سردارالانبیاء کے نواسے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ اورخاتون
جنت حضرت بی بی فاطمۃ الزہرا عنہاکے لخت جگر حضرت امام حسین ؓ کی ولادت
باسعادت5شعبان4ہجری کومدینہ منورہ میں ہوئی۔سرکاراقدس ﷺ نے آپ کے کان میں
اذان دی، منہ میں لعاب دہن ڈالا ،آپ کے لئے دعاء فرمائی ،ساتویں دن عقیقہ
کیا اورنام رکھا ۔ رسول ِ مقبول محمدمصطفی ﷺ کوحسنین کریمین سے بے پناہ
محبت تھی ،خاص کرامام حسین ؓسے خصوصی لگاؤتھا۔جس کا اظہارآپ ﷺ نے کئی بار
اپنی زبان مبارک سے فرمایا۔حضورﷺ کے ارشاد کامفہوم ہے جس نے حسین سے محبت
کی اس نے اﷲ تعالیٰ سے محبت کی۔اس لئے حضرت حسین ؓ سے محبت کرنا حضورﷺسے
محبت کرناہے اورحضورﷺ سے محبت اﷲ تعالیٰ سے محبت کرناہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں (جس کامفہوم ہے)کہ حضورﷺ مسجدمیں تشریف لائے
اورفرمایاچھوٹا بچہ کہاں ہے؟ حضرت امام حسین ؓ دوڑے ہوئے آئے اور حضورﷺ نے
ان کا منہ کھول کربوسہ لیا اورفرمایا۔ اے اﷲ! میں اس سے محبت کرتاہوں توبھی
اس سے محبت فرما اوراُس سے بھی فرما جواس سے محبت کرے۔ایک دن نبی کریم ﷺ
خاتون جنت ؓکے گھرتشریف لائے توسیدہ فاطمۃ الزاہرا نے عرض کی اباجان آج صبح
سے میرے دونوں شہزادے حسن وحسین گم ہیں اورمجھے کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں
ہیں۔ ابھی حضورعلیہ السلام نے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ حضرت جبرئیل علیہ
السلام فوراََ حاضرخدمت ہوئے اورعرض کی یا رسول علیہ السلام دونوں شہزادے
فلاں مقام پرلیٹے ہوئے ہیں اورخداتعالیٰ نے ان کی حفاظت کے لئے ایک فرشتہ
مقرر کردیا ۔حضرت زہراء سے فرما دیں کہ وہ پریشان نہ ہوں۔ پس حضور علیہ
السلام اس مقام پرگئے تودونوں شہزادے آرام فرما رہے تھے اورفرشتے نے ایک
پرنیچے اوردوسرا اوپررکھا ہواتھا۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتے نے رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں حاضری
دینے کے لئے اﷲ سے اجازت طلب کی جب وہ فرشتہ اجازت ملنے پربارگاہ نبوت میں
حاضرہوا تواس وقت حضرت حسین ؓ آئے اورحضورﷺ کی گودمیں بیٹھ گئے توآپﷺ ان
کوچومنے اورپیارکرنے لگے۔فرشتے نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ! کیا آپ حسین سے
پیارکرتے ہیں ؟ حضورﷺنے فرمایا ہاں۔اس نے کہاآپ ﷺ کی امت حسین کوقتل کردے
گی۔اگرآپ چاہیں تومیں ان کی قتل گاہ کی (مٹی)آپ ﷺ کودکھا دوں۔پھروہ فرشتہ
سرخ مٹی لایا جسے اُم المومنین اُم سلمہؓ نے اپنے کپڑے میں لے لیا اورایک
دوسری روایت میں ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا اے ام سلمہ!جب یہ مٹی خون بن جائے
توسمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین شہیدکردیا گیا۔ حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں
کہ میں نے اس مٹی کوایک شیشی میں بندکرلیاجوحضرت حسین ؓکی شہادت کے دن خون
ہوجائے گی۔
ابن سعدحضرت شعبی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی ؓ جنگ صفین کے موقع
پرکربلا سے گزررہے تھے کہ ٹھہرگئے اوراس زمین کا نام پوچھا لوگوں نے بتایا
کہ اس زمین کانام کربلاہے کربلاکا نام سنتے ہی آپ اس قدرروئے کہ زمین
