ترکی بمقابلہ شامی کرد: ماضی، حال اور مستقبل

امریکہ کی جانب سے ترکی کی سرحد سے متصل شام کے شمال مشرقی علاقوں سے اپنی فوج نکالنے کے فیصلے سے اس خطے کے مستقبل کے بارے میں سوال کھڑے ہو گئے ہیں۔
 

image


اس اقدام سے ترکی کی فوج کو موقع مل جائے گا کہ کردوں کی سرکردگی میں قائم مسلح گروپوں کے اتحاد کے خلاف کارروائی شروع کرے جن پر مغربی طاقتیں داعش کو ختم کرنے کے لیے انحصار کر رہی تھیں۔

بی بی سی نے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ یہ کیوں اہم ہے۔

ترکی حملے کی تیاری کیوں کر رہا ہے؟
ترکی کردوں کی سربراہی میں قائم اس مسلح گروپوں کے اتحاد کو ایک دہشت گرد گروپ تصور کرتا ہے۔

ترکی کے رہنما چاہتے ہیں کہ شام کی سرحد کے اندر 32 کلومیٹر وسیع ایک 'محفوظ علاقہ' تشکیل دیا جائے جہاں کرد جنگجوؤں کا کوئی وجود نہ ہو اور ترکی میں موجود 35 لاکھ شامی پناہ گزینوں میں سے 20 لاکھ کو اس محفوظ علاقے میں منتقل کیا جائے۔

کردوں کی سربراہی میں قائم اس اتحاد کا کہنا ہے کہ وہ اس علاقے کا دفاع کریں گے اور امریکہ اس علاقے کو میدانِ جنگ میں تبدیل کرنے جا رہا ہے جس سے داعش کے دوبارہ سر اٹھانے کا خطرہ بھی بڑھ جائے گا۔

ترکی نے اپنی سرحدوں سے شامی کرد ملیشیا یا جسے پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائی پی جے) بھی کہا جاتا ہے، کے جنگجوؤں کو پیچھے دھکیلنے کی ٹھان رکھی ہے۔

ترکی کی قیادت وائی پی جے کو کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کا ایک حصہ تصور کرتے ہیں جو ترکی میں گزشتہ تین دہائیوں سے کردستان کی خودمختاری کے لیے مسلح جدوجہد کر رہی ہے۔

کرد اور عرب ملیشیاؤں پر مشتمل شامی ڈیموکریٹک فورسز(ایس ڈی ایف) کے نام سے قائم اتحاد میں وائی پی جے کو بالادستی حاصل ہے۔ ایس ڈی ایف نے گزشتہ چار برس میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فضائی مدد سے ایک چوتھائی شام کو داعش سے چھڑا لیا تھا۔
 

image


ترکی وائی پی جی کی امریکی پشت پناہی کی مذمت کرتا رہا ہے اور سرحد عبور کر کے کرد فورسز کے خلاف دو مرتبہ کارروائی بھی کر چکا ہے۔

سنہ 2018 میں ترکی نے مغربی شام میں کردوں کے زیر قبضہ علاقے آفرین میں فوجی کارروائی کی تھی جس میں درجنوں شہری ہلاک اور ہزاروں کی تعداد میں بےگھر ہو گئے تھے۔

اس سال دسمبر میں داعش شکست کے قریب تھا جب صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ کو شام سے اپنی افواج نکالنا شروع کر دینا چاہیں۔

اتحادیوں اور امریکی کمانڈروں کی طرف سے جب کردوں کے بارے میں خدشات ظاہر کیے گئِے تو صدر ٹرمپ نے کہا کہ اگر ترکی نے حملہ کیا یا شامی سرحد پر 20 میل طویل محفوظ علاقے قائم کرنے کی بات کی تو ترکی کو اقتصادی طور پر برباد کر دیا جائے گا۔

بعد ازاں صدر ٹرمپ نے انخلا موخر کر دیا لیکن ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان نے محفوظ علاقہ قائم کرنے کی بات جاری رکھی۔

اس سال اگست میں ترکی اور امریکہ دونوں مشترکہ طور پر ایسا علاقہ قائم کرنے پر تیار ہو گئے۔

کرد حکام نے بھی حمایت کرنے کا اظہار کیا اور وائی پی جے نے سرحد کے ساتھ مورچوں اور دفاعی ڈھانچوں کو مسمار کر دیا۔

لیکن دو ماہ بعد صدر ٹرمپ نے فیصلہ کیا کہ ترکی کی افواج یہ محفوظ علاقہ تنہا ہی قائم کریں۔

