ڈاکٹر غلام شبیر ر انا
سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ نے جدید دور میں فکر و نظر کی کایا پلٹ دی ہے
۔ بیسویں صدی کے دوران میں مغربی تنقید نے روشنی کا جو سفر طے کیا ہے اس
کااہم پہلو یہ ہے کہ اس عرصے میں ادب میں جمود کاخاتمہ ہوا اور افکار تازہ
کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب سفر کرنے کی روش پروان چڑھی ۔ تنقید کی
مثال ایک بڑھتے اور ٹھاٹیں مارتے ہوئے دریا کی سی ہے جس میں سے مختلف اوقات
میں تنقیدی دبستانوں کی صورت میں کئی نہریں نکالی گئیں تا کہ اذہان کی
تطہیر و تنویر کو یقینی بناتے ہوئے گلشن ادب کو سیراب کیا جا سکے ۔سیلِ
زماں کے تھپیڑوں اور کٹھن مسافت کے باعث فکر و خیال و اظہار و ابلاغ اور
نقد و نظر کی ان نہروں کی روانی بہت متاثر ہوئی ۔ وادی ٔ خیال اور مرغزار
تخلیق و تحقیق کو سر سبز و شاداب رکھنے کی خاطر ان نہروں کے حیات افزا شفاف
پانی کو یک جا کرنے کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔ دیار مغرب میں مقیم اہل
علم و دانش کی کاوشوں سے تھیوری کے متعد نئے ماڈل سامنے آ ئے ہیں۔ مغربی
نقادوں نے بالعموم تخلیق کار ، تخلیق اور قاری کے ربط پر اپنی توجہ مرکوز
رکھی ۔ تخلیقی فعالیت کے دوران میں ہر زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار کی
یہی تمناہوتی ہے کہ وہ خون بن کر رگِ سنگ میں اُتر جائے ۔ یہ ایک مسلمہ
صداقت ہے کہ قاری کا ردِ عمل تخلیقی عمل کو مہمیز کرتا ہے ۔ حیران کن بات
یہ ہے کہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ سب ماڈل باہم مربوط ہیں ۔ان کے ربط ِ
باہم اور انسلاک کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی
ہے کہ ایک اجتماعی نو عیت کا تنقیدی روّیہ نمو پا رہا ہے ۔تھیوری کے مختلف
ماڈلز کے باہم اشتراک و انسلاک کے معجز نما اثر نے جس تنقیدی روّیے کو
مہمیز کیا ہے اسے امتزاجی تنقید سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
کلاسیکی دور میں بھی ادبی محفلوں میں مختلف ادیبوں کے ادب پاروں پر بحث و
مباحثہ کا سلسلہ جاری ر ہتاتھا۔ادبی نشستوں میں تخلیقی فن پارے کے بارے میں
قارئین کی تحسین و تنقید کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔پرِ زمانہ
کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ پرواز نُور سے بھی کہیں بڑھ کر تیز ہے
۔جدید دور تک پہنچتے پہنچتے یہ روّیہ پختہ تر ہوگیا اور اب تنقید نے قارئین
ِادب کے ردِ عمل کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیاہے ۔اظہار و ابلاغ کے
سلسلے میں ادب کے سنجیدہ قارئین کی رائے اور طرزِ عمل کو تنقید کے ہر
دبستان نے چشم کشا صداقتوں کا امین سمجھا ہے ۔اس فکر پرور طرز ِ عمل کو
امتیازی تنقید کے اولین نقوش سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔تخلیق ادب کے ہر مر حلے
پر قاری اپنی موجودگی کا اثبات کرتا ہے ۔اسی بنا پر بعض دُور اندیش نقاد وں
نے آنے والے دور میں نقدو نظر کی کیفیت کی دُھندلی سی اِک تصویر دیکھ کر یہ
نتیجہ اخذ کیا کہ اکیسویں صدی میں تخلیق ِادب کے حوالے سے قارئین کے ساتھ
تخلیق کار کا تعلق مستحکم تر ہوتا چلا جائے گا۔اس طرح امتزاج و انضمام کے
