آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کے اجلاسوں کے بعد وزیر
اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان کی سربراہی میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا
کہ مقبوضہ کشمیر میں انڈیا کی بڑی جارحانہ کاروائی کے جواب میں مظفر آباد
،چکوٹھی کی طرف سے لائین آف کنٹرول( جسے کشمیر کے باشندے سیز فائر لائین
کہتے اور سمجھتے ہیں)کی طرف بڑا عوامی مارچ کیا جائے گا۔تاہم بعد میں وزیر
اعظم پاکستان عمران خان نے مظفر آباد دورے کے موقع پر ایل او سی کی طرف
عوامی مارچ کو یہ کہتے ہوئے روکنے کی بات کی کہ جنرل اسمبلی میں میری تقریر
تک رک جائیں۔تاہم اطلاعا ت کے مطابق امریکہ سے واپس آنے کے بعد بھی ان کی
طرف سے یہی ہدایت سامنے آئی کہ ایل او سی کی طرف مارچ نہ کیا جائے۔اب
لبریشن فرنٹ نے چکوٹھی کے راستے سرینگر جانے کے لئے عوامی مارچ کے جلوس کا
اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں آزاد کشمیر کی سول سوسائٹی اور تمام سیاسی
جماعتوں کی بھی اخلاقی حمایت حاصل ہے۔
اسی ہفتے امریکہ کی قائم مقام نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے نیویارک میں
نیوز بریفنگ میں کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے سرحد پار دہشت گردی اور
دہشت گرد تنظیموں کی پناہ گاہوں کو روکنے کی ضرورت سے متعلق اہم عوامی وعدے
کیے ہیں۔ اگر ان پر مکمل طور پر عملدرآمد کیا جائے تو یہ مذاکرات کے لیے
ٹھوس بنیاد فراہم کرسکتے ہیں۔ ایلس ویلز نے آزاد جموں و کشمیر کے بعض
مظاہرین کی جانب سے مقبوضہ کشمیر سے متعلق 5 اگست کو کیے جانے والے بھارتی
فیصلے کو مسترد کرنے کے لیے لائن آف کنٹرول جانے کی خواہش کی رپورٹس کا
حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم تمام فریقین سے لائن آف کنٹرول پر امن اور
استحکام برقرار رکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے
74ویں اجلاس میں امریکی اور دیگر حکام نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ
موجودہ کشیدہ صورتحال میں ایل او سی پار کرنے کی کسی کوشش کے خطرناک نتائج
سامنے آسکتے ہیں۔
ایلس ویلز نے کہا کہ امریکہ وسیع پیمانے پر مقامی سیاسی اور کاروباری
رہنمائوں کی گرفتاریوں اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے رہائشیوں پر پابندیوں پر
تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے۔ بھارتی حکومت کو ایک مرتبہ پھر کشمیریوں پر سے
پابندی اٹھانے کی یاد دہانی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم بھارتی حکومت کی
جانب سے مقبوضہ کشمیر کے مقامی رہنمائوں کے ساتھ سیاسی روابط کی بحالی اور
جلد از جلد انتخابات کا وعدہ پورا کرنے کی امید رکھتے ہیں۔
ایلس ویلز نے کہا کہ ہم اکتوبر میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی
ایف) اجلاس میں امید رکھتے ہیں کہ پاکستان انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت
گردی کی مالی امداد کی روک تھام سے متعلق پالیسی اہداف کے حصول کے لیے
مستقل اور حتمی اقدامات کرے تاکہ وہ بین الاقوامی وعدوں کو مکمل طور پر
پورا کرسکے۔
انڈیا کے وزیر خارجہ سبرا مینیم جے شنکر نے ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹیٹیوٹ
، امریکہ میں انسٹیٹیوٹ کے صدر آسڑیلین کیون رڈ کے سوالات کے جواب میں کہا
ہے کہ انڈیا کو پاکستان سے مزاکرات کرنے میں کوئی دقت نہیں ہے لیکن انڈیا
ٹیررستان سے مزاکرات نہیں کر سکتا۔مزاکرات سے پہلے پاکستان کے لئے کون سے
کام کرنا ضروری ہیں ؟ کے سوال کے جواب میں کہا کہ مسئلہ پاکستان کے مائینڈ
سیٹ کا ہے، ممبئی پر حملہ کیا گیا جو کشمیر میں نہیں ہے، پاکستان انڈیا میں
دہشت گردی کراتا ہے ، پاکستان میں جو بھی حکومت آتی ہے کہ ہم ماضی کی حکومت
کے ذمہ دار نہیں ہیں،ان کی غلطیوں کے جوابدہ نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ
سب امریکہ نے افغان جہاد میں کرایا،ہم اچھے لوگ ہیں، پاکستان کو یہ سمجھنے
کی ضرورت ہے اور ہم اس کی حوصلہ افزائی کرنے کو تیار ہیں،کہ وہ دہشت گردوں
سے دور رہے۔اس موقع پہ حاضرین میں موجود فاروق صدیقی نامی ایک کشمیری نے
انڈین وزیر خارجہ سے سوال کیا کہ انسٹرمنٹ اور ایکسیشن، تین شرائط پہ ہوا
خارجہ ،مواصلات،ڈیفنس، انڈیا آئین1949میں بنا، انڈیا کیسے ریموو کر سکتا
ہے،اس کا مطلب کہ کشمیر و انڈیا کے تعلقات ختم ہو گئے ہیں اور یہ کہ لاکھوں
کی تعداد میں انڈین آرمی جو کر رہی ہے وہ دنیا کے سامنے ہے۔
اس سے پہلے وزیر اعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی اجلاس سے اپنی تقریر میں
مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بیان کرنے کے علاوہ اس بات پہ زور دیا کہ مقبوضہ
کشمیر میں کسی حملے کو بہانہ بناکر انڈیا حملہ کر سکتا ہے۔عمران خان امریکہ
جانے سے پہلے ہی مقبوضہ کشمیر کی مسلح جدوجہد سے لاتعلقی کا اظہار کر چکے
ہیں۔وزیر اعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میں تقریر ، امریکی عہدیدار اور
انڈیا کے وزیر خارجہ کے بیانات سے اس بات کے امکانات واضح ہو رہے ہیں کہ
پاکستان انتظامیہ کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے '' ڈومور'' کی ہدایت کی جاچکی
ہے اور پاکستان انتظامیہ اس حوالے سے '' ڈومور'' کا عمل شروع کر چکی ہے۔
اس صورتحال میں لبریشن فرنٹ کی طرف سے آزاد کشمیر کے ضلع بھمبر سے مختلف
اضلاع سے ہوتے ہوئے ارجہ باغ ،کوہالہ کے راستے مظفر آباد اور چکوٹھی کے
راستے لائین آف کنٹرول( جسے کشمیری سیز فائر لائین کہتے اور سمجھتے ہیں) کو
عبور کرنے کا اعلان کیا ہے۔لبریشن فرنٹ کے مرکزی رہنما یاسین ملک کے
نمائندہ،ترجمان رفیق ڈار نے خصوصی گفتگو میں بتایا ہے کہ 4اکتوبر کو جلوس
بھمبر سے روانہ ہو کر رات کو مظفر آباد پہنچے گا اور اگلے روز چکوٹھی کے
لئے روانہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ممکنہ طور پر 5اکتوبر کی رات گڑھی دوپٹہ
میں قیام ہو سکتا ہے کیونکہ جلوس میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے بھی
شامل ہو ں گے۔ اس صورت6اکتوبر کی صبح چکوٹھی کے راستے سرینگر کی طرف ایل او
سی عبور کرنے کے لئے عوامی جلوس روانہ ہو گا۔انہوں نے بتایا کہ عوامی رابطہ
مہم کے کیمپوں میں آزاد کشمیر کے70ہزار افراد نے ہمارے فارم بھرے ہیں اور
جلوس کی ساتھ جانے کے لئے اپنے نام لکھوائے ہیں۔
رفق ڈار نے جلوس کے تین مقاصد بتاتے ہوئے کہا کہ ہمارا یہ جلوس کلی طور پر
انڈیا کے خلاف ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام گزشتہ تین دہائیوں سے بالعموم اور
