عوام الناس کیلئے ڈینگی کے بارے میں چند معلومات گوش گذار
کررہا ہوں تاکہ اُ نکے دلوں میں اس مرض کا خوف کم ہو سکے اور وہ اس سے بچاؤ
کی بہتر کوششیں کر سکیں۔
ڈینگی ایک متعدی مرض ہے جو ڈینگی وائرس کی وجہ سے لاحق ہوتاہے، اس کی چار
اقسام ہیں ۔ کوئی بھی شخص جو ایک بار ڈینگی وائرس کی کسی بھی ایک قسم کا
شکار ہو چکاہو ،وہ زندگی میں کبھی بھی اگر ڈینگی وائرس کی کسی دوسری قسم کا
شکار ہو تو ڈینگی ھمیوریجک بخار میں مبتلا ہو سکتاہے۔
ڈینگی انسانوں میں ڈینگی وائرس سے متاثرہ مادہ Aedesمچھر کے کاٹنے سے
پھیلتا ہے ۔ مچھر خود ایسے مریض کو کاٹنے سے متاثر ہوتاہے جس کے خون میں
ڈینگی وائرس پایا جاتاہو۔
ایک بات یاد رکھئے گا کہ ڈینگی کبھی کسی متاثرہ شخص سے دوسرے شخص کو از خود
منتقل نہیں ہوتا ہے۔اگر آپ ان درج ذیل علامات کو اپنے اندر محسوس کریں تو
فوراََ قریبی ہسپتال سے رابطہ کریں کیونکہ انکے ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ
ڈینگی میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
تیز درجے کا بخار
سر میں شدید درد
آنکھوں کے پچھلے حصے میں درد
جوڑوں، پٹھوں اورہڈیوں میں درد کا احساس
دانتوں ،مسوڑوں اور ناک وغیرہ سے اخراج خون
ڈینگی سے متاثر ہ فرد کو اچھی خوارک، آرام،مشروبات کا ذیادہ استعمال اور
درد کیلئے Paracetamolاستعمال کرنی چاہیے۔متاثرہ مریض درد کیلئے ماسوائے
Pracetamolکے کوئی اور دوایا ملیریا کی ادویات ہرگز استعمال نہ کریں۔
اپنے آپ کو اور اپنے پیاروں کو ڈینگی سے محفوظ رکھنے کا بہترین حل یہ ہے کہ
آپ اسکے پھیلاؤ کے تمام تر راستے بند کریں۔اچھی طرح ڈھانپے والے کپڑ ے
استعمال کریں،گندا پانی کہیں کھڑا نہ ہونے دیں،گھر اورگھر کے اردگرد صفائی
کا خاص خیال رکھیں اور جراثیم کش ادویات کا سپرے کریں،ممکن ہو سکے تو گھر
میں مچھر والے کوائل اور مچھر دانی کا استعمال کریں۔
ڈینگی وائرس پر ایسی سیاست کی جا رہی ہے کہ جیسے یہ ایک عالمی سطح کا کوئی
معاملہ ہو، دوسری طرف جناب کشمیریوں کے حق میں اتنی بیان بازی نہیں ہوتی ہے
جتنی مفاد پرستی کے حوالے سے کی جاتی ہے جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔موجودہ
حکمران جماعت جو کچھ اب تک پچھلے ایک سال میں کر پائی ہے اس سے تو سب ہی
بخوبی واقف ہیں۔ حکومت ایک جانب سے دامن بچاتی ہے تو دوسری جانب سے آگ
بھڑکا دی جاتی ہے یا لگائی جاتی ہے اس بات کو فی الحال چھوڑیئے کہ ہمارے
ہاں تو آوئے کا آوا ہی بگڑا ہواہے کس کو کیسے سمجھائیں کچھ سمجھ نہیں آتاہے
اور سچ تو وقت آنے پر سامنے آہی جا تاہے۔
