصلہ کرنے کی طاقت
بھی چھین لی ہے۔ ہم یہ بھی نہیں سمجھ پاتے کے کیا سہی اور کیا غلط۔ ہماری
زندگیاں مختلف قسم کے خوف کا شکار ہیں۔ ہم ماضی میں کی گئی غلطیوں اور
مستقبل کے خوف کی وجہ سے اپنے آج کو بھی خراب کرتے ہیں اور کل کو بھی وقت
سے پہلے خوف ناک بنا دیتے ہیں۔
خوف نے انسان کو آگے بڑھانے سے روک رکھا ہے۔ اس کی وجہ سے انسان اپنی self
respect اور self esteem کو فراموش کر بیٹھتا ہے۔ ڈر کی وجہ سے انسان اپنی
ذات پر یقین کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ ڈر نے قوموں کا مستقبل تاریک بنا دیا ہے۔
اگر خوف کو ختم نہ کیا جائے تو یہ انسان کی صلاحیتوں کو اندر ہی اندر دیمک
کی طرح کھا جاتی ہے۔ خوف انسان کو قوت فیصلہ اور قوت برداشت دونوں سے محروم
کر دیتا ہے۔ اور اس کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔
خوف ایک حدتک خیرجائز ہے کیونکہ خوف احتیاط پیدا کرتا ہے اور احتیاط زندگی
کے تیز سفر میں ایک موزوں اور مناسب عمل ہے۔ وہ سارے فیصلے جن میں احتیاط
ہوتی ہے وہاں پر تھوڑا سا خوف بھی ہوتا ہے۔ خوف انسان کو بتاتا ہے کہ وہ
انسان ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ آگ جلتی ہے اس لئے کسی گرم چیز کو محسوس کر کے
ہم اپنا ہاتھ پیچھے کر لیتے ہیں۔ ہاتھ پیچھے کرنا احتیاط ہے مگر اس میں
ہوتا تو کہیں نہ کہیں جلنے کا خوف ہی ہے۔ خوف کسی حد تک تو جائزہ ہے مگر
صرف خوف ہی کافی نہیں ہوتا کسی خطرے کو ٹالنے کے لیے، کیونکہ صرف خوفزدہ
رہنے سے تو دشمن نہیں مرتا۔ اس کے لیے عمل کی ضرورت ہوتی ہے اور عمل کے لیے
خوف سے نجات ضروری ہے۔
ایک حد سے زیادہ خوف ہو تو انسان کا سارا تشخص ، اس کی ساری سائیکی
(PSYCHE) اس کا باطنی وجود سب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ خوف خون کی
رنگت اور ہڈیوں کاگودا ختم کردیتا ہے۔ خوف زدہ انسان پتوں کی کھڑکھڑاہٹ سے
ڈرتا ہے۔ سرسراہٹ سے ڈرتا ہے۔ وہ آنے والوں سے ڈرتا ہے۔ وہ ہرایک سے ڈرتا
ہے۔ اپنے آپ سے ڈرتا ہے۔ اپنے ماضی سے ڈرتا ہے۔ اپنے حال سے ڈرتا ہے ۔ اپنے
مستقبل سے ڈرتا ہے۔ بلکہ اپنے پرائے یہاں تک کہ اپنے ہی سائے سے ڈرتا ہے۔
خوف اگر ایک دفعہ دل میں بیٹھ جائے تو پھر وجہ کے بغیر ہی خوف پیدا ہوتا
رہتا ہے-
ہر ناکام انسان کی ناکامی کے پیچھے سب سے بڑا ہاتھ اس کے دل میں پیدا ہونے
والے خوف کا ہے۔ کیونکہ کامیاب انسان بے خوف ہوتا ہے۔ ہماری سب سے بڑی طاقت
ٹیکنالوجی ہے تو ہمارا سب سے بڑا خوف بھی یہی ٹیکنالوجی ہے۔ اس ٹیکنالوجی
نے جہاں انسان کی زندگیاں کو جنت بنایا ہے وہی پہ اس کو کمزور اور خوفزدہ
کر دیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے جہاں زندگی نجانے کے نئے طریقے بتائے ہیں وہی
پہ اس نے موت کا خوف بھی بڑھا دیا ہے۔ اور موت کو سست اور آسان ر دیا ہے۔
