سہران کافی دیر سے موبائل فون پر گیمز کھیل رہی تھی مگر
اپنے چھوٹے بھائی کو بار بار کہنے کے باوجود بھی اُس نے اسے گیمز کھیلنے کا
موقعہ نہیں دیا مگر جب اُس نے اپنی امی کو دور سے اپنی طرف آتے دیکھا تو
فوراََ سے کتاب اُٹھا کر بیٹھ گئی جیسے کہ کافی دیر سے پڑھ رہی ہو۔سہران کو
جب سے موبائل فون ملا تھا اُس نے پڑھائی کی جانب توجہ کم کر دی تھی۔اسی وجہ
سے اُس کا اب پڑھنے کو کم دل کرتا تھا مگر اُسے آمنہ سے جو کہ اس کی اچھی
دوست تھی اُسے سے زیادہ نمبر لینے کا شوق ہوا تو اُس نے آمنہ کو بھی اپنی
مانند موبائل فون کا عادی بنانے کی کوشش کی مگر یہ ناکام رہی تو پھر وہ خود
ہی اس میں مصروف رہنے لگی۔
ایک دن اقرا نے جو کہ اُس کی جماعت ہی کی دوست تھی اُس نے آمنہ کے گھر کے
پاس خالی کوٹھی میں جانے کا کہا تو وہ فورا سے تیار ہو گئی تھی، سہران نے
اقراء کا بہت دنوں سے سر کھایا ہوا تھا کہ وہ بہت بہادر ہے اور اکیلے ہی
ویران جگہوں پر جب بھی وہ گاؤں جاتی ہے تو گھوم پھر کر آجاتی ہے ، اُسے
بھوت پریت سے کوئی بھی خطرہ لاحق نہیں ہو ا ہے۔اقراء نے اُسکی باتیں سن کر
ایک پروگرام طے کرلیا تھا کہ اب اُسے لے کر اُ س خالی کوٹھی میں جانا
ہے۔آخر بہادر لوگ ہی تو ایسے کارناموں کے لئے مشہور ہوتے ہیں۔
مگر پھر ایسا ہوا کہ اقراء کی دادی گاؤں میں بیمار ہو گئی تو اُس نے اسکول
سے تین ماہ کی چھٹیاں لے لیں اور کوٹھی میں جانے کا پروگرام تاخیر کا شکار
ہو گیا۔ مگر اس دوران سہران نے خوب موبائل فون کا استعمال کیا ۔سہران کو اب
مختلف چیزوں کو دیکھنے میں مسائل آرہے تھے ، آنکھوں کے ڈاکٹر کو معائنہ
کروایا گیا تو یہ انکشاف ہوا تھا کہ اُس کی نظر کم ہو رہی ہے،جس پر فوری
طور پر علاج شروع کر وا دیا تھا اورسہران کی والدہ نے بھی بیٹی کی صحت پر
توجہ دینا شروع کر دی تھی۔اُ س سے قبل وہ بھی گھر کے کام کاج اور اپنی
سہیلوں سے باتوں کی وجہ سے اُس پر توجہ دینے سے گریز کر رہی تھیں۔
اقرا ء واپس آچکی تھی مگر سہران کی صحت بہتر ہو چکی تھی،اُسے یہ جان کر بہت
افسوس ہوا کہ اسکی دوست کی نظر کمزور ہو گئی تھی جس کی بڑی وجہ اُس کا کثرت
سے موبائل فون استعمال کرنا تھا۔جب اُس نے سہران سے خالی کوٹھی جانے کا کہا
تو وہ ڈر سی گئی تھی۔اُس کا خوف کے مارے رنگ جب پیلا پڑا پھر بھی اقراء نے
ضد نہ چھوڑی اور اُسے لے کر جب کوٹھی میں داخل ہوئی تودوپہر میں ہی اُس کے
کمرے اندھیرے میں خوف کاسماں پیش کر رہے تھے،مگر جونہی وہ ایک کمرے سے
دوسرے کمرے کے لئے گئی تو وہاں پر ایک سفید خون زدہ چہرہ دیکھ کر وہ یوں
بھاگی کہ اُسے پیچھے سے اقراء کی ہنسی بھی نہیں سنائی دی جو کہ کافی دنوں
سے اُس کی بہادری کے قصے سن کر آمنہ کے ساتھ مل کر پروگرام بنا چکی تھی کہ
کیسے سہران کو ڈرانا ہے اور اُسے حقیقی معنوں میں بہادر بنانا ہے۔خالی
کوٹھی کے قصے بھی اقراء نے خود سے گھڑ لئے تھے تاکہ سہران کی بزدلی کو ختم
کیا جا سکے۔نظر کی کمزوری کے واقعے اور اس حادثے سے وہ یکسر بدل گئی تھی
اُس نے سوچ لیا تھا کہ اﷲ کی ذات پر بھروسہ کرنے والے کسی سے نہیں ڈرتے ہیں
، یہ بات اُسے موبائل فون کی لت چھوٹ جانے کے بعد کتب کے سے پتا چل گئی تھی۔
|