موجودہ فیملی قوانین میں بہت سے قانونی مسائل کے حل کے
لیے اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے تشریحات کی گئی ہیں کہ فیملی کورٹس کے حوالے سے
سائلین کو انصاف کی فراہمی ہو رہی ہے ۔لیکن فیملی کیسوں کی بھرمار اور
ماتحت عدلیہ کی جانب سے کیسوں کے فیصلہ جات کے معاملے پر عدم دلچسپی سے
مسائل گھمبیر صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔پاکستانی معاشرئے میں عدم برداشت
اور سوشل میڈیاو انٹر نیٹ کے نامناسب استعمال نے معاشرئے کی بنیادیں ہلا کر
رکھ دی ہیں۔ خواتین کی جانب سے پسند کی شادیاں اور پھر اِسکے بعد خلع لینے
کی تیاریاں۔ یہ ہے حقیقتِ حال ہمارئے معاشرئے کی ۔یوں ہمارئے معاشرئے میں
خاندان کے بزرگوں کی عزت اور اُن کہ کہے کہ لاج رکھنے والی روایات قصہ
پارینہ ہوتی چلی جارہی ہیں۔سوشل اور الیکٹرانک میڈیا میں پھیلائی جانے والی
سنسنی نے معاشرئے کو ہوس زدہ کردیا ہے۔ماں باپ ، داد ا، دادی جیسے مقدس
رشتے مشترکہ خاندانی نظام میں عضو معطل بن کر رہ گئے ہیں۔ حلال و حرام کی
تمیز کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اشرافیہ نے قوم کو اِس بُری طرح جکڑ رکھا ہے کہ
بس لوگ روزی روٹی کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اسلام کے علمبردار، صر ف
زبانی دعوں تک ہیں۔ پندہ رہ ہزار روپے کمانے والا بھی رو رہا ہے اور دو
لاکھ روپے کمانے والا بھی رو رہا ہے۔ کیسی بے حسی ہے کہ ہم آخرت کو پسِ پشت
ڈال کر دُنیا داری میں گُم ہو کر رہ گئے ہیں-
حلال امور کی ادئیگی میں سے صرف ایک واحد کام جو کہ طلاق ہے کو اﷲ پاک نے
نا پسند فرمایا ہے۔ معاشرئے کا بنیادی یونٹ گھر ہے۔ جب گھر کو بسانے والے
دونوں فریق خاوند اور بیوی کے درمیان سماجی کنٹریکٹ ہی نہ رہے تو پھر گھر
کے سکون کی بربادی میں کوئی کسر نہیں رہ جاتی۔ سوشل میڈیا نے جہاں عوام کو
بہت سے امور میں آگاہی دی ہے وہاں اِس کے منفی اثرات نے بھی معاشرئے کو
اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ انتہائی دکھ کا مقام ہے کہ موبائل فون اور
انٹرنیٹ کے استعمال کی بدولت معاشرئے میں شرم وحیا کو آگ لگ گئی ہے۔ گھر سے
بھاگ کر شادی کرنے کے رحجان نے معاشرئے کو اِس بُری طرح لپیٹ میں لے لیا ہے
ایسا دیکھائی دیتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ مذہب کے بغیر ہے اور روحانی اقدار
نام کی کوئی شے یہاں نہیں ہے۔فیس بک کی چیٹینگ سے شادیوں تک پہنچنے والے
مراحل کے بعد جب نام نہاد محبت کی فینٹسی کا بخار رفو چکر ہوتا ہے اور
زندگی کی حقیقتوں کی آشکاری ہوتی ہے تو پھر آٹے دال کو بھاؤ پتہ چلتا ہے کہ
والدین کے گھر شہزادی بن کر رہنے والی نے اپنی مرضی سے گھر سے بھاگ کر جو
معاشرئے میں نیک نامی کمائی ہے اُس میں غلطی پر کون ہے۔ یوں پھر خلع کی
نوبت آجاتی ہے ۔ اگر لاہور میں فیملی عدالتوں میں صرف طلاق والے کیسوں کو