متعددنئے در وا ہوتے چلے جائیں گے اور نئے آفاق تک رسائی کی صورت پیدا ہوگی
۔مغربی ممالک میں مقیم علم و ادب سے وابستہ دانش وروں میں اس بات پر عمومی
اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ آنے والے دور میں دوسرے تنقیدی دبستانوں کو
ساتھ لے کر چلنے والی امتزاجی تنقید ہی علم و ادب میں مقیاس العمل قرار
پائے گی۔
جدید دور میں علوم و فنون کی وسعتوں میں جو محیر العقول اضافہ ہوا ہے اس کے
تخلیق ادب پر دُور ر س اثرات مرتب ہوئے ہیں۔آج کے دور میں تخلیقی فن کار
کوہ سے لے کر کاہ تک ہر چیز پر گہری نظر رکھتا ہے ۔ تیزی سے بدلتے ہوئے
حالات میں جہاں تنقید کی ضرورت ،اہمیت و افادیت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا
ہے وہاں اس کا دائرۂ کار بھی لا محدود ہو گیا ہے ۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ
علوم و فنون کی حدیں سرحدِ ادراک سے بھی پر ے ہیں۔ تنقید نے ادیان ِ عالم ،
علم و ادب ،تہذیب و ثقافت، سماج و معاشرت ، نفسیات ،طبیعات ،مابعد الطبیعات
،علم بشریات،وجودیت،مظہریت،ورائے واقعیت ،فلکیات ،تاریخ اور تحقیق کا کوئی
بھی دبستا ن اس قدر استطاعت نہیں رکھتا کہ وہ تنہا عصر ی آ گہی سے وابستہ
مسائل کا احاطہ کر سکے ۔ آج تنقید ی نظریات میں انقلاب آگیاہے اور یہ قطرے
میں دجلہ اور جزو میں کُل دِکھانے کی داعی ہے ۔ان حالات میں امتزاجی تنقید
کو تازہ ہوا کے ایک جھونکے کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے ۔امتزاجی تنقید نے
تنقید کے دوسرے دبستانوں کے پہلو بہ پہلو نیا زمانہ اور نئے صبح و شام کی
تخلیق کی راہ دکھائی۔امتزاجی تنقید نے اقتضائے وقت کو سمجھتے ہوئے معاصر
ادبی تھیوری کے بارے میں جو موقف اپنایا اسے وقت کا اہم تقاضا سمجھا جاتا
ہے ۔امتزاجی تنقید نے فکری جمود اور یکسانیت کے خاتمے پر زور دیا اور تنقید
کے مختلف دبستانوں کے امتزاج سے ایسا دھنک رنگ منظر نامہ مرتب کرنے کی راہ
دکھائی جس کا کرشمہ دامن ِ دل کھنچتاہے ۔
نو آ بادیاتی دور کے لرزہ خیز اعصاب شکن حالات میں ہمارے ہاں المیہ یہ رہا
ہے بلند پروازی کی مظہر عقابی روح رفتہ رفتہ عنقا ہوتی چلی گئی ۔ تنقید کے
شعبہ میں ہم لکیر کے فقیر بن گئے اور اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھا کر
لوحِ جہاں پر اپنادوام ثبت کرنے والے رجحان ساز نقاد کم کم دکھائی دئیے ۔ان
مسموم حالات میں مکتبی تنقید نے عجب گُل کھلائے ۔اس کے بعدپس نو آ بادیاتی
دورمیں اکثر نقادوں نے معاصر ادبی تھیوری کا غیر محتاط اور سر سری مطالعہ
کرنے کے بعددنیابھر میں مروّج و مقبول ادبی نظریات کے بارے میں جو معلومات
فراہم کیں وہ انتہائی سطحی نو عیت کی تھیں ۔ان کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو
جاتی ہے وہ اپنی تجزیاتی صلاحیتوں کو رو بہ عمل لانے میں کامیاب نہ ہو سکے
۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاصر ادبی تنقیدکے معائر میں بلندی کے امکانات
معدوم ہونے لگے ۔اس کے نتیجے میں ادبی تھیوری میں بھی جہانِ تازہ کی جھلک
کہیں دکھائی نہ دی ۔ ایک زیرک تخلیق کارگل دستہ ٔ معانی کو نیاآہنگ عطاکر
کے اسے نئے ڈھنگ سے باندھنے پر قادر ہوتا ہے ۔اس کا یہ انداز جہاں زبان و
بیان پر اس کی خلاقانہ دسترس کا آ ئینہ دار ہوتا ہے وہاں یہ اس امر کی بھی
دلیل ہے کہ روح اور قلب کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آ فرینی
سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی
ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ ایک پھول کی لفظی مرقع نگاری کرتے وقت منفرد اسالیب
کے مظہر سیکڑوں رنگ پیشِ نظر رکھتا ہے ۔ امتزاجی تنقید دوسرے تنقیدی
دبستانوں کے اشتراک ِ عمل سیتخلیق او راس کے پسِ پردہ کارفرما لا شعوری
محرکات کاجائزہ لینے کے بعد ان عوامل کا تعین کرتی ہے جن کے زیر اثر کوئی
فن پارہ منصۂ شہود پر آتا ہے ۔ امتزاجی تنقید متن کی تفہیم پر اپنی توجہ
مرکوز رکھتی ہے ۔ جہاں تک ادب پارے کے متن کی تفہیم کا تعلق ہے امتزاجی
تنقید میں اس بات کا اہتمام کیاجاتا ہے کہ چونکہ ایک سخن چار چار سمتیں
رکھتاہے اس لیے گنجینہ ٔ معانی کے طلسم کی گرہ کشائی کے لیے کئی سمتوں سے
متن کی جانب پیش قدمی ناگزیر ہے ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تنقید کے مختلف دبستانوں کی باہم
آمیزش سے کسی واضح اور قابل عمل نتیجے تک رسائی ایک کٹھن مرحلہ ہے ۔یہ بھی
ایک مسلمہ صداقت ہے کہ بلند ہمت اور پر عزم دانش ور جانتے ہیں کہ حیاتِ
جاوداں کا راز ستیز میں پنہاں ہے ۔ا س لیے ان کی خطر پسند طبیعت ہر نا ممکن
کو ممکن بنانے کی ٹھان لیتی ہے ۔وہ تخلیق کار،تخلیق اور قاری کی مثلث کو
زادِ راہ بناتے ہوئے سدا جہانِ تازہ کی جانب رواں دواں رہنے پر اصرار کرتے
ہیں۔ تخلیق کار،تخلیق اور قاری کے ربط باہمی سے تخلیقی فعالیت کے نظام کو
منضبط شکل عطا کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرناامتزاجی تنقید کا نمایاں وصف
سمجھا جاتاہے ۔بادی النظر میں یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ تخلیق کار ،تخلیق
اور قاری کی جولاں گاہ کااحاطہ کرنا امتزاجی تنقید کا اہم ترین نصب العین
رہاہے ۔ٍادب میں مروّج و مستعمل مختلف نو عیت کے تنقیدی نظریات کی مثال
اینٹوں کی سی ہے جن کے ربط باہمی سے تنقید کا قصر عالی شان تعمیر ہوتاہے
۔امتزاجی تنقید نے تنقید کے مختلف دبستانوں کے بنیاد گزاروں کے خیالات سے
بھی بھر پور استفادہ کیا ہے ۔ امتزاجی تنقید کے بنیاد گزار اس امر پر اصرار
کرتے ہیں کہ کسی بھی ادبی تخلیق سے مطالب و معانی کے گہر ہائے آ ب دار تلاش
کرنے کے لیے اس کے خارجی محاسن کے بجائے اس کے داخلی معدن کی جستجو ناگزیر
ہے ۔تخلیق کامحض سطحی مطالعہ کرنے کے بجائے اس کی غواصی پر توجہ دی جائے تا
کہ اس کی تہہ میں موجود گنجینہ ٔ معانی تک رسائی کو یقینی بنایا جا سکے
۔اردو زبان کے مقبول شاعر اور نقادرام ریاض(ریاض احمد شگفتہ :1933-1990) نے
گہرے سُروں میں عرض ِ نوائے حیات کرتے ہوئے سچ کہا تھا:
کس نے پہلا پتھر کاٹا پتھر کی بنیاد رکھی
عظمت کے سارے افسانے میناروں کے ساتھ رہے
مختلف تنقیدی نظریات کے امتزاج کو نہ صرف تنقید بل کہ علم و ادب کے فروغ کے
لیے بھی ایک نیک فال سمجھنا چاہیے ۔ پاکستان میں ڈاکٹر وزیر آغا
(1922-2010)نے امتزاجی تنقید کورو بہ عمل لانے کی مساعی کو مہمیز کیا
