جنوب مغربی جرمنی میں بلیک فاریسٹ کے کنارے پر ایڈگر میئر
نے اپنی گاڑی ایک انتہائی تنگ اور قدیم سڑک پر موڑ لی۔
|
|
سڑک کے اطراف موجود باغیچوں کے دروازوں پر انگوروں کی بیلیں لٹک رہی تھیں۔
اس وقت سڑک پر صرف دو آوازیں سنائی دے رہی تھیں، پرندوں کے چہچہانے کی اور
ایڈگر میئر کی پرانی بی ایم ڈبلیو کار کی۔
ہم ڈوزین ہائیم کے ایک مصروف قصبے سے گزر رہے تھے مگر اس قصبے میں واقع اس
پرسکون اور چھوٹی سی سڑک پر ہمارے علاوہ کوئی سفر نہیں کر رہا تھا۔
تکنیکی طور پر یہ کم کشادہ سڑک برتھا بینز میمویل روٹ سے تھوڑا سا ہٹ کر ہے
جس کا تصور ایڈگر میئر نے ہی پیش کیا تھا۔
میئر ریٹائرڈ سیلز ایگزیکٹیو ہیں اور انھوں نے بتایا کہ یہ سڑک گھوڑا
گاڑیوں کے ان قدیم راستوں میں سے ایک ہے اور اسی راستے پر برتھا بینز اور
ان کے نوعمر بچے پیٹرول پر چلنے والی پہلی کار میں بیٹھ کر اگست 1888 میں
دنیا کے پہلے سفر پر نکلے۔
بینز خاندان کے آبائی شہر مین ہائیم اور برتھا کی والدہ کے شہر فورز ہائیم
کے درمیان طے ہونے والا 194 کلومیٹر کا یہ سفر گاڑیوں کی صنعت میں انقلاب
کی ایک علامت بن کر ابھرا۔
برتھا بینز نے یہ سفر اپنے شوہر کارل بینز کے علم میں لائے بغیر بینز موٹر
ویگن نمبر 3 میں کیا۔ بینز موٹر ویگن نمبر 3 سنہ 1886 میں بینز کی جانب سے
رجسٹر کروائی گئی اصلی موٹر ویگن کی ترمیم شدہ شکل کی گاڑی تھی۔
سنہ 1886 کو عموماً گاڑیوں کے آغاز کا سال تصور کیا جاتا ہے۔
برتھا نے اپنے شوہر کی جانب سے شروع کیے گئے کاروبار کو مالی سہارا دینے کے
لیے اپنے جہیز کو بھی استعمال کیا مگر موٹر ویگن ابھی بھی مشکلات کی شکار
تھی۔
مین ہائیم کی حکومت کے افسران نے اس گاڑی کو سڑک پر لانے پر پابندی عائد کر
دی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ موٹر ویگن کی ابتدائی ٹیسٹ ڈرائیو کے دوران
ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا جب گاڑی کے شور سے گھبرا کر گھوڑے اور کتے بدک
گئے تھے۔
|
|
چنانچہ گاڑی کی اس ابتدائی شکل کو ایک غیر قانونی ڈرائیو پر لے کر جانا نہ
صرف ایک کھلم کھلا اعلان تھا کہ یہ گاڑی محفوظ اور فروخت کے قابل ہے بلکہ
کارل بینز کو ایک پیغام بھی کہ وہ ہمت کے ساتھ اپنا کام جاری رکھیں۔
برتھا اس سفر کے دوران کئی شہروں، قصبوں اور دیہات سے گزری تھیں۔
سنہ 2008 میں اس روٹ پر تحقیق کر کے اس کا نقشہ تیار کرنے والے ایڈگر میئر
کہتے ہیں کہ ’یہ صرف کارل نہیں تھے جنھوں نے گاڑی ایجاد کی تھی بلکہ یہ
کارل اور برتھا کی ٹیم تھی۔ ان دونوں کو موٹر ویگن پر بھروسہ تھا اور دونوں
نے مل کر اس پر مسلسل کام کیا تھا۔ میں انھیں تاریخ میں وہ مقام دینا چاہتا
تھا جس کی وہ حقدار ہیں۔‘
سڑکوں کے نقشوں اور جی پی ایس کی ایجاد سے پہلے کے دور میں برتھا کو ان کی
والدہ کے گھر تک پہنچانے کے لیے صرف دریا اور ریل کی پٹڑیاں تھیں۔ سیاہ
پتھروں سے بنی سڑک پر دو ہارس پاور کے فور سٹروک انجن اور لکڑی کے پہیوں پر