یہی دیکھ لیجئے کہ پچھلی جمہوری حکومت کے دورمیں کچھ ڈینگی نے تباہی مچائی
ہے اورحالات ویسے کے ویسے ہی ہیں جیسے پچھلی بارتھے، مگر تب پروپیگنڈہ کر
کے یہ ثابت کیا گیا تھا کہ حالات فوری قابو میں آگئے تھے مگر جناب صورت حال
یہ ہے کہ گذشتہ پینتیس سالوں میں سرکاری ہسپتالوں کی جو حالات پنجاب میں ہے
وہ اگر بیان کر دی جائے تو اقتدار میں پھر آنے والوں کے خواب ہی چکنا چور
ہو جائیں، یہاں تو عملے کی تعداد ہی کم ہوتی ہے جو کہ اس طرح کے مرض میں
مریضوں کی دیکھ بھال کر سکے۔جناب وزیر اعلی پنجاب کو اب سرکاری ہسپتالوں کو
چوبیس گھنٹوں چلانے کے لئے نہ صرف عملہ کی تعداد زیادہ کرنی چاہیے بلکہ
مزیدمشینری بھی منگوا کر دینی چاہے تاکہ مریضوں کو کچھ تو فائدہ ہو، اس طرح
کی عوامی خدمات سے ہی اُن پر کی جانے والی تنقید کا زور کم ہو سکے گا جب وہ
عوام میں گھل مل کر اور اُن کے مسائل حل کی جانب توجہ دیں گے۔
ایک طرف جہاں ڈینگی پر سب سیاست کر رہے ہیں وہاں پر یہ بات شاید ہمارے محب
وطن بھول رہے ہیں کہ پاکستان کے سرحدی علاقوں پر بھی بمباری اور فائرنگ سے
ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔دوسری طرف کشمیریوں کے ساتھ بھی زیادتیاں ہو رہی ہیں جو
کہ ایک بدترین عمل کہا جا سکتا ہے کہ بھارتی فوج اخلاقیات سے گری حرکتوں سے
بھی باز نہیں آتی ہے اور یہ سب افواج پاکستان کے علم میں ہے، بھارت کو
سوچنا چاہیے کہ کہیں سرحدی خلاف ورزی بھارت کے لئے مزید دشواری نہ لے آئے
کہ اگر کشمیر کی آزادی کا علم پاکستانی افواج نے تھام لیا تو پھر یہ آزادی
کی تحریک جلد کامیاب ہو جائے گی۔مگر جانوں کے ضیاع سے بہتر ہوگا کہ بھارت
پر امن طریقے سے کشمیریوں کو ان کا حق دے دے کیونکہ کشمیرجنت ہے اور جنت
یوں بھی کسی غیر مسلم کا ٹھکانہ نہیں رہ سکتی ہے۔بھارت کی جانب سے آزاد
کشمیر پر قبضے کی بات کو سب نے اس قدر توجہ نہیں دی ہے جس قدر ڈینگی کے مرض
پر دے دی گئی ہے جس کی وجہ سے راقم کو ایک ساتھ دونوں موضوعات پر بات کر
رہا ہے، یہاں تمام سیاستدانوں سے گذارش ہے کہ وہ اپنے مفادات کو بالا تر
رکھ کر محض انسانیت کو سوچتے ہوئے روز اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے
لئے کچھ نہ کچھ کریں، محض ڈینگی کے مرض کے پھیلاؤ پر وزیر اعلی پنجاب پر
انگلی نہ اُٹھائیں، انکے بہترین اقدامات کی بھی تعریف کریں اور اصلاح کی
جانب بھی توجہ دلوائیں مگر ساتھ ساتھ کشمیریوں کی آزادی کی جہدوجہد اور
انسانی حقوق کی فراہمی کے سلسلے میں بھی اپنا کردار سرانجام دیں ورنہ
مستقبل کا مورخ اُن کے بارے میں جو لکھے گا وہ قابل تعریف ہرگز نہیں ہو سکے۔
|