۔ڈاکٹر وزیر آغا کی ادارت میں شائع ہونے والے رجحان ساز ادبی مجلہ ’’ اوراق
‘‘میں ایسی تنقیدی تحریریں شائع ہوتی رہیں جن میں تہذیبی ،ثقافتی،عمرانی
،تاریخی ،نفسیاتی اور ساختیاتی تنقید سے استفادہ کیا گیا۔عالمی کلاسیک سے
وابستہ تنقیدی دبستانوں سے اخذ و استفادہ کے سلسلے میں پاکستانی نقاد محمد
حسن عسکری(1919-1978) اور پروفیسر وارث علوی(1928-2014) کا نام بھی قابل
ذکر ہے ۔ اردو تنقید میں ڈاکٹر حامدی کاشمیری (1932-2018) نے بالعموم تخلیق
کو مرکز ِ نگاہ بناتے ہوئے ہئیتی تنقید کوقدر کی نگاہ سے دیکھا ہے مگر اس
کے ساتھ ہی اپنی تنقیدات میں انھوں نے تخلیقی عمل پر اثرانداز ہونے والے لا
شعوری محرکات کا جائزہ لینے کی بھی بات کی ہے جو امتزاجی تنقید کی پہچان ہے
۔ جدید دور میں ادبی تنقید کا دائرہ بہت وسیع ہو چکا ہے اور اب کسی خاص
نظریے کے حصار سے باہر نکل کر بدلتے ہوئے حالات پر نظر ڈالنے کا رجحان
تقویت پانے لگا ہے ۔آج تنقید میں مضامینِ نو کے جو انبار دکھائی دیتے ہیں
وہ تاریخ، علم الکلام ، فلسفہ ،علم بشریات،نفسیات،عمرانیات ،لسانیات ،تہذیب
و ثقافت ،تمدن و معاشرت سے منسلک مختلف تنقیدی دبستانوں کی بین الشعبہ جاتی
خوشہ چینی کا ثمر ہے ۔ بھارت کے ممتاز ادبی تھیورسٹ شمس الرحمٰن فاروقی نے
اپنی تنقیدات میں بالعموم ہئیتی تنقید کو لائق اعتنا سمجھا ہے ۔اس کے ساتھ
ساتھ وہ اپنی تحقیق و تجزیہ کی ثقاہت کو یقینی بنانے کی غرض سے جن تنقیدی
دبستانوں سے مستفید ہوتے رہتے ہیں ان میں نفسیاتی،لسانی ،معاشرتی ،عمرانی
اور فلسفیانہ تنقید شامل ہیں ۔ پاکستان میں جن ممتاز نقادوں نے امتزاجی
تنقید کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس کے فروغ میں انہماک کا مظاہرہ کیا
ان میں احمد تنویر ،احمد بخش ناصر ، ارشاد گرامی، اسحاق ساقی ، اکمل بخاری
، اسماعیل صدیقی ، اطہر ناسک ،رحیم بخش شاہین، امیر اختر بھٹی ،بشارت خان
،بشیر سیفی ،حسرت کا س گنجوی ، خادم مگھیانوی ، خیر الدین انصاری، سجاد
حسین ، سمیع اﷲ قریشی ، صابر کلوروی ،صابر آفاقی ، صفدر سلیم سیال ، عاشق
حسین فائق ،عطا شاد ،گدا حسین افضل ،دیوان احمد الیاس نصیب،دانیا ل طریر ،
محمد فیروز شاہ ، محسن بھوپالی ، مظہر اختر ،شفیع ہمدم ، شفیع بلوچ،نثار
احمد قریشی اور فیض محمدخان کے نام قابل ذکر ہیں ۔ مغربی ممالک میں جہاں
ادبی تھیوری نے ایک کثیر النوع صورت اختیار کر لی ہے وہاں صحت مندتخلیقی
فعالیت کے لیے تقلید کی روش کو انتہائی مہلک سمجھا جاتا ہے اور وہاں کے
دانش ور سدا اپنی دنیا آ پ پیدا کرنے کی جستجو میں مگن رہتے ہیں ۔تنقید کے
مختلف دبستانوں کے امتزاج کو جدت کا مظہر ایک منفرد زاویۂ نگاہ سمجھا جاتا
ہے ۔مثال کے طور پر اسطوری تنقید کے ساتھ ساختیاتی تنقید کاامتزاج فکر و
خیال کی دنیا میں متعدد نئے امکانات کا آ ئینہ دار ہے ۔زندگی کی برق
رفتاریوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ادبی تھیوری کے ماڈل بھی نت نئی صورت
اختیار کرنے لگے ہیں۔باطن ِایام پر گہری نظر ر کھنے والے نقاد اور دانش ور
اس حقیقت سے آ گاہ ہیں کہ قوسِ قزح کے حسین رنگوں سے مزین ادبی تھیوری کے