چلنے والی گاڑی میں کیے گئے اس سفر کا تصور کر کے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ
کتنی بہادر تھیں، اور شاید تھوڑی سی جنونی بھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کا
منصوبہ کامیاب ہوا۔
گاڑیوں کی دنیا میں جرمنی کے مقام پر غور کرنا مجھے جنوب میں واقع صنعتی
مرکز میں لے آیا۔ میں بادن وورٹمبرگ اور بیویریا کی ریاستوں کا سڑک پر سفر
کر رہی تھی جہاں جرمنی کے لگژری کار ساز ادارے موجود ہیں۔ میں یہاں گاڑیوں
سے متعلق شوز اور میوزیمز دیکھنے کے لیے آئی تھی۔
جب ہم دیہی علاقوں سے گزر رہے تھے تو میئر کہنے لگے ’جب آپ کسی ملک کو ایک
بالکل مختلف زاویے، مثلاً وہاں گاڑیوں کی تاریخ سے پرکھنے کی کوشش کریں، تو
آپ بالکل نئی دریافتیں کرتے ہیں۔ یہی حقیقی ایڈوینچر ہوتا ہے۔‘
|
|
برتھا کے سفر نے گاڑیوں کے دور کے آغاز میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ تاریخ
کے اوراق میں گم ہوجانے کے بجائے سنہ 1888 کے اختتام تک موٹر ویگن نمبر 3
کی پیداوار شروع ہو چکی تھی اور سنہ 1900 تک بینز اینڈ کمپنی دنیا کی سب سے
بڑی کار ساز کمپنی بن چکی تھی۔
موجودہ دور کی بات کریں تو آج بھی جرمنی شاندار گاڑیوں کا مرکز اور گاڑیوں
سے منسلک ثقافت کا حامل ملک ہے۔
جرمن تھنک ٹینک فریڈریک ایبرٹ سٹفٹونگ کی جانب سے سنہ 2018 میں شائع کی گئی
ایک تحقیق کے مطابق سنہ 2016 میں یورپ کی آدھی سے زیادہ مسافر گاڑیاں اور
دنیا بھر میں فروخت ہونے والی دو تہائی سے زیادہ مہنگی گاڑیاں جرمن تھیں۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
مرسیڈیز بینز کارپوریٹ آرکائیو کے گیئر ہارڈ ہائیڈبرنک کہتے ہیں کہ 'آپ کہہ
سکتے ہیں کہ یورپ بھر میں یہ تبدیلی کا دور تھا۔‘ ان کا اشارہ 19 ویں صدی
میں ابتدائی صنعتی دور کے برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں مشینوں کے فروغ
پانے کی جانب تھا۔
اس دوران بادن وور ٹمبرگ اور بیویریا میں جائیداد کے پیچیدہ قوانین خاندانی
زمینوں کو مسلسل چھوٹے ہوتے ٹکڑوں میں بانٹ رہے تھے۔ ہر آنے والی نسل کو
روزگار کے لیے تخلیقی ہونا پڑ رہا تھا چنانچہ جب کارل بینز گریجویٹ ہوئے
اور ایک مکینیکل انجینیئر کے طور پر کام کرنا شروع کیا تو انھوں نے خود کو
ایک ایسے خطے میں کئی مؤجدوں سے گھرا ہوا پایا جو کہ اس وقت تک نت نئے
کاروباری خیالات اور بھاری صنعتوں کا مرکز بن چکا تھا۔
کار ساز کمپنیوں کی کامیابی میں کچھ تاریخی جرمن خصوصیات مثلاً لگن اور
باریک بینی نے بھی اہم کردار ادا کیا ہو گا۔
مثال کے طور پر مین ہائیم کے ٹیکنوزیم نامی ایک ٹیکنالوجی میوزیم میں سنہ
1990 کے ایک پورشے گاڑیوں کی اسمبلی لائن کو حقیقی سائز میں دوبارہ تیار
کیا گیا ہے جبکہ اس میں شفٹس کے دوران ورکرز کو ملنے والی بیئر کی بوتلیں
تک رکھی گئی ہیں۔
|
|
اگر یہ باریک بینی نہیں ہے تو کیا ہے؟ اور آج کی مرسیڈیز بینز برانڈ کی
