عقیدہ ۔روحانیت ،یقین اور حقیقت ۔ ایک دلچسپ ڈائیلاگ

احتشام الحق شامی۔ کچھ عرصہ قبل کی بات ہے، دفتر کی دوسری جگہ منتقلی کا کام شروع تھا ،ایک روز درمیانی عمر کی خاتون،جو دیکھنے میں ہی سفید پوش اور پریشان دکھائی دے رہی تھی دفتر میں داخل ہوئی ۔ اسے بیٹھنے کو کہا اور آنے کا مقصد پوچھا ۔ گویا ہوئی،گھر میں غربت اور بیماریوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ،خاوند بے روز گار ہے اور کوئی ذریعہ معاش نہیں اس لیئے میری مدد کریں ۔ اس کی پریشانی میں ڈوبی گفتگو کوئی ایک گھنٹہ وقت پر محیط تھی لہذا میری جیب میں اس وقت اتنے پیسے نہیں تھے کہ اس کی طویل دکھ بھری کہانی سن کر صرف پانچ دس روپے دے کر اسے رخصت کروں ،اس خیال سے کہ کہیں اس کی دل آزاری یا مایوسی نہ ہو،جبکہ خیال تھا کہ اس کی خاطر خواہ مدد کر سکوں ۔ اس لیئے اس کی تسلی تشفی کے لیئے اسے کچھ ایسے کام کرنے کو کہے جو ویسے ہی ہماری زندگیوں میں روز مرہ کا حصہ ہیں ۔ خاکسار نے خاتون کو وہی باتیں کرنے کو کہیں مثلا ہر وقت اللہ کو یاد کرتے رہنا، روزانہ گھر کی صفائی کرنا اور خود بھی پاک اور صاف رہنا ،صبح سویرے اٹھنا،نماز پابندی سے پڑھنا جلد سونا اور جلد اٹھنا وغیرہ وغیرہ اور جیب میں غالبا اس وقت جو دس یا بیس روپے تھے، خاتون کو دیئے اور اس کے جاتے ہوئے چند دعایہ کلمات اس کے حق میں ادا کیئے جو ہم عام روٹین میں مہمانوں کو رخصت کرتے وقت ادا کرتے ہیں ۔

تقریبا دس بارہ دنوں بعد جس دن ہم نے دفتر کی چابیاں مالک کے حوالے کرنا تھیں ،وہی خاتون ایک اور خاتون کے ہمراہ دفتر آن پہنچی اور ساتھ ہی گویا ہوئی،حضرت صاحب میرے حالات میں تو بہتری آنا شروع ہو گئی ہے یہ میری ہمسائی ہے اب اس کے لیئے کچھ کر دیں میرے دونوں ہاتھ فورا دونوں کانوں تک پہنچ گئے اور استغفار کا ورد کرنے لگا،خاتون کے آگے دونوں ہاتھ جوڑے کہ مجھے معاف کر دے اور گنہگار نہ کرے لیکن جتنا میں اسے منع کرتا رہا مریدنی مجھے اتنا ہی سچا پیر مانتے ہوئے اپنی بات منوانے پر اڑی رہی، اس دوران ایک گھنٹہ کا وقت گزر گیا،اب دفتر کو تالے لگا کر چابیاں مالک کے حوالے کر کے نکلنا تھا،سو جان چھڑانے کے لیئے اس کے ساتھ آئی دوسری خاتون کو بھی وہی عمل کرنے کو کہا جو پہلی مریدنی کو بتائے تھے ۔

کافی دنوں بعد جب کسی کام سے پرانے دفتر کی جانب جانا ہوا تو ساتھ آفس والے حاجی صاحب نے بتایا کہ ،مرشد ! آپ کا پوچھنے کے لیئے بہت خواتین پلازے میں آتی ہیں ، پوچھتی ہیں حضرت صاحب کہاں چلے گئے ہیں کیا آپ کی اجازت سے دفتر کا نیا ایڈریس انہیں دے دیا کروں کیونکہ آپ نے منع کر رکھا ہے، میں نے حاجی صاحب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر درخواست کی کہ خدا کے واسطے میرے ساتھ ایسا ظلم نہیں کرنا ۔ہمارا معاشرہ اخلاقی گراوٹ،غربت اور ناخواندگی کا شکار تو تھا ہی لیکن ایسے کمزور اعتقاد اور عقیدے کے حامل مسلمانوں کا نہیں بلکہ نفسیاتی مریضوں سے بھی بھرا پڑا ہے ۔ ہم کہتے ہیں یا اللہ میرا حال دیکھ تو اللہ کہتا ہے پہلے اپنے اعمال دیکھ۔

اظہر سید۔ انسانی ذہین اور دل کسی چیز پر سو فیصد یقین کر لے تو زمان و مکان میں تبدیلی آ جاتی ہے اور حالات و واقعات اس یقین کے مطابق ہو جاتے ہیں ۔ موت کے بستر پر کوئی کسی پیارے کا منتظر اس کے آنے تک نہیں مرتا ۔ماں کو ہزاروں میل دور اپنے بچے پر آئی مشکل کی خبر دل کی گواہی سے مل جاتی ہے ۔ چیدہ لوگ مستقبل دیکھ لیتے ہیں۔یہ طویل بحث ہے شامی صاحب پر خاتون ایمان لے آئی اور اس کے پختہ یقین نے اس کے مسایل حل کر دئے ۔ ہم سمجھتے ہیں یہ بدعقیدگی نہیں بلکہ دل و دماغ کا یقین ہے ۔ بھلے دیہاتوں میں مکار پیر معصوم لوگوں کی معصومیت سے فائدہ اٹھاتے ہوں لیکن یقینی طور پر اپنے یقین کی بدولت انہیں کچھ ریلیف ضرور ملتا ہو گا۔

خرم جمیل احمد۔ دعا سب کے لئے کرنی چاہیے اسکے لئے پیر ہونا ضروری نہیں ہمارے ہاں اکثر لوگ ضعیف العقیدہ ہیں اور تدبیر سے زیادہ تعویز پر ایمان رکھتے ہیں لیکن اسکی بھی بے شمار وجوہات ہیں لیکن لوگوں کے دکھ تکالیف مصائب اور بیماریاں لاتعداد اور وسائل کا محدود ہونا سب سے بڑی وجہ ہے۔