دیکھا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ معاشرہ کس جانب جا چکا ہے۔ اِسی
طلاق اور خلع کی وجہ سے پھر نان و نفقہ اور اگر بچے پیدا ہوچکے ہوں تو اُن
کی حوالگی کے حوالے کے مسائل سر اُٹھاتے ہیں۔ گھر سے بھاگ کر شادی کرنے
والوں کی بڑی تعداد غلط لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے جو اُنھیں جسم فروشی کے
لیے استعا ل کرتے ہیں حالیہ مہینوں میں پرنٹ اور الیکٹرنک میں یہ رپورٹ
ہوچکا ہے شادی کے جال میں پھنسا کر مشرق ِ وسطیٰ میں جسم فروشی کے لیے
لڑکیوں کو سمگل کر دیا جاتا ہے۔ حوا کی بیٹی کے ساتھ جو سلوک اسلامی
جمہوریہ پاکستان میں ہورہا ہے۔اِس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارئے رہنماء
ہمارئے حکمران فکری طور پر مکمل کھوکھلے ہوچکے ہیں اُن اِس کا بالکل ادراک
نہیں کہ پاکستانی معاشری کس طرف پرواز کر چکا ہے۔بے روزگاری بھی بہت بڑی
وجہ ہے طلاقوں کی شرح میں اضافے۔موجودہ مشترکہ خاندانی نظام اور روپے پیسے
کی ہوس نے رشتوں کو بھلادیا ہے اور بس اپنی جان کے لیے ہر کوئی فکر میں
مصروف ہے۔یوں مشترکہ خاندانی نظام بُری طور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔گارڈین
کورٹ کے معاملات کے حوالے سے بہت سے مسائل اتنی پیچیدگیوں کے حامل ہیں کہ
بچے بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ ماتحت عدلیہ میں میاں بیوی کے درمیان
علحیدگی کی وجہ سے بچوں کی حوالگی اور اُن کی اپنے والد یا والدہ سے ملاقات
کے حوالے سے احسن طور پر امور انجام نہیں دئیے جارہے ہیں۔ایک مہینے کے بعد
د و گھنٹے کی ملاقات وہ بھی ایک ڈربہ نما کمرئے میں جہاں سینکڑوں اور لوگ
بھی اپنے بچوں سے ملنے کے لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اگر حکمران اپنی آنکھوں سے
جاکر ماتحت عدلیہ کے زیر انتظام عدالتوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کا حشر دیکھ
لیں تو اُن کو اندازہ ہو جائے گا کہ اِس طرح تو کبوتر بھی کسی ڈربہ نما
کمرئے میں نہیں رکھے جاسکتے جس طرح کہ گارڈین کورٹس کی حالت زار ہے کہ بچے
اپنے والدین سے ملاقات کے لیے ذلیل وخوار ہو رہے ہوتے ہیں اور یہی حال اُن
کے والدین کا بھی ہوتا ہے۔والدین کی ناچاقیوں کی سزا معصوم بچوں کو تو
بھگتنا پڑتی ہی ہے اِس کے ساتھ ساتھ بچوں کے ماں باپ بھی گارڈین کورٹ کے
چکر لگاتے رہتے ہیں اور بچوں کے لیے نان و نفقہ کے حصول کے لیے جس طرح
عدالتوں میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یقینی طور ماں،باپ اور
اِسی طرح بچوں کے لیے بھی ایک مشکل صورتحال بن جاتی ہے۔ دوسری طرف اگر ان
بچوں کی تعلیمی استعداد اور اُن کی ذہنی کیفیات کا اندازہ لگایا جایا تو یہ
امر بالکل واضع ہے کہ بچے ذہنی طور پر کافی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔بن
ماں یا باپ کے بغیر بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہونے والے مضر اثرات کا
ادراک وہی کر سکتا ہے جو اِس چکی میں پس رہا ہو۔ ماں یا باپ کے فوت ہوجانے
کی صورت میں بچوں کو یہ صبر آہی جاتا ہے کہ اُن کی ماں یا اُن کا باپ اب
اِس دُنیا میں نہیں ہے۔لیکن جب بچے اپنے ہم جماعتوں کو اپنے والدین کے ساتھ
دیکھتے ہیں اور والدین کی مشترکہ تربیت اور محبت سے استفادہ ہو رہے ہوتے
ہیں تو یہ معاملہ اُن بچوں کے لیے سوہانِ روح بن جاتا ہے۔ماں یا باپ کی
علحیدگی کی وجہ سے منتشر خیالات کے حامل بچے معاشرئے کے لیے اُس طرح ذہنی
طور پر بہتر شہری ثابت نہیں ہو پاتے جس طرح والدین کی آغوش میں پلنے والے
بچوں کی پرورش ہورہی ہوتی ہے۔ حالیہ ایک دہائی سے پاکستانی سو سائٹی کے
بودوباش میں عجیب و غریب تبدیلی آئی ہے۔ اِس تبدیلی کو اگر تباہی سے تعبیر
کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ٹی وی چینلز کی بھرمار، موبائل فون اور انٹرنیٹ
کا بے تحاشہ استعمال معاشرئے کو ایسے دوراہے پہ لے آیا ہے کہ خاندانی نظام
کی دھجیاں بکھرتی جارہی ہیں۔ دادا دادی جو کسی بھی گھر کے لیے نعمت و رحمت
تصور ہوتے تھے اور اسلامی و مشرقی معاشروں کی پہچان تھے اُن کے حوالے جو
صورتحال بنی ہے وہ یہ کہ اُن کا احترام ختم ہو کر رہ گیا ہے ۔ دوسرا والدین
کا احترام والا نظریہ بھی بہت حد تک مفقود ہوتا جارہا ہے۔ تیسرا موبائل کی
وجہ سے سارا جہاں ایک بٹن کے دبانے پر آشکار ہونے کے لیے ہر وقت تیار ہوتا
ہے اِس لیے زندگی میں ہوس پرستی نے اتنی جگہ بنا لی ہے کہ اب خلوص اور وفا
صرف شاعری کی کتابوں میں ملتے ہیں۔ معاشرئے میں تعمیر و تربیت کے لیے سب سے
اہم خیال کیا جانے والا شخص اُستاد اِس وقت اُس مقام کو کھو چکا ہے جو اِس
معلمی پیشے کا خاصہ تھا۔اب اُستاد بھی پیسہ کمانے والی مشین بن چکا ہے
کیونکہ معاشرتی اخلاقی زوال پذیری اِس نہج تک پہنچ چُکی ہے کہ اُستاد کا
درجہ ایک ملازم کی طرح کا ہو چکا ہے اِس کی وجہ معاشرئے میں دولت کی عزت ہے
اور یوں پرائیوٹ اداروں میں علم کی روشنی کی بجائے ڈگریوں کی لوٹ سیل لگی
ہوئی ہے۔طلاقیں کیوں اتنی بڑی تعداد میں ہورہی ہیں اور جو بچے ماں یا باپ
کے بغیر پروان چڑھیں گے اُن کے ساتھ کون کون سی محرمی ہے جو جونک کی طرح
نہیں لپٹ جائے گی۔
پاکستان جسے حاصل ہی اِس مقصد کے لیے کیا گیا تھا کہ اِس ملک میں نبی پاکﷺ
کا لایا ہوا نظام نافذ کیا جائے گا۔ لیکن حضرت قائد اعظمؒ کے وصال کے بعد
قوم کی قیادت بھیڑیا صفت حکمران اشرافیہ کے پاس چلی گئی یوں نظام مصطفےٰﷺ
کا نفاذ نہ ہو سکا۔ بلکہ اِس ملک کے حکمران اپنے بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے
کے لیے قران و حدیث سے متصادم قوانین بھی بناتے رہے اور ابھی تک یہ سلسلہ
جاری ہے۔ سود کے حوالے سے حکومت نے اپیل دائر کر رکھی ہے۔ ناموس رسالت ﷺ
اور نبی پاکﷺ کی ختم نبوت کے حوالے سے بنائے ہو ئے قوانین سے یہی حکمران
