میرا نام شیر گل ہے- آج سے دس سال پہلے میں پانچ
سال کا ایک ہنستا کھیلتا بچہ تھا- یہ قصہ جو میں سنانے جا رہا ہوں اسی
زمانے کا ہے-
میں اپنی ماں اور باپ کے ساتھ کراچی کے ایک علاقے منظور کالونی میں رہتا
تھا- اس علاقے میں ہمارے دوسرے بہت سے رشتے دار بھی رہتے تھے اور ہمارا ایک
دوسرے کے گھر آنا جانا بھی رہتا تھا- میں تھوڑا بڑا ہوا اور مجھ میں کچھ
سمجھ آئ تو دوسرے بچوں کی طرح میرا بھی دل گھر سے باہر لگنے لگا- میں زیادہ
تر گھر سے باہر نکل کر اپنے دروازے کے آگے بنے ایک چھوٹے سے چبوترے پر بیٹھ
کر گلی میں آتے جاتے لوگوں کو دیکھتا یا پھر اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ
کھیلتا -
میرا اور کوئی بھائی بہن نہیں تھا اس لیے میری ماں مجھ سے بہت محبّت کرتی
تھی- وہ لمحہ بھر کو بھی مجھے اپنے سے جدا نہیں کرتی تھی- میں گلی میں کھیل
رہا ہوتا تو وہ اپنے کام چھوڑ کر گھڑی گھڑی دروازے پر آ کر مجھے دیکھتی
رہتی- وہ دھیمے مزاج کی اور دوسروں سے محبّت کرنے والی ایک سیدھی سادھی
عورت تھی- وہ چونکہ بہت ہی صلح جو ٹائپ کی نرم خو خاتون تھی اسی لیے اس کی
میرے باپ سے بری بھلی نبھ ہی رہی تھی-
میرا باپ ایک تند خو شخص تھا اور ہر وقت غصے میں بھرا رہتا تھا- اس کی
دوستی بھی ان لوگوں سے تھی جنہیں دنیا میں ہر جگہ برائی نظر آتی تھی اور وہ
لوگ ہر وقت ان برائیوں پر جلتے کڑھتے رہتے تھے اور زبان سے ان کا اظہار
کرتے رہتے تھے- میں نے اپنے باپ کو اپنی ماں کے ساتھ کبھی مسکراتے یا ہنستے
ہوۓ بات کرتے نہیں دیکھا تھا- وہ گھر میں رہتا تو خاموش ہی رہتا، بولتا بھی
تھا تو کسی بات پر ماں کو سرزنش کرنے کے لیے ہی بولتا تھا- میں نے بہت کم
اپنی ماں کو اس سے بحث کرتے دیکھا تھا ورنہ زیادہ تر وہ خاموش رہ کر ہی اس
کی باتیں سنتی رہتی تھی-
شروع شروع میں میرا باپ محنت مزدوری کر کے گھر کا خرچ چلاتا تھا- پھر بعد
میں اس نے گھر کے قریب ایک چوک میں نسوار کی دکان کھول لی- تمباکو کوٹنے
اور دکان کے دوسرے کاموں کے لیے اس نے دو لڑکے رکھے ہوۓ تھے- میرے باپ کے
پاس ایک موٹر سائیکل بھی تھی جس پر بٹھا کر وہ مجھے کبھی کبھار اپنے ساتھ
بازار بھی لے جایا کرتا تھا- مجھے موٹر سائیکل پر بیٹھنے میں بہت مزہ آتا
تھا اور میں اس کی ٹنکی پر بیٹھ کر کبھی اس کی بتی جلا دیتا، کبھی یوں ہی
خوامخواہ ہارن کا بٹن دبا دیتا- میرا باپ اگرچہ کافی غصے والا تھا مگر مجھ
سے بہت محبّت کرتا تھا- ویسے بھی میں اکلوتا تھا، میں کچھ بھی کرلوں وہ
مجھے کچھ نہیں کہتا تھا-
زمانہ بہت بدل گیا تھا، غریب کے بچے ہوں یا امیر کے، سب تعلیم حاصل کرنے کی
دھن میں لگ گئے تھے- تعلیم کی افادیت اور اہمیت کیا گاؤں اور کیا دیہات، ہر
جگہ کے رہنے والوں میں پہنچ چکی تھی-
میری ماں بھی چاہتی تھی کہ میں بھی پڑھوں لکھوں- ایک روز اس نے اس سلسلے
میں میرے باپ سے بات کی- اس کی بات سن کر وہ ایک دم سے غصے میں آگیا- اس نے
ہاتھ میں تھاما ہوا گلاس دیوار پر دے مارا اور چلا کر بولا- "تو کیا چاہتی
ہے، میرا بیٹا فرنگیوں کی تعلیم حاصل کرے گا؟ جانتی ہے ان اسکولوں میں کیا
پڑھایا جاتا ہے؟"
اسے غصے میں دیکھ کر میں سہم کر ماں سے چمٹ گیا، اس نے بھی میرے باپ سے
کوئی بحث نہیں کی اور وہاں سے ہٹ گئی- اس کے بعد گھر میں میری تعلیم کے
سلسلے میں کبھی کوئی بات نہیں ہوئی- میرے ہم عمر کچھ لڑکے تو اسکول جاتے
تھے- وہ لڑکے اور لڑکیاں جن کے باپ میرے باپ کی طرح تھے اور اسکولوں کی
تعلیم کو بہت برا سمجھتے تھے، دن بھر گلی محلوں میں مارے مارے پھرتے تھے-
ہمارے گھر ٹی وی بھی نہیں تھا- میرا باپ ٹی وی کے سخت خلاف تھا اور یہ
سمجھتا تھا کہ یہ برائی کی سب سے بڑی جڑ ہے- وہ گھر میں ریڈیو اس لیے نہیں
لاتا تھا کہ اس پر عشقیہ گانے بجتے تھے جنہیں سن کر اخلاق خراب ہوتا تھا-
ہمارے گھر میں کوئی کتاب بھی نہیں تھی، کیونکہ ہمارے گھر میں کسی کو پڑھنا
ہی نہیں آتا تھا -
میری ماں سارا دن گھر کے کاموں میں مصروف رہتی، باپ دکان سے رات کو گھر آتا
اور کھانا کھا کر پڑ کر سوجاتا- میں دن بھر مٹی پتھروں سے کھیلتا رہتا اور
درخت کی شاخ ہاتھ میں لیے گلی میں پھرنے والی مرغیوں کے پیچھے بھاگتا رہتا-
ان کھیلوں سے دل بھر جاتا تو گھر کے سامنے کے میدان میں سے جہاں کچھ گھاس
اور جھاڑیاں تھیں، وہاں سے چھوٹے موٹے ٹڈے اور کیڑے مکوڑے پکڑتا پھرتا- بس
یہ ہی ہماری زندگی تھی-
ایک روز خلاف توقع میرا باپ جلد گھر آگیا- وہ سخت غصے میں نظر آ رہا تھا-
اسے اس حالت میں دیکھ کر میری ماں ڈر گئی اور یوں ہی جلدی سے کسی کام میں
لگ گئی تاکہ میرا باپ باہر کا غصہ اس پر نہ نکالے- میرا باپ شائد کچھ کہنا
چاہ رہا تھا، ماں کو کام میں لگتا دیکھ کر جھنجھلا گیا اور تیز آواز میں
بولا- "سن رہی ہے- کل پھر پولیو کے قطرے پلانے والی عورتیں آئیں گی- وہ
آئیں تو شیر گل کو سامنے نہیں لانا- اگر میں اس وقت گھر پر موجود ہوا تو
خود ان سے نمٹ لوں گا-"
اس کی یہ بات سن کر میری ماں نے بھی زبان کھولنے کی ہمت کر لی- "اس میں حرج
ہی کیا ہے- تیرے کہنے پر میں ہر سال شیر گل کو ان عورتوں کے آنے پر گھر سے
نہیں نکلنے دیتی- میرا کتنا دل دکھتا ہے جب میں ان سے کہتی ہوں کہ ہمارے
یہاں کوئی بچہ نہیں ہے- ہماری گلی کی سب عورتیں اپنے بچوں کو یہ قطرے
پلواتی ہیں- میں نے تو سنا ہے کہ جو بچے یہ قطرے نہیں پیتے ہیں ان کی
ٹانگیں اور ہاتھ کمزور رہ جاتے ہیں- وہ نہ چل پھر سکتے ہیں اور نہ کوئی کام
