آج کل ہر انسان معاشر ے کی گہما گہمی میں خود سے دور اور
پریشان دکھائی دے رہا ہے۔کوئی آپنوں سے دور، کوئی معاشی بد حالی کا شکار،
اور کوئی معاشرے کی دھکوں کا شکار،بندہ خود میں سکون کی تلاش میں دکھائی دے
رہا ہے۔
انسانی زندگی اس قدر مصروف ہوگئی ہے کہ انسان کے پاس اتنا بھی وقت نہیں کہ
وہ کچھ لمحات اپنے لیے نکال کے یہ سوچے کہ اس کی زندگی کی ان پریشانیوں کی
اصل وجہ کیا ہے؟
میرا خیال یہ ہے کہ اگر ہم ہر لمحہ خدا کا شکر ادا کرنا سیکھیں اورر اس کی
نعمتوں کا شکر ادا کریں تو بہت سے مصائب اور الجھنوں سے نجات حاصل کر سکتے
ہیں
ارشاد خدا وندی ہے۔
ٰؒالا بذکراللہ تطمئین القلوب
یاد رکھو اللہ ہی کی یادسے اطمینان نصیب ہوتا ہے دلوں کو۔
شکر ادا کرنے کی عادت ہم میں نہیں اس سے نہ صرف سکون ملتا ہے بلکہ انسان کا
رشتہ اللہ سے اور مضبوط ہوجاتا ہے۔بعض دفعہ انسان اس قدر مایوس ہوجاتا ہے
کہ اسے یہ لگتاا ہے کہ ہر دوسرا بندہ اس سے زیادہ خوش اور خوش نصیب
ہے،ہمسائے کا باغ بہت سر سبز نظر آتا ہے۔بہ نسبت اس کے آپنے باغ کے۔
جب قریب جا کے دیکھتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کے باغ سے زیادہ وہ
خوبصورت کوئی باغ ہے ہی نہیں۔
اس لئے اگر ہم اپنی زندگی میں کچھ چیزوں کے نہ ہونے پر مایوس ہونے کی بجائے
جو ہمارے پاس ہیں ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا شروع کریں اور شکر ادا کرنا
سیکھ لیں تو کوئی شک نہیں کہ ہم بہت خوش اور پر سکون ہو سکتے ہیں۔دنیا کی
حرص اور ہوس کا شکار وہی ہوسکتے ہیں جو اللہ سے دور ہیں اور ان کی نعمتوں
کا شکر بجا نہیں لاتے۔
انسان اللہ سے بہت دور ہوتا ہے جب وہ دنیا کی بہتر سے بہتر چیز کو حاصل
کرنے کے لئے جنون کی حد تک جاتا ہے۔اور یہی بندہ دنیا میں بھی خوش نہیں
رہتا۔
حدیث قدسی کا مفہوم ہے
کہ اگر انسان اللہ کی چاہت کو آپنی چاہت بنا لے تو اللہ اس انسان کو وہ بھی
عطا کردے گا جو اس انسان ن کی چاہت ہے۔
اللہ اس بندے کو زیادہ پسند کرتا ہے جو اس کے نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے
اور اسے اور بھی نوازتا ہے،بے حساب اس کی سوچ سے بھی زیادہ۔
|