ظفر محمود وانی ۔
ہومیو پیتھک طریقہ علاج مکمل طور پر اسی پر بیس کرتا ہے ۔جس میں زہن کو یہ یقین دلا دیا جاتا ہے کہ میرا علاج ہو رہا ہے تو اس یقین کی وجہ سے کئی بار افاقہ یا شفا بھی ہو جاتے ہے لیکن اس کی وجہ دوا ہرگز نہیں ہوتی بلکہ علاج کا یقین ہوتا ہے باقی کا کام جسم کا مدافعاتی نظام خود کر دیتا ہے اسی طرح توجہ کا کسی وجہ دے دوسری طرگ مبزول ہو جانا بھی تکلیف اور درد کے احساس کو کم کر دیتا ہے دم ، تعویز وغیرہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں ، علاج کے لئیے پیسے نہ ہونا ، یا استطاعت نہ ہونا عام طور پر لوگوں کو " روحانی علاج " کی طرف لے جاتا ہے ، مجھے منٹو کے ایک افسانے کا کردار " بابو گوپی چند " یاد آتا ہے ، وہ کہتا ہے مجھے دو جگہ جا کر سکون ملتا ہے ایک پیر کے آستانے یا مزار پر ، اور دوسرے طوائف کے کوٹھے پر ، کیونکہ ان دونوں جگہوں پر زمہن سے چھت تک دھوکہ ہی دھوکہ بھرا ہوا ہوتا ہے ، اور خود کو دھوکہ دینے کے لئیے ان سے اچھی جگہیں نہیں ہو سکتیں ۔ ہمارے دیہات میں عام طور پر لوگوں کو سانپ ڈس لیتے ہیں تو وہ کسی سپیرے یا پیر سے دم کرواتے ہیں اور کبھی ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں ، لیکن دراصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ سانپ ستر فیصد غیر زہریلے ہوتے ہیں اور پاکستان میں بنیادی طور پر صرف چار قسم کے زہریلے سانپ پاے جاتے ہیں جن میں کریٹ ، کوبرا ، رسل وائپر، اور سا سکیل وائپر شامل ہیں اگر تو واقعی زہریلہ سانپ کاٹ لے تو بغیر تریاق کے مریض ہلاک ہو جاتا ہے ایسے مریضوں پر دم یا تعویز کا کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن اکثر سانپ غیر زہریلہ ہوتا ہے جس کے کاٹنے پر اگر دم یا تعویز نہ بھی کروایا جاے تو مریض معمولی انفیکشن کے بعد ٹھیک ہو جاتا ہے لیکن اس معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے کہ ہمیشہ خوف کا باعث لاعلمی ہوتی ہے تو کبھی سانپ کاٹے کے مریض کو خوف بھی ہلاک کر دیتا ہے ۔ اسی طرح دعا کا معاملہ ہے انسان کے زہن کے کام کرنے کا انداز کچھ کمپیوٹر سے ملتا جلتا ہے اور کمپیوٹر بغیر کمانڈ دئیے ازخود کوئی کام نہیں کر سکتا اسی طرح دعا اوپر تو جاتی ہی ہے نفسیاتی طور پر یہ ہمارے زہن کے لئیے ایک کمانڈ کا کام بھی کرتی ہے اس وجہ سے کبھی یہ دعائیں پوری بھی ہو جاتی ہیں کیونکہ دعا بنیادی طور پر ہماری کسی خواہش پر ہی مبنی ہوتی ہے اور زہن کو دعا کی صورت میں یہ کمانڈ ( حکم )ملنے پر زہن اس کو پورا کرنے کے لئیے غیر محسوس طریقے سے کام شروع کر دیتا ہے اور کبھی اگر معاملات " رینج " میں ہوں تو پورے بھی ہو جاتے ہیں ۔ خود ہمیں کبھی ایسا واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اندر دو شخصیتیں ہیں اور کسی بھی معاملے میں ان دونوں کی پسند اور سفارشات مختلف ہوتی ہیں ، یہ دونوں حصے آپس میں بحث بھی کرتے ہیں اور دلائل بھی دیتے ہیں خیر یہ ایک الگ اور بہت دلچسپ موضوع ہے جو تفصیل کا متقاضی ہے ۔

اظہر سید ۔ وانی صاحب نے بحث کا آغاز کر دیا ہے حقیقت میں یہ دنیا خواب و خیال ہے یہ کوئی وجود بھی ہے اس کا کب تک زندگی کا یا دنیا کا سلسلہ جاری رہے گا بہت سارے تشنہ سوالات ہین اگر مادی وجود حقیقت ہیں تو خواب میں مستقبل کی صورت گری کیسے ہو جاتی ہے ۔

