عوام کو معیاری صحت کی سہولیات مہیا کرنا ریاست کی بڑی
ذمہ داری ہے ۔حکمرانوں کی نا اہلی ،بے حسی اور عوام سے دھوکہ دہی اس وقت
کھل کر سامنے آ گئی جب کینسر کے سینکڑوں مریض سسکیاں اور آہیں بکھیرتے دھوپ
میں سڑکوں پر چیخ رہے تھے ۔حکومت پنجاب نے پانچ ہزار کینسر کے مریضوں کی
ادویات بند کر دی تھیں ۔وہ لاچار سڑک پر احتجاج کرتے مرنے کے لئے پہنچ گئے
تھے ۔دہائی خدا کی ایسا کبھی نہیں دیکھا ۔ایسی بے حس حکومت اور ایسے شرم سے
خالی حکمران ۔اس ملک میں کوئی بھی حکومت رہی ،مگر جناح اور میوہسپتال کے
ساتھ ساتھ صوبے کے پانچ ہسپتالوں میں مفت ادویات بند نہیں ہوئیں ۔لیکن
موجودہ حکومت جس کا لیڈر اپنی والدہ کے نام پر کینسر ہسپتال بنا کر دنیا سے
رقوم وصول کرتے رہے اور کر رہے ہیں ۔یہ دانستہ پراپیگنڈا کیا گیاکہ پاکستان
میں کینسر کے لئے شوکت خانم ہی ایک ادارہ ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس
ہے ۔شوکت خانم کینسر ہسپتال کا نام تو کینسرہسپتال ضرور ہے ،مگر حقیقت یہ
ہے کہ اس ادارے میں زیادہ بستر دوسرے مریضوں کے لئے مختص ہیں ،کینسر کے
مریضوں کے علاج میں ادارے کا شیئر چند فیصد سے زیادہ نہیں ۔
کینسر کے مریضوں کی صدائے بازگشت پنجاب اسمبلی کے ایوان میں بھی گونجنے لگی
۔پیپلز پارٹی پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ حسن مرتضیٰ اور مسلم لیگ (ن) کے
رانا مشہود خان نے درد دل اور سیاست سے ہٹ کر ادویات کی عدم فراہمی کی وجہ
سے چار کینسر کے مریض جو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ایوان میں چیخ
چیخ کر بتایا۔جس پر سپیکر چودھری پرویز الٰہی بھی افسردہ اور رنجیدہ ہو گئے
۔انہوں نے کہا کہ پنجاب میں جو کوئی بھی حکومت رہی ہے انہوں نے کبھی بھی
کینسر کے مریضوں کی دوا پر غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا ۔بلکہ جیسے بھی مشکل
حالات رہے ،ایمرجنسی میں مفت ادویات کبھی بھی بند نہیں کی گئیں،لیکن موجودہ
حکمرانوں کی بے حسی سے حقیقت واضح ہو گئی جب سپیکر پرویز الٰہی کے استفسار
پر صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ کیونکہ احتساب بہت ضروری
ہے اس لئے ہم پچھلے سالوں میں ادویات کے حوالے سے تھرڈ پارٹی آڈٹ کروا رہے
ہیں ۔دوسرا ادویات سپلائی کرنے والی کمپنی کا معاہدہ ختم ہو گیا تھا ،جیسے
اسی کمپنی کے ساتھ نیا معاہدہ کیا جا رہا ہے۔اس وجہ سے کینسر کی ادویات کا
سٹاک ختم ہو گیا ۔مجھے اس کی خبر نہیں تھی چنانچہ اب اس پر آگے کام کیا جا
رہا ہے ۔جلد ادویات کا بندوبست ہو جائے گا۔کینسر کے مریض کے لئے بازار میں
ادویات اتنی مہنگی ہیں کہ عام آدمی تو دور کی بات ہے کھاتے پیتے لوگوں کے
لئے بھی خریدنا نا ممکن ہے ۔
پنجاب میں سرکاری ہسپتالوں میں مفت ادویات کا رواج چودھری پرویز الٰہی کے
دور میں شروع ہوا ۔اس منصوبے کو عبادت کے طور پر لیا گیا ۔اس کے بعد پنجاب
میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی ۔میاں شہباز شریف نے مفت ادویات کے منصوبے
کو بھر پور انداز میں بڑھایا۔انہیں بے شمار تنقید کا نشانہ بنایا گیا ،مگر
جواں مرد نے غریب عوام کے لئے صحت کی سہولیات میسر کرنے کی بھر پور کوشش کی
۔کینسر کے ہزاروں مریضوں کو مفت ادویات کی فراہمی کے سی ایم ایل منصوبے کا
آغاز کیا۔یہ سؤٹزرلینڈ کی کمپنی ’’نورٹس‘‘ کے ساتھ ایک معاہدہ تھا۔جس کے
