اے سی کے بغیر گھر ٹھنڈا رکھنے کے طریقے

موسمیاتی تبدیلی پوری دنیا کے لیے موضوع فکر ہے۔ زمین کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کہیں گلیشیئر پگھل رہے ہیں تو کہیں جنگلوں میں آگ لگ رہی ہے۔
 

image


گرمی سے لوگ پریشان ہیں۔ گھروں اور دفاتر میں گرمی پر قابو پانے کے لیے ایئر کنڈیشنرز لگائے جا رہے ہیں۔

لیکن ایئر کنڈیشنر اندر جتنا ٹھنڈا کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ باہر گرمی بڑھا دیتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی میں ایئر کنڈیشنرز سے نکلنے والی گیس کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اگر ایئر کنڈیشنرز گھاٹے کا سودہ ہیں تو گھروں کو ٹھنڈا کرنے کا اور کیا راستہ رہ جاتا ہے؟

سان فرانسسکو میں کیلیفورنیا اکیڈمی آف سائنس اس کی مثال پیش کرتا ہے۔ اس عمارت کی پوری چھت پر ہریالی ہے۔ اس سے عمارت کا درجہ حرارت کم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

اس کے علاوہ چھت پر کھڑکیاں کھلی ہیں، جہاں سے ٹھنڈی ہوا اندر تک آتی ہے۔ شدید گرمی کے دنوں میں بھی یہاں اے سی کے بغیر گزارا ہو جاتا ہے۔
 

image


عمارتیں ٹھنڈی رکھنے کا طریقہ
درجہ حرارت میں تیزی سے ہونے والے اضافے کی وجہ سے اب انجینیئر اور عمارتوں کے ڈیزائنر ایسی ہی عمارتیں ڈیزائن کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ تحقیق کے مطابق سنہ 2050 تک دنیا بھر میں ایئر کنڈیشنز کی تعداد موجودہ سے تین گنا ہو جائے گی۔

جب ہمارے پاس بجلی کے پنکھے، کولر اور ایئر کنڈیشنر نہیں تھے تب ہوا کے گزر کو دھیان میں رکھ کر عمارتوں کو تعمیر کیا جاتا تھا۔

کیلیفورنیا اکیڈمی آف سائنس کی بلڈنگ ڈیزائن کرنے والے ڈیزائنر ایلسڈائر میک گریگر نے بتایا کہ عمارت کا ڈیزائن ایک تجربہ تھا۔ اس تجربے کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ ایئر کنڈیشنرز کے بغیر کس حد تک گزارا کیا جا سکتا ہے۔

سپین میں گھڑوں کا استعمال
یہ تجربہ گھروں، سکولوں اور چھوٹے دفاتر تک تو کارگر ثابت ہوا، لیکن ہسپتالوں جیسی عمارتوں میں نہیں جہاں مریضوں اور مشینوں دونوں ہی کے لیے ٹھنڈک چاہیے۔

لہذا وہاں اے سی کی ضرورت ہوگی ہی۔ لیکن عمارتوں کے بہتر نقشوں کے ذریعے اس کی ضرورت کو کم کیا جا سکتا ہے۔

تبخیر کا عمل چیزوں کو ٹھنڈا کرنے میں پر اثر ثابت ہوتا ہے۔ اسی لیے گرمی میں جسم سے نکلنے والا پسینا بھی جسم کو ٹھنڈا رکھتا ہے۔

سپین کے متعدد علاقوں میں مٹی کے بڑے بڑے گھڑوں میں پانی بھر کر رکھ دیا جاتا ہے، جنہیں ’بوتیجو‘ کہتے ہیں۔

گھڑے کی مٹی ایک بار پانی جزب کرنے کے بعد اس کے اندر رکھے پانی کو ٹھنڈا رکھتی ہے۔

اسی طریقے کو عمارتوں کے نقشے بنانے میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

جب ہوا ٹھنڈے گھڑوں سے ٹکراتی ہے تو خود بھی ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔
 

image


مغل دور کی عمارتیں
اگر گھر کے کھلے حصے جیسے صحن میں فوارا لگا لیا جائے تو وہ بھی گرمی کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

پانی کے ذریعے عمارتوں کو ٹھنڈا کرنے کا دستور قدیم دور سے چلا آرہا ہے۔ مغلوں کے دور کی جتنی عمارتیں ہیں ان میں کنویں اور فوارے خوب دیکھنے کو ملتے ہیں۔

اسی طریقے کا استعمال انڈین آرکیٹیکٹ منیت رستوگی نے جے پور شہر میں پرل اکیڈمی آف فیشن کی عمارت بنانے میں کیا ہے۔
 

image


درجہ حرارت کم کرنے والے ’وِنڈ کیچر‘
پرل اکیڈمی کی بلڈنگ کے چاروں طرف جالیاں ہیں۔ عمارت کی دیواروں سے چار فٹ کی دوری پر سوراخ والے پتھروں کی دیوار ہے جو اندر کی دیوار کو اپنے سائے میں رکھتی ہے۔

جب باہر درجہ حرارت 40 ڈگری ہوتا ہے تو عمارت کے اندر درجہ حرارت 29 ڈگری ہوتا ہے۔

اگر کسی عمارت میں بڑا کنواں کھودنے کی گنجائش نہ ہو تو زمین کے نیچے پائپ لائن بچھا کر اس میں پمپ کے ذریعے پانی گزارا جا سکتا ہے۔ اس طریقے کا استعمال گرم اور سرد دونوں ہی موسموں میں کیا جا سکتا ہے۔ شمالی چین کے متعدد علاقوں میں یہ طریقہ رائج ہے۔
 

image


ترقی کے نام پر بڑی تعداد میں شہر آباد کیے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ شہر اصل میں کنکریٹ کے جنگل ہیں جہاں گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں اور فیکٹریوں میں بڑی بڑی مشینوں کے استعمال سے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔

لیکلن اب شہروں میں زیادہ سے زیادہ پودے لگانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ امریکی شہر کولمبیا میں تو انتظامیہ کی جانب سے پورے شہر میں گرین کاریڈور بنائے جا رہے ہیں۔

حکومت کی اس کوشش سے درجہ حرارت میں دو ڈگری تک کمی لانے میں مدد حاصل ہوئی ہے۔

موسمیاتی امور کی ماہر مونیکا ٹرنر نے بتایا کہ ’گرین کاریڈور بنا کر درجہ حرارت کو پانچ ڈگری تک کم کیا جا سکتا ہے۔ اب دیگر شہروں میں بھی اس طریقہ کار کو اپنانے پر غور کیا جا رہا ہے۔‘
 

image

اٹلی کے شہر ملان کے شہری انتظامیہ نے سنہ 2030 تک تین لاکھ درخت لگانے کا ہدف رکھا ہے۔ آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں بھی ایسی ہی کوششیں جاری ہیں۔

ایئر کنڈیشنر کا استعمال ماحول ٹھنڈا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، لیکن اصل میں اس کی ٹھنڈک ہمیں بھٹی میں جھونک رہی ہے۔

اگر اے سی کا استعمال بدستور جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب گرمی کے دنوں میں ایئر کنڈیشنر بھی دم توڑ دیں گے۔

لہذا وقت رہتے، ہم سبھی کو گرمی سے لڑنے کے روایتی طریقوں پر عمل کرنا شروع کر دینا چاہیے۔

Partner Content: BBC
YOU MAY ALSO LIKE:

At first sight, the view could be mistaken for the rolling hummocks of Hobbiton, right down to the perfectly circular doors opening out of the lush green hillside. But the doors are made of glass, and inside them are not cosy hobbit holes but an array of large mechanical steel arms and levers holding some of the doors ajar.