ظفر محمود وانی ۔ جناب جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ کوئی حادثہ ، ایسے واقعات کا ایک تسلسل ہوتا ہے جو ہم سے پوشیدہ رونما ہو رہے ہوتے ہیں جیسے کوئی وہیکل ایکسیڈنٹ ہمارے لئیے ایک ناگہانی حادثہ ہوتا ہے لیکن دراصل ہماری نظروں سے اوجھل کوئی پرزہ گھس رہا ہوتا ہے ، یا کوئی بولٹ ڈھیلا ہو کر کھل رہا ہوتا ہے لیکن کیونکہ ہمیں اس خرابی کے۔ بارے میں معلوم نہیں ہوتا تو جب یہ پرزہ ٹوٹ کر کسی حادثے کا باعث بنتا ہے تو ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اچانک حادثہ ہو گیا ۔ اسی طرح ہماری تجزیہ کرنے اور اس سے نتیجہ نکالنے کی صلاحیت ہی ہمیں انسان بناتی ہے ۔ مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے کہ " انسان واحد جانور ہے جو مصیبت پڑنے سے پہلے ہی مایوس ہو جاتا ہے " ایسا اسی زہن کے تجزیہ کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے ہوتا ہے جیسے ہمیں مہینے کے۔ شروع میں تنخواہ نہ ملے تو ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ آئندہ ماہ مشکل گزرے گا حالانکہ یہ سب ابھی ہونا باقی ہوتا ہے ۔ اسی طرح زہین ترین انسان بھی اپنے زہن کو کچھ فی صد ہی استعمال کر سکتا ہے باقی حصے میں کیا کچھ پوشیدہ ہے یہ ابھی معلوم نہیں ، مشاہدے میں آیا ہے کہ کوئی مجزوب اچانک کوئی بات کہہ دیتا ہے اور وہ اسی طرح ہو جاتا ہے یہاں شاید اس کے دماغ کے نارمل سرکٹ متاثر ہونے کی وجہ سیسپارک کی طرح کوئی دور دراز اور استعمال میں نہ آنے والا سرکٹ چارج ہو جاتا ہے تو وہ بات اس کے منہ سے نکلتی ہے اور پوری ہو جاتی ہے جو ہمارے لئیے جو چند ہی روایتی سرکٹس کی مدد سے زندگی گزارنے والوں کے لئیے حیرت انگیز ہوتی ہے ، مثال کے طور پر آج سے دو تین سو سال پہلے کا کوئی شخص اگر زندہ ہو کر آ جاے تو اس کے لئیے یہ آج کی دنیا ایک جادو نگری ہو گی کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ یہ جو روشنی دینے والے آلہ جات لگے ہیں ان کے پیچھے کیا سورس ہے اور کس سرکٹ کے زریعے یہ قوت یہاں پہنچ کر روشنی میں بدل رہی ہے ۔ وہ جہاز دیکھے تو حیرت سے دوبارہ فوت ہو جاے کہ اس کو ائیرو ڈائنمکس کا کچھ معلوم نہیں ہے بس کچھ ایسی ہی حالت ہم لوگوں کی بھی ہے بہت کچھ ابھی نامعلوم ہے جو کہ ابھی ہم نے دریافت کرنا ہے اس لئیے کوئی حتمی راے قائم کرنے کوذرا موخر کر دینا ہی بہتر ہے ۔ ویسے بھی شاید " حتمی " کچھ بھی نہیں یہ صرف ہمارا گمان ہی ہوتا ہے ۔

