تعلیمی مسائل اور رکاوٹیں

تحریر۔۔۔ڈاکٹرفیاض احمد
کسی بھی ملک کی معیشت کا انحصار معیار تعلیم پر ہوتا ہے ملک میں جتنے زیادہ پڑھے لکھے افراد ہوں گے اتنی ہی اس ملک کی معیشت مضبوط ہو گی اور ملک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو گالیکن افسوس زدہ بات یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی معیار بہت پسماندہ ہے کیونکہ اس میں بہت سی غیر قانونی طاقتیں شامل ہیں جو اس کی ترقی کی راہ میں پچیدگیاں پیدا کرتی ہیں جس کی وجہ سے ہم پستگی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں حالانکہ دنیا کے عظیم لوگ بھی براعظم ایشیاء سے تعلق رکھتے تھے اپنے کردار پہ ڈال کہ پردہ اقبال ۔۔۔ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے

سب سے پہلے ہمارے تعلیمی سسٹم میں تدریس کا طریقہ کار خراب ہے جس کی بدولت ہم غیر سرکاری اداروں کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ تدریس کے ساتھ ساتھ سرکاری تعلیمی ادارے بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں جس کی وجہ سے تعلیم کا معیار طلبہ کی استطاعت کے موافق نہیں ہے بلند پایہء لوگ غیر سرکاری اداروں سے روابط قائم کرلیتے ہیں اور نچلے طبقے کے لوگ اس حق سے محروم ہو جاتے ہیں اس زمرے میں تعلیمی اداروں کے علاوہ معاشرے کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پہلے دور کے بچوں میں استاد کا احترام ہوتا تھا لیکن اس کے برعکس آج کے بچے جدید ہو گئے ہیں ان پر معاشرتی اثرات بھی اثر پذیر ہوتے ہیں آجکل کے استاد میں وہ صلاحیت بھی نہیں جو پہلے ہوتی تھی قدیم معلم تدریس کا پیکر ہوتا تھا اس میں فرض شناسی موجود تھی اس کے بر عکس جدید معلم میں گھریلو اخراجات موجود ہیں سکولوں میں پڑھنے کے بجائے اکیڈمی کو ترجیح دی جاتی ہے اسی طرح اعلیٰ سطح پر بھی تعلیمی اداروں کی کمی کا اندیشہ بھی قابل ذکر ہے آجکل بچوں پر نصاب کا اتنا بوجھ ڈالا جاتا ہے کہ وہ گھبرا کر تعلیم سے تعلق ترک کر لیتے ہیں موجودہ دور میں غیر نصابی سر گرمیاں بھی نہیں جس کی بدولت بچے ذہنی تناؤ کا شکار ہو رہے ہیں تعلیمی اداروں کا عدم دلچسپی بھی اس بات کا واضع ثبوت ہے کہ ہمارے اندر ایک معلم کی خصوصیات موجود نہیں ہیں بلکہ ایک تجارت پیشہ انسان کی خصوصیات ہیں کیونکہ نہ تو وسیع ذخائر کتب ہیں اور نہ ہی آلات سائنسی موجود ہیں جس کی بناء پر ہم کچھ حاصل کر سکیں بلکہ پسماندگی ہی پسماندگی ہے

سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا، شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
تعلیمی مسائل تو ایک طرف ہمیں تو رکاوٹوں نے ہی مار ڈالا ہے ہمارے معاشرے میں ہر میدان زندگی میں سیاست تو سب سے پہلے آتی ہے بچوں کی تدریس تو غیر سرکاری اداروں میں اور میڈیکل ، انجیئنرنگ کے لئے سرکاری اداروں کا رخ ہوتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے بچوں کی حق تلفی ہوتی ہے سیاسی کوٹے پر اور سرکاری وظیفوں پر اعلیٰ تعلیم تو برسراقتدار لوگوں کو میسر آجاتی ہے مارے تو بچارے عام لوگ جاتے ہیں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لئے ہمیں سیاست سے پاک کرنا چاہیے اور میرٹ پر سب کے داخلے اور وظیفے ہوں کسی قسم کی سفارش سے اجتناب کیا جائے معاشرے کے سب افراد کو تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کیے جائے جس طرح دین اسلام کی نظر میں سب برابر ہیں اسی طرح تعلیمی میدان میں بھی برابری کا عمل پیرا ہو سرکاری اداروں میں تعلیمی سہولیات کا خاص خیال رکھا جائے جس کے حصول کے لئے مختلف ٹیموں کو تشکیل دیا جائے جو ماہنامہ رپورٹ چیک کریں اور تعلیمی اداروں کی ضرورت کے مطابق ان کو سہولیات فراہم کریں اور ان کی کارکردگی کا جائزہ لیں اگر ہم اپنے ملک اور قوم کو ترقی کی راہ میں دیکھنا چاہتے ہیں تو صرف سرکاری ادارے ہی نہیں بلکہ معاشرے کے عام افراد بھی اپنی ذمہ داریوں کو بااحسن طریقے سے ادا کریں جب ہر انسان اپنی ذمہ داری ادا کرے گا تب معاشرہ ترقی کرے گا اور معاشرے کی ترقی ملک و قوم کی ترقی ہے پہلے زمانے میں لوگوں کے پاس اتنی سہولیات نہیں تھیں لیکن اس کے باوجود وہ لوگ تعلیمی معیار میں آج کی نسبت سبقت لے جاتے تھے حالانکہ زمانہ قدیم کی اور آج کی سہولیات میں موازانہ کریں تو ہمیں آج کے دور میں زیادہ سہولیات نظر آتی ہیں مگر اس کے برعکس آج وہ معیار تعلیم نہیں ہے آج کے معلم اور تدریسی ادارے کا سٹاف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے لیکن اس کے برعکس معاشرہ پسماندگی کا شکار ہے آخر کیوں۔۔۔۔ کیونکہ،،،،،، آجکل تعلیم عام ہے لیکن علم کی بہت زیادہ کمی ہے ،تعلیم ایک چراغ ہے جس کی روشنی علم سے حاصل ہوتی ہے جب تک اس چراغ کو جلایا نہ جائے روشنی حاصل نہیں ہوتی ۔۔ اس لئے تعلیم حاصل کرنے کا مقصد اصل میں روشنی کی شمع جلانا ہے اور جب تک شمع نہیں جلے گی تب تک معاشرے سے اندھیرے نہیں ختم ہوگااس لئے علم کی شمع کو روشن کریں نہ کہ ۔

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 526255 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.