خالق ڈیملر اے جی کمپنی کے بانی گوٹلیب ڈیملر اور ان کے زندگی بھر کے
کاروباری ساتھی ولہیم مے باخ نے ایسے ہی تو نہیں اپنا کارپوریٹ ماٹو رکھا
تھا کہ 'بہترین یا کچھ بھی نہیں'۔
بیویریا کے شہر انگلوسٹیڈ میں آؤڈی گاڑیوں کے ورثہ میوزیم میں ایک ٹور
گائیڈ نے بتایا کہ 'اچھا ہونا کافی نہیں ہے'۔ سٹٹگارٹ شہر کے پورشے میوزیم
میں ایک گائیڈ کہتے ہیں کہ 'میں یہ نہیں کہتا کہ ہم 8 کروڑ 20 لاکھ لوگ
ایسے ہیں، مگر سخت محنت کرنا ایک جرمن خاصیت ہے اور یہ ایسی چیز ہے جس کی
ہم عمر بھر کوشش کرتے رہتے ہیں۔'
جیسے جیسے جرمن کار ساز صنعت آگے بڑھتی رہی، ویسے ویسے اس میں نئی کمپنیاں
آتی گئیں، کچھ بند ہوئیں، کچھ کا انضمام ہوا تو کچھ علیحدہ ہوئیں مگر سبھی
کے درمیان انجینیئرنگ کے اعلیٰ ترین ہنر کے حصول کی جنگ رہی۔
کارپوریٹ دشمنیاں بھی کبھی بہت شدید ہوئیں تو کبھی بھلا دی گئیں۔ مثال کے
طور پر ایک دوسرے کے سخت حریفوں مین ہائیم کے بینز اور سٹٹ گارٹ کے ڈیملر
نے بالآخر سنہ 1926 میں اپنی کمپنیاں ایک دوسرے میں ضم کر لیں۔ مگر لوگ اب
بھی اپنی اپنی پسندیدہ کمپنیوں کو لے کر جذباتی ہو جاتے ہیں۔
مین ہائیم میں ایک ٹور گائیڈ نے ازراہِ مذاق کہا کہ 'اگر آپ یہاں کسی مشکل
میں نہیں پڑنا چاہتے، تو کبھی بھی یہ مت کہیے گا کہ ڈیملر نے گاڑی ایجاد کی
تھی۔'
بدلتی ہوئی دشمنیاں جن سے سٹیٹس کو میں تبدیلی آتی، وہ لازماً بری بات نہ
ہوتیں، کبھی کبھی ان کا اثر یہ ہوتا کہ اس سے جدت کا راستہ کھلتا ہے۔ پورشے
کمپنی کے شعبہ آرکائیو کے سربراہ فرینک جنگ کہتے ہیں کہ جنوبی جرمنی کا ہر
روایتی کار ساز ردوبدل پر یقین رکھتا اور آزمائش و غلطی کے ذریعے بار بار
اپنی مصنوعات میں بہتری لاتا رہتا، کیونکہ بہرحال اگر آپ پرفیکشن یا مکمل
ہونے کی تلاش میں نہیں، تو آپ ردوبدل کیوں کریں گے؟‘
|
|
جرمنی کے گاڑیوں کے میوزیمز میں آپ کو یہ سمجھ آنے لگتا ہے کہ کس طرح ان
مؤجدوں نے موٹر ویگن کی پیروی کی جبکہ گاڑیوں کے پہلی بار تیار ہونے والے
پرزوں کی ایک طویل فہرست بھی ہے۔
اس میں ڈیملر اور مے باخ کا ایجاد کردہ کاربوریٹر بھی تھا جس کی مدد سے
پیٹرول کو بطور ایندھن استعمال کرنا ممکن ہوا۔
ڈیملر کمپنی کی پہلے مرسیڈیز 35 پی ایس جس نے 1900 میں آج کی گاڑی کی ساخت
اور تصور پیش کیا، پورشے اے جی کی 1948 میں آنے والی پورشے 356 جو کہ جرمنی
کی باہاس ڈیزائن تحریک کی سادگی پر مبنی تھی، 1972 میں بی ایم ڈبلیو کی
پہلی تصوراتی برقی گاڑی بی ایم ڈبلیو 1602 ای، 2019 میں آنے والی آؤڈی اے 8
کے مصنوعی ذہانت کی حامل گاڑی، غرض یہ کہ فہرست طویل ہے۔
سنہ 1890 میں فرانس کی تخلیقی لہر کو ایک طرف رکھیں تو جرمن کار ساز
کمپنیاں اس صنعت میں ہمیشہ سب سے اوپر رہی ہیں۔ ہائیڈبرنک کہتے ہیں کہ
انھوں نے یہ کام تخلیقی سوچ کے ساتھ کیا ہے اور ہر آنے والے دور میں گاڑیوں
کی تیاری میں کوئی نئی جہت متعارف کروائی ہے۔ 'جدت اور لگژری کا سفر ہمیشہ