احتشام الحق شامی ۔ جناب آپ تو ماہر روحانیات بھی ہیں

ظفر محمود وانی ۔ آپ کی یہ بات کہ کیا یہ دنیا حقیقی بھی ہے یا یہ بھی خواب و خیال ہے تو میری ناچیز رائے میں یہ بات ایک لحاظ سے درست بھی ہے کیونکہ انسان اپنے مادی وجود میں ایک آرگینک( نامیاتی )شے ہے جس کو دوام نہیں ہے چاہے کتنی ہی کوشش کر لی جاے لیکن انسان نے لاکھوں سال کے ارتقائی عمل سے یہ زہن حاصل کیا ہے یہ زہن آج وہ کچھ کر رہا ہے کہ ہمارے لئیے تصور کرنا بھی مشکل ہے ، آئندہ یہ زہن کچھ سو سال تک اس قابل ہو جاے گا کہ جس طرح ہم کسی ہارڈ ڈرائیو کی کاپیاں بنا لیتے ہیں اسی طرح زہن کی کاپی بھی بنا لی جاے گی اور اس کو ڈیٹا سمیت محفوظ کر لیا جا سکے گا اب چاہے جسم نامیاتی طور پر فنا بھی ہو جاے لیکن ہماری شخصیت کی کمانڈنگ اور ڈرائیونگ فورس ہمارا زہن ہوتا ہے تو یہ برقرار رہے گا ۔ باقی جانوروں کی نسبت ہمارے تیز اور بہتر ارتقا کی وجہ بھی یہی زہن کی خصوصیت ہے جو ہم اپنا علم ، تجربات ، مشاہدات اپنی اگلی نسل کے زہن میں منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ابھی تک تو یہ کام قدرتی طریقہ کار کے تحت ہو رہا ہے آ ئندہ مستقبل میں یہی کام نامیاتی برقی سرکٹس کے زریعے کیا جا سکے گا آج سے چند سال پہلے اسرائیل میں نامیاتی برقی کمپیوٹر سسٹم پر کام ہو رہا تھا لیکن بعد میں اس کام کو بوجوہ انتہائی خفیہ زمرے میں شمار کرتے ہوے پوشیدہ کر لیا گیا ۔ اب نہ معلوم کتنی پراگریس ہے اور یہ کام کہاں پہنچا مختصرا یہ ہمارے دماغی سگنلز کے زریعے کسی کمپیوٹر جو سپر کمپیوٹر بھی ہو سکتا ہے ، کو کنٹرول اور آپریٹ کرنا ہے ۔ ۔ باقی کرہ ارض پر زندگی کا براہ راست تعلق سورج کے ساتھ ہے ہماری گلیکسی ملکی وے میں دس ارب سے زیادہ سورج موجود ہیں کچھ پیدا ہو رہے ہیں کچھ ہمارے سورج کی طرح درمیانی عمر میں ہیں اور کچھ ختم ہو رہے ہیں ہمارا سورج اپنی عمر کے درمیان میں ہے اور اسے وجود میں آے تقریبا سات ارب سال ہو چکے ہیں اور اگر باقی حالات ٹھیک رہے تو ابھی اسے ریڈ جائنٹ اور پھر وائٹ ڈرافٹ بننے میں مزید سات ارب سال باقی ہیں یہ دونوں صورتیں کسی سورج میں ایندھن کے ختم ہونے پر رونما ہوتی ہیں پہلے وہ بہت پھیل کر ریڈ جائنٹ بن جاتا ہے پھر سکڑ کر چھوٹا سا چاند نما وائٹ ڈرافٹ بن جاتا ہے ۔ اس لئے نہ کسی کو ٹینشن دیں نہ ٹینشن لیں ۔ اور اپنی مختصر زندگی ہنسی خوشی ، سب پیاروں کے ساتھ گزاریں ۔

ظفر محمود وانی ۔ شامی صاحب اصل میں میں بالکل کچھ نہیں ہوں صرف ایک تجسس سے بھرا ہوا بچہ جو کچھ نہیں جانتا لیکن ہر سوال کرتا ہے۔

احتشام الحق شامی ۔ واہ ، بہت خوب ۔

احتشام الحق شامی ۔ ایک عورت مولوی سے دم کروانے گئی اور کہنے لگی مولوی صاحب میرے شوہر راتوں کو دیر سے گھر آتے ہیں۔مولوی صاحب زیرِ لب مسکراتے ہوئے بولے بی بی یہ شکایت ہے یا دعوت۔

اظہر سید ۔ شامی صاحب کے پاس تو خواتین آنا شروع ہو چکی ہے پتہ نہیں دم کیلئے آتی ہیں یا دعوت دینے لیکن فانی صاحب نے حادثہ کی وجہ پرزہ گھسنا بیان کی ہے ہمارا کہا یہ ہے اگر کوئی حادثہ ہوا ہے تو کوئی شخص چند ماہ پہلے اس کو اگر خواب میں یا تصور میں دیکھ لیتا ہے تو وہ کیا چیز کہلائے گی ۔

ظفر محمود وانی ۔ بصیرت ، ایک انجینئیر کا جواب ۔ مرفی لا بھی یہی ہے مرفی برٹش ائیر فورس میں ائیرو ناٹیکل انجینئیر تھا اس سے منسوب یہ لا ہے " If any thing can go wrong , it will ترجمہ اگر کسی بھی چیز یا مشین میں بگڑنے یا خراب ہونے کا امکان یا صلاحیت موجود ہو تو یقین رکھیں کہ ایسا ضرور ہو گا "۔

