اﷲ تعالیٰ کے اپنے قانون ہیں اور بندوں کے لیے یہ لازم
ہے کہ اﷲ کے قانون کے مطابق زندگی گذاریں نہ کہ اﷲ کے قانون کے مقابلے میں
اپنے قانون بنانے کی کوشش میں لگے رہیں۔ جو اﷲ کے بتائے قوانین کے برخلاف
اپنے قاعدے کلیے بناتے ہیں ۔نعوذ باﷲ ایسے افراد یہ سوچ دینے کی کوشش کرتے
ہیں کہ اﷲ کے بتائے طریقوں کی نسبت جو راستے ہم بتارہے ہیں وہ زندگی گذارنے
کے زیادہ بہتر طریقے ہیں۔ یوں وہ قانون الٰہی کی مخالفت بھی کرتے ہیں اور
خدا سے خود کو افضل واعلیٰ بھی ظاہر کرتے ہیں ۔ زباں سے ناسہی کردار اور
افعال ان کے یہی ثابت کرتے ہیں ۔عورت کی آزادی کے معاملے میں بھی یہی بغاوت
چل رہی ہے اور ’’آزادی‘‘ ہے کس بات کی بس یہ کہ گھر کی محفوظ چار دیواری سے
حوازادی کو بازار میں سرعام لابیٹھایا جائے یہ ہے آزادی؟
یہ اگر عورت کے لیے بہتر ہوتا تو خدا کے قانون شریعت میں عورت کو سب سے
پہلے اسی کا حکم ہوتامگر پردے کا حکم بتاتا ہے کہ یہی عورت کے لیے سب سے
محفوظ چیز ہے اور خدا نے اسی لیے اس کو چھپ جانے کا حکم دیا ہے خدا نخواستہ
تمام دنیا بنانے والا اﷲ انسانوں کا دشمن نہیں کہ بے جا حدودوقیود سے انسان
کوجھکڑ دیے۔ انسان کو آزادی ہے ہر لحاظ سے آزادی اور یہ آزادی عورت ہو یا
مرد سب پر یکساں ہے مگر جن باتوں سے خود انسانوں کو ہی نقصان پہنچ رہا ہو
یا اس کا خدشہ ہو اس سے اﷲ نے منع کیا ہے اور منع بھی اس کے فائدے کے لیے
ہی ہے۔
بالکل ایسے ہی عورت کا بازار میں بے پردہ ہو کر آنا فتنے کا باعث ہے جس کی
وجہ سے لاتعداد جھکڑے۔ غلط کام اور انتشار کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور
موجودہ زمانے میں جہاں جہاں عورتوں کو آزادی کے نام پر مردوں کے شانہ بشانہ
لایا گیا وہاں عورت نے ہی نقصان اٹھایا اسے ہراساں انہیں مردوں نے کیا جو
عورت کی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ عورت کے کچھ روپ ہیں خود
جب عورت ان روپ کو چھوڑ کر کسی اور روپ میں آئے گی تو وہ نقصان کا شکار ہو
گی انہیں کے ہاتھوں جو حفاظت کرنے والے ہیں۔
عورت جب پیدا ہوتی ہے تو وہ بیٹی کے روپ میں ہوتی ہے تب باپ اس کو سینے سے
لگاتاہے اس کولاڈ پیاردیتا ہے۔ اس کی پر ورش کے اخراجات ہرچیز کو برداشت
کرنا باپ کے لیے باعث فخر ہوتا ہے۔ یہی مرد باپ کے رشتے کے ساتھ ساتھ بھائی
کا رشتہ بھی رکھتا ہے جب عورت بہن کا روپ دھارتی ہے تو بھائی اس پر قربان
ہوتے ہیں جو اس کی عصمت و عظمت کے محافظ ہوتے ہیں وہ اس کے سر کا سایہ ہوتے
ہیں بہن کو بھائی کے تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ وہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔
بہن بھائی کے ہوتے خود کو بھی محفوظ تصور کرتی ہے اور معاشرے کو بھی علم
ہوتا ہے کہ فلاں کی بہن بیٹی ہے اس کی عزت لازم ہے ۔
اور اگر یہی عورت بیوی کے روپ میں ہو تو خاوند کی محبت کا مرکز ہوتی ہے وہ
خاوند کے روپ میں تحفظ دیتا ہے اور اس کے ہر پل کا ساتھی ہوتاہے پھر یہی
