یہ سوال ہرشخص کے ذہن میں اٹھ رہا ہے کہ یہ زلزلے کیوں
آتے ہیں ؟ سائنس دانوں کے مطابق زمین کی گہرائیوں میں مختلف اوقات میں جو
ردوبدل ہوتا ہے ‘ وہ زلزلوں کا باعث بنتا ہے ۔ماہرین معاشیات کہتے ہیں جب
زمین پر انسانوں کا بوجھ ایک حد سے بڑھ جاتا ہے تو اﷲ تعالی جنگیں ‘وبائی
امراض ‘ بھوک ننگ جیسی آفات کو نازل کرتا ہے تاکہ زمین پر انسانی آبادی کے
بوجھ کو نارمل کیا جاسکے اگر پھر بھی زمین پر انسانوں کا بوجھ کم نہ ہو تو
قدرت زلزلوں کا سہارا لیتی ہے ۔یہ فیصلہ قدرت نے کرنا ہے کہ کتنے انسان
زمین کے اوپر رہنے چاہیں اور کتنے زمین کے نیچے ۔حضرت عائشہ ؓ سے کسی نے
سوال کیا کہ زلزلے کیوں آتے ہیں ؟ آپ ؓ نے فرمایاجب عورتیں غیر محرم مردوں
کے لیے خوشبو استعمال کریں‘ جب عورتیں غیر محرم مردوں کے سامنے عریاں ہونے
میں جھجک محسوس نہ کریں ‘ جب زنا عام ہوجائے ‘ شراب اور موسیقی عام ہوجائے
تو پھر زلزلوں کی امید رکھنی چاہیئے ۔حضرت عائشہ ؓ نے جتنی برائیوں کی جانب
اشارہ کیا ہے ‘ وہ تمام کی تمام ہمارے معاشرے کا لازمی حصہ بن چکی ہیں ۔شراب
زنا عام ہوچکا ہے ‘ عام دنوں کی بات تو چھوڑیں ماہ رمضا ن میں یہ خباثتیں
رکنے کا نام نہیں لیتیں حالانکہ شیطان کو قید کردیا جاتا ہے لیکن آج کا
انسان ‘شیطان کا روپ دھار کرایسے ایسے سنگین جرائم کا ارتکاب کرتا ہے کہ سن
کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔لاہور کے نواحی علاقے میں ایک بیٹے نے اپنی ماں
اور بہنوں کو قتل کردیا ‘ پہلے قصور کے علاقے میں اور اب چونیاں میں معصوم
اور بے گناہ بچوں کو اغوا کرکے جس بیدردی سے جنسی جرائم کا نشانہ بناکر
ہولناک موت کے گھاٹ اتار دیا کہ ان بچوں کے اعضاکھیتوں سے مل رہے ہیں ‘ ان
جرائم پر قدرت کب تک خاموش رہے گی ۔پرانے وقتوں میں آسمان جب سرخی نظر آتی
تھی تو کہاجاتاتھا کہ ضرور کہیں قتل ہوا ہے ‘ پہلے تو ایک انسان کے قتل پر
آسمان سرخ ہوجایا کرتا تھاآج کل کتنے ہی انسانوں کو ان کے گھروں میں گھس کر
مار دیا جاتا ہے ‘ کتنے ہی لوگوں کو ڈاکو رات کے وقت لوٹ کر قتل کردیتے ہیں
‘ لاہور جیسے شہر میں روزانہ درجنوں ڈاکے مارے جاتے ہیں‘ رات کو سفر کرنے
والی باراتیں ڈاکووں اورلیٹروں سے کہاں محفوظ ہیں ۔ شیخوپورہ حافظ آباد روڈ
اور ساہیوال عارف والا روڈ پر ڈاکووں کے باقاعدہ ناکے لگتے ہیں جو تمام
بسوں کو سڑک سے اتارکر مسافروں کی اسطرح تلاشی لیتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی
قیمتی چیز رہ نہ جائے ۔یہاں اصلی شراب توپینے والے بے شمار ہیں لیکن زہریلی
شراب پی کر مرنے والوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔چند ماہ پہلے آزادکشمیر
کے علاقے میں بادل پھٹنے کا واقعہ رونما ہوا ۔ بادلوں میں جتنا پانی جمع