صدر اردوگان کو مکمل اعتماد ہے کہ 480 کلومیٹر طویل ایک راہداری ترکی کی سرحدوں کے دفاع کو یقینی بنانے کے علاوہ دس سے بیس لاکھ شامی مہاجرین کو بھی یہاں بسایا جا سکے گا۔
 

image


وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ترکی داعش کے تمام گرفتار شدہ ارکان کی بھی مکمل ذمہ داری اٹھائے گا۔

ایس ڈی ایف کا کہنا ہے کہ یہ امریکہ کی طرف سے کمر میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے اور خبردار کیا ہے کہ ترکی کی طرف سے حملہ اس علاقے کو ایک مستقل میدانِ جنگ میں بدل دے گا اور داعش دوبارہ لوٹ آئے گی۔

ترکی شامی کرد سے خائف کیوں ہے؟
ترکی پیپلز پروٹیکشن یونٹ (وائی پی جی) کے عسکری بازو شامی کرد ڈیموکریٹک یونین پارٹی (پی وائی ڈی) سے ترکی خطرہ محسوس کرتا ہے۔

ترک حکومت کا اصرار ہے کہ وائی پی جی کردستان ورکر پارٹی (پی کے کے) کا ایک جز ہے اور جو ترکی کے اندر کردستان کی خود مختاری کے لیے سنہ 1984 سے کوشاں ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین پی کے کے کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے۔

وائی پی جی اور پی کے کے کا نظریہ ایک ہی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ دو علیحدہ علیحدہ تنظیمیں ہیں۔

اس ملیشیا کے بارے میں ترکی کے خیالات سے امریکہ متفق نہیں ہے جس نے شام کی آٹھ سالہ خانہ جنگی میں کس کی طرف داری نہیں کی لیکن وہ داعش کے خلاف مغرب کی فوجی کارروائی کا ایک اہم شریک تھا۔

شامی ڈیموکریٹک فورسز جو عرب اور کرد ملیشیاؤں پر مشتمل ہے اس میں وائی پی جی کو بالادستی حاصل ہے۔
 

image


ایس ڈی ایف نے امریکی اور اس کے اتحادیوں کی فضائی مدد سے اور ان کی طرف سے فراہم کیے گئے ہتھیاروں اور دفاعی مشاورت سے شمال مشرقی شام میں دسیوں ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ داعش سے خالی کرا لیا تھا۔

اس علاقے میں ایک خود مختار انتظامیہ قائم کر دی گئی تھی جہاں پانچ لاکھ سے دس لاکھ کرد اور کم از کم 15 لاکھ عرب آباد ہیں۔

ترکی نے کیا ماضی میں کوئی کارروائی کی ہے؟
داعش کے خلاف امریکی اتحاد کا حصہ ہونے کے باوجود ترکی نے پوری شد و مد سے ایس ڈی ایف کی حمایت کرنے کی مخالفت کی تھی اور اس کا شمالی شام پر تسلط قائم ہونے کو بھی روکنے کی کوشش کی تھی۔

سنہ 2016 میں ترک فوج نے داعش کے شدت پسندوں کو سرحدی قصبے جارابلوس سے بے دخل کرنے کے ہونے والی فوجی کارروائی جس میں شامی باغی دھڑے بھی شامل تھے کی حمایت کی تھی لیکن ایس ڈی ایف کے جنگجوؤں کو مغرب کی جانب کرد علاقے آفرین کی طرف بڑھنے سے روک دیا تھا۔

اس وقت امریکہ نے ترکی کو عربوں کی اکثریت والے قصبے منبج پر کارروائی سے روک لیا تھا لیکن ترک قیادت یہ اصرار کرتے رہے کہ ایس ڈی ایف کے جنگجوؤں یہاں سے نکل جائیں اور یہ ہی وجہ تنازع کا باعث بنی رہی۔

جنوری سنہ 2018 میں جب امریکی حکام نے کہا تھا کہ وہ ایس ڈی ایف کو ایک نئی سرحدی سکیورٹی فورس بنانے میں مدد کر رہا ہے ترک فوج اور اس کے اتحادی شامی باغیوں نے آفرین کے علاقے سے وائی پی جی کو بے دخل کرنے کے لیے فوجی کارروائی شروع کی۔

برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق اس آٹھ ہفتے جاری رہنے والی کارروائی میں 300 شہری اور 1500 کرد ملیشیا اہلکار، 400 ترک نواز جنگجو اور 45 ترک فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔

اس کارروائی سے 137000 شہری اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھی علاقے سے نکل گئے تھے۔
 

image


محفوظ علاقہ قائم کرنے کی بات کیسے شروع ہوئی؟
دسمبر سنہ 2018 میں صدر ٹرمپ نے داعش کی شکست کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے شام میں موجود دو ہزار امریکی فوجیوں کو جو ایس ڈی ایف کو مدد فراہم کر رہے تھے انھیں واپس آنے کا حکم دے دیا ہے۔

بیرونی اتحادیوں اور سنیئر رپبلکن نے صدر ٹرمپ کے اس دعوئے کو رد کرتے ہوئے امریکی حمایت کے بغیر کرد فورسز کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔ چند دن بعد ٹرمپ نے ٹوئٹ کیا کہ وہ ترکی کو معاشی طور پر برباد کر دیں گے اگر انھوں نے کردو کو نشانہ بنایا، 20 میل طویل محفوظ زون بنا لیں۔'

گو کہ امریکی انخلا موخر ہو گیا لیکن ترک صدر رجب طیب اردوگان نے امریکی صدر کے اعلان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ ترکی فورسز محفوظ زون بنانے پر تیار ہے۔

یہ مسئلہ ایک مرتبہ پھر اس وقت زندہ ہو گیا جب مارچ 2019 میں ایس ڈی ایف نے داعش کے زیر قبضہ آخری علاقہ بھی چھڑا لیا۔

اگست میں امریکی فوج نے کہا کہ انھوں نے ترک فوج سے ترکی کے سیکیورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے ایک طریقہ کار پر اتفاق کر لیا ہے۔

اس طریقہ کار میں شام اور ترکی کی سرحد پر ایک سیکیورٹی نظام بھی شامل تھا لیکن اس میں محفوظ زون کا ذکر نہیں تھا۔
 

image

امریکہ نے بعد ازاں اس بات کی تصدیق کی کہ وائی پی جی نے بھاری ہتھیار سرحد کے قریب مورچوں سے ہٹانا شروع کر دیے ہیں اور دفاع ڈھانچے بھی گرائے جا رہے ہیں۔ کردوں کے زیر اثر انتظامیہ نے کہا کہ یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ سیکیورٹی نظام کے بارے میں سنجیدہ ہے۔

تاہم اچانک وائٹ ہاوس نے چھ اکتوبر کو صدر ٹرمپ اور صدر اردوگان کے درمیان گفتگو کے بعد کہا کہ امریکی فوج ترک فوج کی کارروائی سے قبل سرحد علاقوں سے واپسی بلائی جا رہی ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ امریکہ اس کارروائی میں تعاون نہیں کرے گا اور ترکی گزشتہ دو سال میں گرفتار ہونے والے داعش کے تمام ارکان کا ذمہ دار ہو گا۔ ایس ڈی ایف نے اس وقت 12 ہزار مشتبہ ارکان کو قید کر رکھا ہے اس کے علاوہ ان کی حراست میں ستر ہزار خواتین اور بچے بھی ہیں جن کا تعلق داعش کے ارکان سے ہے۔

ترکی کی تجویز کیا ہے؟
 
image


صدر اردوغان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 24 ستمبر کو کہا کہ وہ پی کے کے اور وائی پی جی کے دہشت گردی کے ڈھانچے کو ختم کرنے کے بارے میں پر عزم ہیں اور انھوں نے امن راہداری بنانے کا اعلان بھی کیا جہاں ان کے بقول دس ضلع اور 140 دیہات ہوں گے جن میں دس لاکھ شامی پناہ گزینوں کو آباد کیا جائے گا۔

شامی کرد کیا کہتے ہیں؟
ایس ڈی ایف نے 7 اکتوبر کو خبردار کیا کہ 'ہمارے علاقوں پر ترکی کے بلا اشتعال حملے سے داعش کے خلاف ہماری کارروائی پر منفی اثرا پڑے گا اور اس سے خطے میں امن اور استحکام انھوں نے قائم کیا ہے وہ بھی متاثر ہو گا۔' انھوں نے کا کہا کہ وہ اپنے خطے کی ہر قیمت پر حفاظت کریں گے۔

امریکی صدر کے سیاسی اتحادی سینیٹر لنِڈسے گراہم نے امریکی فیصلے کو ایک حادثہ سے تعبیر کیا جب کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطہ کار نے کہا کہ وہ بدترین حالات کا سامنا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے بعد میں یہ دھمکی دی کہ اگر ترکی نے کوئی ایسا قدم اٹھایا جو انھیں لگا کہ ترکی اپنی حد سے تجاوز کر رہا ہے تو وہ ترکی کی معیشت کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر دیں گے۔


Partner Content: BBC
YOU MAY ALSO LIKE: