اﷲتعالیٰ نے زمین پر پہاڑوں کی شکل میں مضبوط میخیں
گاڑ رکھی ہیں جن کی وجہ سے یہ زمین ہِلنے، حرکت کرنے، ڈولنے، کانپنے اور
لرزنے سے محفوظ ہے اور انسان سمیت تمام جاندار اس کے اوپر سکون سے رہ بس
رہے ہیں۔ بعض حالات میں اپنی اس عمومی کیفیت کے برعکس زمین ہِلنے، حرکت
کرنے، ڈولنے، کانپنے اور لرزنے لگتی ہے، اسے زلزلہ کہا جاتا ہے۔
زمین پر زلزلہ آنے کے عادی اسباب
سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق زمین پر زلزلہ آنے کے عادی اسباب ووجوہات
درج ذیل ہیں:
پہلی وجہ: زمین کے اندر جو آتشی گیسیں (Explosive gases) ہیں، اگر زمین کے
کسی حصّے میں یہ آتشی گیس زیادہ مقدار میں جمع ہوجائے تو وہ جگہ گیس کی
شدّت کی وجہ سے پھڑپھڑانے لگتی ہے او ریہ پھڑپھڑانے کا سلسلہ اس وقت تک
جاری رہتا ہے جب تک یہ گیس زمین کے دوسرے حصوں میں اِدھر اُدھر بِکھر کر
اُس حصّے میں بقدرِ ضرورت نہ رہ جائے۔ جس حصے میں پھڑپھڑاہٹ ہوتی ہے، اتنی
زمین کے اوپر زلزلہ محسوس ہوتا ہے۔ اس کی نظیر انسانی اعضا مثلاً: آنکھ،
کان وغیرہ کا پھڑپھڑانا ہے، کہ یہ بھی جسم کے اُس حصے میں اندرونی ہَوا کے
قدرِ ضرورت سے زیادہ جمع ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
دوسری وجہ: زمین کے جن حصوں میں آتش فشاں پہاڑ ہیں، جب وہ پھٹتے ہیں تو ان
کی وجہ سے وہ زمین لرزنے اور کانپنے لگتی ہے اور زلزلہ محسوس ہوتا ہے۔
تیسری وجہ: اﷲتعالیٰ نے اپنی قدرت سے زمین کے اندرونی حصّے کو گرم رکھنے کے
لیے اس میں بارود، گندھک وغیرہ کے ذخیرے رکھے ہیں، جب کبھی ان کی گرمی
حدِّضرورت سے زیادہ (More than needed) ہوجاتی ہے تو زمین کو پسینہ آجاتا
ہے اور یہ گرمی کم ہوکر بقدرِ ضرورت رہ جاتی ہے۔ اس جُھرجھری سے زمین ڈولنے
اور ہچکولے کھانے لگتی ہے اور زلزلہ محسوس ہوتا ہے۔
چوتھی وجہ: زمین کے اوپر میخوں کی طرح قائم پہاڑ اور چٹانیں جن کی جڑیں
زمین میں پھیلی ہوئی ہیں، جب ان میں سے کوئی پہاڑ یا چٹان اندرونی یا
بیرونی طور پر پھٹتی ہے تو اس کی جڑوں کے حرکت کرنے کی وجہ سے زمین کانپنے
اور لرزنے لگتی ہے اور سطح زمین پر زلزلہ محسوس ہوتا ہے۔
پانچویں وجہ: سمندر میں اُبال آجانے سے اس کے طوفانی اثرات کناروں تک
پہنچتے ہیں اور سمندری ساحلوں کی زمین میں ہلچل سی پیدا ہوجاتی ہے اور ہلکا
سا زلزلہ محسوس ہوتا ہے۔
چھٹی وجہ: زمین کے اندر اﷲتعالیٰ نے دھاتوں کا ذخیرہ (Metal-Resources)
رکھا ہے۔ جب درجۂ حرارت بہت زیادہ ہوجائے تو یہ دھاتیں پگھلنے اور پتلی
ہوکر سِرکنے لگتی ہیں، جس کی وجہ سے زمین میں ارتعاش اور لرزہ پیدا ہوتا ہے
اور زلزلہ محسوس ہونے لگتا ہے۔
ساتویں وجہ: زمین کے اپنے مسامات (Pores) سُکڑتے او رپھیلتے رہتے ہیں، جس