ہر انسان اس خوف میں مبتلا ہے کہ پتہ نہیں کب کیا ہو جائے۔ انسان اپنے
اردگرد موجود لوگوں سے ہی خوفزدہ اور پریشان رہنے لگا ہے۔ ہر انسان کے دل
کا حال کچھ یہ ہے
خوف آتا ہے مجھے اب
ان نام کے، خون سے خالی لوگوں سے
وقت کی زدہ سے ہوئے ان وحشت زدہ چہروں سے
اپنایت کے لبادوں میں ان منافقت زدہ لوگوں میں
رات سے زیادہ اندھیرا زدہ لوگوں سے
مجھے کہیں دور جانا ہے اس سب سے
تنہا چلنا ہے ان تنہا چھوڑا جانے والوں سے
اب اکثر دیر سے لوٹنا ہے بولانے پہ بھی مجھے
خوف کی وجہ سے انسان کے لیے ہرامکان ایک ٹریجدی ہے۔ اس کے لیے ہر واقعہ ایک
حادثہ ہے۔ خوف زدہ انسان خود کو اس بھری ہوئی دنیا میں تنہا محسوس کرتا ہے۔
خوف انسان کے اندر تنہائی کا احساس پیدا کر دیتا ہے۔ خوف زدہ انسان کی مثال
بلکل ایسی ہے جیسے کسی وسیع صحرا میں ایک تنہا مسافر ہو اور رات ہو جائے۔
اور جب انسان اپنے وجود سے بے خبر ہو تو اسے اپنے وجود کا احساس بھی مشکل
سے ہوتا ہے۔ اپنے وجود سے بے خبری انسان کو اور بھی زیادہ بذدل بنا دیتی
ہے۔
ہم اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہم کیوں کر چھوٹی چھوٹی باتوں سے اور
چیزوں سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ کمزور ہے اس لیے وہ
چھوٹی چھوٹی چیزوں سے ڈر جاتے ہیں۔ مگر ڈر تو ہماری ذہنی کیفیات میں سے ایک
ہے اس کا اثر کچھ پل کے لیے ہوتا ہے۔ مگر اس کو ہم اپنے اوپر اس قدر حاوی
کر لیتے ہیں کہ اس خسارے سے نکلنا ہمارے لئے مشکل ہو جاتا ہے اور وہ ہمارے
دلوں میں گھر کر لیتا ہے۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ اپنے ڈر پر قابو
پا کر ہم دنیا کو فتح کر سکتے ہیں۔ کیونکہ
"ڈر کے آگے جیت ہوتی ہے۔"
خوف سے بچنے کا واحد اور سب سے مناسب طریقہ یہی ہے کہ انسان کے دل میں خدا
کا خوف پیدا ہوجائے۔ خوف خدا ہرخوف سے نجات دلاتا ہے۔ اور اللہ کا حکم ہے
کہ
"جو مجھ سے ڈرے کا اس کو ہر خوف سے نجات دی جائے گی"
انسان اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردے تو ہرخوف ختم ہوجاتا ہے۔ اگر منشائے
الٰہی کو مان لیا جائے تو نہ زندگی کا خوف رہتا ہے، نہ موت کا، نہ امیری
کا، نہ غریبی کا، نہ عزت کی تمنا نہ، ذلت کا ڈر۔ یہ سب اس کی عطا ہے اور وہ
جس کو جو چاہے عطا کرے اور جس سے جو چاہے واپس لے۔ ہمیں ہر حال میں راضی
رہنا ہے۔ ورنہ ہماری سرکشی اور خود پسندی کی سزا صرف یہی ہے کہ ہمیں اندر
سے دبوچ لیا جائے اور اندر سے دبوچہ ہو انسان پھر انسان نہیں رہتا۔ رب
تعالی سے ہمیشہ دنیا کے ہر خوف سے نجات کی دعا کرنی چاہئے۔ اور دل میں
ہمیشہ خوف خدا رہنا چاہیے۔ یہ وہ واحد خوف ہے جو کامیاب کرتا ہے۔ نجات دیتا
ہے باقی ہر خوف سے۔ اگر ہم سچ میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں خود کو ہر
خوف سے آزاد کر دینا ہو گا۔
|