اگر آپ کراچی کے مضافات میں واقع ساحلوں پر گئے ہیں تو
کیا کبھی آپ کی نظر ایسے لوگوں پر پڑی جو سمندر میں بلند ہوتی لہروں پر
تختوں کی مدد سے لہرا رہے ہوں؟
|
|
اگر آپ کا جواب ہاں ہے، تو یہ افراد دراصل دنیا بھر میں مقبول کھیل 'سرفنگ'
سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
یہ کھیل دیکھنے میں جتنا پرسکون لگتا ہے، اسے عملی طور پر انجام دینا اتنا
ہی مشکل ہے۔ اس کھیل کو دیکھ کر کوئی انجان بندہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا
ہے کہ آخر یہ سرفرز اس تختے پر اپنا توازن کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں۔
تاہم آپ کے ذہن میں یہ سوال بھی ضرور ابھرے گا کہ سرفنگ کا کھیل کراچی کے
پانیوں تک کیسے پہنچا؟
کراچی میں سرفنگ کے بڑھتے رجحان کے بارے میں لکھنے سے پہلے یہ بتانا ضروری
ہے کہ آخر سرفنگ کیسے کی جاتی ہے۔
|
|
سرفنگ ہوتی کیا ہے؟
سرفنگ ایک ایسا کھیل ہے جس میں آپ سرف بورڈ یعنی خصوصی تختے پر قدم جما کر
سمندی لہروں پر لہرا سکتے ہیں۔
اس کھیل کو بغیر کسی خطرے کے اپنانے کے لیے آپ کو تیراکی میں مہارت حاصل
کرنا لازم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرفنگ کے دوران آپ اکثر پانی میں گرتے
ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ تختے سے دور ہو جائیں۔
سرفنگ کرتے وقت سب سے پہلے ایک سرف بورڈ پر لیٹ کر اس سے کشتی کا کام لیا
جاتا ہے اور اپنے ہاتھوں کو چپوؤں کی طرح چلا کر گہرے پانی میں داخل ہوا
جاتا ہے۔
|
|
پھر سرفر ایک شکاری کی طرح بڑی لہر کی تاک میں بیٹھ جاتا ہے اور پانی پر 'فلوٹ'
یعنی تیرتے ہوئے انتظار کرتا ہے۔
جیسے ہی کوئی لہر آتی ہے تو وہ فوراً اپنی سمت تبدیل کرتا ہے جس میں لہر اس
کی پشت پر ہوتی ہے اور ایسے لگتا ہے کہ جیسے وہ لہر سے بچ کر بھاگنے کی
کوشش میں ہے۔
پلک جھپکنے میں وہ اچھل کر بورڈ اپنے پیروں تلے لے آتا ہے اور پھر وہی لہر
اس کے قدموں تلے ہوتی ہے۔
|
|
یہاں سے سرفر اور لہر کی لڑائی کا آغاز ہوتا ہے۔ لہر پر اپنے تختے کی مدد
سے گلائیڈ کرنے کے لیے خاصی مہارت درکار ہے۔
جب تک لہر ہموار نہیں ہو جاتی سرفر اس کے کناروں پر اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔
اس سارے مرحلہ میں سرفر کا توازن برقرار رکھنا بنیادی شرط ہے۔
عام طور پر تو سرفنگ تفریح کی غرض سے کی جاتی ہے۔ تاہم مغربی دنیا میں
سرفنگ کے مقابلے عام ہیں اور اب تو سرفنگ کو بطور کھیل ٹوکیو اولمپکس 2020
میں بھی شامل کر لیا گیا ہے۔
|
|
’مبارک گنج کلب‘ کے سرفرز
کراچی کے نواح میں واقع ہاکس بے، ٹشان اور مبارک ولیج کے ساحل اس کھیل کے
لیے سازگار ہیں۔
مبارک ولیج اپنے ماہی گیروں کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہاں سرفنگ کرتے زیادہ تر
نوجوان ایک ماہی گیر خدا گنج شاد کے زیرِ نگرانی 'مبارک گنج سرفنگ کلب' میں
تربیت لے رہے ہیں۔
سنہ 2014 میں پاکستان فشر گروپ فورم کے غلام مصطفیٰ بھورگے نے خدا گنج سے
رابطہ کیا کہ ان کے دوست ڈاکٹر آفتاب عزیز صدیقی ان کے گاؤں مبارک ولیج میں
کچھ سرف بورڈز دینا چاہتے ہیں، کیا وہ انھیں استعمال میں لا سکیں گے؟ خدا
گنج نے فوراً حامی بھر لی۔
خدا گنج نے صرف تین سرف بورڈز اور 28 ممبرز سے آغاز کیا۔ تیراکی تو ان کے
لیے بہت آسان تھی لیکن سرفنگ کے کھیل کی نوعیت مختلف ہونے کے باعث انھیں
آغاز میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
|
|
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہمیں صرف تیرنا آتا تھا، نہ کوئی کوچنگ تھی نہ نگران تھا،
ہم بس انٹرنیٹ کے سہارے اس فن میں مہارت لینے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ سرفنگ میں مہارت حاصل کرنے لگے اور پھر یہ کارواں
بڑھتا چلا گیا۔
آج ڈاکٹر عزیز اور ان کے بیرونِ ملک مقیم دوستوں کی کاوشوں سے ان کے کلب
میں 28 سرف بورڈز موجود ہیں اور یہاں بلوچستان کے علاقے گڈانی تک سے لوگ یہ
فن سیکھنے آتے ہیں۔
|
|
پاکستان میں سرفنگ کرنا کتنا مشکل ہے؟
پاکستان میں پانی سے منسلک کھیلوں سے نا آشنائی کے باعث ان میں استعمال
ہونے والا سامان مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتا۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سرف بورڈ اور اس پر لگنے والی ویکس (موم) کی