سے زمین میں کچھ خلا سا پیدا ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ سے زمین پر زلزلہ
محسوس ہوتا ہے۔
آٹھویں وجہ: زمین کے اندر بھی چٹانیں ہیں۔ جب یہ زیرِزمین چٹانیں کمان کی
طرح جھکنا شروع ہوجاتی ہیں اور پھر جھکتے جھکتے ٹوٹ جاتی ہیں تو زلزلہ
آجاتا ہے۔
نویں وجہ: بعض ارضیات دانوں (Geologist) کا کہنا ہے کہ پوری زمین بلاکوں کی
شکل میں ہے۔ بعض جگہ یہ بلاک ساتھ ساتھ ہیں اور بعض جگہ اوپر نیچے، انہیں
’’طبقاتِ ارض‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بلاک جب بعض نامعلوم وجوہ کی بنا پر اوپر
نیچے اسپرنگ کی طرح حرکت کرتے ہیں تو جس علاقے یا خطے میں یہ حرکت ہوتی ہے،
جتنی دیر یہ حرکت جاری رہے اتنی دیر کے لیے زمین بھی متحرک ہوجاتی ہے اور
زلزلہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ یہ ہلکا زلزلہ ہوتا ہے۔ یہ حرکت چند ہی منٹ رہتی
اور پھر بند ہوجاتی ہے، تو زلزلہ بھی تھم جاتا ہے۔ ارضیات دانوں کی اصطلاح
میں اس بلاک کو ’’نقطۂ ارض‘‘ اور جس نقطے میں یہ حرکت پیدا ہوتی ہے اسے
’’نقطۂ ماسکہ‘‘ (Focus Point) کہا جاتا ہے۔
دسویں وجہ: زمین کے تمام حصوں میں گہرائی کے اندر ہمیشہ توڑ پھوڑ کا عمل
جاری رہتا ہے۔ جب اس عمل میں شدّت پیدا ہوتی ہے تو جس خطے میں یہ شدت پیدا
ہوتی ہے وہ خطہ ہلنے لگتا ہے اور زمین کے اوپر جھٹکے سے محسوس ہوتے ہیں،
اگرچہ یہ بھی بہت ہلکے ہوتے ہیں۔
گیارھویں وجہ: ساحلِ سمندر کے قریب جو علاقے واقع ہیں وہاں سمندر کی لہروں
کے مدوجزر (Tides) کی وجہ سے سورج کی آتشی شعاعوں کی بنا پر زمین میں
ارتعاش پیدا ہوتا ہے، یہ اس وقت ہوتا ہے جب سورج بُرج قوس میں ہو، اور اس
کی ترچھی شعاعیں سمندر پر پڑیں۔ اسے سونامی (Psonami) کہتے ہیں۔ اس سونامی
طوفان کی رفتار بعض اوقات چھ سو ستّر(670) میل فی گھنٹہ تک بھی ہوتی ہے۔
سمندر کی لہروں کی اونچائی اس وقت سو (100)فٹ تک ہوتی ہے او رپانی اتنی
تیزی سے ٹکراتا ہے کہ پانی میں گرمی اور گرمی سے بجلی پیدا ہوجاتی ہے اور
اس بجلی کے اثر سے زمین ہلنے لگتی ہے۔ یہ لہریں اس قدر خطرناک ہوتی ہیں کہ
ان سے زمین ہی نہیں، چٹانیں تک دھنس جاتی ہیں اور زمین پھٹ جاتی ہے، جس سے
شدید زلزلہ محسوس ہوتا ہے۔
یہ زلزلے کے طبعی اسباب ہیں اور اس دنیا دارالاسباب میں اﷲتعالیٰ نے ہر
واقعے کو اسباب سے جوڑا ہے، اس لیے ان اسباب کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
حدیث میں وارِد زلزلے کا عادی سبب
زلزلے کا ایک سبب احادیثِ مبارکہ میں بھی ملتا ہے، چنانچہ نبی کریمﷺ نے
ارشاد فرمایا کہ اﷲتعالیٰ نے زمین میں بے شمار رگیں پیدا فرمائی ہیں اور یہ
تمام رگیں کوہِ قاف میں جمع ہیں۔ کوہِ قاف پر ایک فرشتہ موجود ہے، جس کے
