مودی کے پاس دفاع تھا اور نہ ہی کوئی جواز

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی گئی تقریر پر ملا جلا ردِّ عمل سامنے آ رہا ہے۔

image

عمران خان کی تقریر کے بعد بہت سے لوگوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بار انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے کشمیر سے متعلق حالیہ اقدامات کو عالمی دنیا کے سامنے رکھا گیا ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف کی مخالف جماعتوں میں سے زیادہ تر کی کشمیر پر پالیسی کافی واضح ہے کہ اگر پارلیمان اس بارے میں کوئی قدم اٹھاتی ہے تو وہ اس پر حکومت اور ریاست کے ساتھ ہوں گے۔

لیکن جب رواں برس اگست میں پارلیمان میں سیاسی جماعتیں ایک ساتھ بیٹھیں تو ان کے درمیان اختلافات کے نتیجے میں کشمیر پر پارلیمان کے اجلاس میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ہو سکی۔


یہ وہ چیزیں ہیں جو روزمرہ زندگی میں ہم پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ہم نے یہاں ایسی چھ چیزوں کا ذکر کیا ہے۔

لیکن اس کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیئر رکن شیری رحمٰن نے عمران خان کی تقریر کو پاکستان کی طرف سے عالمی برادری کو کشمیر پر ایک واضح موقف قرار دیا ہے۔

عمران خان کی تقریر کے بارے میں شیری رحمٰن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس بارے میں تو کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اس بار پاکستان کے وزیرِ اعظم اپنا مؤقف سامنے رکھنے میں انڈیا کے وزیرِ اعظم سے کئی گُنا زیادہ کامیاب ہوئے ہیں۔ مودی کے پاس نہ تو کوئی دفاع تھا اور نہ ہی کوئی جواز تھا۔ مودی کا کہنا نہ کہنا کافی تھا۔‘

شیری رحمٰن نے کہا کہ ’میں تو یہ چاہتی کہ پوری تقریر ہی کشمیر پر ہوتی اور خاص کر کشمیر کی حقِ خود ارادیت کی بات ہونی چاہیے تھی، عمران خان موسمیاتی تبدیلی اور اسلاموفوبیا کو تقریر کے آخر کے لیے رکھتے کیونکہ کشمیر کی صورتحال انڈیا کی خود کھڑی کی ہوئی ہے، اور اس پر عالمی برادری کو خبردار کرنا ضروری ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’انڈیا نے یہ نہیں سوچا ہو گا کہ بات اتنی آگے بڑھے گی اور اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ان کی گرفت سے بھی باہر ہے۔‘


انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی برطانوی لیبر پارٹی کے لیڈر جیریمی کوربن سے بات ہوئی ہے اور انھوں نے کشمیر پر ایک واضح مؤقف دیا ہے۔

’تو پاکستان تو یہ کرتا آ رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ اور اس کے لیے یہ تقریر کرنا ضروری تھی کیونکہ یہ پلیٹ فارم نہایت ہی اہم ہے۔ ایٹمی جنگ آپشن تو نہیں ہے لیکن اس وقت عالمی دنیا کسی بات پر ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔‘

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے شہر مظفرآباد میں لوگوں نے عمران خان کی تقریر کو اپنے گھروں کے علاوہ علاقے میں لگائی گئی بڑی سکرین پر بھی دیکھا۔

عمران خان نے حال ہی میں مظفرآباد میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران کہا کہ جو لوگ لائن آف کنٹرول جانا چاہتے ہیں وہ ان کی کال کا انتظار کریں۔

لیکن چند دن بعد عمران خان یہ بھی کہتے نظر آئے کہ ’جو بھی انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں جہاد کے لیے جائے گا وہ کشمیریوں کو نقصان پہنچائے گا۔‘

اس بارے میں مظفرآباد کے رہائشی امیرالدین مغل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وزیرِ اعظم نے کشمیر کے معاملے پر خاصی تفصیلی گفتگو کی جو کہ ہمیں پسند آئی۔لیکن اگر وہ یہ بات بھی واضح کرتے کہ اگر انڈیا نے کرفیو نہیں اٹھایا تو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بہت سے لوگ لائن آف کنٹرول عبور کرنے کے خواہشمند بھی ہیں جن کو میں روک کر آیا ہوں۔‘

