وہ چند نوجوان تھے۔ یقین و ایمان کی دولت سے مالا مال تھے۔
شرک سے کوسوں دور اور پکے مؤحد تھے۔
مشرک اور ظالم بادشاہ کو ان کے عقیدے کا پتہ چلا تو فوراً انہیں اپنے دربار
میں طلب کر لیا۔ جب ان سے ان کے عقیدے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے
بڑی بےباکی سے وقت کے ظالم حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر توحید کا
عقیدہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ: ہمارا رب بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا
رب ہے، ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے کو معبود بنا کر ہرگز نہیں پکاریں گے۔ اگر
ہم ایسا کریں گے تو حد سے تجاوز کریں گے۔
اور جب ان کو مستقبل میں اپنا ایمان خطرے میں نظر آیا تو آپس میں مشورہ
کرکے کہنے لگے: اگر اپنے ایمان و عقیدے کو بچانا ہے تو ہمیں ان مشرکوں اور
ان کے معبودوں سے علیحدگی اختیار کرنی ہوگی چاہے ہمیں کسی غار میں ہی پناہ
لینا پڑے۔ اور یوں ان نوجوانوں نے شہر کی چکا چوند کرتی زندگی کو چھوڑ چھاڑ
کر ایک غار میں پناہ لی لیکن اپنے ایمان پر کسی قسم کا کمپرومائز نہیں کیا۔
کاش کہ ایمان و عقیدے کے کچے، بے راہ روی کے شکار آج کے بہت سے نوجوان
اصحابِ کہف کے قصے سے عبرت حاصل کریں...
جوانی کا مرحلہ انسانی زندگی کا بہترین مرحلہ ہوتا ہے۔ قوتوں، صلاحیتوں،
حوصلوں، اُمنگوں، جفا کشی، بلند پروازی اور بلند ہمتی کا دوسرا نام شباب
ہے۔ کسی بھی قوم وملک کی کامیابی وناکامی، فتح و شکست، ترقی وتنزل اور عروج
وزوال میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ انقلاب چاہے کوئی بھی ہو، اس میں
نوجوانوں کا کردار نہایت ہی اہم اور کلیدی ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام
جوانی کی حفاظت پر زور دیتا ہے۔ اسے صحت مند اور توانا رکھنے کی تعلیم دیتا
ہے۔ قیامت کے دن ہر انسان سے عمر کے اس بہترین مرحلے کا خاص طور پر سوال
ہوگا کہ تم نے جوانی کس چیز میں خرچ کی تھی؟
افسوس کہ آج یہ نئی جنریشن بے شمار مسائل کے دلدل میں گھری ہوئی ہے۔ طبقاتی
نظام تعلیم کی بےانصافی ہے، اقتصادی مسائل کا بوجھ ہے، وقت پر نکاح نہ ہونے
کی وجہ سے بے اعتدالیاں ہیں، بے روز گاری کا عفریت منہ کھولے بیٹھا ہے،
ڈپریشن، گھریلو پریشانیوں اور ملک کے بگڑتے ہوئے حالات نے مزید الجھنوں،
ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں نوجوان نسل کو مبتلا کیا ہوا ہے۔ پھر دشمنان
اسلام کا دجل اور مکر وفریب الگ ہے۔ شہوت انگیز اور حرام چیزوں کو پیش
کیاجارہا ہے۔ نوجوانوں کے جنسی جذبات سے کھلواڑ کیاجارہا ہے۔ ان کی اسلامی
شناخت کو نابود، مستقبل ضائع اور جوانی تباہ کی جارہی ہے۔ اس بے چینی کے
ماحول سے نکلنے کا اگر کوئی راستہ بتانے والا ہے تو وہ قرآن کریم ہے۔ سنت
رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ سیرتِ طیبہ اور صحابہ کی زندگی ہے۔ آپ قرآن
کریم میں ذکر کردہ لقمان حکیم کی نصیحتوں پر ذرا غور فرمائیں! کس حکیمانہ
انداز میں اپنے بیٹے کو بہت سی نصیحتیں فرمائیں، فرمایا: پیارے بیٹے نماز
قائم کرو۔ نیکی کا حکم کرو اور برے کام سے منع کرو اگر تجھے کوئی تکلیف
پہونچے تو اس پر صبر کرو بلاشبہ یہ سب باتیں بڑی ہمت کے کام ہیں۔ پھر اللہ
تعالیٰ کے علم محیط اور اس کے قادرِ مطلق ہونے کا شعور دیتے ہوئے فرمایا:
بیٹا! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر بھی ہو، اور وہ کسی چٹان میں ہو،
یا آسمانوں میں یا زمین میں، تب بھی اللہ اسے حاضر کردے گا۔ یقین جانو اللہ
بڑا باریک بین، بہت باخبر ہے۔ (سورہ لقمان۔
اس وقت امت مسلمہ کے نوجوانوں کا بڑا لمیہ یہ ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات سے
نابلد اور دوری اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ہم قرآن حکیم کو مذہبی کتاب تو سمجھتے
ہیں لیکن اس سے راہنمائی لینے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس سے عموماً ہمارا تعلق
زیادہ سے زیادہ تلاوت کی حد تک ہوتا ہے۔ ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ قرآن دورِ
جدید کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ ہم اس
میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کی سنجیدگی سے کوشش ہی نہیں کرتے، حالانکہ