تھا وہ تمام کا تمام یکدم زمین پر آگرا ‘ اس طوفانی پانی کے راستے میں جو
کچھ آیا‘ گھر ‘ دکانیں ‘گاڑیاں وہ سب کچھ بہا کرلے گیا ‘ ایک مسجدمیں
تبلیغی جماعت ٹھہری ہوئی تھی ‘مسجد اوراس میں ٹھہری ہوئی تبلیغی جماعت بھی
طوفانی پانی کی لپیٹ میں ایسی آئی کہ آج تک اسکا نام و نشان بھی نہ مل
سکا۔قصہ مختصر زلزلے ہوں یا طوفان ‘ یہ ایسے نہیں آتے ان کے پس منظر کوئی
نہ کوئی ایسا واقعہ ضرور رونما ہوتا ہے جس پر قدرت جوش میں آکر انتقام لیتی
ہے ۔ قرآن پاک میں آتا ہے کہ تیرا رب ہرگز بے بس نہیں ہے وہ جو چاہتا ہے ‘
کردیتا ہے ‘جس نے انسان کو تخلیق کیا ‘ جس نے آسمان اور زمین بنائی ‘ سمندر
‘ پہاڑ ‘ ریگستان بنائے ‘ جس نے انسانوں کو زندہ رکھنے کے لیے ہوا چلائی ‘
پیاس بچھانے کے لیے زمین کی تہوں میں پانی کے لا محدود چشمے بہائے ‘ وہ
انسان کو من مانی کرنے کی کھلی چھٹی نہیں دے گا۔اﷲ تعالی نے انسان کو اپنا
نائب بنا کر زمین پر بھیجا پوری کائنات اس کے لیے تسخیر کردی ‘ ہرچیز اس کی
دسترس میں ہے ۔ لیکن انسان اﷲ کا نائب بننے کی بجائے جب خدا کی خدائی کو
چیلنج کرتے ہوئے زمین پر اکڑ کر چلتاہے تو قہرالہی کو آواز دیتا ہے ۔ایک
واقعہ کا یہاں ذکر کرناچاہتا ہوں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا ایک بستی سے
گزر ہوا وہ بستی اس قدر خوشحال تھی کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے اس پر رشک
کیا ۔کچھ عرصے بعدجب دوبارہ حضرت عیسی علیہ السلام کا وہاں سے گزر ہوا تو
وہ بستی برباد ہوچکی تھی ‘ میٹھے پانی کی نہربھی خشک ہوچکی تھی ‘ لوگ بستی
کو چھوڑ کر کہیں اور جاچکے تھے ‘ حضرت عیسی علیہ السلام نے ایک شخص سے
پوچھا کہ یہ ہنستی بستی کیوں برباد ہوگئی تو ا س نے کہا یہاں سے ایک بے
نمازی کا گزر ہوا تھا اس نے نہر سے پانی پیا تھا جس کی نحوست کی وجہ سے نہر
بھی خشک ہوگئی اور لوگ یہاں سے نقل مکانی کرگئے ۔سوچنے کی بات ہے مسلمان
گھرانوں میں پیدا ہونے کی بنا پر ہم سب مسلمان تو ہیں لیکن ہم میں سے نمازی
کتنے ہیں جو اسلام کے بنیادی ارکان کوپورا کرنے ضروری سمجھتے ہیں۔؟ زلزلے
پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک دوست نے کہا ذرا سی زمین کیا ہلی کہ لوگوں کو خدا
یاد آگیا ۔ میں نے کہا مسجدوں میں تو وہی نمازی ہیں جوپہلے بھی تھے ‘ زمین
کے ٹھہرتے ہی زلزلے کا خوف اترجاتا اور لوگ پھر اسی طرح رب کی نافرمانیوں
میں مصروف ہوجاتے ۔کہا جاتا ہے جہاں فحاشی اورزنا عام ہوجائے ‘ جہاں بات
بات پر جھوٹ بولا جائے ‘ جہاں دانستہ نماز چھوڑ دی جائے ‘ جہاں والدین کی
عزت و تکریم ختم ہوجائے ‘ جہاں اپنوں کا خون سفید ہوجائے ‘ جہاں انصاف کا
تراوز ایک ہی طرف جھک جائے ‘ جہاں حقدار کو حق نہ ملے وہاں زلزلے نہیں آئیں
گے تو اور کیا آئیگا۔ |