20 مارچ کی یہ صبح سُرخاب کے لیے بہت ہی اسپیشل ہے۔ موسم
بہار کا اثر باغِیچے میں کِھلے ہوئے پھولوں کی رنگینی اور شادابی سے عیاں
ہے۔کچھ دیر تک وہ باغیچے میں چہل قدمی کرنے کے بعد اندر چلی گئی۔ بے تابی
اُسکے چہرے سے اُمڈ رہی ہے۔ اس کی نشیلی بھوری آنکھیں کلاک کی سوئیوں کی
طرف دیکھتی تو سنہری بال سامنے کندھوں کے برابر آجاتے کبھی باہر دروازے کی
طرف دیکھتی اور اٹھ کر دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسری سے ملا کر
دوبارہ صوفے پر بیٹھ جاتی۔ کبھی اپنے چہرے پر آئی ہوئی سنہری لٹ کو پیچھے
کرتی۔
کافی دیر تک یہی سلسلہ جاری رہا اتنے میں ایک بوڑھیا کچن سے نکلی جس نے
نیلی چادر سے آدھا سر چھپایا ہوا ہے اسکی چادر بائیں جانب زمین کو چھو رہی
ہے اور دائیں طرف سے کندھا بھی ٹھیک سے نہیں چھپا۔
سُرخاب: شیلو ماسی"ناشتہ تیار ہے؟
شیلو: جی سُرخاب بی بی.....!
ماتھے سے ٹپکتے پسینے کو دوپٹے کے پلو سے صاف کرتے ہوئے کِچن میں واپس چلی
گئی۔
سُرخاب اپنی شہادت کی انگلی کے ناخن کو دانتوں سے دبا نے لگی.........بے
دھیانی میں وہ اپنی ہی انگلی کو زیادہ زور سے کاٹ بیٹھی، ہاتھ کو ہلاتے
ہوئے بائیں ہاتھ سے انگلی کو پکڑا اور کراہنا شروع کردیا۔
اتنے میں سیڑھیوں سے ٹھک ٹھِک ٹھک کی آواز آئی
سُرخاب نے سر سری سی نظر ڈالی اور پھر میز پر پڑے ڈیکوریشن پیس پر انگلی
پھیرنا شروع کردی۔ جو اوپر سے پوری طرح خوبصورت عربی نقش و نگار سے مزئین
ہے۔
کافی صحت مند وضع قطع والی خاتون جسکے بال دائیں کندھے سے سامنے کی طرف سے
نیچے جاتے ہیں سیڑھیوں سے اتر کر ایک لمحے کے لیے رُکی سُرخاب کی طرف
دیکھتے ہوئے۔
شیلو........ شیلو جلدی سے مجھے ایک کافی لادو۔
آہستہ آہستہ وہ سرُخاب کے پاس آئی اور کرخت لہجے میں بولی۔۔۔۔تمہارے
ممی،پاپا کہاں ہیں؟
سُرخاب: اُٹھ کر کھڑی ہو گئی بلکل سہمی ہوئی آواز میں بولی "شبنم چچی بابا
لوگ ائیرپورٹ گئے ہیں"
شبنم: ماتھے پر تیوری چڑھاتے ہوئے۔۔۔۔کون آرہا ہے؟
سُرخاب: چچی جان کل بابا نے آپ کو بتایا تھا۔
شبنم: او۔۔۔ اچھا اچھا میں بھی کہوں آج اتوار کو بھتیجی صاحبہ صبح ہی صبح
کیسے جاگ گئیں۔ تو زُمرد آ رہا ہے۔
سُرخاب اٹھ کر جانے لگی تو شبنم طنزیہ انداز میں بولی......بن باجے اور
باراتی دولہا' میرا مطلب ہونے والا دولہا آ رہا______دیکھو کہیں وہ اپنے
ساتھ امریکن دولہنیا
اتنے میں نوکرانی کافی لے آئی، کیوں شیلو! زور سے ہنسی اور شیلو سے کافی
پکڑ لی۔
شیلو: کچھ بولے بنا واپس مڑی دو چار قدم چلنے کے بعد کچھ بُڑ بُڑاتے ہوئے
کچن میں واپس چلی گئی۔
اتنے میں ایک چھوٹا سا لڑکا بلو جینز اور گرین ٹی شرٹ پہنے ہوئے جس کے اوپر
اُلٹی سیدھی اے بی سی لکھی ہوئی تھی اندر داخل ہوا شبنم کی باتیں سن سن کر
بولا__شبنم چچی ہمارے خاندان میں بن بارات اور باجے اکلوتی شادی کی مثال
موجود ہے آپکو پتہ ہے '' وہ تھی ثاقب چاچو کی!