طبقہ چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا ہے۔ عدالتوں کا نظام اِتنا گھسا پٹا ہے کہ ٹرائل
کورٹ سے سپریم کورٹ تک انصاف لینے کے لیے تقریباً چالیس سال صرف ہوجاتے
ہیں۔ انگریز کی جانب سے قائم کردہ نظام انصاف کا بھی دھڑن تختہ ہو گیا۔
کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بننے والے ملک میں کرپشن،مادیت سے محبت نے اِس طرح
ڈیرئے ڈالے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ رشوت سفارش بد دیانتی لوٹ مار کے کلچر نے
معاشرئے سے امن و سکون چھین لیا۔ پوری دُنیا میں جس معاشرتی نظام اور
والدین کے عزت و احترام کے حامل بنیادی یونٹ گھر کی مشالیں دی جاتی تھیں۔
وہ نظام کرپشن لوٹ مار کی کمائی،موبائل فون اور انٹرنیٹ کے استعمال سے پیدا
ہونے والی بے راروی کی بھینت چڑھ گیا۔ گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کا رحجان
اور پھر طلاقوں کی شرح میں اوسان خطا کر دینے والا اضافہ اور پھر اِسی
تسلسل کا شاخسانہ کے ماں باپ کی علحیدگی کے سبب بچوں کی حوالگی اور اُن کی
پروش کے معاملات۔ سب کچھ تو بکھرکر رہ گیا۔ لو میرج میں اضافے کی وجہ سے
طلاقیں بھی بہت تیز رفتار ہو گئی ہیں۔اور یوں گھریلو ناچاقیوں کا سارا وزن
بے چارئے نابالغ بچوں پر آ پڑا ہے۔ ماں باپ کی علحیدگی سے بچوں پر جو مضر
اثرات مرتب ہوتے ہیں اُن اثرات میں کمی کرنے کے لیے اِس ملک کا بوسیدہ نظام
انصاف جہاں آئے روز ہڑتالیں ہوتی ہیں جہاں انصاف بکتا ہے جہاں ایک ایک جج
کے پاس روزانہ کی بنیاد پر دو دو سو کیس زیر سماعت ہوتے ہیں کیسے انصاف
فراہم کیا جاسکتا ہے۔ زیر نظر آرٹیکل پاکستان میں مروجہ قانونِ گارڈین اینڈ
وارڈ ایکٹ کے تحت نا بالغ/ نا بالغہ کی ماں یا باپ یا کسی اور شخص کو
حوالگی کے حوالے سے لکھا گیا ہے۔ اِس آرٹیکل میں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ
آف پاکستان کے فیصلہ جات کو بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح والدین علحیدگی کے
بعد بچوں کی گارڈین شپ حاصل کرسکتے ہیں۔ اِس آرٹیکل میں گارڈین اینڈ وارڈ
ایکٹ 1890 کے سیکشن 12 اور سیکشن 25 کے حوالے سے بچی یا بچے کی عارضی و
مستقل حوالگی کے حوالے سے پاکستانی قوانین اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلہ جات کا
حوالہ پیش خدمت ہے۔
عدالت کسی بھی شخص کو یہ حکم دئے سکتی ہے کہ کہ اگر نابالغ بچہ یا بچی اُس
کے پاس ہیں تو اُسے عدالت میں پیش کرئے یا اُس کے حوالے کرئے جس کو گارڈین
کورٹ نے گارڈین مقرر کیا ہے۔ 200YLR 2215 کے مطابق گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ
کے سیکشن 12 گارڈین گارڈین کورٹ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی شخص جس
کے پاس نابالغ بچہ یا بچی ہے۔ اُسے عدالت کے سامنے پیش کرئے یا اُس شخص کے