کرسکتے ہیں- ہماری گلی کے پیچھے بھی ایک بچی کو پولیو ہو گیا ہے- اس کی ماں
اسے لیے لیے جانے کہاں کہاں پھرتی ہے کہ کسی طرح وہ ٹھیک ہوجائے-"
ماں کے منہ سے یہ الفاظ سننا تھے کہ میرا باپ چراغ پا ہوگیا- اس نے پاؤں سے
جوتا اتار کر میری ماں پر کھینچ مارا اور بولا- "بدبخت مجھ سے بحث کرتی ہے-
جاہل عورت تجھے کیا پتہ فرنگیوں کی بنائی ہوئی اس دوا میں کیسی کیسی حرام
چیزیں ملی ہوتی ہیں- میرے دوستوں نے بتایا تھا کہ اس کے پینے سے بچے بڑے ہو
کر شادی کے قابل بھی نہیں رہ جاتے- اگر مجھے پتہ چل گیا کہ تو نے شیر گل کو
وہ قطرے پلوائے تھے تو میں تیری ٹانگیں توڑ دوں گا-"
میری ماں رونے بیٹھ گئی اور باپ غصے میں بھرا گھر سے چلا گیا- مجھے یہ تو
پتہ نہ تھا کہ لڑائی کس بات پر ہوئی تھی، مگر ماں کو روتا دیکھ کر مجھے بھی
رونا آگیا اور میں اس کی گود میں چڑھ کر خود بھی زور زور سے رونے لگا-
میری ماں کے بحث کرنے کی وجہ سے میرے باپ کو کچھ شبہ ہوگیا تھا- اگلے روز
وہ کام پر بھی نہیں گیا اور گھر میں ہی بیٹھا رہا- اس نے مجھے باہر بھی
نہیں نکلنے دیا تھا- دوپہر کو تین بجے کے قریب دروازے پر دستک ہوئی- میرے
باپ کو اسی دستک کا انتظار تھا- اس نے دروازہ کھولا، پھر اس کے تیز تیز
بولنے کی آوازیں آنے لگیں- اس کے بعد وہ تیزی سے گھر میں آیا اور مجھے
جھٹکے سے اٹھا کر گود میں لیا اور پھر دروازے پر آیا- دروازے پر دو دبلی
پتلی لڑکیاں کھڑی تھیں اور میرے باپ کا رویہ دیکھ کر کچھ خوفزدہ سی نظر آ
رہی تھیں- چونکہ پولیو ٹیم کے ورکرز پر دہشت گردوں کی جانب سے جان لیوا
حملے بھی ہوۓ تھے اس لیے ان کی حفاظت کے لیے دو مسلح پولیس والے بھی ان کے
ساتھ تھے- ان کے ساتھ اس ٹیم کا ایک افسر بھی تھا-
" یہ ہے میرا بچہ- مگر میں اسے قطرے نہیں پلواؤں گا- ان قطروں کے بارے میں
میں نے بہت کچھ سن رکھا ہے- تم لوگ جاؤ-" اس نے نہایت غصے سے کہا-
ان میں سے ایک لڑکی ہمت کر کے بولی- "جناب- اس میں آپ کا ہی بھلا ہے- بچوں
کو پولیو کی معذوری سے بچانے کے لیے ہم آپ کے پاس آئے ہیں- ان قطروں میں
کوئی نقصان دہ شے شامل نہیں ہے- آپ کہیں تو میں خود اس کے قطرے آپ کو پی کر
دکھا دوں-"
پولیو ورکر کے خوشامد بھرے لہجے کو سن کر اس کے ساتھ آئے ہوۓ افسر کو غصہ
آگیا تھا- اس نے سخت لہجے میں میرے باپ سے کہا- "تم اپنے بچے کی زندگی سے
کھیل رہے ہو- قطرے کیوں نہیں پلوانے دے رہے؟"-
افسر کا سخت لہجہ سن کر اور مسلح پولیس والوں کو دیکھ کر میرا باپ سنبھل
گیا اور نرم پڑتے ہوۓ بولا- "مجھے پتہ چلا ہے کہ اس دوا میں حرام چیزیں
ملائی گئی ہیں- ان کے پینے سے طرح طرح کی بیماریاں بھی لگ جاتی ہیں- یہ
انگریزوں کی بنائی ہوئی دوا ہے- وہ چالاک لوگ ہیں- چاہتے ہیں کہ کسی طرح
مسلمانوں کو نقصان پہنچے-"