یہ ماڈل در اصل جن اجتماعی تنقیدی روّیوں کا اندازلیے ہوئے ہیں ان کی بنا
پر انھیں امتزاجی تنقید قرار دیا جا سکتا ہے ۔
عالمی ادب میں بھی اب انتہا پسندی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کا سلسلہ
شروع ہو چکا ہے ۔یہاں تک کہ متعدد شدت پسندمارکسی نقاد بھی اپنے خیالات سے
رجوع کرنے پر مائل ہو گئے ۔اس قسم کی مثالیں اس حقیقت کی غماز ہیں کہ آنے
والے دور میں تنقید میں اخذ و ستفادہ اور امتزاج کاغیر مختتم سلسلہ شروع
ہونے والا ہے ۔آ لتھیوسر جب اپنی کتاب ’’Reading Capital‘‘ لکھ رہا تھا
،اُسے اپنے شاگرد پئیر ماشیرے کی مشاورت حاصل ر ہی ۔ اس کتاب کے سنسنی خیز
تجزیات سے فرانس میں فکر ی جمود اور تنقیدی اضمحلال کا خاتمہ ہوا اور عالمی
سطح پر اسے جو پزیرائی ملی وہ اپنی مثال آ پ ہے ۔ اس معرکہ آرا کتاب کا
انگریزی ملخص سال 1970میں شائع ہوا جو آلتھیوسر اور فرانسیسی فلسفی بالی
بار (Étienne Balibar)کے تجزیات پر مشتمل ہے ۔اس اہم تنقیدی کتاب کا مکمل
انگریزی ترجمہ جولائی 2016 میں ورسو کتب( Verso Books ) لندن کے زیر اہتمام
شائع ہوا ۔اس اشاعت میں پہلے شائع ہونے والے ملخص کے ساتھ ساتھ راجر
ایسٹبلٹ( Roger Establet)، پئیر ماشیرے (Pierre Macherey)، اور جیکوئس
رئینسئیر (Jacques Rancière) کے مقالات بھی شامل ہیں ۔ پئیر ماشیرے نے ادبی
و بر اعظمی تھیوری، پس ساختیات اور ما رکسزم کے بارے میں اپنے بصیر ت افروز
خیالات سے فرانس میں قارئین ادب کو بہت متاثر کیا ۔پس ساختیاتی فکر سے تعلق
رکھنے والے جن ممتاز ادیبوں نے پئیر ماشیرے سے گہرے اثرات قبول کیے ان میں
اس کا معاصر ژاک دریدا(Jacques Derrida) اور ٹیری ایگلٹن(Terry Eagleton)
شامل ہیں ۔جر من فلسفی ہیگل ( Georg Wilhelm Friedrich Hegel) اور ولندیزی
فلسفی سپائی نوزا (Baruch Spinoza)کے افکارپر پئیر ماشیرے کا انتہائی محنت
اور لگن سے کیا جانے والا تحقیقی کام اس کے ذوقِ سلیم کا مظہر ہے ۔پئیر
ماشیرے نے ہیگل (1770-1831)اور سپائی نوزا (1632-1677)کا عمیق مطالعہ کیا
اور فلسفہ کے بارے میں ان کے عظیم شعور کی تفہیم کی سعی کی۔اس نے فلسفہ کو
ایک ایسے دشواراورتوجہ طلب مجموعی اتفاق سے تعبیر کیا جو سب اتفاقات سے
سبقت لے جاتا ہے ۔دانائے راز خرد کی گتھیاں تو سلجھا لیتے ہیں مگر فلسفے کی
بھول بھلیاں اکثر انھیں سرابوں کی بھینٹ چڑھا دیتی ہیں ۔ ہر پیغام تک رسائی
کے لیے ایک کوڈ مقرر ہے مگر فلسفہ کے عکس ایسے پیغامات کے آ ئینہ دار خیال
کیے جاتے ہیں جن کا کوڈ بھی کوہِ ندا کی صدا ثابت ہوتا ہے ۔اپنے تحقیقی و
تنقیدی مقالات میں اس نے اُس گہرے تعلق پر اپنی توجہ مرکوز رکھی جو ادب
،سیاسیات،فنون لطیفہ،عمرانیات،علم بشریات ،سماجی علوم اور فلسفہ میں پایا
جاتا ہے ۔بعض محققین کا یہ دعویٰ ہے کہ فرانسیسی فلسفی اور ادبی تھیورسٹ
رولاں بارتھ(Roland Barthes) نے سال 1967 میں ’’مصنف کی موت ‘‘ (The Death
of the Author)کے موضوع پر جن مباحث کا آغاز کیا تھا ،اُس سے دو سال قبل
پئیر ماشیرے اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کر چکا تھا ۔ پئیر ماشیرے کی
مقبول تصانیف درج ذیل ہیں :
1.A Theory of Literary Production (2006) ,2 Hegel or Spinoza (2011), 3.