سامنے جس کو عدالت نے اِس مقصد کے لیے مقرر کیا ہو۔ عدالت عاضی طور پر
نابالغ بچہ یا بچی کی حضانت/ حوالگی جسے بہتر سمجھے کر سکتی ہے۔ اگر نابالغ
بچی ہے تو اُسے اخلاقی اقدار اور معاشرئے کی رسم و رواج کے مطابق عزت وا
حترام کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جائے۔ سب سیکشن 3 عدالت کو اِس بات سے منع
کرتا ہے کہ وہ نابالغ بچی کی حضانت/ حوالگی کسی ایسے شخص کو کر دئے جو یہ
دعویٰ کرتا ہو کہ وہ اِس کاخاوند ہے جب تک کہ نابالغہ کے والدین نے اپنی
رضا مندی سے اُسے اُس کے حوالے نہ کیا ہو۔ سیکشن 12 گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ
کا دائرہ اختیار وارنٹ جاری کرنے سے بھی زیادہ کا ہے اِس سیکشن کو آزادی کے
ساتھ اور نابالغ بچہ یا بچی کی بہتری کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
نابالغ بچہ یا بچی کی حضانت/ حوالگی کے حوالے سے کسی تکنیکی بنیاد کو
ملحوظِ خاطر رکھے بغیر نابالغ بچہ یا بچی کی حضانت/ حوالگی صرف اور صرف اپس
کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھ کر کی جائے۔
1980CLC 1027 کے مطابق نابالغ بچہ یا بچی کی حضانت/ حوالگی کا جو معیار ہے
وہ صرف اور صرف یہ ہے کہ نابالغ بچہ یا بچی کی فلاح و بہبود کو مدِ نظر
رکھا جائے۔ والدین کے حقوق کو بھی دیکھنا چاہیے لیکن اُس کے باوجود معیار
صرف اور صرف نابالغ بچہ یا بچی کی فلاح و بہبود ہو۔1974 SCMR 96 کے مطابق
سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا ہے کہ سیکشن 12 گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ کے تحت
کیس کا فیصلہ کرتے وقت عدالت کو بچے یا بچی کی جنس، عمر اور درخواست گزار
کا مطمع نظر مد نظر رکھانا چاہیے۔ دودھ پیتے بچے کی ماں کو سیکشن بارہ کے
تحت عارضی حوالگی کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے بحال رکھا کیونکہ گارڈین کورٹ
نے بچے کی مستقل حوالگی کے حوالے سے سیکشن 25گارڈین ایند وارڈ ایکٹ کے تحت
ابھی کرنا ہے۔PLD 1973 Lah. 442 کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے یہ قرار دیا
کہ عدالت کے سامنے ایسے کیسیز بھی آتے ہیں کہ جس میں عدالت یہ سمجھتی ہے کہ
ہر کیس کی سماعت کے دوران نابا لغ یا نابالغہ کی حوالگی تبدیل نہ کی تو بچے
یا بچی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے جس شخص کے پاس نابالغ بچہ یا
بچی کی حوالگی ہے اگر اُس کی جانب سے اُسے نظر انداز کرنے یا اُس کی
لاپروائی سے وہ نابالغ یا نابالغہ معاشرئے میں بدنام ہورہے ہوں یا وہ
نابالغ یا نابالغہ بُرئے کردار کا حامل بن رہے ہوں یا پھر نابا لغ یا
نابالغہ شدید بیمار ہوجائیں اور اُنھیں بہتر طبی سہولیات میسر نہ آرہی ہوں
اِس کے باجود کہ وہ نابا لغ یا نابالغہ مالی طور پر خودمختار ہوں تو اِن
حالات میں جب اُس کی تعلیم یاجائیداد کی دیکھ بھال درست نہ کی جارہی ہو تو
عدالت نابا لغ یا نابالغہ کی حوالگی تبدیل کرسکتی ہے۔
PLJ 1982 (Lah) کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے یہ قرار دیا ہے کہ اگر نابا لغ
یا نابالغہ کی زندگی یا صحت کو خطرات درپیش ہوں توا ِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ
معاملہ ار جنٹ نوعیت کا ہے۔ PLD 2008 Kar 198 کے مطابق سندھ ہائی کور ٹ نے
یہ قرار دیا کہ نابا لغ یا نابالغہ جو کہ اپنی ماں کے پاس رہتے ہیں ماں
اپنے تین بھائیوں کے ساتھ رہتی ہے۔اِن تین بھائیوں میں سے ایک سزا یافتہ ہے
باپ کی فیملی کا ماحول بچووں کی نشو نماء کے لیے بہت بہتر ہے باپ کے پاس
بچوں کی پرورش کے لیے وسائل بھی بہتر ہیں.۔ اِس لیے نابا لغ یا نابالغہ کو
باپ کے حوالے کر دیا جائے۔ 1997 P Cr LJ 1251 کے مطابق بچوں کی ماں وفات
پاء گئی ہے۔ اُنھیں کسی غیر محرم کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
بچیاں اپنے ماموں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ گارڈین کورٹ کوچاہیے کہ وہ شہادتیں
ریکارڈ کرنے کے بعد بچیوں کی فلاح و بہبود کو مد نظر رکھتے ہوئے اُن کی
حوالگی کا فیصلہ کرئے۔ بچیوں کا اپنے ماموں کے پاس رہنا غیر قانونی یا غیر
موزوں نہیں ہے۔1998MLD 1996 کے مطابق محمڈن لاء میں یہ قرار دیا گیا ہے ماں
کی غیر موجودگی میں نانی کو باپ کے مقابلے میں نابا لغ یا نابالغہ کی حضانت
/ حوالگی کے معاملے میں ترجیحی حق حاصل ہے۔PLD 2004 SC-1 کے مطابق سپریم
کورٹ نے یہ قرار دیا کہ باپ کی حضانت میں نا بالغاں کی موجودگی سیکشن 491
Crpc میں نہیں آتی لیکن عدالت کا یہ فرض ہے کہ وہ بچوں کے حقوق کی حفاظت کر
تے ہوئے بہتر انداز میں فیصلہ کرئے۔ 2000MLD 351 کے مطابق دودھ پیتے بچے کو
غیر قانونی کسٹڈی میں رکھا ہو تو ماں کی تحویل میں دیا جانے ماں کا تر جعیی
حق ہے۔ 1996 P.cr.LJ کے مطابق ہائی کورٹ کو دودھ پیتے بچے کی حوالگی کے
معاملے میں سماعت اختیار حاصل ہے۔ لیکن بچے کی حوالگی کا حتمی فیصلہ گارڈین
کورٹ میں سماعت کے بعد ہی ہوگا۔2264MLD 2264 کے مطابق ہائی کورٹ کا یہ
اختیار حاصل ہے کہ وہ نا بالغ/ نا بالغہ کی حوالگی کے کیس کی سماعت
کرئے۔1997MLD 197 کے مطابق یہ قرار دیا گیا ہے کہ اگر نا بالغ/ نا بالغہ کی
حوالگی کی بابت کوئی معائدہ کیا جائے تو وہ قابل نفاذ نہ ہوگا۔ اِس پر عمل
در آمد نہ ہوسکتا ہے۔
000SCMR 1804 کے مطابق سپریم کورٹ نے اِس کیس میں فیصلہ کیا کہ گارڈین کورٹ
میں ابھی کیس زیر سماعت تھا کہ باپ بچے کو ملنے کی سہولت کے دوران وقت میں
بچے کو بیرون ملک لے گیا۔ والد اور اُس کے ساتھیوں کے خلاف ایف آئی آر درج
کی گئی۔ سپریم کورٹ نے باپ کے ساتھیوں کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کے
دوران ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچے کو بیرون ملک سے بازیاب کروانے کے لیے