ہاتھ میں وہ تمام رگیں یوں پکڑی ہوئی ہیں جیسے لگام ہوتی ہے۔ جب اﷲتعالیٰ
کا حکم ہوتا ہے تو وہ ان رگوں کو کھینچتا اور ہلاتا ہے۔ جس علاقے کی رگ
کھینچتا اور ہلاتا ہے، اس علاقے میں زلزلہ آجاتا ہے۔ قیامت کے موقع پر جب
پہلی بار صور پھونکا جائے گا تو وہ فرشتہ اﷲتعالیٰ کے حکم سے تمام رگوں کو
ایک ساتھ زور سے جھٹکا دے گا اور ہلائے گا جس سے پوری زمین پر زلزلہ آجائے
گا۔ یہ زلزلہ زمین کے ظاہر پر بھی ہوگا اور باطن پر بھی، اس کی قوت و شدت
بھی انتہا درجے کی ہوگی۔ یہ زلزلہ چالیس (40) ساعات رہے گا۔
قرآن و حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے خلافِ معمول زلزلے اﷲتعالیٰ کی ناراضی
کی علامت ہیں۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے :
ترجمہ:’’خشکی اور تری میں جو کچھ لوگوں کے ہاتھ کماتے (کرتے) ہیں اس سے
فساد ظاہر ہوگیا تاکہ وہ (اﷲ تعالیٰ) ان لوگوں کو ان کے بعض کاموں کامزہ
چکھادیں۔‘‘ (سورۃ الروم ۴۱)
یعنی انسان جیسے اعمال کرتا ہے اﷲتعالیٰ اس کے ویسے ہی اثرات ظاہر فرما
دیتے ہیں۔ جب اﷲتعالیٰ بندوں سے خوش ہوتے ہیں تو زمین کی تمام چیزوں کو اس
کے موافق بنادیتے ہیں اور جب ناراض ہوتے ہیں تو انسان کی تنبیہ کے لیے کبھی
بے وقت بارشوں کے ذریعے، کبھی زلزلوں اور طوفانوں کے ذریعے انسان کو
جھنجھوڑتے ہیں۔
خلافِ معمول آنے والے زلزلوں کے اصل اسباب
مانا کہ زلزلے انہی طبعی اسباب کا نتیجہ ہیں، جو اوپر سائنس دانوں کے
نظریات کی روشنی میں، یاحدیث طیبہ سے معلوم ہوئے،لیکن زمین کے اندر یا باہر
کی یہ ٹوٹ پھوٹ، یہ زمینی پلیٹوں کا ہلنا، یہ زمین کی رگوں کا کھنچنا بے
وجہ نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر وقت زلزلے آتے رہے۔ اﷲتعالیٰ کا ہر کام
حکمتوں کے تحت ہوتا ہے۔ وہی جانتا ہے کہ زمین کے کس حصے کی پلیٹوں کو کب
ہلانا ہے، زمین کے کس حصے کی رگوں کو کب ہلانا او رکھینچنا ہے۔ ماہرین
ارضیات جو اسباب بتاتے ہیں وہ درست ہیں، مگر ان اسباب کو مہیا کرنے والی اﷲتعالیٰ
کی ذات ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہمیشہ زلزلے انہی طبعی اسباب کی وجہ سے
آئیں۔ اس لیے زلزلوں کو اﷲتعالیٰ کی تنبیہ سمجھتے ہوئے اپنے اعمال کی اصلاح
کرنی چاہیے۔ یہی تعلیم ہمیں دورِنبویﷺ و صحابہؓ سے بھی ملتی ہے۔
حضورﷺ کے زمانے میں ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں زلزلہ آیا، تو آپﷺ نے فرمایا:
تمہارا رب چاہتا ہے کہ تم اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے دور میں زلزلہ آیا تو آپ جمعہ پر تشریف لائے اور
لوگوں کو صدقہ و خیرات اور استغفار و توبہ کی ترغیب دی اور فرمایا کہ اس
زلزلے کا سبب لوگوں کے گناہ ہیں۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں زلزلہ آیا تو آپؒ نے فرمایا: اﷲتعالیٰ
