حسن نثار صاحب کو کون نہیں جانتا، پاکستان کی صحافت کا
ایک بہت بڑا نام ایک بہت بڑا صحافتی توپچی۔ ایک ایسی صحافتی توپ جس کے
الفاظ کا بارود میاں نواز شریف سے لے کر مشرف اور پھر تبدیلی سرکار تک سب
نے استعمال کیا اور پھر اسے لاہور کینٹ کے ایک عجائب گھر میں رکھ چھوڑا کہ
سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔ آج محترم حسن نثار صاحب کی ایک بات سن کر
بہت اچھا لگا کہ چلو اس صحافتی لفافوں کے دور میں ، آج بھی کچھ صحافتی
دکانوں میں احساسِ ندامت ضرور باقی ہے۔ محترم نے بھی باقی سارے
الباکستانیوں کی طرح تبدیلی سرکار سے ضرورت سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر
رکھی تھیں ، توقعات تو خیر کیا پوری ہونی تھیں موصوف تو موجودہ حکومت کے
شغل دیکھ دیکھ کر خود ہی اپنے آپ سے الجھے الجھے سے رہتے ہیں بالکل اس توپ
کی طرح جو جنگ کے بعد اپنی بقیہ عمر زنگ سے لڑتے لڑتے گزار دیتی ہے۔ حال ہی
میں اپنے ایک کالم میں موصوف اپنی بے بسی کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ جب میں
موجودہ سرکار کی کارکردگی اور دیانتداری دیکھتا ہوں، تو دل چاہتا ہے کہ
کمرے کا دروازہ بند کرکے اپنے منہ پر پولے پولے تھپڑ لگائوں کیونکہ شومئ
قسمت زناٹے دار تھپڑ مارنے کی سکت ہی نہیں رہی ساری قوت تو عوام کو تبدیلی
کے خواب دکھانے میں صرف کردی۔ صرف اپنے قلم سے یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا میں
اب بھی تجھ سے نیزے کا کام لے سکتا ہوں، یا یہ سیاہی بھی تبدیلی کی طرح
گیلے کاغذ پر اپنا رنگ روپ کھو چکی ہے۔
محترم کوئی بات نہیں دیر آئے درست آئے، آپ کو اپنی کوتاہی کا اندازہ تو ہو
گیا یہاں تو ایک قوم اب بھی ایسی پائی جاتی ہے جو سب جانتے ہوئے بھی اسی
سراب کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔
کسی منچلے نے کیا خوب حالِ دل بیان کیا ہے
کہ رل تے گیاں پر چس بڑی آئی اے!
|