اس نے سُرخاب کا ہاتھ پکڑا۔۔۔سُر باہر چلو جلدی دیکھو کون آیا ہے۔
سُرخاب:مجھے نہیں پتہ رجب ۔۔۔۔رجب سنو میرا ہاتھ چھوڑو
شبنم: کافی کا کپ زور سے ٹیبل پر رکھا اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔۔۔۔ اسکو تو
ایسا ٹھیک کرواؤں گی۔۔۔!!
پھر خود سے مخاطب ہوئی "اُف میک خراب ہو جائے گا دفعہ کرو،بال ٹھیک کرتے
ہوئے چلو ہم بھی میلے میں ٹھیلا لگاتے ہیں۔ سیل فون کی گھنٹی بجی_____کال
اٹھاتے ہی ہیلو! کون؟
شاداب:ایک تو اتنی جلدی بھول جاتی ہو۔ شبنم"نیا نمبر ہے'فون رکھو وہ پہنچ
گیا میں کچھ دیر بعد خود فون کروں گی۔
شاداب:کاٹ بھی دیا کچھ زیادہ ہی پر پرزے نہیں نکل آئے فون ایک بار پھر
دیکھنے کے بعد زور سے ٹیبل پر پھینک دیا۔ اس کے کندھے دباتے ہوئے فضلو" سر
کام بھی تو مشکل ہے" شاداب "زور سے دبا ہاتھ میں طاقت نہیں ہے کیا!
<----------->
رجب:دروازے کے پاس ہی پہنچا تھا کہ ایک خاتون جس نے فل مشرقی اسٹائل کی
ڈریسنگ کی تھی اندر آئی جس کے پیچھے 40_45 سالہ آدمی داخل ہوا جس نے تھری
پیس سوٹ بغیر ٹائی کے پہنا ہوا تھا۔ اسکے پیچھے ایک نوجوان لڑکا داخل ہوا،
با رعب شخصیت آنکھوں سے سنجیدگی ٹپک رہی تھی۔جس نے ہلکے cyan کلر کا کُرتا
پاجاما اور واسکٹ پہن رکھی تھی یہ کیا مما پاپا آپ زمرد بھائی کو اندر لے
بھی آئے۔
عباس:بیٹا آپ کے ساتھ ہی تو آئے ہیں۔ رِنگنگ بیل__عباس"فون دیکھ کر پریشان
ہو گیا اندر والا ایک قدم پھر پیچھے کو موڑا اور باہر چلا گیا۔
سُرخاب: ملازمہ کے ہاتھ سے پھولوں کی پتیوں والی پلیٹ پکڑ کر باہر کی طرف
لپکی
سکینہ: ارے اسے کیا ہوا؟
سب حیرانگی سے اسے تکنے لگے۔
سُرخاب:واپس آئی اسکے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ جیسے وہ کچھ ڈھونڈ رہی
ہو۔۔
رجب: ماتھے پر ہاتھ مارا او نو__زمرد کی طرف ہاتھ کرتے ہوئے" سُر یہ زمرد
بھائی"
زمرد: اسلام علیکم کزن صاحبہ
سُرخاب: ع ع عل____ی تم؟
زمرد کی طرف دیکھا اسکے چہرے کی اضطرابیت غم وغصے میں بدل چکی
تھی۔پھوپھو۔۔پھوپھو بولتے ہوئے وہ اُلٹے پاؤں دو قدم پیچھے ہوئی پھر بھاگ
کر اپنے کمرے میں چلی گئ۔
سکینہ کے چہرے کی مسکراہٹ اور طمانیت اڑ چکی تھی وہ ظاہری مسکراہٹ سے غصہ
چھپا نہیں پائی،،،ہونٹوں کو دباتے ہوئے علی 'کیسے' سوچ میں پڑ گئی___!!
