قومی ترانے کے تیسرے اور آخری بند میں سبز ہلالی پرچم کو
مخاطب کیا گیا ہے کہ اے! چاند ستارے والے پرچم تو نہ صرف اوجِ ترقی کی
علامت ہے بلکہ تُو تو مسلمانوں کے ماضی کا ترجمان، ان کے حال کی شان اور
مستقبل کی کی جان ہے۔اس لیے رب ذوالجلال سے دعا ہے کہ اس کا سایہ اس وطنِ
عزیز کے اوپر ہمیشہ رہے اور یہ وطن خدائے بزرگ و برتر کے سائے میں ہمیشہ
محفوظ رہے۔یاد رہے کہ پاکستان کے قومی ترانے اور پرچم میں گہرا تعلق ہے اور
ابولاثر حفیظ جالندھری نے قومی ترانہ لکھ کر اس تعلق کو نہایت ذمہ داری اور
خوب صورتی سے نبھایا ہے۔ یہ بات نہایت غور طلب ہے کہ حفیظ ؔ کے ذہن میں
قومی ترانہ لکھتے ہوئے دھن بھی تھی اور وطنِ عزیز کا پرچم بھی تھا۔چنانچہ
انہوں نے قومی ترانے میں نہ صرف پاکستانی قومی پرچم کا نقشہ کھینچا ہے بلکہ
اس پر بنی ہوئی علامات یعنی چاند اور ستارے کے مقاصد کو بھی واضح کر دیا ہے
قومی پرچموں پر بنائی گئی علامات اور ان کے رنگوں کے خاص مطالب ہوتے ہیں۔
پاکستانی پرچم کا رنگ اور علامات بہت گہرے مقاصد کی حامل ہیں۔
پرچم کی تاریخ پر اگر ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا
رواج ازمنہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔قدیم یونانیوں، مصریوں اور رومیوں کے ہاں
پرچم مروج تھے اور انہیں جنگوں میں استعمال کیا جاتا تھا اعلانِ جنگ کے بعد
جس فوج کا پرچم سر بلند رہتا تھا اسے فتح کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔اسی طرح
جب مسلمانوں کے دوسری قوموں کے ساتھ معرکے ہوئے تو اسلام کا پرچم ہی سربلند
رہا یہاں تک کہ جب حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو معرکہء ہند کے لیے سپہ
سالار بنا کر بھیجا تو دیبل کی فتح میں سب سے اہم کردار جھنڈے نے ہی ادا
کیا کہ جب راجہ داہر کے قلعے پر لہراتا ہوا جھنڈا زمین بوس ہوا تو شہر کے
لوگوں نے جان لیا کہ اب شکست ہمارا مقدر ہے۔
اسلامی پرچم اسلامی عقائد کی عکاسی سمجھا جاتا تھاچنانچہ ترکوں نے بارہویں
صدی عیسوی میں پرچم پر چاند کے ساتھ ستارے کا اضافہ کیا کیونکہ اس کا ذکر
قرآن پاک میں آیا بلکہ ایک پوری سورت یعنی سورہ "نجم" اسی کے نام سے ہے
جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چمکتا ہوا تارا کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے
۔پھر بیسویں صدی کے آغاز میں ترکی مسلمانوں کی ایک بڑی طاقت بن کر ابھرا تو
ماڈرن دور کی اسلامی ریاستوں میں پرچم پر چاند اور تارے کی مقبولیت میں
خاطر خواہ اضافہ ہوا۔یہاں تک کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سبز پرچم پر بھی چاند
اور ستارہ تھا۔ جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو لامحالہ اسے بھی ایک قومی
پرچم کی ضرورت تھی کیونکہ کسی بھی ملک کا جھنڈا اسکی عظمت اور وقار کی
علامت سمجھا جاتا ہے؛ لیکن پاکستان کو ایک ایسے قومی پرچم کی ضرورت تھی جو
برطانوی علامات سے بالکل جدا حیثیت کا حامل ہو۔چنانچہ اس جھنڈے کے لیے کئی
مختلف نمونے پیش کیے گئے اور آخر کار یہ فیصلہ ہوا کہ ڈنڈے کے پاس جھنڈے کا
ایک چوتھائی حصہ سفید ہو اور جہاں سے سفید رنگ ختم ہو وہاں سے باقی تین
چوتھائی سبز، اور سبز حصے پر ایک ہلال اور ستارہ ہو اور اس طرح کے وہ ڈنڈے
سے 45 درجے کا زوایہ بنائے اور اس کا رخ ڈنڈے سے دوسری طرف ہو۔ سبز مسلم
لیگ کے جھنڈے کا رنگ تھا اور ہلال اور ستارہ بھی اسی کا تھا۔ فرق صرف اور
صرف اتنا تھا کہ مسلم لیگی جھنڈے کا ہلال اور ستارہ ایک مختلف زوایہ بناتا
تھا؛ پس بنیادی طور پر مسلم لیگ ہی کے جھنڈے میں معمولی ترمیم کرکے اس میں
سفید رنگ اقلیتوں کی علامت بنا کر شامل کرکے پاکستان کا جھنڈا بنا دیا گیا۔
۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔
|