In a Materialist Way (1998)
4.Cultural Theory and Popular Culture (2006), 5. The Objects Of
Literature (1995),
سال 1965میں شائع ہونے والی پئیر ماشیرے کی تصنیف ،، Reading Capital ،، اس
لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں مصنف نے انسان شناسی ، فلسفہ عینیت، ہیگل کے
تصورات اور تاریخ کے مسلسل عمل کے موضوع پر چشم کشا صدقتوں کا احوال بیان
کیا گیا ہے ۔سال 1998 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’’ In a Materialist
Wayِِ ِِ ‘‘میں پئیر ماشیرے نے ادبی تنقید اور فلسفہ کے حوالے سے اہم
مقالات شامل کیے ہیں۔اس کتاب میں پئیر ماشیرے نے اپنے استاد اور مارکسی
نقاد آلتھیوسر (مارکسی نقا دلوئیز آ لتھیوسر ( :1918-1990 Louis Althusser)
مارکسزم کی روشنی میں جن ممتاز فلسفیوں کے افکار کے تجزیہ پر اپنی توجہ
مرکوز رکھی ہے ان میں سپائی نوزا، ژاک لاکاں ،مشل فوکاں،اور جارجیس
کانگلیہم(Georges Canguilhem)شامل ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایم۔اے
کی سطح پر پئیر ماشیرے نے سپائی نوزا کی سیاست اور فلسفہ پر جو مقالہ
تحریرکیا ،اس کا نگران بھی فرانسیسی ماہر علم بشریات،معالج اور فلسفی
جارجیس کانگلیہم (1904-1995) تھا ۔ اپنے آلتھیوسرین ہم نواؤں ایٹینی بالی
بار ( Etienne Balibar) اور جیکوئس رانسیر(Jacques Rancière)کے ساتھ مِل کر
پئیر ماشیرے نے سیاسیات، ادب، معیشت، فلسفہ ،عمرانیات ، مارکسزم اور
ساختیات پر قابل قدر کام کیا ۔ پئیر ماشیرے نے آلتھیوسر کے افکار میں پنہاں
مارکسزم اور سا ختیات کے مثبت پہلو سامنے لانے کی کوشش کی جب کہ جیکوئس
رانسئیرنے آلتھیوسرسے اختلاف کے پہلو تلاش کر لیے ۔ یہی اختلاف بارش کا
پہلا قطرہ ثابت ہوا اور حریت فکر و عمل کی مشعل تھام کر دیگر تنقیدی
دبستانوں کے امتزاج سے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے اوروشنی کے نئے سفر کا
آغاز ہوا ۔ اخلاقیات کے موضوع پر سپائی نوزا نے جو وقیع کام کیا ہے اُس کو
پئیر ماشیرے نے پانچ جلدوں میں پیش کیا ہے ۔ اپنے عہد کے ممتازجرمن فلسفی
فیر باچ ( Ludwig Feuerbach) اور فرانسیسی فلسفی کو میٹ (Auguste Comte) پر
پئیر ماشیرے کی تحقیق ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ نظریاتی لچک دکھانے والے اس
نقاد کی نکتہ آفرینی نے امتزاجی تنقید کے نئے مباحث کے لیے راہ ہموار کر دی
۔مارکس کے حوالے سے پئیر ماشیرے نے مادی جدلیات اورمتن کے علامتی مطالعہ پر
اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پئیر ماشیرے کے افکا ر کے
مطالعہ کے بعد ماضی سے تعلق رکھنے والے تناقضات کے مظہر لائحۂ عمل اور نئی
مخاصمت کے مابین پُل کی تعمیر ممکن نہیں۔اس نے با لعموم روزمرہ سے تعلق
رکھنے والے غیرحقیقی اور خیالی معاملات کو مدِ نظر رکھا ہے ۔ اس کے متعدد
فکری مغالطے اپنی جگہ کے مگراس نے آلتھیوسر کے ساتھ اپنی طویل وابستگی کو
بھی لائق اعتذار خیا ل نہیں کیا ۔ اس کے مداحوں کا موقف یہ ہے کہ پئیر
ماشیرے کا نام اگرچہ آلتھیوسر مارکسزم کے سر گرم حامی کے طور پر لیا جاتا
ہے مگر اس نے پس ساختیات کے موضوع پر جن خیالات کا اظہارکیا وہ تاریخ ادب
میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ جب بھی فلسفہ و حکمت، فکر و دانش اور فہم و
فراست کے ارتقا کی تاریخ لکھی جائے گی اس میں حریت فکر کے جذبات کی نمو
،حرفِ صداقت کی جستجو ، تنقید و تحقیق کی آ رزو کی روایت کی بحالی اور
زندگی کی اقدار عالیہ کے تحفظ کی تمنا اور روشن مستقبل کے خوابوں کی تعبیر
