فائل ہاتھ میں لیے وہ روڈ پر کھڑی تھی۔۔۔ نہ جانے کتنی
بسیں اس کے سامنے سے گزر چکی تھیں لیکن وہ اسی سوچ میں گم کہ آج بھی نوکری
نہ ملی تو اگلا مہینہ کیسے گزرے گا گھر کا کرایہ، راشن اور والدین کی دوا۔۔
باپ قرضے میں ڈوبا اپنا قرضہ چکائے یا گھر چلائے۔۔ کہ اچانک بس کے ہارن نے
اس کو تخیلات کی وادی سے نکال کھینچا۔۔ بس میں بیٹھی تو سوچا کہ ایک بار
اپنے چھوٹے بھائی سے ادھار مانگ لوں نوکری ملتے ہی چکا دوں گی۔۔ کہ یاد آیا
دو دن پہلے ہی تو اپنا مدعا انکے سامنے رکھا تھا۔۔ جواب میں "صرف میری ذمہ
داری تو نہیں اور میرا اپنا گھر بھی ہے "سننے کو ملا تھا۔۔۔ پھر سوچا گھر
کے سب سے بڑے بیٹے سے ادھار کی صورت رقم مانگ لیتی ہوں پر وہ بھول گئی تھی
کہ انہوں نے تو کب سے ہی لاتعلقی کا اعلان کر دیا تھا۔۔ جب یاد آیا تو
کانوں میں آواز گونجی کسی نے اسکو کہا تھا کہ تم بہت خوش نصیب ہو تمہارے دو
دو بھائی ہیں ۔۔۔
وہ رو کر خود سے کہنے لگی واقعی بہت خوش نصیب ہوں ۔۔
|