اعلیٰ حکام کو حکم دیا۔ اعلیٰ حکام نے بچے کو بیرون ملک سے بازیا ب کرو
الیا اور بچے کو اُسکی ماں کے حوالے کردیا۔ سپریم کورٹ نے یہ حکم دیا کہ
گارڈین کورٹ بچے کی حوالگی کے حوالے سے فیصلہ کرئے کہ اِس نے کس کے پاس
رہنا ہے۔
اوپر درج کردہ ریسرچ کی بنیاد خالصتاً سیکشن بارہ گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ کے
ریفرنس سے بیان کی گئی ہے اب ہم سیکشن 25 گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ کے حوالے
سے بحث کرتے ہیں۔سیکشن 25 گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ 1890 کے مطابق (1) اگر
کوئی بچہ یا کوئی ذہنی طور پر متاثرہ شخص یا کوئی شخص جسے عدالت نے اُس کی
پروٹیکشن کے لیے گارڈین کے حوالے کیا ہو اور وہ اُس گارڈین کو چھوڑ جائے یا
اُسے کوئی لے جائے۔ تو اُ س وارڈ کی ویلفیر کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ
گارڈین کی تحویل میں رہے تو عدالت اُسے اُسی گارڈین کی تحویل میں واپس دئیے
جانے کا حکم صادر کر سکتی ہے۔ اِس مقصد کے لیے وارڈ کو گرفتار کرکے بھی
عدالت میں پیش کرنا پڑئے تو عدالت اِس کا حکم فرما سکتی ہے۔
(2 اگر وارڈ کو گرفتار کرکے گارڈین کی تحویل میں دینا ہو تو گارڈین کورٹ کے
پاس مجسٹریٹ درجہ اول کے اختیارات جو کہ Cr.pc 1898 کے سیکشن 100 کے تحت
ہوتے ہیں اُن کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔
(3 اگر کوئی وارڈ اپنے گارڈین کی مرضی کے خلاف کسی اور شخص کے ساتھ رہائش
پذیر ہو تو اُس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گارڈین کی گارڈین شپ ختم ہو گئی ہے۔
سیکشن25 کا تعلق وارڈ کی حوالگی کے متعلق ہے۔ اگر وارڈ گارڈین کے پاس سے
خود چلا جائے یا گارڈین کی کسٹڈی سے کوئی لے جائے تو وارڈ کی حوالگی کے
متعلق یہ دیکھاجائے گا کہ وارڈ کی فلاح و بہبود کس میں ہے۔1989 ILJ 214
Comp41 کے مطابق سیکشن 25 اِس وقت تک پلائی نہیں ہوتا جب تک کہ یہ ظاہر نہ
ہوجائے کہ نابالغ کو گارڈین سے چھین لیا گیا ہے یا وہ خود چلا گیا
ہے۔2000MLD 1261 کے مطابق صرف اِس بناء پر کہ نا بالغ کی سات سال عمر ہوگئی
ہے اور اُس کی گاردین شپ تبدیل کردی جائے۔ نا بالغ اپنی ماں کی تحویل میں
اچھی تعلیم حاصل کر رہا ہے اور اُس کی صحت بھی اچھی ہے۔ بچے کو باپ کے
حوالے کیا جانا بچے کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
عدالت عالیہ کے مطابق گاردین اینڈ وارڈ ایکٹ 890 کے سیکشن 25 کے تحت مندرجہ
ذیل اصول بچے کی حوالگی کے حوالے سے مدِ نظر رکھنا پڑتے ہیں۔(a باپ بچے کا
قدرتی طور پر گارڈین ہے بچہ بے شک ماں کی تحویل میں ہو پھر بھی باپ کو یہ
حق حاصل ہے اور اِس کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ بچے کی نگرانی اور کنٹرول کی
بابت اپنا کردار ادا کرئے۔b) باپ کا یہ فرض ہے کہ وہ بچے کے تمام اخراجات
