درخت (اوٹ پٹانگ)

نوٹ: اس ’اوٹ پٹانگ ‘ کوزیادہ گہری توجہ سے پڑھنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ اس میں کوئی بات فلسفیانہ نہیں بلکہ ہر بات عامیانہ ہے۔لیکن ہلکی پھلکی توجہ جس سے آپ ٹی وی دیکھتے ہیں کافی ہے۔

درخت کی زندگی میں اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انسان کے اس دنیا میں تشریف لانے سے پہلے ہی قدرت نے یہاں درختوں کی ایک بہت بڑی تعداد اگائی ہوئی تھی۔ یعنی یہ دنیا انسانوں سے پہلے درختوں کا مسکن تھی۔ ان درختوں کی وجہ سے ہی آج تک انسان اس د نیا میں آباد چلا آ رہا ہے۔ ورنہ انسان نے اس فطرت کا جو حشر کر دیا ہے، اگر یہ درخت نہ ہوتے ،تو انسان کا بہت پہلے ہی یہاں سے بوریا بستر گول ہو چکا ہوتا۔ انسان کو درختوں کے فوائد بتانے کی ضرورت نہیں کیوں کہ درختوں کے فوائد جانتے ہوئے بھی انسان نے ان سے اپنی بلا سبب ازلی دشمنی مول لی ہے۔ یہ ازلی یا غیر شعوری دشمنی شاید اس منع شدہ درخت کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے جس کا پھل کھانے کی پاداش میں انسان کو جنت جیسے مسکن سے بے دخل کر دیا گیا اور اسے اس دنیا کی زندگی کی صدیوں پر محیط خاک چھاننے پر معمور کر دیا گیا۔

زندگی کی اننگ بھی، کم از کم، دو طرح کی کہی جا سکتی ہے۔ ایک ان لوگوں کی اننگ جو بیٹنگ یعنی بلے بازی کر رہے ہیں اور دوسری ان لوگوں کی اننگ جو فیلڈنگ میں مصروف ہیں۔ یہ انسانوں کی تقسیم کی نئی اصطلاحیں ابھی ابھی نازل ہوئی ہیں۔ ان پر تھوڑی سی روشنی ڈالنے کی ضرورت فِیل ہو رہی ہے: زندگی کی اننگ میں بیٹنگ کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کو عرفِ عام میں امیر یا بااثر، یا کرتا دھرتا کہا جاتا ہے۔ بادشاہی دور میں ان کے لئے درباری کا لفظ جچتا اور پھبتا تھا لیکن اب یہ لفظ منفی احساس کا حامل ہونے کی وجہ سے نا پسندیدہ اور نا پسندیدہ ہونے کی وجہ سے متروک ہونے کی طرف جا رہا ہے۔ انگریزی زبان میں ان کے لئے’ جینٹل مین‘ یا’ کورٹیئر‘ کے الفاظ بھی استعمال کئے جاتے تھے۔ اور ’فیلڈنگ ‘کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کو عرفِ عام میں غریب ہونے کا’ شرف‘ حاصل ہے۔ جن کا لباس ان کے جسموں کو اکثر چھپائے رکھتا ہے اور وہ اکثر شریف بھی ہوتے ہیں۔ عدالتی قوانین ، سماجی اخلاق اور مذہبی ذمہ داریوں کا اطلاق بھی زیادہ تر انہی لوگوں پر ہوتا ہے۔ دوسرے معنوں میں سماجی زندگی اور ملکی گاڑی کے گھسنے والے پہیئے یہی لوگ ہوتے ہیں۔ گھستے ہیں اور ساری عمر گھستے ہی چلے جاتے ہیں، کیوں کہ پہیوں کا کام گھسنا ہی ہوتا ہے۔ وہ زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں:
گھسنا ہی زندگی ہے ، گھسنا ہے کام اپنا
ہو جائے گا کسی دن،جیون تمام اپنا (پروفیسر نیامت علی مرتضائیؔ)