احتشام الحق شامی ۔ لاشعور ، چھٹی حس ۔

اظہر سید ۔ لاشعور اور چھٹی یا ساتویں حس لیکن حادثہ تو مستقبل میں ہونا ہے جو مرضی حس کہہ لیں لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ یہ دنیا شائد ہر وقت میں زندہ ہے آپ کبھی وقت پر قابو پا لیں تو ہمیشہ زندہ رہ سکتے ہیں زمان و مکان یا ٹائم اینڈ سپیس ایک حقیقت ہے۔

ظفر محمود وانی ۔ کسی ٹینک میں جب تک کچھ بھر نہ جاے تو اس کے آوٹ لیٹ سے۔ کچھ حاصل کرنا ناممکن ہے ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاشعور اور تحت شعور کا فلنگ سورس کیا ہے ؟ ان میں ڈیٹا کہاں سے آتا ہے اور یہ ڈیٹا عام حالات میں یا زہنی بیداری کے عالم میں نا قابلِ مطالعہ کیوں ہوتا ہے۔

احتشام الحق شامی ۔ اس بات پر تو متفق ہوں ۔ لیکن کیا جنم جنم والی تھیوری کو آپ کی بات سے لنک کیا جا سکتا ہے؟

ظفر محمود وانی ۔ سر آئزک نیوٹن کی تھیوری کے مطابق اگر کوئی جسم روشنی کی رفتار حاصل کر لے تو اس کے لئیے وقت رک جاتا ہے یا ختم ہو جاتا ہے ۔ لیکن عملی طور پر موجودہ انونٹری کے بل پر کسی مادی جسم اور وہ نامیاتی بھی ہو روشنی کی رفتار حاصل کر لینا ناممکن ہے۔
ظفر محمود وانی ۔ قدیم ہندو فلسفہ دانوں اور اہل علم نے شاید ہماری اسی "تہ دار " شخصیت کی تشریح کے لئیے جنم جنم کی تھیوری تشکیل دی ہو۔

اظہر سید ۔ سفر معراج پر یقین کر لیں تو روشنی کی رفتار سے سفر کرنے پر بھی عمل ممکن ہے ۔ حضرت سلمان کے دربار میں ایک جن کو پلک چھپکتے ملکہ سبا کا تخت دربار میں لے آصنا بھی روشنی کی رفتار سے سفر ہی ہے۔

ظفر محمود وانی ۔ محترم سفر معراج آنحضور جیسی ہستی اور ملکہ صبا کا واقعہ حضرت سلیمان جیسے عظیم پیغمبر کے ادوار میں پیش آے اور یہ اصول روے زمین کے کسی دوسرے فرد کے لئیے نہیں ٹوٹے ، ویسے بھی یہ اعتقاد کی بات ہے اور اعتقاد کو کبھی مثال نہیں بنایا جا سکتا ، نہ وہاں کسی سوال کی گنجائش ہوتی ہے ، ہم تو ایسے اصولوں کی بحث کر رہے ہیں جو عام آدمی چاہے وہ کسی بھی مزھب سے تعلق رکھتا ہو ، پر یکساں طریقے سے ایپلائی ہو سکتے ہیں ۔ کیا کبھی کوئی بجلی کے بلب کو حکم دے سکتا ہے کہ کیونکہ تم کو ایک کریسچن تھامس ایڈیسن نے بنایا ہے اس لئیے کسی دوسرے مزھب کے حامل کو روشنی نہ دینا ۔ بحث کا موضوع اور پہنچ ایک عام آدمی کے مطابق ہونا چاہئیے نہ کہ ملکوتی قوتوں اور خدا کے منتخب شدہ افراد کا موازنہ اور مثال عام آدمی کو اس سے بحث کے دوران دی جانی چاہئیں ۔ اس لئیے درخواست ہے کہ اس بحث یا گفتگو کو آفاقی یا افلاکی سطح کے بجاے عام آدم خاکی کی پہنچ تک ہی محدود رکھا جانا چاہئیے اور دوران بحث روحانی مثالوں سے اجتناب کرنا چاہئیے کیونکہ یہ ایک علہدہ بہت قابل بحث موضوع ہے لیکن جان کے خطرے کی قیمت پر ۔ اور اتنی اپنی نہ ہمت ہے نہ اوقات۔