عباس:سرخاب کو دیکھا ڈور سے اِنٹر ہوتے ہی ارے بیٹا مجھے لگتا ہے وہ روبینہ
کی وجہ سے ناراض ہوگئی۔
زُمرد: ھمھم___ ماموں جان مجھے بھی یہی لگا۔۔! جدھر سے وہ گئی اسی طرف
دیکھتے ہوئے بولا"کچھ زیادہ ہی دل پہ لے لیا"
سکینہ"چلو بھئی اندر چلو ساری باتیں اِدھر ختم کرنے کا ارادہ ہے "یہ کہتے
ہوئے اسنے ڈرائنگروم کی طرف اشارہ کیا۔
رجب: زمرد بھائی مجھے لگا تھا آپ فل گورا اسٹائل میں آؤ گے۔۔۔۔۔۔مگر دیسی
لُک واہ واہ
سکینہ نے رجب کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ہنستے ہوئے بولی بیٹا اس شیطان کی
باتوں پر دھیان مت دینا۔
زمرد"دیسی ہے نہ ولایتی یہ ہماری قومی لُک ہے.....کیوں ممانی جان?
سکینہ"ہاں بیٹا صحیح کہہ رہے ہو"
ادھر آؤ ذرا جب میں گیا تھا تو تم صرف روتے تھے لگتا ہے اب بڑی بڑی باتیں
بھی آگئیں ہیں۔ رجب کا کان پکڑ لیا آگے بڑھا اور ڈرائنگ روم میں پڑے کاؤچ
پر براجمان ہو گیا۔ رجب کان چھڑواتے ہوئے "اور بھائی اب میں بڑا ہو گیا
ہوں"
دونوں قہقہ لگا کر ہنسنے لگے۔
شبنم: ہیلو__ بھانجے یہاں اور لوگ بھی رہتے ہیں....کیسے ہو؟زمرد'شبنم' کی
گھٹنے سے پھٹی ہوئی جینز مشکل سے بیلی کو ڈانپنے والی شرٹ دیکھ کر.....
بائیں ہاتھ کی دو انگیاں کُھولتے ہوئے ہاتھ اوپر اُٹھایا_____ ہائے چھوٹی
ممانی.........الحمدُللہ! آپ بتائیں؟
شبنم: میں بھی ٹھیک ہوں۔ 'زمرد' ڈیٹس گڈ!
اُسنے منہ دوسری طرف کیا اور بائیں ہاتھ کی چاروں انگلیوں سے کان کے پیچھے
خارش کرتے ہوئے بڑ بڑایا مما کون سے ٹرڈیشنل پاکستان کی کہانیاں سنایا کرتی
تھیں۔
سکینہ: بیٹا آپ فریش ہو جاؤ پھر مل کر ناشتہ کرتے ہیں "رجب بھائی کو کمرے
تک لے جاؤ" رجب"آئیں بھائی کمرہ دیکھاؤں" سیڑھیوں پر پہلا قدم رکھتے
زمرد: رجب ایک بات تو بتاؤ؟
رجب: سُر کے علاوہ کوئی بھی ٹاپک چلے گا۔
زمرد:رجب_____یہ غلط ہے!
