پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر ڈگھڑی میں ایک ’غیر معمولی‘
بچے کی پیدائش ہوئی ہے جس کا دھڑ تو ایک ہے لیکن سر دو ہیں۔
علی مراد کھوسو کی اہلیہ فوزیہ کھوسو نے گذشتہ دنوں آپریشن کے ذریعے اس بچے
کو جنم دیا ہے۔ اس وقت ماں اور بچہ دونوں ایک نجی ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔
|
|
بچے کے والد مزدوری کرتے ہیں اور ٹرک میں بوریاں لوڈ
کرتے ہیں۔ ان کی شادی کو ایک سال ہوگیا ہے اور یہ ان کی پہلی اولاد ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بچے کا وزن ساڑھے تین کلو ہے اور ماں کا دودھ پیتا ہے۔
پیدائش کا احوال
علی مراد نے زچگی کے ابتدائی دنوں میں اور اس کے بعد بھی ایک مرتبہ
الٹراساونڈ کرایا۔ تاہم ان کے مطابق ڈاکٹر نے یہ کہہ کر تسلی دی تھی کہ بچے
کی کمر تھوڑی ’ابھری‘ ہوئی ہے لیکن یہ پیدائش کے وقت تندرست ہو گا۔
سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر اور سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے علی مراد
اپنی بیوی کو دنبالو سے ڈگھڑی کے نجی ہسپتال لے آئے۔
انھوں نے بتایا کہ جب وہ زچگی کے وقت یہاں آئے تو ڈاکٹر نے کہا کہ ’نارمل
ڈیلیوری نہیں ہوسکتی کیونکہ ہڈی بڑھی ہوئی ہے اس لیے آپریشن کراؤ۔‘
جس کے بعد انھوں نے آپریشن کرانے کی حامی بھر لی۔
آخر کار جب بچے کی پیدائش ہوئی تو پتہ چلا کہ اس بچے کے سر دو اور دھڑ ایک
ہے۔
لوگوں کی دلچسپی
کراچی سے تقریباً 270 کلومیٹر دور واقع ڈگھڑی کے نجی ہسپتال میں لوگ اس دو
سر والے بچے کو دیکھنے آرہے ہیں۔
اس بچے کا دھڑ، کان، ہاتھ، ٹانگیں اور دیگر اعضا تو ایک عام انسان کی طرح
ہی ہیں لیکن اس کے سر دو ہیں۔
علی مراد کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ مبارک باد دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’خدا
کرے گا، بچ جائے گا۔
|
|
جبکہ کچھ لوگ ان کے سامنے حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔
’لاکھوں میں ایک‘
ماہرینِ صحت کے مطابق ایک لاکھ نومولود بچوں میں سے صرف ایک ایسا بچہ پیدا
ہوتا ہے۔
ماں کے رحمِ مادر میں جب بیضہ کے ساتھ بچے کی افزائش کا مرحلہ شروع ہوجاتا
ہے تو یہ ایک خلیہ ہی رہتا ہے اور بعض اوقات دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے
جس سے جڑواں بچوں کی پیدائش ہوتی ہے۔
دوسری صورت میں یہ خلیہ دو حصوں میں تقسیم نہیں ہو پاتا۔ اس کا ایک حصہ
سوکھ جاتا ہے یا اس کی مزید افزائش نہیں ہو پاتی جس کے نتیجے میں بچوں میں
پیدائش کے بعد مسائل ہوتے ہیں۔
علاج کراچی میں ممکن
نجی ہسپتال کے ڈاکٹر منصور بھرگڑی کا کہنا ہے کہ بچہ صحت مند ہے اور اس کی
حرکات ایک نارمل بچے کی طرح ہیں۔
انھوں نے والدین کو مشورہ دیا ہے کہ بچے کو کراچی لے جائیں جہاں مزید علاج
ہوسکے کیونکہ آگے چل کر پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں۔
بچے کے والد علی مراد کے مطابق ڈاکٹر نے انھیں کہا ہے کہ بچے کو کراچی لے
جائیں لیکن فی الحال وہ کہیں نہیں جا رہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پہلے میری بیوی صحت مند ہو جائے، اس کے بعد ہم گھر جا کر
خاندان کے ساتھ مشاورت سے کوئی فیصلہ کریں گے۔‘
’میں مزدور آدمی ہوں۔ کراچی اور علاج کے اخراجات کہاں برداشت کر پاؤں گا۔‘
|