گزشتہ دوماہ سے بالخصوص انڈیا کے بدترین مظالم کا نشانہ بن رہے ہیں،یہ جلوس
اس کے خلاف ہے، دوسرا کشمیریوں کے خلاف ہندوستانی کی جارحیت اور دہشت گردی
کے خلاف احتجاج اورعالمی برادری،اقوام متحدہ کی توجہ مسئلہ کشمیر کے فوری
حل کی ضرورت کی طرف مبذول کرانا ہے۔مقبوضہ کشمیر کی تمام آبادی دوماہ سے
گھروں میں مقید ہے، حریت رہنما قید ہیں، نوجوانوں کو بڑی تعداد میں گرفتا
رکیا جا رہا ہے،ہر قسم کا مواصلاتی نظام بند ہے۔کشمیری حق خود ارادیت ،حق
آزادی کے لئے قومی جدوجہد میں مصروف ہیں ۔ہندوستان کشمیریوں کی اس پرامن
جدوجہد کو اسلامی دہشت گردی کا نام دے رہا ہے،انڈیا نے ہمارے سامنے اور
کوئی راستہ نہیں چھوڑا ہے کہ ہم کشمیر کے باشندے نہتے اور پرامن طور پر ایل
او سی عبور کر کے مقبوضہ کشمیر جانے کے لئے مارچ کریں۔
رفیق ڈار نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر47آرٹیکل
12، 21اپریل1948ء ریاست کے باشندوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ پرامن طور پر
سیز فائر لائین عبور کر سکتے ہیں۔یوں اس ایل او سی عبور کر کے سرینگر جانے
کے لئے یہ عوامی مارچ کوئی غیر قانونی اقدام نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مودی ' آر ایس ایس' کے فاشسٹ ایجنڈے پی عمل پیرا ہے اور
انڈین اسٹیبلشمنٹ اسی سوچ کو پروان چڑھا رہی ہے۔ہمارا پرامن عوامی مارچ
مکمل طور پر ہندوستان کے خلاف ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایل او سی عبور کرنے کے
اس عوامی مارچ کے بارے میں اقوام متحدہ کی سیکرٹری جنرل ،سلامتی کونسل کے
مستقل ارکان،جی ایٹ کے علاوہ 17اہم ملکوں کے سفارت خانوں کو خطوط لکھتے
ہوئے اس عوامی مارچ کی اطلاع دیتے ہوئے اس کی ضرورت،اہمیت،افادیت اور خطرات
سے آگاہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایل او سی عبور کرنے کے اس عوامی مارچ کے حوالے سے غیر
ملکی میڈیا اور پاکستان میڈیاکے نمائندگان سے رابطے میں ہیں۔ انٹرنیشنل ریڈ
کراس سمیت ایمرجنسی سروسز فراہم کرنے والے اداروں ایدھی ،انصار برنی سے بھی
رابطہ کیا گیا ہے۔ ایدھی کے سربراہ فیصل ایڈھی نے ایمبو لینسز سمیت ضرورت
پڑنے پر ایئر ایمبولینس بھی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
رفیق ڈار نے کہا کہ اس عوامی مارچ کے لئے قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی
کوشش کی گئی۔8اگست کو اس کا اصولی فیصلہ کیا گیا، 9اگست کو آل پارٹیز
کانفرنس میں حریت کانفرنس نے مارچ کی حمایت کی،وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ
فاروق حیدر خان نے پہلے ایل او سی توڑنے کے لئے عوامی مارچ کا اعلان کیا
تاہم انہوںنے بعد میں بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے مظاہرے روک کر
انتظار کرنے کو کہا ہے۔رفیق ڈار نے بتایا کہ آزاد کشمیر کے ہر ضلع کی سول
سوسائٹی،تاجر،وکلائ،طلبہ و دیگر تنظیمیں عوامی مارچ کی حمایت کر رہی
ہیں۔انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کی اخلاقی حمایت بھی حاصل
ہے ۔ انہوں نے ایک اہم بات یہ بھی کہہ کہ ابھی تک اس عوامی مارچ کے حوالے
سے انتظامیہ ،قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے کسی قسم کی پابندی کی
کوئی صورتحال دیکھنے میں نہیں آئی۔
|