ادا کرئے بے شک بچہ اپنی ماں کے پاس رہ رہا ہو۔ خاص طور پر جب عدالت نے یہ
حکم دیا ہو کہ وہ بچے کا خرچہ ادا کرئے ا گر وہ بچے کے اخراجات ادا نہیں کر
تا تو عدالت اُس شخص کی جانب سے بچے کی حوالگی کا دعویٰ کرنے سے اُس شخص کو
نا اہل قرار دے سکتی ہے۔ اِسکے باوجود کے بچے نے ماں کے پاس رہنے کیمدت
پوری کر لی ہو۔(c ماں بے شک غریب ہے لیکن اگر وہ بچوں کی اچھی طرح دیکھ
بھال کر رہی ہے۔ اُن کو بہتر طریقے سے تعلیم دلا رہی ہے اور خاتون نے طلاق
کے بعد دوسری شادی بھی نہیں کی۔ مرد نے دوسری شادی بھی کر لی ہو تو عورت کا
یہ زیادہ حق بنتا ہے کہ وہ بچے اپنے رکھے۔2004 CLC 228 کے مطابق گار ڈین
کورٹ نے والد کی طرف سے سیکشن پچس کے تحت بچے کی حوالگی کی درخواست منظور
رکر لی۔ اور اپیلٹ کورٹ نے نے ٹرائل کورٹ کا حکم ختم کر دیا۔ہائی کورٹ نے
بھی اپیلٹ کورٹ کا حکم بحال رکھا کہ چھوٹی عمر کے بچے کو ماں سے علحیدہ
کرنا ظلم ہے بچے کی فلاح و بہبود میں ذہنی سماج روحانی بہبود بھی شامل
ہے۔1979 CLC(Lah) کے مطابق شیعہ فیملی قوانین کے تحت نابالغ کی فلاح و
بہبود باپ کے پاس حوالگی میں ہے۔ 2005CLC 817 کے مطابق اگر کوئی شخص اپنا
مذہب تبدیل کر لیتا ہے تو اُسے فیملی قوانین بھی تبدیل ہو جاتے ہیں یوں نئے
فیملی قوانین ہی بچوں کی وراثت کا تعین کریں گے۔2009MLD736 کے مطابق باپ نے
ماں کو طلاق دے دی اور بیرون ملک چلا گیا اور دوسری شادی کر لی جبکہ مان نے
دوسری شادی نہ کی نا بلغان اپنی ماں کے پاس ہی رہ رہے ہیں۔ اور اُن کی ماں
اچھے ادروں میں اُن کو تعلیم دلا رہی ہے اُن کی اچھی طرح دیکھ بھال بھی کر
رہی ہے۔ بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے بہتر ہے کہ وہ ماں کے پاس رہیں۔YLR
926 2013 کے مطابق باپ نے دوسری شادی کر لی ماں نے اپنی باقی زندگی اپنے
بچے کے لیے صرف کردی حقیقی ماں سے بچہ لے کر سو تیلی ماں کے حوالے نہیں کیا
جاسکتا۔بچہ پیدائش سے لے کر گیارہ سال تک کی عمر تک ماں کے پاس ہے اگر بچے
کو سٹیپ ماں کے ھوالے کیا گیا تو بچے کے لیے ذہنی نفسیاتی مسائل پیدا
ہوجائیں گے۔ بچے کی فلاح و بہبود کے لیے یہ بہتر نہ ہے ماں کی گود خدا کی
گو دہے۔ صرف ماں کی غربت کی وجہ سے بچے کو ماں سے علحیدہ نہیں کیا
جاسکتا۔راقم نے بطور طالب علم نابالغان کی تحویل کے حوالے سے پاکستانی
قوانین کی بنیاد پر ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے جتنے بھی
فیصلہ جات کا مطالعہ کیا ہے اور اِس حوالے سے اِس آرٹیکل میں جتنے بھی
ریفرنسز پیش کیے ہیں اُن تمام میں ایک بات ہی اہم ہے کہ نا بالغان کی
حوالگی کے حوالے سے کوئی تکنیکی یا ہارڈ اینڈ فاسٹ قانون نہیں ہے بلکہ
حالات و واقعات کے تحت عدالت نے صرف اور صرف نا بالغان کی ویلفئیر دیکھنا
ہوتی ہے کہ ماں یا باپ یا کسی بھی اور شخص کو بچے کی گارڈین شپ دی جائے یا
اُس کی جا ئیداد کے حوالے سے کسی کو گارڈین مقرر کیا جائے۔
|