تاہم یہ توقع بھی کی جارہی تھی کہ عمران خان کشمیر کے حقِ خود ارادیت پر بھی بات کریں گے۔

اس بارے میں مظفر آباد کے ایک رہائشی محمد ابرار نے کہا کہ ’جو حقِ ارادیت کو محدود معنوں میں لیا جاتا ہے اس بارے میں بھی بات کی جانی چاہیے تھی۔ مثال کے طور پر یہ پہلو کہ اگر کشمیری دونوں آپشن کے بجائے اگر کوئی تیسرا راستہ اختیار کرتے ہیں تو ان کو کرنے دیا جائے اس بارے میں بھی عمران خان صاحب کو زور دینا چاہیے تھا۔‘


عمران خان نے اپنی تقریر میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ریاستی جبر کی بات کی


جماعتِ اسلامی کے جنرل سیکرٹری امیر العظیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کی کشمیر کے حوالے سے تقریر کافی خوش آئیند ہے اور خاص کر یہ بات کہ انھوں نے کلمہ پڑھ کر اقوامِ متحدہ کو بتا دیا کہ کسی بھی صورت کشمیر پر سودے بازی نہیں کی جائے گی۔‘

لیکن انھوں نے کہا کہ ’اگر اس بات میں وہ عافیہ صدیقی کا بھی ذکر کرتے اور ان کی رہائی کے حوالے سے بات کرتے تو بہت اچھا ہوتا۔‘

لیکن جہاں اس تقریر کو سراہنے والوں کی تعداد زیادہ ہے وہیں چند لوگ ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ بات اب تقریروں سے آگے بڑھنی چاہیے۔

پرویز ہودبھائے نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کو عمران خان کی تقریر میں یہ بات خاصی حیران کن لگی کہ انھوں نے اقوامِ متحدہ کے مبصرین کو برملا دعوت دی ہے کہ وہ آکر انڈیا کی طرف سے جہادی تنظیموں کے کیمپ ہونے کے دعووں کا خود معائنہ کر لیں۔

’پاکستان میں جہادی تنظیموں کو سہارا دیا گیا ہے خاص کر جب وہ پاکستان کے شہروں میں جلسے جلوس کیا کرتے تھے۔ حزب المجاہدین کو چندے دیے گئے ہیں۔ یہ آج سے پندرہ بیس سال پہلے کھّلم کھّلا ہوتا تھا۔ اور اب بھی کہیں نہ کہیں اس کی مثال ملتی ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ پاکستان ان لوگوں کو اپنا دشمن سمجھے گا جو کشمیر جا کر جہاد کریں گے، یا اقوام ِ متحدہ کے مبصرین آکر مجاہدین کے کیمپوں کا دورہ کر لیں، تو یہ کسی یوٹرن سے کم نہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ اسلامفوبیا کی بات وہ ممالک کرتے ہوئے اچھے لگتے ہیں جن کے اپنے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ مثالی سلوک ہو رہا ہو۔ ’لیکن یہاں ایسا نہیں ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کو قانونی طور پر کئی کام کرنے سے روکا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں آپ کے ملک میں رہنے والے احمدی اور اہلِ تشیع خوفزدہ رہتے ہیں۔ ہندو، عیسائی اور سِکھ بھی اسی ماحول کا حصہ ہیں۔ تو اسلاموفوبیا کی بات تو اپنی جگہ ہے لیکن اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا بھی بہت ضروری ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’دونوں ملکوں کے پاس ایٹمی اسلحے ہیں اور اگر وہ استعمال ہوئے تو دونوں ملک تباہ ہوجائیں گے۔ تو عمران خان یہ بیشک بار بار کہیں کہ ایٹمی جنگ کا خطرہ ہے لیکن وہ خطرہ رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول ایک ایسی حد ہے جس کو نہ پاکستان بدل سکتا ہے اور نہ انڈیا۔ جب تک ہم اس بات کو قبول نہیں کریں گے، یہ معاملہ جوں کا توں رہے گا۔‘


Partner Content: BBC
YOU MAY ALSO LIKE: