حضرت امام حسینؓ ،شہداء کربلا کی عظیم شہادت

حضرت امام حسین ؓ بن حضرت علیؓ 3شعبان 4ہجری بمطابق 8جنوری626عیسوی کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے حضرت حسین ؓکی ولادت کی خبر سنتے ہی حضرت محمد ﷺ فوری تشریف لائے آپ ﷺ نے کان میں اذان دی اور آپ ﷺ کا لعب دہن حسین ؓ کی پہلی خوراک بنا آپ ؓ کی پیدائش کے ساتویں روز عقیقہ کیا گیا آپ ﷺ حضرت حسین ؓاور حضرت حسنؓ سے بے پناہ محبت کرتے اور شفقت سے پیش آتے آپﷺ حضرت حسین ؓسے اتنی محبت کرتے کہ ان کو اپنے سینے پر بٹھا لیتے اور حالت سجدہ میں جب حسین ؓ آپﷺ کی پشت مبارک پر بیٹھ جاتے تو آپ ﷺ سجدہ کو طول دے دیتے رسول ﷺنے حسینؓ کے لیے یہ الفاظ بھی خاص طور سے فرمائے کہ حسینؓ مجھ سے اور میں حسینؓ سے ہوں مستقبل نے بتادیا کہ رسول ﷺکا مطلب یہ تھا کہ میرا نام اور کام دنیا میں حسین ؓکی بدولت قائم رہیگا۔حضرت حسین ؓ اعلیٰ اوصاف کے مالک تھے آپ ؓنمازی پرہیز گاری کا عملی نمونہ تھے حضرت حسینؓ واقع کربلا میں یزیدی فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے لیکن ان کے آگے سر خم نہ کیا کیونکہ آپؓ اپنی زندگی کی پرواہ کیے بغیر اسلام کا نام روشن کرنا چاہتے اسی وجہ سے انہوں نے اپنے 72ساتھیوں سمیت 10محرم الحرام 61ہجری بمطابق 10اکتوبر680عیسوی کو میدان کربلا میں یزید کی فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے شہادت کا رتبہ حاصل کیا غیر مسلم بھی امام حسین ؓ کی شہادت کو سنہری الفاظ میں لکھتے ہیں اور وہ بھی یہی لکھتے ہیں کہ یزید تھا اور حسین ؓ ہیں یعنی حق جیت گیا اور باطل مٹ گیا بے شک باطل کو شکست ہی ہے۔ملک چلی کے مصنف و ناولسٹ رابرٹ بولانو نے کہا ہے کہ امام حسین ؓ کو شہید کرنا بنو امیہ کی سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی جو ان کی ہر چیز کو نظرانداز کرنے پہ مجبور کرگئی بلکہ ان کے نام و نشان اور ہر چیز پر پانی پھیر گئی(Roberto Bolano Avalos 1953-2003)،معروف برطانوی ادیبہ فریا اسٹارک کئی کتابوں کی مصنف ہے، فریا نے 1934 میں عراق کے بارے میں ایک سفر نامہ بھی لکھا ہے، فریا کہتی ہے کہ امام حسین ؓنے جہاں خیمے لگائے وہاں دشمنوں نے ان کا محاصرہ کرلیا اور پانی بند کردیا، یہ کہانی آج بھی اتنی ہی دلگیر ہے جتنی 1275 سال پہلے تھی، میرا کہنا ہے آپ کربلا کی سرزمین کا سفر کرنے سے اس وقت تک کوئی نفع حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ آپ کو اس کہانی کا پتا نہ ہو، یہ ان چند کہانیوں میں سے ایک ہے جسے میں روئے بغیر کبھی نہ پڑھ سکی، فریا سٹارک (Freya Stark 1893-1993)،مشہور انگریزی ناولسٹ چارلس ڈکنز نے کہا تھا اگر امام حسینؓ کی جنگ مال ومتاع اور اقتدار کیلئے تھی تو پھر میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ خواتین اور بچے ان کے ساتھ کیوں گئے تھے، بلاشبہ وہ ایک مقصد کیلئے ہی کھڑے تھے اور ان کی قربانی خالصتاً اسلام کے لیے تھی، چارلس کا دور تھا( Charles John Huffam Dickens 1812-1870)،کیمبرج یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر ایڈورڈ جی براؤن کے حوالے سے لٹریری ہسٹری آف پرشیامیں لکھا ہے، کربلا کا خون آلود میدان یاد دلاتا ہے کہ وہاں خدا کے پیغمبر ﷺ کا نواسہ اس حال میں شہید کیا گیا کہ بھوک و پیاس کا عالم تھا اور اس کے ارد گرد لواحقین کی لاشیں بکھری پڑی تھیں، یہ بات گہرے جذبات اور دلدوز صدمے کی باعث ہے جہاں درد، خطرہ اور موت تینوں چیزیں ایک ساتھ رونما ہو رہی ہوں۔ (Literary History of Persia by Edward Granville Brown, 1862-1926)،لبنان کے عیسائی مصنف انتونی بارا نے اپنی کتاب حسین ان کرسچین آئیڈیالوجی میں لکھا ہے کہ، جدید و قدیم دنیا کی تاریخ میں کوئی جنگ ایسی نہیں جس نے اتنی ہمدردی اور پزیرائی حاصل کی ہو، صرف یہی نہیں بلکہ معرکہ کربلا سے امام حسین ؓکی باوقار شہادت کے علاوہ بھی دیکھنے والے کو بہت سے اہم اسباق ملتے ہیں۔(Antoine Bara-2008)،تھامس کارلائل نے کہا کہ واقعہ کربلا نے حق و باطل کے معاملے میں عددی برتری کی اہمیت کو ختم کردیا ہے۔ معرکہ کربلا کا اہم ترین درس یہ ہے کہ امام حسینؓ اور ان کے رفقاء خدا کے سچے پیروکار تھے، قلیل ہونے کے باوجود حسینؓ کی فتح مجھے متاثر کرتی ہے۔(Thomas Carlyle 1795-1881)،فرانس کے معروف ادیب، ناولسٹ وکٹرھوگو نے لکھا ہے کہ امام حسینؓ کے انقلابی اصول ہر اس باغی کیلئے مشعل راہ ہیں جو کسی غاصب سے حقوق حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔(Victor Marie Hugo 1802-1885)،روس کے معروف مفکر اور ادیب ٹالسٹائی نے کہا ہے، امام حسینؓ ان تمام انقلابیوں میں ممتاز ہیں جو گمراہ حاکموں سے گڈگوورنینس کا تقاضا کرتے تھے، اسی راہ میں انہیں شہادت حاصل ہوئی۔(Leo Tolstoy 1828-1910)،عصری جاپان کے مصنف کوئیانہ نے اپنی ایک تحریر میں لکھا ہے کہ امام حسین ؓکا انقلاب پسے ہوئے طبقے کیلئے جدوجہد کا راستہ روشن کرتا ہے، سوچ کو توانائی دیتا ہے، گمراہی سے نکالتا ہے اور حصول انصاف کے سیدھے راستے پر ڈال دیتا ہے، (نومبر 2013)،برطانیہ کے اسکاٹش ادبی اسکالر سر ولیم میور کہتے ہیں، سانحہ کربلا نے تاریخ محمد ﷺ میں خلافت کے خاتمے کے بعد بھی اسلام کو انسانی ذہنوں میں زندہ رکھا ہے، واقعہ کربلا نے نہ صرف استبدادی خلافت کی تقدیر کا فیصلہ کردیا بلکہ محمدی ریاست کا اصول و معیار بھی متعین کردیا جو ابتدائی خلافتوں کے بعد کہیں کھو گیا تھا۔(Sir William Muir 1819-1905 Annals of the Early Caliphate, London, 1883)،مغربی محقق، تاریخ دان اور نیویارک یونیورسٹی کے پروفیسر پیٹر جے چیلکووسکی کہتے ہیں، امام حسینؓ پر مکہ سے کربلا تک کئی بار چھپ کر حملہ کیا گیا، ان کے خاندان اور اصحاب پر بھوک پیاس کا ظلم اور شہادت کے بعد ان کے جسموں کو پامال کیا گیا لیکن حسین ؓنے صبر سے جام شہادت نوش کیا پر یزید کی بیعت نہ کی۔ (Peter J Chelkowski, phd in 1968)،تاریخی محقق اور ممبر برطانوی پارلیمنٹ ایڈورڈ گیبن نے دی فال آف رومن ایمپائر میں واقعہ کربلا کو انتہائی دلسوز قرار دیتے ہوئے کہا کہ امام حسینؓ کی مظلومانہ شہادت اور کربلا کے دلخراش واقعات ایک سرد دل انسان کی آنکھوں میں بھی آنسو اور دلوں میں ہمدردی پیدا کردیتے ہیں۔ (Edward Gibbon 1737-1794)،ہنگری کے مصنف گیورجی لیوکیکس کہتے ہیں، حسین ؓکا تصور مرکزی طور پر انسان کی فری وِل، شخصی آزادی اور اپنی قوم کی خوشحالی کیلئے استبدادی حاکم کے سامنے کھڑے ہونے پر فوکس کرتا ہے، اور حسینؓ نے اپنی پوری قوت اور عزم کے ساتھ اس استبداد کو فیس بھی کیا، لوکیکس مارکسی فلاسفر تھے اور مغربی مارکسزم کے بانیوں میں سے بھی تھے۔(Gyorgy Lukacs 1885-1971)،روسی مفکر اوگیرا کا کہنا ہے کہ حسینؓ ہر اس طبقے کیلئے مثال ہیں جو طبقاتی جبر کا شکار ہے، وہ حکمران جو اپنا تخت مفلوک الحالوں کے سروں سے تعمیر کرتے ہیں پھر ان کے جانشین بھی یہی کچھ کرتے ہیں جب تک کہ ان کا احتساب نہ کردیا جائے وہ دوسروں کا استحصال کرتے رہتے ہیں،سٹی سکھ پروگریسیو آرگنائزیشن لندن کے بانی ممبر جسویر سنگھ نے کہا ہے کہ قطع نظر اسکے کہ ہم کس کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں ہم امام حسینؓ سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، خاص طور پہ عزت اور وقار کے ساتھ جینے کا ڈھنگ، امام حسینؓ عدل کیلئے کھڑے تھے انہوں نے جس بات کو حق سمجھا اس کیلئے اپنی جان بھی دے دی،انٹرفیتھ گروپ کی ایکٹیوسٹ و ریسرچر ڈائنا ملز نے کہا ہے کہ امام حسینؓ نوع انسان کیلئے رول ماڈل ہیں، میرے لئے امام حسین کئی جہتوں سے حضرت مسیح علیہ السلام کے متوازی نظر آتے ہیں، خدا کے حکم پر پورا اترنے کی خاطر انہوں نے بھی ہر چیز کو بالائے طاق رکھ دیا تھا، امام حسینؓ کی یہ بات مجھے بہت بیحد پسند ہے کہ تم میری جان تو لے سکتے ہو لیکن میرا ایمان نہیں لے سکتے( You can take my body but you can’t take my faith)۔ ( یوٹیوب، ایمبیسڈر آف فیتھس، 10 اکتوبر 2016)،کرسچین استاد ڈاکٹر کرس ہیور نے اپنے ایک لیکچر میں کہا ہے کہ دنیا جانتی ہے یزید ایک برْا انسان تھا جو خدا کے احکامات کا سرعام مذاق اڑاتا تھا، یہاں میں پیغمبر اسلام ﷺکی حدیث بیان کروں گا کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہء حق کہنا جہاد ہے، یہی بات امام حسینؓ کے پیش نظر تھی، اسی لئے حسینؓ کھڑے ہوئے اور اپنی جان قربان کرکے دراصل انسان کی عظمت کو بحال کیا۔( یوٹیوب ویڈیو لیکچر 08 نومبر 2014)،ڈاکٹر کرس ہیور نے ایک دوسرے لیکچر میں کہا کہ 72 اور تیس ہزار کا کیا مقابلہ؟ ایک طرف تیس ہزار کی مسلح فوج اپنے اہداف حاصل نہ کرسکی اور دوسری طرف امام حسینؓ نے 72 نہتے لوگوں کیساتھ اپنا مقصد حاصل کرلیا وجہ یہ کہ امام حسینؓ وہ ہیں جن کے اندر خدا بولتا ہے، خدا انسانوں کو سمجھانا چاہتا تھا کہ حق بات پر کیسے کھڑے ہونا ہے، ایک عیسائی ہونے کی حیثیت میں سمجھتا ہوں انسان کو خدا کی رضا پر ایسے ہی پورا اترنا چاہئے جیسے امام حسینؓ نے نیابت خداوندی کا حق ادا کیا۔(یوٹیوب ویڈیو لیکچر 24 نومبر 2014)،مہاتما گاندھی نے کہا تھا، میرا یہ ماننا ہے کہ اسلام کا پھلنا پھولنا تلوار سے نہیں بلکہ ولی خدا امام حسینؓ ابن علیؓ کی قربانی کا نتیجہ ہے، دوسری جگہ کہا، اگر میرے پاس امام حسینؓ کے ساتھیوں جیسے بہتر لوگ موجود ہوں تو میں چوبیس گھنٹے میں ہندوستان آزاد کرالوں، ایک اور جگہ کہا اگر ہندوستان کو آگے بڑھنا ہے تو امام حسینؓ کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا، امام حسین ؓکی قربانی کسی ایک قوم کی نہیں بلکہ سب کیلئے ہے یہ صراط مستقیم کی اعلٰی ترین مثال ہے(1889-1964)،بنگالی مصنف رابندر ناتھ ٹیگور نے کہا، سچ اور انصاف کو زندہ رکھنے کیلئے فوجوں اور ہتھیاروں کی ضرورت نہیں، قربانیاں دے کر بھی فتح حاصل کی جاسکتی ہے جیسے امام حسینؓ نے کربلا میں قربانی دی، بلاشبہ امام حسینؓ انسانیت کے لیڈر ہیں(1861-1941)،بھارت کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پراساد بیدی نے کہا تھا، امام حسین ؓکی قربانی کسی ایک ریاست یا قوم تک محدود نہیں بلکہ یہ بنی نوع انسان کی عظیم میراث ہے(1884-1963)،سوامی شنکر اچاریہ نے کہا یہ امام حسینؓ کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج اسلام زندہ ہے ورنہ آج دنیا میں اسلام کا نام لینے والا کوئی نہ ہوتا۔