تحت اس کمپنی نے کینسر کے رجسٹرڈ مریضوں کو ڈبیوں میں بند ادویات فراہم
کرنی تھیں۔پہلے یہ کمپنی مریضوں کو مفت ادویات فراہم کرتی رہی ۔پھر معاہدہ
ہوا کہ ادویات کے 91فیصد اخراجات کمپنی خود برداشت کرے گی جبکہ پنجاب حکومت
نے صرف نو فیصد قیمت دینی تھی ۔لیکن پی ٹی آئی جو کرپشن کا شورو غل مچا کر
عوام کو بیوقوف بناتے بناتے اقتدار تک پہنچ گئی ۔اس نے پراجیکٹ کا تھرڈ
پارٹی آڈٹ کا فیصلہ کیا اور ’’نورٹس ‘‘کو نو فیصد ادویات کی قیمت دینے سے
بھی انکار کر دیا۔نو دس ماہ تک تو نورٹس نے کینسر کے مریضوں کی ہمدردی میں
ادویات فراہم کیں،لیکن معاہدے کے مطابق نو فیصد ادائیگی نہ ہونے پر کمپنی
نے تین ماہ قبل ادویات کی فراہمی روک دی ،لیکن ہماری وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین
راشد نے فلور آف دی ہاؤس کہا کہ مجھے ادویات کے سٹاک ختم ہونے کی اطلاح
نہیں تھی۔جیسے ہی مجھے اطلاع ہوئی میں نے ای میل کر دی ہے جلد معاملہ حل ہو
جائے گا۔ چار مریضوں کی وفات پر انہوں نے کہا کہ کینسر کا مرض ہے۔اموات
ادویات کے نہ ملنے سے نہیں انہیں تو مرنا ہی ہوتا ہے ۔ایک ڈاکٹر ہو کر جس
طرح کی گفتگو اور تاثروزیر صحت نے ایوان میں دیا ۔اس سے صاف اندازہ ہوتا ہے
ان کے سینے میں دل نہیں پتھر ہے ۔کیونکہ کینسر سخت تکلیف دہ بیماری ہے ۔اس
میں بلڈ کینسر جیسے موذی مرض کے مریض شامل ہیں ۔لیکن ان کی دوا کو بند کرنا
۔کوئی حیوان صفت انسان ہی کر سکتا ہے ۔
آج پنجاب کی عوام کو اندازہ ہو رہا ہے کہ میاں شہباز شریف اور ان کی ٹیم
کتنا بڑا جہاد کر رہی تھی ۔انہوں نے ہر مریض سے اپنی تعریفیں نہیں کروائیں
۔خاموشی سے ان کے علاج میں معاونت کی ۔کیونکہ وہ خود بھی ان امراض سے
نمردآزما رہے ہیں ۔انہیں تکلیف کا احساس ہے ۔آج وہی مریض اور ان کے لواحقین
رو رہے ہیں جنہوں نے ادویات تو شہباز شریف سے لیں ،لیکن ووٹ عمران خان کو
دیا ۔نواز شریف اورشہباز شریف کو گالیاں دیں،لیکن آج جہاں ان حکمرانوں کے
پراپیگنڈے کی حقیقت ہر کسی کے سامنے کھل چکی ہے وہاں کینسر اور دوسرے غریب
مریضوں کو بھی فرق نظر آ گیا ہے ۔یہ پراپیگنڈا ہو رہا ہے کہ کینسر کا علاج
صرف شوکت خانم ہسپتال میں ہی ممکن ہے ۔جہاں فری علاج کا ڈھونگ کھل چکا ہے
۔کسی کو کوئی مفت علاج میسر نہیں ۔اربوں ڈالر کی فنڈنگ ہو رہی ہے۔اس سے
اپنے سیاسی اور معاشی مفادات حاصل کئے جا رہے ہیں لیکن جنہوں نے غریب عوام
کے لئے جہاد کیا، انہیں گالیاں ،چور اور ڈاکو کہلوایا گیا۔وہ آج جیلوں میں
سڑ رہے ہیں ،ان سے بد ترین سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے ۔اب اس نام نہاد
احتساب نے ان کینسر کے مریضوں کی زندگی کے چراغ گل کرنے شروع کر دیئے ہیں
۔اپنے دوستوں کو تین سو ارب روپے کی مراعات تو دے رہے ہیں لیکن مجبور اور
بے کس لوگوں کے لئے ادویات کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے ۔
ڈاکٹر یاسمین راشد نے پنجاب بھر میں صحت کے شعبے کے ساتھ بہت کھلواڑ کیا ہے
۔ان کی نااہلی ثابت ہو چکی ہے ۔یہ مسیحا ہوتے ہوئے بھی جلاد کی سی جبلت
رکھتی ہیں ۔آج ہر غریب درد اور تکلیف سے کرب ناک موت دینے والی ایماندار
اور احتساب کرنے والی حکومت سے اس کرپشن کرنے والوں کو سلام کرتے ہیں ،جن
کے دل میں غریبوں کے درد کی درماں تھی۔جو غریب کے مسائل کو جہاد سمجھ کر
تمام تر مصیبتیں اپنے گلے لے لیتے ہیں ۔وہی مسیحا ہیں ۔
|