قرآن کریم ایک انقلا بی کتاب ہے، جو عصر حاضر کے چیلنجوں کا نہ صرف مقابلہ
کرنے کی اہلیت رکھتی ہے بلکہ تمام مسائل کاحل بھی فراہم کرتی ہے۔
اسی طرح احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی شفقت کے ساتھ نوجوان طبقے
کی راہنمائی فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطاب میں باقاعدہ
نوجوانوں کو مخاطب کرکے بات فرماتے تھے۔ چنانچہ ایک بار نوجوانوں کے ایک
گروہ کو عفت و پاکدامنی کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا: کہ اے نوجوانوں کی
جماعت! تم میں جسے بھی نکاح کرنے کے لیے مالی طاقت ہو اسے نکاح کر لینا
چاہئے کیونکہ یہ نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا عمل
ہے اور جو کوئی غربت کی وجہ سے نکاح کی طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزہ
رکھے کیونکہ روزہ اس کی خواہشات نفسانی کو توڑ دے گا۔(بخاری ومسلم۔
آپ اکثر! نوجوانوں کو بہت سے اہم کام انجام دینے کی ذمہ داری بھی سونپتے
تھے ، آپ نے حضرت مصعب بن عمیر کو اسلام کا پہلا سفیر مقرر کر کے لوگوں کو
قرآن پاک اور دین کی تعلیم دینے کے لئے مدینہ بھیجا۔ اسامہ بن زید کو جبکہ
ان کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی رومیوں سے لڑنے والے لشکر کی قیادت سونپی،
حالانکہ لشکر میں عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ جیسے بعض بزرگ صحابہ کرام بھی
موجود تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ
قوم کی ترقی کا راز نوجوانوں میں مضمر ہے۔ جس قوم کے نوجوان محنتی، جفاکش
اور ذمہ دار ہوں اس قوم کی ترقی کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ حائل نہیں ہو
سکتی، اور جس معاشرے کے نوجوان سست، غیر ذمہ دار اور ویہلے ہوں وہ معاشرہ
تیزی سے بربادی کی طرف چل پڑتا ہے۔ آج ہمارے ہاں، غیر ذمہ دار اور ویہلے
نوجوانوں کی بہتات ہے،
جبکہ اسلام دوسروں پر تکیہ کرنے، بوجھ بننے اور بھیک مانگنے کی حوصلہ شکنی
کرتا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اوپر والا ہاتھ نیچے
والے ہاتھ سے بہتر ہے، اوپر والا ہاتھ، خرچ کرنے والا ہاتھ ہے اور نیچے
والا ہاتھ، مانگنے والا ہاتھ ہے۔ (بخاری ومسلم۔ )
آپ نے فرمایا: تم میں سے ایک شخص لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لاتا ہے
اور اسے بیچ کر گزارا کرتا ہے، یہ اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی سے
سوال کرے، جو اسے دے یا انکار کردے( بخاری ومسلم)
آپ نے فرمایا:اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کوئی کھانا نہیں اور اللہ کے نبی
داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کما کر کھایا کرتے تھے۔ (بخاری
آپ نے فرمایا: حضرت زکریا علیہ السلام بڑھئ تھے۔
آپ نے فرمایا: تم میں سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔
حضرت کعب بن عجرۃ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک نوجوان کا
گزر ہوا، آپ کے صحابہ اس نوجوان کی قوت اور چستی سے متاثر ہوکر کہنے لگے:
اگر یہ نوجوان اللہ کے راستے میں (جہاد کرتا) تو کتنا اچھا ہوتا، جواب میں
آپ نے فرمایا: اگر یہ جوان گھر سے اپنے چھوٹے بچوں کی خاطر باگ دوڑ کرنے
نکلا ہے تو بھی یہ اللہ کے راستے میں ہے اور اگر اپنے بوڑھے والدین کی خاطر
باگ دوڑ کے لئے نکلا ہے تو بھی اللہ کے راستے میں ہے اور اگر اپنی ذات کے
لئے باگ دوڑ کر رہا ہے تاکہ خود کو بھیک سے بچا کر اپنی عزت نفس کو محفوظ
کر سکے تو بھی اللہ کے راستے میں ہی ہے، اور اگر اپنی قوت و طاقت پر گھمنڈ
کرتے ہوئے فخر و مباہات کے لئے نکلا ہے تو تب یہ شیطان کے راستے میں ہے
(طبرانی )
غور فرمائیں! کہ کس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی غلط فہمی
دور فرمائی کہ اللہ کا راستہ اور اس کی رضا صرف جہاد میں ہی منحصر نہیں
بلکہ محنت و مزدوری کرکے خود کو اور دوسروں کو فائدہ پہنچانا بھی اللہ کا
راستہ ہے۔
اگر نوجوانوں کا رشتہ قرآن سے جوڑ کر ان کے دلوں کو ایمانی غذا دی جائے،
سیرتِ طیبہ اور صحابہ کرام کی زندگی سے ان کو آشنا کرایا جائے، نیک لوگوں
کی صحبت کو اختیار کرنے کی تلقین کی جائے اور وعظ ونصیحت کی مجلسوں میں
پابندی سے شرکت پر ابھارا جائے۔ تو ملک وملت کے اس قیمتی سرمایے کو بڑی حد
تک ضائع ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔
|