عورت جب ماں کا رتبہ پاتی ہے تواولاد مرد کے روپ میں ہو یا زن دونوں اس کے
قدموں تلے جنت تلاش کرتے ہیں اس کی خدمت کو اپنا دین سمجھتے ہیں اور اس کی
دعا پانے کے لیے ہر خوشی اپنے ماں پر نچھاور کر تے ہیں۔
یہی وہ چار روپ ہیں اﷲ نے عورت کو اس سے نکلنے اور کوئی روپ دھارنے کی
اجازت نہیں دی کیونکہ ان میں عورت کے لیے تحفظ بھی ہے اور عظمت بھی اور اگر
وہ ماں بہن بیٹی اور بیوی کی بجائے ’’آزادی‘‘ کے نام پر چادر چار دیواری سے
نکل کر شمع محفل بنے گی تو لامحالہ عظمت بھی نہیں رہے گی اور عصمت بھی نہ
رہے گی۔ یہی وہ قانون الٰہی ہے جس کے تحت اﷲ نے عورت کو گھر کی ملکہ بنا کر
اس کے ذمے آنے والی نسلوں کی آبیاری کی ذمہ داری سونپی ہے اور مرد کو یہ
کام سونپا کہ تم زمانے کی سختیاں جھیل کر بیوی اور بچوں کے لیے کماؤ۔ اب
اگر عورت کہے یا اس کو بغاوت پر ابھارنے والے نام نہاد لوگ آزادی کے نام پر
اسے دفتروں کی زینت بنا دیں تو یہ عورت کی آزادی نہیں بلکہ اس کے حق سے اس
کو محروم کرنے کی تگ و دو ہے کیونکہ عورت کا اصل مرکز گھر ہے نہ کہ دفتروں
میں بیٹھے لوگوں کا جی بہلاتی رہے یا لوگوں کو دلچسپی کے سامان فراہم کرتی
رہے۔ اﷲ نے کچھ کام مرد کے ذمے رکھے اور کچھ کام عورت کے ذمے عورت کی ذمہ
داریاں گھر پر رکھی ہیں اور مرد کی گھر سے باہر یہ قانون الٰہی ہے اور جواس
قانون کے الٹ چلنے کی کوشش میں ہیں وہ لامحالہ بغاوت کے راستے پر ہیں۔ عورت
ہرحال میں چار دیواری کی محتاج ہے اور مرد کی نگبہانی میں ہے۔ پیدائش سے لے
کر مرتے وقت تک۔ کیونکہ وہ جب پیدا ہوتی ہے تو مرد اس کے کان میں اذان دیتا
ہے یہ وہ پہلی آواز ہوتی ہے جس سے وہ آشنا ہوتی ہے اور جب وہ فوت ہوتی ہے
تب بھی اس کا جنازہ اورا س کی تدفین مرد کے ہاتھوں ہوتی ہے یہ وہ آخری آواز
ہوتی ہے جو اس کے لیے الوداع کا اشارہ ہوتی ہے۔ یہ اشارہ ہے کہ ہر حال میں
عورت کا دامن مرد کے ہاتھ میں ہے اور اس کی امان اس کی حفاظت اس سے ہے۔
جہاں تک عظمت کی بات ہے تو اس میں وہ مرد سے بہت بلند تر بھی ہے عظیم بھی
کیونکہ وہ عورت ہی تھی جیسے آج تک لوگ سیدہ حاجرہ کے نام سے پکارتے ہیں۔اور
اﷲ نے اپنی محبوب بندی کی صرف اک ادا کو دہرانے کے لیے دنیا بھر کے مرد و
زن کیلئے صفا و مروہ کے چکر کاٹنے کی ادائیگی لازم کی ہے ورنہ اس کے بغیر
کوئی حج پورا نہیں کر سکتا ہے وہ ماں اور بیٹی عورت ہی ہے جس کے تحفظ پر
اسلامی جرنیلوں نے اپنی فوجوں کو کٹوا دیا اور اک بہن کی آواز پر میلوں سفر
کر کے اس کو تحفظ سے نوازا کیونکہ اس کا تحفظ اس مرد کے مرہون منت ہے جو
مرد اس کا باپ ، بھائی، شوہر اور بیٹا ہے۔ آزادی، کے کھوکھلے نعروں کی
بجائے آج کی عورت کو ان چاروں رشتوں کو پہچاننے اور اپنانے کی ضرورت ہے۔
کیونکہ اس کی آزادی ان رشتوں میں ہے۔ بازاروں اور دفتروں میں بیٹھیس غیر
مردوں میں نہیں۔
عبدالوارث ساجد
جناح پارک شیخوپورہ
|