اظہر سید ۔ زمان و مکان کے فلسفہ پر یقین کر لیں تو بیک وقت اپنے اپنے وقت میں مستقبل اور ماضی بھی چل رہا ہے اور ھال میں ہم خود موجود ہوتے ہیں اگر قدرت ھاصل ہو جائے تو مستقبل میں بھی جا سکتے ہیں اور ماضی میں بھی۔

اطہر مسعود وانی ۔
یہ دیکھا گیا ہے کہ اپنے کسی پیارے کی وفات یا اس پر کسی بڑی مصیبت پر اس کے عزیز کو دنیا کے کسی دوسرے حصے میں بیٹھے ہوئے بے چینی یا اسی طرح کے خیالات آتے ہیں ، جس طرح میرے والد صاحب مظفر آباد میں رات کے وقت اچانک وفات پاگئے تو اس دوران میں راولپنڈی میں سونے سے قاصر تھا اور شدید بے چینی محسوس کر رہا تھا ۔یہ انسانی جسم کے جینز،ایٹموں کا کمال ہے ،جو اپنی رشتے کے انسانوں کے جینز،ایٹموں سے مماثلت رکھتے ہیں، رابطہ رکھتے ہیں ، لیکن ہم اس رابطے ، تعلق کو نہیں جانتے،سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

انسان کو وہی کچھ معلوم ہوتا ہے جو اس نے اپنی پیدائش سے موجودہ عمر تک افراد،حالات و واقعات سے سیکھا ہوتا ہے۔ ہر انسان ، نسل انسانی کا تسلسل ہے ، جنگل میں رہنے والے انسانوں کی پنڈلیاں اور جبڑے مضبوط ہوتے تھے کیونکہ اس نے شکار کے پیچھے بھاگنا ہوتا تھا اور کچا پکا گوشت کھانا ہوتا تھا، آج انسان جسمانی طور پر اتنا توانا نہیں لیکن اس کا ذہن پہلے والے انسانوں کی نسبت بہت ترقی کر گیاہے۔

مطلب یہ کہ انسان کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ وہ اپنے جسم کے جس حصے کا جس طرح استعمال کرتا جاتا ہے،اسی کے مطابق اس کی مخصوص صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اب یہ ہر انسان پر منحصر ہے کہ وہ اپنے جسم کے کس حصے کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا چاہتا ہے، کن صلاحیتوں کو نکھارنا چاہتا ہے، اپنی حیوانی خصوصیات کی ترقی چاہتا ہے یا اپنے ذہن،سوچ کو بہتر سے بہتر بنانے کا خواہاں ہے۔

ہر انسان کا نیا ماڈل ،اپنے آبائو اجداد کی ارتقائی خصوصیات کا حامل ہوتا ہے اور اپنے ان خصائل سے انسان بے خبر ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کے وجود کا حصہ تو ہوتے ہیں لیکن اسے اس بارے میں کوئی معلومات حاصل نہیں ہوتی۔اس کے جینز میں اپنے سے منسلک اپنے سے پہلے انسانوں کے خصوصیات کا خلاصہ چلا آ رہا ہوتا ہے، جس سے انسان بے خبر ہوتاہے لیکن یہ اس کے وجود،شخصیت کا اہم حصہ ہوتا ہے۔

مشاہدے کے مطابق یقین کو ایک بڑی طاقت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، ایک مثال کہ ملک کے چند علاقوں میں رواج ہے کہ جس پر چوری وغیرہ کا الزام ہو تو اس کو دھکتے انگاروں پر چلایا جاتا ہے، کوئی اس پرچلتے ہوئے جل جاتا ہے اور کوئی اپنے بے گناہی کے بھر پور یقین کے ساتھ صحیح سلامت رہتا ہے۔