تلاش کر نے کی جد و جہد میں امتزاجی تنقید کے مظہر پئیر ماشیرے کے اس وقیع
تحقیقی کام کوپیشگی شرط کی حیثیت حاصل ہو گی ۔
آلتھیوسر کے نظریۂ علم اور آلتھیوسرین مارکسزم کو اہم ترین استفسارات کی
شکل دے کر پئیر ماشیرے نے جس طرح اپنی انفرادیت کا ثبوت دیا وہ امتزاجی
تنقید کی جانب پیش رفت کی مثال ہے ۔ اس کے اسلوب میں مادیت کی کرختگی کے
باوجود دانش ورانہ سوچ پر مبنی بلند پروازی کی مظہر وسعت تخیل قابل قدر ہے۔
اس نے ادبی تھیورسٹ کے منصب پر فائز ہو کر تنقیدی نوعیت کی تحلیل و تجزیہ
پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے فلسفہ کے مروّجہ انداز اپنانے میں گہری دلچسپی
لی۔حریت فکر کے علم بردار اس فلسفی کا ذہن پوری قوت سے تشریح و توضیح کی
قدر ت رکھتا ہے ۔ پئیر ماشیرے کے خیال میں متن کو ایک آزادانہ تخلیقی
فعالیت یا خود انحصاری کی استعداد سے متمتع ادب پارے کی حیثیت سے نہیں
دیکھناچاہیے۔اپنی نوعیت کے اعتبار سے ادب ایک پیداوار(Product) ہے جس میں
نوائے سروش ہی صریرخامہ کے رُوپ میں منصۂ شہود پر آ تی ہے ۔سال 1966میں
پئیر ماشیرے کی پیرس سے فرانسیسی زبان میں شائع ہونے والی مستحکم اور
پائیدار خیالات کی حامل ادبی تنقید کی کتاب ’’A Theory Of Literary
Production ‘‘ کو پئیر ماشیرے کے نظریاتی سفر میں سنگِ میل کی حیثیت حاصل
ہے ۔تخلیق ادب میں راہ پا جانے والے فکری جمود بالخصوص بائیں بازو سے تعلق
رکھنے والے ادبی حلقوں کے لیے یہ کتاب ایک زبردست برقی جھٹکا ثابت ہوئی۔جب
سال 1978میں اس کتاب کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا توپئیر ماشیرے کی مقبولیت
میں بہت اضافہ ہوا ۔ اس کا خیال ہے کہ مطا لعۂ ادب میں قاری کا کردار کلیدی
اہمیت کا حامل ہے ۔ پئیر ماشیرے نے مصنف کی نسبت قاری کو اس لیے زیادہ اہم
قرار دیا کہ یہ قاری ہی ہے جو قلزم ِ ادب کی غواصی کر کے معانی و مفاہیم کے
لعل و جواہر بر آ مد کرتا ہے ۔ پئیر ماشیرے متن کو ایک ایسی پیداوار قرار
دیتا ہے جس کی ترتیب و تشکیل متعدد ارکان کی مرہونِ منت ہے ۔ ایک زیرک
،فعال اور مستعد تخلیق کار کی مساعی کے نتیجے میں تخلیق فن کے لمحوں میں
متن کے پیہم رواں پیداواری عمل کے دوران اس کے اجزائے ترکیبی میں تغیر و
تبدل کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ اس کتاب میں مارکسی تنقید کی جارحانہ انداز
کی مظہر تاثیریت کا ایک الگ اور حیران کن رنگ سامنے آ یا۔اپنے نادر
موضوعات، چونکا دینے والے مندرجات اور فکر پرور مشمولات کے لحاظ سے یہ کتاب
گہری معنویت کی حامل سمجھی جاتی ہے ۔معاصر ادب کے ممتاز نظریہ ساز نقاد کی
حیثیت سے پئیر ماشیرے نے الفاظ کے داؤ پیچ اور اظہار و ابلاغ کے حربے اس
مہارت سے استعمال کیے ہیں کہ سُبک نکتہ چینی کے عادی حرف گیروں کو چاروں
شانے چِت کر دیا ہے ۔پئیر ماشیرے کے استدلال کا ہم پہلو یہ ہے کہ متن کے
اجزائے ترکیبی کو قائم بالذات نہیں سمجھنا چاہیے ،جنھیں شعوری کاوشوں اور
منضبط طریقِ کار سے کسی واحد تاثر کے حامل ادب پارے میں ڈھالا جا سکے ۔وہ
اس جانب متوجہ کرتا ہے کہ تخلیقی فعالیت کے دوران میں وقوع پذیر ہونے والے
پیداواری عمل میں متن کے اجزائے ترکیبی عملی طور پر اپنا حصہ ڈال رہے ہوتے
ہیں تومتن بھی اپنی حقیقت کا شناسا نہیں ہوتا۔ قلب اور روح کی اتھاہ
گہرائیوں میں اُترکر پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوانے والا
منفرداسلوب
قاری کو پُور ی طرح اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔
آلتھیوسر کی رفاقت میں بیس برس گزارنے کی بنا پر پئیر ماشیرے کا شمار سپائی
نوزا کے افکار کی تشریح کرنے والے اہم ترین دانش وروں میں ہوتا ہے۔ ہیگل نے
سپائی نوزا کی حمایت یا تقلید کرنے کے بجائے اپنی ایک الگ راہ نکالنے کی
کوشش کی ہے ۔ سپائی نوزا کی قدر ومنزلت اور اہمیت کو کم کرنے کے لیے ہیگل
نے جو غیر ضروری ،بلاجواز اور غیر معمولی سعی کی وہ خو داس کے لیے بھی سُود
مند ثابت نہ ہو سکی اور ہیگل کے اسلوب کی ناقابل برداشت خامیاں کُھل کر
سامنے آ گئیں ۔ امتزاجی تنقید کو اپنے افکار کی اسا س بنانے والے مفکر پئیر
ماشیرے کا خیال ہے کہ ہیگل اور سپائی نوزا کے فکری اختلاف کا اہم اور
بنیادی نکتہ فلسفہ غایت ہے اور ہیگل کے مطالعات اس قدر کم زور اور ناقص ہیں
کہ وہ سپائی نوزا کے افکار کی داخلی تحریک تک رسائی کی ا ستعدادسے یکسر
محروم ہیں ۔ پئیر ماشیرے نے ہیگل اور سپائی نوزا کے افکار میں پائے جانے
والے فر ق کو باطنی کیفیات اور جد لیات کے تناظر میں دیکھنے کی سعی کی ہے ۔
جہاں تک تاریخ کی سمت اور جہات کا تعلق ہے وہ ا ٓ لتھیوسر کے اس موقف کا
حامی ہے کہ رخشِ حیات کی روانی پیہم جاری رہتی ہے اور سیلِ زماں کے مہیب
تھپیڑے کسی قسم کے اہداف، منزل ِمراد ،اُمنگوں اور تمناؤں کو خاطر میں نہیں
لاتے ۔ پئیر ماشیرے نے ہیگل اور سپائی نوزا کے افکار میں پائے جانے والے
تضادات پر اپنا حقیقت پر مبنی موقف نہایت صراحت اور جرأت سے پیش کیا ہے ۔
اس نے واضح کیا ہے کہ جہاں تک تمامی مسائل اور فلسفۂ غایات کا تعلق ہے اس
کا سپائی نوزا حتمی نقاد ہے جس کے اقوال کو درجۂ استناد حاصل ہے ۔ اس کا
خیال ہے کہ ہیگل عین اس وقت سپائی نوزا سے فکری انحراف پر مبنی غداری اور
مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتا ہے جب ان کی مشترکہ فکری میراث کی گرہ کشائی کے
امکانات پیدا ہوتے ہیں۔
روشنی کے سفر میں امتزاجی تنقید کبھی تنہانہیں رہتی بل کہ حریت فکر و عمل
کو زادِراہ بنا کر تنقید کے دوسرے دبستانوں کے ساتھ مل کر جہانِ تازہ کی
نمود کے امکانات کی طرف توجہ مرکوز رکھنا ہمیشہ اس کا نصب العین رہا ہے
۔امتزاجی تنقیدایک ایسے زاویۂ نگاہ سے عبارت ہے جس کااہم اور نمایاں وصف
جبر کاہر انداز مسترد کرتے ہوئے فکر و خیال پر چھائی حبس کی مسلط کردہ
گھٹاؤں سے گلوخلاصی حاصل کرناہے ۔ایک جری تخلیق کار کے لیے حریت ِضمیر سے
جینا بہت اہم سمجھا جاتا ہے ۔امتزاجی تنقید نے اس مقصد کے حصول کے لیے
مضبوط بنیاد فراہم کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے ۔آزادانہ ماحول میں رہتے
ہوئے ،حق گوئی و بے باکی کو شعار بناتے ہوئے اور جرأت مندانہ انداز میں
پرورش لوح و قلم کو اپنا مطمح نظر بناناامتزاجی تنقید کا مدعا ہے ۔یہ بات
اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ امتزاجی تنقید کسی بھی تنقیدی دبستان
یا کسی خاص نظریے کی مطیع یا تابع نہیں بن سکتی۔پامال راہوں سے بچتے ہوئے
،نئے زمانے کے انداز کو پر کھتے ہوئے اور معاصر تنقیدی دبستانوں کے امتزاج
سے تخلیقی فعالیتوں کے لیے سازگار ماحوال پیدا کرنا امتزاجی تنقید کا
مرہونِ منت ہے ۔جدید دور میں امتزاجی تنقید نے اپنی ہمہ گیر اثر آفرینی
،وسعت نظر اور حریت فکر و عمل کی بنا ایک عالم کو اپناہم نوا بنا لیا ہے ۔
امتزاجی تنقیدنے جو طرزِ ادااپنا ئی ہے اسے مزید پزیرائی ملے گی اور اشتراک
،انجذاب اور امتزاج کوسکۂ رائج الوقت کی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔
ہیں ربط باہمی سے قائم نظام سارے
پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں
|