اس کے ذریعے تم سے توبہ و استغفار کروانا چاہتے ہیں۔ جان لو! یہ جھٹکے سزا
کے طور پر آتے ہیں۔
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بصرہ میں قیام پذیر تھے، کہ زلزلہ آیا تو
وہ نماز کی طرف متوجہ ہوئے۔
اسلام کا یہی مزاج ہے کہ خلافِ معمول کوئی بھی واقعہ ہو تو بندے کو فوراً
اپنے رب کی طرف متوجہ ہوجانا، توبہ و استغفار کرنا اور انفرادی نماز ادا
کرنی چاہیے۔
زلزلے علاماتِ قیامت میں سے ہیں:
زلزلہ علاماتِ قیامت میں سے ہے۔ ایک مرتبہ دورِنبوی میں زمین ہلنے لگی تو
آپﷺ نے زمین پر ہاتھ رکھ فرمایا: ٹھہر جا، ابھی قیامت کا وقت نہیں آیا۔
رسول اﷲﷺ نے قربِ قیامت کی جو نشانیاں بیان فرمائی ہیں، ان میں سے ایک یہ
بھی ہے کہ اس زمانے میں زلزلوں کی کثرت ہوگی، یعنی قیامت کے عظیم ترین
زلزلے سے پہلے زمین کے مختلف حصوں میں زلزلوں کا ایک نہ ختم ہونے والا
سلسلہ شروع ہوجائے گا۔
ایک حدیث میں فرمایا: جب سود عام ہوگا تو زلزلے اور زمین میں دھنسنا عام
ہوجائے گا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے پوچھا گیا: زلزلے کیوں آتے ہیں؟ تو فرمایا:
جب لوگ اجتماعی طور پر گناہ کرنے لگتے ہیں، جب شادی شدہ عورتیں بہک جاتی
ہیں، جب لوگ زنا کو حلال سمجھنے لگتے ہیں، جب شراب اور گانے کی محفلیں سجنے
لگتی ہیں، تو اﷲتعالیٰ کی غیرت عرش پر جوش میں آجاتی ہے اور زمین کو حکم
دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں زمین میں زلزلے آنے لگتے ہیں۔
اُس حدیث سے بھی زلزلے کے اسباب سمجھنا آسان ہوجائے گا جو حضرت ابوہریرہ
رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جب یہ کام ہونے لگیں تو سرخ
آندھیوں اور زلزلوں اور زمین میں دھنسا دیے جانے اور شکلیں مسخ کیے جانے
اور آسمان سے پتھر برسنے اور ان عذابوں کے ساتھ قیامت کی دوسری نشانیوں کا
انتظار کرو، جو پے درپے اس طرح ظاہر ہوں گی، جس طرح کسی لڑی کا دھاگا ٹوٹ
جائے تو لگاتار اس کے دانے گرنے لگتے ہیں:
(۱)جب مالِ غنیمت کو گھر کی دولت سمجھ لیا جائے۔ (۲)جب امانت میں خیانت کی
جانے لگے۔ (۳)جب زکوٰۃ کو بوجھ اور تاوان سمجھا جانے لگے۔ (۴)جب دین کا علم
دنیا کے لیے حاصل کیا جانے لگے۔ (۵)جب مرد اپنی بیوی کی اطاعت اور ماں کی
نافرمانی کرنے لگے۔ (۶)جب دوست کو قریب اور والد کو دور کیا جانے لگے۔ (۷)جب
مساجد میں شوروغل ہونے لگے۔ (۸)جب قوم کی قیادت فاسق، فاجر لوگوں کے ہاتھوں
میں آجائے۔ (۹)جب کسی کی عزت اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جانے لگے۔ (۱۰)جب
گانے بجانے کے آلات کی کثرت ہونے لگے۔ (۱۱)جب شباب و شراب کی مستیاں لوٹی
جانے لگیں۔ (۱۲)امت کا آخری حصّہ امت کے پہلے حصے پر لعنت کرنے لگے۔ |