اس کی بات سن کر دونوں پولیس والے ہنسنے لگے- افسر نے اسی بگڑے ہوۓ لہجے
میں کہا- "شائد تم کسی اور ملک سے یہاں آئے ہو- یہاں تو کتوں اور مردار
جانوروں کا گوشت بھی جگہ جگہ بکتا ہے، خود تم نے بھی نہ جانے کتنی دفعہ
کھایا ہوگا، ناپاک ، مردہ اور حرام جانوروں کی ہڈیوں اور آلائشوں سے بنا
ہوا تیل تم گھر میں استعمال کرتے ہو، اس سے بنے پکوڑے اور دوسری چیزیں
افطار میں کھاتے ہو- گٹروں کی ناپاک چکنائی سے بنے صابن بھی تم استعمال
کرتے ہو، ان سے دھلے ہوۓ کپڑے پہن کر نماز پڑھنے جاتے ہو- ان باتوں کا بچے
بچے کو پتہ ہے، یہ حرام، ناپاک اور غلیظ چیزیں استعمال کرتے ہوۓ تو تم نے
اور تم جیسے لوگوں نے کبھی کوئی احتجاج نہیں کیا- اس کے علاوہ پولیو کی
دوائی ہمارے ایک اسلامی برادر ملک انڈونشیا سے آتی ہے، وہ کس طرح اس میں
کوئی حرام یا غیر صحت مند چیز ملائیں گے- پھر ان قطروں کے ہر طرح کے ٹیسٹ
بھی ہوچکے ہیں، بڑے بڑے ڈاکٹروں نے بھی تصدیق کی ہے کہ ان میں مضر صحت اجزا
شامل نہیں ہیں- تم کیا ان سینکڑوں مفتیوں سے بھی بڑے ہو جنہوں نے ان کے
حلال ہونے کا فتویٰ دیا ہے- تم بھی ان ناقبت اندیش لوگوں میں سے ایک ہو جو
انسانیت دشمنوں کے اس جھوٹے پروپیگنڈے پر ایمان لے آئے ہیں کہ پولیو کے
قطروں میں کوئی حرام یا ضرر رساں چیز ملی ہوئی ہے- تم جیسے ظالم لوگ خود تو
اپنے صحت مند ہاتھ پاؤں استعمال کر کے ہنسی خوشی زندگی گزار لیتے ہو مگر
اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلا کر انھیں اپاہج اور لاچار بنا کر زمین
پر رینگنے کے لیے مجبور کر یتے ہو- "
اس افسر کی باتوں کا میرے باپ پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا- اس نے کہا- "لڑکیو
تم جاؤ- میں اپنے بچے کو یہ قطرے نہیں پلانا چاہتا-" یہ کہہ کر اس نے غصے
سے دروازہ بند کردیا ور مجھے اندر لے آیا-
اس بات کو دس پندرہ دن گزر گئے- ایک روز میرا باپ تخت پر بیٹھا کھانا کھا
رہا تھا- مجھے کئی روز سے کبھی ہلکا اور کبھی تیز بخار رہنے لگا تھا- محلے
میں ایک کمپاونڈر نے ایک ڈسپنسری کھول رکھی تھی اور میری ماں اس سے میری
دوا لا رہی تھی- کھانا کھاتے کھاتے میرے باپ نے مجھ سے پانی لانے کو کہا-
میں تخت سے نیچے اترا اور پھر منہ کے بل زمین پر گر پڑا- تخت سے اترتے ہوۓ
مجھ سے زمین پر کھڑا ہوا ہی نہیں گیا تھا- منہ کے بل زمین پر گرنے کی وجہ
سے میرا ہونٹ پھٹ گیا اور خون نکلنے لگا- میری ٹانگوں میں اتنی جان نہیں
تھی کہ میں خود سے اٹھ جاتا- ہونٹ پھٹا تو درد کی شدت سے میں زور زور سے
رونے لگا-
"دیکھ شیر گل کو کیا ہوا ہے- اور آتے ہوۓ پانی بھی لیتی آ-" میرے کانوں میں
باپ کی تیز آواز آئ- وہ ابھی تک کھانے میں لگا ہوا تھا اور اس نے میرے منہ
سے نکلتا ہوا خون نہیں دیکھا تھا-
میری ماں پانی لے کر آئ- مجھے زمین پر گرا دیکھ کر اس کے ہاتھ سے گلاس چھوٹ
گیا- وہ دوڑ کر میرے پاس پاس آئ اور مجھے زمین سے اٹھایا- مجھ سے کھڑا ہی
نہیں ہوا جا رہا تھا اور میں زور زور سے رورہا تھا- میری حالت دیکھ کر میرا
باپ بھی گھبرا گیا - وہ مجھے لے کر ڈاکٹر کے پاس بھاگا-
اس کے بعد کی کہانی بہت طویل ہے- میرے بہت سے ٹیسٹ کروائے گئے جن میں پولیو
کی تصدیق ہوگئی- ڈاکٹروں کو جب پتہ چلا کہ میں نے کبھی پولیو کے قطرے نہیں
پیے تھے تو انہوں نے میرے باپ کو طرح طرح کی باتیں سنائیں اور خوب لعنت
ملامت کی- میری معذوری نے میرے باپ کو حواس باختہ کر دیا تھا- وہ چپ چاپ
ندامت سے یہ باتیں سنتا اور ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالتا تھا- اتنے بڑے
نقصان کے بعد اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا-
میرے پولیو کی وجہ سے میری ماں بالکل ٹوٹ کر رہ گئی تھی- میں نے اکثر دیکھا
تھا کہ وہ کوئی کام کر رہی ہوتی تھی تو اس کی آنکھیں بھر آتی تھیں- اس کے
بعد میں نے اسے کبھی ہنستے یا مسکراتے ہوۓ نہیں دیکھا تھا- وہ میرے باپ سے
لڑی تو نہیں تھی مگر اب وہ اس سے بات چیت بالکل بھی نہیں کرتی تھی-
میرا علاج شروع ہوا، دوائیاں کھا کھا کر میرا برا حال ہوگیا تھا- میری ماں
دن بھر میری ٹانگوں پر طرح طرح کے تیلوں سے مالش کرتی مگر کوئی افاقہ نہیں
ہوا-
اب میں پندرہ سال کا ہوگیا ہوں- شروع شروع میں میری ماں صبح اور شام کو
مجھے گود میں لے کر دروازے کے چبوترے پر بیٹھا دیا کرتی تھی تاکہ میرا کچھ
دل بہلا رہے- میں کچھ بڑا ہوا تو میرا باپ کراچی میں کوئی علاقہ ہے پاکستان
چوک وہاں سے وہ پہیوں والی کرسی لے آیا- اب میں اسی کرسی پر بیٹھ کر ادھر
ادھر گھوم لیتا ہوں- میرے باپ میں کافی تبدیلی آگئی ہے- اس نے میری ماں پر
غصہ کرنا ختم کردیا ہے- اس کے کسی دوست کا لڑکا کالج میں پڑھتا ہے، اس کے
کہنے پر وہ ہر روز شام کو مجھے ٹیوشن پڑھانے آتا ہے- وہ بہت اچھا لڑکا ہے-
اس نے ایک پرائیویٹ اسکول میں میرا داخلہ بھی کروا دیا ہے، جہاں میں صرف
سالانہ امتحانات دینے جاتا ہوں- اپنی معذوری کی وجہ سے روز تو جا نہیں
سکتا-
رات کو جب میں سونے کے لیے لیٹتا ہوں تو ہر رات میرے دل میں یہ خیال آتا ہے
کہ اگر میرا باپ سنی سنائی باتوں میں نہ آتا ، غلط لوگوں کے غلط پروپیگنڈے
کا شکار نہ ہوتا اور مجھے پولیو کے قطرے پلوانے دیتا تو اس وقت میں ٹھیک
ہوتا اور پڑھ لکھ کر بڑھاپے میں اس کا سہارا بنتا مگراس کے ایک غلط فیصلے
کی وجہ سے اب نہ صرف میں زندگی بھر معذوری کا عذاب جھیلوں گا بلکہ اسے بھی
بڑھاپے میں اپنے جوان بیٹے کا سہارا بن کر جینا ہوگا-
(ختم شد)
|