خریداری میں سرفرز کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہاکس بے پر ایسی ہی ایک سرفنگ اکیڈمی چلانے والے امریکی نژاد پاکستانی سرفر
ہاشم احمد نے ان مشکلات کے باوجود لوگوں کو سرفنگ سکھانے کے لیے ایک سرفنگ
سکول بنایا۔
وہ بتاتے ہیں کیونکہ نئی ساخت کے سرف بورڈ کو بنانے کے لیے خاص تھری-ڈی
مشینیں درکار ہوتی ہیں اس لیے یہ پاکستان میں دستیاب نہیں ہیں۔
|
|
وہ بتاتے ہیں ’ہم یا تو بیرونِ ملک کسی سے کہہ کر یہ سرف بورڈ منگواتے ہیں،
یا پھر کبھی کبھار یہاں باہر سے آئے سامان میں سے استعمال شدہ سرف بورڈ مل
جاتے ہیں۔‘
اس کے علاوہ ان سرف بورڈز پر ویکس یعنی موم لگائی جاتی ہے تاکہ سرفر کے
پاؤں بورڈ پر مضبوطی سے جم سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بھی پاکستان میں
دستیاب نہیں اور اکثر نچلے درجے کی ویکس لگانی پڑتی ہے۔
ہاشم سے سرفنگ سیکھنے والے ذوہیب انس بتاتے ہیں کہ اس ویکس کی خریداری کے
لیے بھی آپ کو بیرونِ ملک سے آنے والے پاکستانیوں کی راہ تکنی پڑتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں سرفنگ کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ آن لائن آرڈر
ہوتا نہیں ہے، اور اگر ہوتا بھی ہے تو آپ کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سرفنگ
بورڈ کس قسم کا آئے گا۔‘
خدا گنج بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ تاہم وہ بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر عزیز
اور ان کے دوستوں نے انھیں کبھی مایوس نہیں کیا۔
خدا گنج بتاتے ہیں: ’سرفنگ کا سامان پاکستان میں نہیں ملتا، اگر بورڈ ٹوٹ
جائے تو آپ اس کی مرمت نہیں کروا سکتے، یہاں تک کہ ایک خاص قسم کا رسّا بھی
یہاں دستیاب نہیں ہے۔ سب کچھ باہر سے منگوانا پڑتا ہے۔‘
|
|
پاکستان میں سرفنگ سیزن
ذوہیب کے مطابق نئے سیکھنے والے سرفرز عام طور پر تیز رفتار لہروں کے باعث
جون اور جولائی میں سرفنگ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’پاکستان میں سرفنگ کا سیزن مارچ کے آخر میں شروع ہو جاتا
ہے اور اگست سے اکتوبر تک چلتا ہے۔ جبکہ سردیوں میں سرفنگ نہیں کی جاتی۔‘
ہاشم احمد پاکستان میں لوگوں کی پانی سے منسلک کھیلوں سے دوری سے متعلق بات
کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان کی ساحلی پٹی کافی طویل ہے جہاں آپ سرفنگ کر
سکتے ہیں لیکن لوگ اس بات کا فائدہ نہیں اٹھاتے۔
ان کا کہنا ہے کہ 'یہاں لوگ سوائے کرکٹ کے دیگر کھیلوں کی طرف متوجہ نہیں
ہیں۔ تیراکی اور پانی سے متعلق کھیلوں میں تو بالکل مہارت نہیں رکھتے ہیں۔'
|
|
ہاشم خود کئی دہائیوں سے سرفنگ کر رہے ہیں لیکن پاکستان میں اس سکول کے
ذریعے سرفنگ سکھانے کا کام انھوں نے پچھلے برس ہی شروع کیا تھا۔
ان کا سرفنگ سکول ڈی کے سی سرفنگ سکول کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انھیں اس
سکول میں تیراکی سکھانے کے لیے الگ سے انتظام کرنا پڑتا ہے۔
سرفنگ کی حکومتی سرپرستی ’زیرو‘
جب ہم نے ذوہیب انیس سے پاکستان میں سرفنگ کے کھیل کی حکومتی سرپرستی کے
حوالے سے پوچھا تو ان کا جواب تھا: 'زیرو، زیرو، زیرو۔'
ذوہیب نے اس کھیل کو کرکٹ اور دوسرے کھیلوں کو چھوڑ کر اپنایا ہے اور اب ان
کے لیے سرفنگ تفریح سے بڑھ کر ہے۔
|
|
وہ بتاتے ہیں کہ حکومت اس کھیل کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے اس میں رکاوٹ
بنتی ہے۔
وہ کہتے ہیں ’کئی دفعہ کوسٹ گارڈ آ کر حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ پچھلے اتوار کو
ٹشان کے ساحل پر کوسٹ گارڈ آ گئے اور انھوں نے ہمیں سرفنگ کرنے سے روکا اور
کسی دوسری جگہ جانے کو کہا۔‘
ہاشم احمد بھی ذوہیب کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ
پاکستان کو سب ’سیاحوں کے لیے دوستانہ ملک‘ بنانے کے خواہاں تو ہیں لیکن اس
حوالے سے عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ سیاحت کے فروغ کی بات کرتے ہیں تو آپ کو سیاحوں کے
لیے دوستانہ ماحول فراہم کرنا پڑے گا اور سرفنگ سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ
کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔‘
کیا ذوہیب کو حکومت سے اس کھیل کی سرپرستی کرنے کی کوئی امید ہے؟
’پاکستان میں رہتے ہوئے تو کوئی امید نہیں، 70 سال ہو گئے بھائی! اپنی مدد
آپ کے تحت ہی سب کرنا پڑتا ہے۔‘
|