رجب:جو ابھی ہوا میری توقعات سے بلکل برعکس ہے، اُسکا ری ایکشن سمجھ سے
بالا تر۔ ہونٹ دبائے سر نفی میں ہلا دیا
زمرد:لیکن مجھے سمجھ آگیا ہے۔رجب"ہیں کیا بولا؟
زمرد:فی الحال مجھے ابھی سُرخاب سے بات کرنی ہے۔
رجب" سُر اسی گھر میں رہتی ہے کسی سیارے پر نہیں۔ بھائی جلدی کریں زیادہ
دیر ہوجائے تو یہاں ناشتہ نہیں ملتا، سیدھی سچی بات ہے میں لنچ تک بھوکا
نہیں رہنا چاہتا۔ جلدی جائیں پھر دائریکٹ بات کر لیجئے گا۔وہ کمرے میں داخل
ہوئے۔ رجب کمرے سے جونہی نکلا، نوکر کو سامنے سے سامان لاتے دیکھا تو بولا
"صابر چچا سامان ادھر لے آئیں۔"
سکینہ "دروازہ نوک کرتے ہوئے دروازہ کھولو یہ کیا حرکت ہے؟ 5 منٹ کے اندر
اندر باہر آؤ اور زمرد سے معافی مانگو۔۔۔۔۔دروازے کی ناب گماتے ہوئے یہ
کیا بدتمیزی ہے تمہارے بابا کو پتہ چلا تو سخت ناراض ہونگے۔
رجب نیچے آتے ہیں "ماں چھوڑ دیں نہیں کھولے گی۔
سکینہ"ہوا کیا ہے؟ کیا بول رہی تھی "کان پکڑ کر "کیا چھپا دہے ہو؟
رجب "آپ سب کے سامنے ہوا جو بھی ہوا____کان تو چھوڑیں درد ہو رہا ہے" پھو
پھو نہیں آئی نا مما شاید اس لیے!"جاتے جاتے ہوئے کہہ گیا
سکینہ سوچ میں پڑ گئ ہاں ٹھیک ہی تو کہہ رہا ہے پیار بھی تو بہت ہے روبینہ
اور سُرخاب کا۔
<---->
عباس"کافی دنوں بعد نہاری اور پائے والا ناشتہ بنا ہے۔کرسی پر بیٹھتے ہوئے
زمرد بیٹا شروع کرو_____سکینہ بیگم سُرخاب نظر نہیں آرہی۔
سکینہ کو پہلے تو کچھ سمجھ نہیں آئی۔۔۔۔پھر کہہ دیا اسے کے سر میں درد ہے۔
عباس "شرما تو نہیں رہی؟
شیلو: اس دور میں بھی______ ایسی بیٹیاں قسمت والوں کو ملتی ہیں۔
عباس"منہ کی طرف نوالہ لے جاتے ہوئے فخریہ مسکرایہ"
شبنم"بلکل عباس بھائی بہت نرم و نازک ہے۔تقریباً صبح سے 99 چکر لان سے
ڈرائنگروم اور ڈرائنگ روم سے لان کے لگا چکی ہے۔ زمرد فورک میں کھیرے کا
ٹکڑا لگا کر گماتے ہوئے سب سے نظریں چرا کر ہنسا۔
شبنم سکینہ کی طرف دیکھ کر مسکرائی اور بولی"شیلو" ٹیبل پر چائے نظر نہیں آ
رہی"
شیلو"بیگم صاحبہ نے منع کیا ہے"
سکینہ "شیلو تم جاؤ کچھ چاہیے ہوگا تو تمھیں بلوا لوں گی۔
زمرد"ممانی جان ناشتہ بہت مزے کا ہے۔ بچپن یاد آگیا۔ جب میں ابو اور ہم سب
مل کر پائے اور نہاری کا ناشتہ کرتے تھے پلیٹ پیچھے کو دھکیل دی۔
|