میں نے ایک کہانی سنی تھی کہ اسلام آباد کے اسلامک
انٹرنیشنل یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ کے ایک پروفیسر کی بیوی
کو کینسر کی بیماری لاحق ہوگئی۔ تشخیص کے ساتھ ہی ڈاکٹرز نے معذرت کی اور
یہ کہہ کر مذکورہ پروفیسر کو چلتا کیا کہ آپ کی بیوی صرف پندرہ بیس دنوں کی
مہمان ہے۔۔ اس کا علاج اب کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ بات عام طور پر قیامت
ڈھاتی ہے اور جس کا مجھے خود بھی پتا ہے کیونکہ اس قیامت سے میں ہزار بار
گزرا ہوں۔ اتنی آسانی سے کوئی کیسے مان لیں کہ مریض چند دنوں کا مہمان ہے
اس لئے اس کو گھر میں رکھنا ہی بہتر ہے۔۔بہرحال ڈاکٹرز بھی علمی بنیادوں پر
فیصلے کرتے ہیں۔ دوسرے عام لوگوں کی طرح پروفیسر بھی مان نہیں رہا تھا اور
منت سماجت میں لگ گیا۔۔ ڈاکٹروں نے لاکھ سمجھایا لیکن نتیجہ " وہی ڈھاک کے
تین پات '' والی صورتحال۔ خیر ڈاکٹرز نے مریض کو داخل کیا اور وہ بھی صرف
خون کی منتقلی کے لئے۔۔ پروفیسر صاحب کو لیگل ڈاکومینٹیشن کا کہا گیا اسی
لئے وہ اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کی طرف پلک جھپکتے ہی پہنچ گیا۔اب یہاں
سے اصل کہانی شروع ہوتی ہے۔۔پروفیسر صاحب جیسے ہی یونیورسٹی سے نکلے تو ایک
سفید ریش بزرگ گاڑی کے آگے کھڑے ہوگئے۔ پروفیسر صاحب چونکہ جلدی میں تھے
کیونکہ اس کی شریک حیات زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھی تھبی آگے بڑھنے کی
کی بہتیرا کوشش کی لیکن ناکام رہے۔خیر اس نے بزرگ سے پوچھ ہی لیا۔۔جی بابا
جی کیا خدمت کرسکتا ہوں۔ بابا جی نے جواب دینے کی بجائے اگلے سیٹ پر بیٹھنا
ہی مناسب سمجھا۔ وہ جیسے ہی بیٹھ گئے پروفیسر صاحب دوبارہ گویا ہوئے۔۔ میں
کہاں آپ کو ڈراپ کروں ؟ اب اسے اتفاق کہئے کہ بابا جی کی منزل بھی اس
ہسپتال کے آس پاس ہی تھی جہاں پروفیسر صاحب کی بیوی داخل تھی۔۔ دونوں جب
روانہ ہوئے تو بابا جی نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی لاٹھی کو جنبش دی ، ایک سرد
آہ بھری اور پروفیسر کی طرف دیکھ کر کہا۔ آپ کی بیوی کینسر کے ساتھ نبرد
آزما ہے۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔ آپ میری بات مان لیں اور اپنی بیوی کو
آج کے بعد دھماسے (ازغکے ) کا پانی شروع کردیں۔ اﷲ نے چاہا تو شفا نصیب
ہوگی۔۔ کینسر کا بس یہی ایک علاج ہے۔ پروفیسر نے جیسے ہی یہ باتیں سنی تو
اس پر لرزہ طاری ہوگیا اور حیران ہونا بجا تھا کیونکہ بابا جی کو اس نے
زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا اور جس نے اس کی پوری کہانی اسے بتادی تھی۔
اس نے بہت کوشش کی بابا جی سے یہ پتا لگانے کی کہ وہ کون ہے اور یہ سب کیسے
جانتا ہے لیکن بابا جی کے دبدبے کے سامنے وہ لاچار نظر آیا۔۔۔ بابا جی جب
گاڑی سے اتر رہے تھے تو یہ اس کے آخری الفاظ تھے۔" دھماسہ مسلسل دیتے رہنا
اور سور الرحمن کی تلاوت بھی سناتے رہنا۔ ایک دو مہینے میں آپ کو پتا لگ
جائیگا۔۔ پروفیسر ویسے بھی ڈاکٹرز سے مایوس ہوچکا تھا جیسے ہی ہسپتال سے
گھر پہنچا۔ نوشہرہ سے دھماسے کا پودا منگوایا ، اس کو پانی میں ڈبو کر ایک
کپڑے سے چھان کیا اور اﷲ کا نام لے کر پلانا شروع کیا۔ میں نے جب کہانی
یہاں تک سنی تو چونکہ مجھے بھی ضرورت تھی اسی لئے سیدھا اسلام آباد پہنچ
گیا اور مذکورہ پروفیسر جس کا نام شکیل شاہ تھا سے اس کے رہائش گاہ پر ملا۔۔
یہ رمضان کا شائد بائیسواں روزہ تھا۔۔۔ آگے کی کہانی میں نے ان سے خود سنی۔۔
وہ کہتے ہیں۔ دھماسے کا استعمال میں مسلسل کرتا رہا اور میری بیوی کی تکلیف
میں کمی آتی رہی۔۔ ڈاکٹروں کے بتائے ہوئے پندرہ دن سے جب ہم بچ گئے تو پھر
میرا حوصلہ اور بھی بڑھ گیا۔۔ دھماسے کے مسلسل استعمال اور سورہ الرحمن
سنانے کے پورے ایک مہینے بعد جب ہم نے ٹیسٹ کروائے تو بیماری کا نام و نشان
تک نہ تھا۔۔ میں پورے دو گھنٹے اس کے ساتھ بیٹھا تھا۔ میں نے بابا جی کے
حوالے سے پوچھا تو اس نے ایک حیران کردینے والی بات کہی۔۔۔
اس نے کہا۔۔ بابا جی اب کینسر کے مریضوں کے خواب میں آکر میرا ہی ایڈریس
دیتا ہے۔۔ آپ کو پتا ہے دس سال سے ذیادہ ہوگئے ہیں اور پروفیسر صاحب کی
بیوی اب بھی حیات ہے۔۔ اور پروفیسر صاحب اب باقاعدہ سیمینارز میں جاتے ہیں
اور دھماسہ کی افادیت اور کینسر پر پریزینٹیشنز دیتا ہے۔۔۔۔ اس کے پاس ان
مریضوں کی باقاعدہ لسٹ تھی جو شفایاب ہوچکے تھے۔۔۔ دھماسے کو پشتو میں
ازغکے کہتے ہیں اور وہ لوگ جو ستر کی دہائی میں جوان ہورہے تھے ان کو
مذکورہ پودے کے بارے میں سب کچھ معلوم ہے آپ کوعلم نہیں تو کسی سے پوچھ
لیجئے۔
|