پہیئے نے سائنسی اور معاشی زندگی میں انقلاب برپا کیا ہے لیکن بیچارہ خود ترقی نہیں کر سکا ۔ اور اپنی قسمت کے چکر میں گھومنے کے سوا کچھ کر نہیں پایا۔ اس کی تقدیر میں گاڑیوں کو دور دراز کی منازل تک پہنچانا، ہوائی جہازوں کو اڑانا، ٹیکنولوجی کو حرکت سے مزین کرنا تو لکھا ہے لیکن یہ نہیں لکھا کہ پہیہ کبھی لیور کے درجے تک ترقی بھی پا سکے گا اور یہی حال غریبوں کا ہے۔ ان کے مقدر میں گھومنا، گھومنا اور بس گھومنا ہی لکھا ہے۔ اور گھومتے گھومتے واپس گھوم جانا ہے۔ گرمیوں کی راتیں وہ اپنے تنگ و تاریک گھروں کی چھتوں پر گزارتے ہیں اور دن وہ اپنے صحنوں میں ہلکی پھلکی ترپالیں یا چادریں تان کر بسر کرتے ہیں۔ جبکہ سردیوں کی راتیں وہ پھٹے پرانے ، میلے کچیلے لحافوں میں ٹھٹھر ٹھٹھر کر ، اور دن دھوپ سے ’گرمائش‘ مستعار مانگ کر گزارتے ہیں۔ ان کا مقدر ہے ہی ایسا اسے کوئی دوسرا کیسے بدل سکتا ہے اور ریاست توخدائی کاموں میں دخل اندازی کا سوچ بھی نہیں سکتی ۔

جانوروں کے متعلق انسان نے بہت کچھ سیکھا ہے لیکن جانوروں سے اس نے بہت کم سیکھا ہے لیکن جانوروں نے انسان سے کچھ نہیں سیکھا اور کچھ سیکھا بھی ہے تو قابلِ تعریف نہیں ٹھہرتا۔ یا شاید انسان کے پاس جانوروں کو سکھانے نے کے لئے کرتبوں کے سوا کچھ نہیں۔ جبکہ جانوروں کے پاس انسان کو سکھانے یا دینے کے لئے بہت کچھ ہے۔ لین دین کی اس تجارت میں انسانوں کا لینے کا اور جانوروں کا دینے کا پلڑا بھاری ہے۔ جانوروں کو کام کرتے دیکھ کر بھی انسان کام کی طرف رغبت نہیں کرتا۔ جانوروں کو ایمانداری اپناتے دیکھ کر بھی انسان ایماندار بننے کی کوشش نہیں کرتا۔ جانوروں کو جھوٹ نہ بولتے دیکھ کر بھی انسان جھوٹ بولنا ترک نہیں کرتا ۔ حیوان جب انسان کو حیوان چوری کرتے دیکھتا ہو گا تو خدا کا شکر ضرور کرتا ہو گا کہ اس نے اسے حیوان بنایا ہے ورنہ اس نے بھی چوری جیسے برے دھندے میں پڑا ہونا تھا۔ جب وہ انسان کو جھوٹ پر جھوٹ بولتا، سنتا ہو گا تو خدا کا شکر بجا لاتا ہو گا جس نے اسے انسانی زبان سے محروم رکھا ورنہ انسان نے اسے بھی جھوٹ بولنا سکھا دینا تھا یا سے جھوٹ بولنے پر مجبور کر دینا تھا۔ جو انسان حیوان کو کرتب سکھا سکتا ہے وہ اسے جھوٹ بولنا کیسے نہیں سکھا سکتا تھا اگر حیوان بول سکتا۔ انسان بڑا استاد ہے اور ہر چیز کو اپنے مقصد کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔

انسان وہ وواحد ہستی ہے جو چائے پیتی ہے باقی سب جانور پانی پیتے ہیں یا پھر دودھ بھی پیتے ہیں لیکن چائے کوئی نہیں پیتا۔ یہ اعزاز بھی صرف انسان کو حاصل ہے کہ وہ قدرت کے فراہم کردہ ذائقوں میں سے کچھ اور زائقے نکال لیتا ہے۔ اور پھر وہ اپنے اخذ کردہ ذائقوں کو فطرت کے ذائقوں پر ترجیح دینے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ بچے تو خیر سبھی دودھ پی کر ہی بڑے ہوتے ہیں لیکن بڑے ہو کر کوئی کوئی انسان ہی دودھ پیتا ہے باقی سب یا ان کی اکثریت چائے پے لگ جاتی ہے۔ یا چائے ان کو لگ جاتی ہے اور اگر کوئی بڑا ہو کر بھی دودھ پیتا رہے تو لوگ مذاق سے کہتے ہیں ’ کیا ابھی دودھ نہیں چھوڑا ؟‘

چائے کے ساتھ دوسرے غالب ذائقے سوڈا واٹر کے ہیں جنہوں نے ساری دنیا میں اپنی سامراجیت قائم کی ہوئی ہے۔ دنیا کا کوئی کونہ یا گوشہ ایسا نہیں جس کے ٹوٹے پھوٹے کھوکھے پر ان سوڈا واٹر کی بوتلوں کا ڈالا نہ پڑا ہو۔ اگرچہ یہ سوڈا واٹر شوگر سے لبریز ہے لیکن اس کے پینے اور پلانے میں بالکل کوئی کمی واقع نہیں ہو رہی۔ اگرچہ دنیا میں شوگر کے مریضوں میں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہو رہا ہے لیکن سوڈا واٹر ہے کہ دنیا کی برائیوں کی طرح پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے۔بچے تو خاص طور پر سوڈا واٹر چھوڑتے ہی نہیں اور نہ ہی چپس یا لیز چھوڑتے ہیں ۔

دنیا کا گلوبل ولیج بہت ترقی یافتہ ہو گا۔ اس میں اتنی تیزی ہو گی کہ جنوں اور بھوتوں کی داستانیں سست سی لگیں گی۔ اس میں انسان کے پاس اتنی معلومات ہوں گی کہ وہ معلومات کے سمندر میں کچھ یوں ڈوب جائے گا کہ اسے اپنے سوا ہر چیز کی خبر ہو گی۔ اس گلوبل ولیج کے مکانات بہت شاندار ہوں گے، سڑکیں بہت کھلی اورتیز رفتار ، صاف ستھری ہوں گی ۔ تعلقات زیادہ ہوں گے لیکن وقت انتہائی کم ہو گا۔ انسان کام، اور مشغولات میں اتنا مصروف ہو جائے گا کہ اپنے آپ کو دینے کے لئے سب سے کم وقت ہو گا ۔ اس ولیج میں انسان اپنے آپ کو بیچ کر ہی زندگی گزار سکے گا۔

آنے والے زمانے میں مقامی زبانوں پر انٹر نیشنل زبان کا ایسا وار چلے گا کہ بہت کم زبانیں باقی رہ سکیں گی۔ انسان کا گزارہ اگر ایک زبان سے ہو رہا ہو تو وہ دوسری زبان سیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، آنے والا دور زبانوں کی رنگا رنگی کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ سینکڑوں زبانیں سمٹ کر چند ایک کی تعداد میں رہ جانے کا امکان ہے۔ لباس کی ہمہ ہمی بھی سکڑ جائے گی اور چند ایک انٹر نیشنل لباس ہی دنیا میں رائج ہو جائیں گے ،باقی لباسوں کو صرف عجائب گھروں میں سجا کر رکھ دیا جائے گا۔ دنیا کی کرنسیاں بھی آہستہ آہستہ محدود ہو جائیں گی اور چند ایک کرنسیوں لین دین باقی رہ جائے گی اور اس کے بعد تو شاید دنیا کی صرف ایک ہی کرنسی رہ جائے باقی سب ماضی کا حصہ بن جائیں،جیسا کہ یورپ میں’ یورو‘ اور عالمی منڈیوں میں امر یکی ڈالر کا رواج ہو چکا ہے۔

عالمی مارکیٹیں دنیا کی مقامی مارکیٹوں پر اثر انداز ہونے لگ پڑی ہیں۔ ماضی میں انسان کا انسان کے ساتھ لین دین ضرور ہوتا تھا لیکن اتنا نہیں جتنا اب ہو رہا ہے۔ ماضی میں ایک ملک کی کرنسی دوسرے ملک کی کرنسی پر حاکمانہ انداز میں کم ہی اثر انداز ہوتی تھی لیکن اب سونے کا ’مول‘ عالمی منڈی طے کرتی ہے اور پھر پوری دنیا میں اس کے لحاظ سے اتار چڑھاؤ آتے ہیں ۔تیل اس دور کے معیشت ساز عوامل میں سرِ فہرست ہے۔ اس کے ریٹس کا اتارچڑھاؤ ملکوں کی معیشت پرہر لحاظ سے اثر انداز ہوتا ہے۔ اور ایسا اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تلک سورج ملکوں کی مشینی توانائی کا بڑا سورس نہیں بن جاتا۔ سورج جب مشینی توانائی کا سب سے بڑا سورس بن جائے گا تو دنیا کے وہ ممالک جہاں دھوپ زیادہ چمکتی ہے زیادہ معتبر ہو جائیں گے اور تیل کے ممالک کی جگہ لے لیں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان میں اکثر ممالک وہی ہوں جو تیل کی دولت سے آج بھی مالا مال ہیں۔

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 284346 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More