آنسوؤں سے ترہوگئی۔پھرفرمایا میں حضورﷺکی خدمت میں ایک روزحاضرہوا تودیکھا
کہ آپ ﷺرورہے ہیں۔میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ فرمایا
ابھی میرے پاس جبرئیل آئے تھے انہوں نے مجھے خبردی میرابیٹاحسین دریائے
فرات کے کنارے اس جگہ شہیدکیا جائے گا جس کوکربلا کہتے ہیں۔
10محرم61ویں ہجری میں کربلا کی سرزمین پرواقعہ کربلاپیش آیا،جوتاریخ
انسانیت کا نہایت سنگین،دلخراش اورسب سے بڑاسانحہ ہے ۔جس میں امام حسینؓ (
نواسہ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اہل خاندان اورساتھیوں کوبے
جرم وخطا ،بھوک اورپیاس کی حالت میں نہایت بے رحمی اوربے دردی سے شہیدکیا
گیا۔
یزیدی وحشی فوجیوں نے صرف شہادت پرہی اکتفانہیں کیا،بلکہ اس سے بھی بڑھ
کرظلم یہ کیا کہ نعشوں پرگھوڑے دوڑائے گئے اورموسلہ کیا گیا۔"کہاجاتا ہے کہ
جن گھوڑوں سے امام حسینؓکے جسم مبارک کوپامال کیا گیاوہ عر ب کے مشہور
گھوڑے "آواجیاع"کے طورپرجانے جاتے ہیں۔ ان کی خصوصیات دیگراسٹالینز(ایک
اعلی نسل کے نر گھوڑے) سے بھی اعلیٰ ہوتی ہیں۔جب ان پرتحقیق کی گئی توایک
جرمن گھوڑوں کے ماہرکی کتاب (دُنیا کے سب سے مضبوط اسٹالینز)میں لکھاتھا کہ
اسٹالینزکی ایک خاص نسل آواجیاع کے نام سے مشہورہے۔جن کی ایک ٹاپ کاوزن
65کلوگرام ہوتاہے اوراس کامقصداس کے نیچے آنے والی چیزکوکچلنا اورپیسنا
ہوتا ہے۔جب کہ ایک اورتحقیق کے مطابق اس گھوڑے کے ایک ٹاپ کا وزن
125کلوگرام ہوتاہے۔کہاجاتا ہے کہ ایسے 10گھوڑوں کی ٹاپوں سے حسین ؓ کے جسد
اطہر کوکچلاگیاــ۔ " علامہ ابن جوزی نے "تذکرہ الخواص "میں لکھا ہے کہ آپ ؓ
کے جسم اطہرپر33زخم نیزوں کے 43تلواروں کے تھے اورپیرہن شریف پر121سوراخ
تیروں کے تھے۔یہ تمام زخم جسم مبارک کے اگلے حصے میں تھے، پشت مبارک کی
جانب کوئی زخم نہ تھا(جامع التواریخ)امام زین العابدین (ع) نے فرمایا کہ
"میرے بابا کا سینہ کچل کران کی پشت سے لگ گیا تھا۔جب میں ان کو دفن کرنے
آیا توان کے جسم کا ایک حصہ اٹھاتا تھا تودوسرا حصہ گرجاتا تھا۔
سلام ہو اس سیدالشہداء پے جس کا سرتن سے گھوڑوں کے سموں نے جدا
کیا۔سیدناامام عالی مقام شہیداعظم حسین ابن علی ؓؓنے کربلاکے میدان میں
اپنے اصحاب واقرباء کے ساتھ وہ عظیم الشان قربانی دی ،جس کی مثال تاریخ
اسلام میں نہیں ملتی۔حضرت امام حسین ؓ نے حضرت امیرمعاویہ ؓ کے بعدیزیدکی
امارت وبیعت کاانکارکرتے ہوئے اس کی اطاعت قبول نہ فرمائی اور اس کی بیعت
کوٹھکرادیا۔دین ِاسلام کی سربلندی کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے اورقیامت تک کے
انسانوں کے لئے یہ پیغام دیا کہ مومن حکومت وسلطنت ،ظلم و جبر اور طاقت
وقوت کے آگے ہتھیارنہیں ڈال سکتا۔ہرسال محرم الحرام کامہینہ ہمیں یاد
دلاتاہے کہ سیدالشہداء حضرت امام حسین ؓ نے اپنے نانا کے دین کی خاطراپنی
اولاد،اپنے پیاروں اور اپنی جان قربان کر دی۔ بے شک نواسہ رسول ﷺ ، علی کرم
اﷲ وجہہ اورسیدہ فاطمۃ الزہرارضی اﷲ عنہاکے لخت جگرکی عظیم قربانی نے اقدار
دین ِمحمدمصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کوحیات نوبخشی ۔
لٹا کے اکبر واصغر، حسین کہنے لگے
خدا کے دین! تجھے زندگی مبارک ہو
|