ڈاکٹر رادھا کرشن بھارتی صدر نے کہا تھا، گو امام حسینؓ نے تیرہ سو سال پہلے قربانی دی لیکن ان کی لافانی روح آج بھی سب کے دلوں میں زندہ ہے۔نیلسن منڈیلا نے کہا، میں نے بیس سال جیل میں گزارے ہیں، ایک رات میں نے فیصلہ کیا کہ تمام شرائط پر دستخط کرکے رہائی پالینی چاہئے لیکن پھر مجھے امام حسینؓ اور واقعہ کربلا یاد آگیا اور مجھے اپنے اسٹینڈ پر کھڑا رہنے کیلئے پھر سے تقویت مل گئی۔لبنان کے عیسائی مصنف انتونی بارا کی کتاب حسین ان کرسچین آئیڈیالوجی بلاک بسٹر کتاب ہے جس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنے کیلئے دیگر ملکوں کے ادیب بھی مصنف سے اجازت لینے کیلئے کوشاں ہیں۔انتونی بارا کہتا ہے کہ یہ کتاب خالصتاً علمی ادبی اور تحقیقی کام تھا جسے علمی بنیادوں پر ہی کرنا تھا لیکن اس کام کے دوران میرے دل میں یقیناً امام حسین ؓکی عظمت رچ بس گئی ہے، تین گھنٹے کے انٹرویو میں جب بھی بارا نے امام حسین ؓکا نام لیا تو ساتھ میں ان پر سلامتی ہو ضرور کہا، بارا کا کہنا ہے کہ میں نہیں مانتا امام حسین ؓ صرف شیعہ یا مسلمانوں کے امام ہیں، میرا ماننا ہے کہ وہ تمام عالم کے امام ہیں کیونکہ وہ سب مذاہب کا ضمیر ہیں،قتل حسین ؓاصل میں مرگ یزید ہے۔۔۔اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد ، حضرت عبدالرحمن بن ابی غنم سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺفرماتے تھے کہ حسنؓ اور حسینؓ میری خوشبو ہیں، سانچ کے قارئین کرام !نبی ﷺ کی خوشبوئیں حسن ؓاور حسینؓ اور خوشبوئیں بھی ایسی کہ جن کے خون کی مہک سے عرش و فرش نہلا گئے معطر ہو گئے ،خوشبو بھی ایسی جو قیامت اور قیامت کے بعدتک رہے گی، آج مقبوضہ کشمیر کے مسلمان جبر اور ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں انہیں بھارتی حکومت بنیادی انسانی حقوق دینے سے انکاری ہے ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے ،خواتین کی عزتوں کو پامال کیا جارہا ہے ،بچوں کو یتیم کیا جارہا ہے اگر یہ کہا جائے کہ دور حاضر کے یزید نریندرا مودی ہے تو یہ غلط نہ ہوگا گزشتہ 72سال سے کشمیری محکوم تو تھے ہی لیکن ماہ اگست 2019سے بھارتی فوج نے یزیدیت کوتازہ کر رکھا ہے کشمیریوں کا کھانا پینا بند کر دیا گیاہے ہر طرف قیامت برپا ہے، ظلم اور جبر کی نئی تاریخ لکھی جارہی ہے، مسلمانوں کو ایک اور کربلا کا سامنا ہے، ذرا سوچیں پانچ ہفتے ہونے کو ہیں مقبوضہ وادی میں کھانے پینے ،میڈیا ،انٹر نیٹ سمیت آگہی کے تمام راستے بند کئے جا چکے ہیں محصورکشمیری، مجبور، لاچار، نہتے اور اپنے گھروں میں قید اِن پر کیا گذر رہی ہوگی ٭
 

Muhammad Mazhar Rasheed
About the Author: Muhammad Mazhar Rasheed Read More Articles by Muhammad Mazhar Rasheed: 88 Articles with 71709 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.