لڑکپن کے دور میں ایک دن سر میں شدید درد کی وجہ سے ڈاکٹر کی پاس جا رہا تھا، ہمسائے میں ایک دوست کے والد جو اپنے گھر کے باہر کھڑے تھے،مجھ سے کہنے لگے کہ منہ کیوں بنایا ہوا ہے اور کہاں جا رہے ہو، میں نے بتایا کہ سر میں شدید درد ہے ،ڈاکٹر کے پاس جا رہا ہوں، انہوں نے مسکراتے ہوئے قریب بلایا اور میرا سر اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اور کہا ابھی ٹھیک کر دیتا ہوں،اچانک رک گئے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ تمہیں یقین ہے کہ میرے دم کرنے سے تم ٹھیک ہو جائو گے؟ میں نے جواب دیا کہ نہیں،مجھے اس پر یقین نہیں۔انہوں نے میرا سرچھوڑ دیا اور کہا تم ڈاکٹر کے پاس جائو۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے شدید تکلیف ہے، آپ دم کر دیں تاکہ فوری طور پر ٹھیک ہو سکوں، انہوں نے جواب دیا کہ تم میرے دم کرنے سے ٹھیک نہیں ہو سکتے کیونکہ تمہارا اس پر یقین نہیں ہے،تم ڈاکٹر کے پاس جائو، میں نے ان سے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں آپ کے دم کرنے سے نہیں بلکہ اپنے یقین سے ٹھیک ہو سکتا ہوں، میری بات سن کر وہ مسکرانے لگے اور خاموش رہے۔

انسان کو جس قدر یقین ہوتا ہے ،اسی قدر اس کو کسی کام میں کامیابی ملتی ہے۔دراصل انسانی ذہن لامحدود قوتوں کا ایسا خزانہ ہے جس کا انسان اب تک نہایت قلیل حصہ ہی استعمال کرنے کے قابل ہوا ہے۔ آئن سٹائن،جس کی غیر معمولی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے اس کا دماغ محفوظ رکھا گیا ،وہ بھی اپنے دماغ کا چند فیصد ہی استعمال کر سکتا تھا۔جب انسان اپنے دماغ کا بیس پچیس فیصدحصہ استعمال کرنے کے قابل ہو جائے گا تو اس انسان سے کچھ بعید نہ ہو گا کہ وہ ہوا میں اڑنے لگے، سوچ کی رفتار سے کہیں بھی پہنچ جائے۔

ہر ذی الشعور انسان دنیا کی حقیقت سمجھنا چاہتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ انسان نے کسی بھی شے کے سب سے چھوٹے حصے ایٹم کے بیرونی اجزا کا تجزئیہ کافی حد تک کیا ہے تاہم ایٹم کے مرکزے،نیوکلیئس کے بارے میں اب تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ماہرین کا خیال ہے کہ جس دن ایٹم کے مرکزے کا راز کھل گیا،اس دن کائنات کا راز بھی کھل جائے گا۔

سکول ،کالج دور میں ، میں اس بات پر غور کرتا رہتا تھا کہ اللہ کس طرح شہ رگ سے بھی قریب اور ہر شے پہ محیط ہو سکتا ہے،کس طرح دلوں کے بھید بھی جان سکتا ہے۔بی اے تک ایٹم کے بارے میں غور کرتے ہوئے خیال آیا کہ یقینا اللہ کا ایٹم کے مرکزے سے کوئی تعلق ہے ۔

اب یہ سوال کہ خدا اور آخرت ہے بھی یا نہیں ؟ جوں جوں اپنے اور کائنات کے بارے میں انسان کے علم میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، وہ یہ سمجھتا ہے ایسی شاہکار چیزیں خود بخود نہیں بن سکتیں کوئی قوت ہے جو ان کو بنانے والی،تخلیق کرنے والی ہے، ہاں اب یہ الگ بات ہے کہ انسانوں نے خدا،قدرت کے بارے میں انسانوں میں مختلف تصورات کو مضبوط بنایا ہے ،جن میں سے کئی تصورات دنیاوی مفاد کے لئے ہی نظر آتے ہیں۔

دلچسپ اور اہم موضوع ہے اور اس پر ڈائیلاگ کے انداز میں بات چیت سے اس کی اہمیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699729 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More