ساتھ ساتھ رہا ہے۔'
مثال کے طور پر ہر سال دنیا بھر سے آؤڈی اے جی کے ورکرز بہتری کے لیے
ہزاروں آئیڈیاز پیش کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی تجاویز میونخ سے ایک گھنٹے کی
ڈرائیو پر واقع آؤڈی کے عالمی ہیڈ کوارٹر اور مرکزی اسمبلی پلانٹ میں تسلیم
بھی کیے جاتے ہیں۔
یہاں پر لوگوں کے اندر گاڑیوں کے لیے ایک شدید جذباتی محبت پائی جاتی ہے جس
میں نہ صرف ان کی تیاری اور انھیں بہتر بنانا، بلکہ ان کا مزہ لینا اور
ڈرائیو کا مزہ لینا بھی شامل ہے۔ مصنف مارک ٹوئین نے جرمنی کے جنوب مغرب
میں اپنے بے پناہ سفر کے بارے میں لکھا تھا، 'گرمیوں میں جرمنی درحقیقت
خوبصورتی کی تکمیل ہے۔'
میں جب اپنی گاڑی سے باہر دیکھ رہی تھی تو انتہائی نفاست سے تراشے گئے
کینولا کے پیلے کھیت، پہاڑیاں اور کہیں کہیں گھنے جنگل جن میں زمانہ قدیم
کے قلعے اور دیہات نظر آئے جن کے تعمیر کیے گئے گھر روایئتی جرمن انداز میں
لکڑی کے ڈھانچے سے تیار کیے گئے تھے۔
|
|
سحر انگیز نظاروں سے بھرپور اور موٹر ویز اور ضمنی سڑکوں کے جال والا یہ
علاقہ بنا ہی سڑک کے سفر سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہے جہاں جرمن لوگ اپنی
ایجاد سے حقیقی معنوں میں لطف اٹھا سکتے ہیں۔
کلاسک گاڑیوں اور آٹو پارٹس کی مارکیٹ ویٹیراما سے حاصل ہونے والے منافع کے
ذریعے آٹو میوزیم ڈاکٹر کارل بینز کی بنیاد رکھنے والے ونفرائیڈ اے سائیڈل
اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ گاڑیاں جرمن کلچر میں صرف ذریعہ نقل و حمل سے
کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔
انھوں نے اپنا میوزیم لاڈن برگ کے گاؤں میں بنایا ہے جہاں بعد میں بینز
خاندان آ بسا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ 'ہم کلیکٹرز کی قوم ہیں اور مجھے سڑکوں
پر ہر جگہ انتہائی قیمتی گاڑیاں نظر آتی ہیں۔'
لاڈن برگ سے میونخ اور بی ایم ڈبلیو گروپ کے ہیڈ کوارٹرز جاتے ہوئے میں نے
جرمنی کے ایک طویل، خوبصورت نظاروں سے بھرپور سڑک رومینٹک روڈ پر کچھ فاصلے
تک سفر کیا جو کہ بادن ورٹمبرگ اور بیویریا سے ہو کر گزرتی ہے۔
میونخ میں بی ایم ڈبلیو ویلٹ کے شو رومز کے ایک دورے اور اس کے ساتھ ہی
واقع بی ایم ڈبلیو میوزیم کے بعد کرائے پر حاصل کی گئی واکس ویگن ٹیگوان کو
ایک موٹر وے پر انتہائی تیز رفتار پر چلانا ایک دھڑکنیں تیز کر دینے والا
تجربہ تھا جو کہ میں نے کئی سال میں پہلی مرتبہ کیا تھا۔
مجھے حیرانگی ہوئی کہ قومی سڑکوں پر کبھی کبھی حدِ رفتار سے سامنا ہوتا مگر
حیران کن یہ تھا کہ حدِ رفتار سڑک پر نہیں بلکہ میری گاڑی کے ڈیش بورڈ پر آ
جاتی۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہے جو میرے ملک کینیڈا سے سالوں آگے ہے۔
یوں لگتا ہے کہ برتھا بینز کے سفر کو ایک سال گزر جانے کے بعد جرمن اب بھی
ڈرائیونگ کے تجربے کو بہترین بنانے کی کوششوں میں جتے ہوئے ہیں۔ |