حضرت حبیب بن زید ؓ اور آپ کے والد زید بن عاصمؓ ان 70
بابرکت آدمیوں میں شامل تھے، جنہیں بیعت عقبہ ثانیہ کا شرف و اعزاز حاصل
ہے۔ آپ کی والدہ حضرت نسیبہ بنت کعبص (ام عمارہؓ) ان دو عورتوں میں سے ایک
تھیں، یعنی آپ نسلی مسلمان تھے اور ایمان آپ کے رگ و پے میں اترا ہوا تھا۔
آپ نے ہجرتِ مدینہ کے بعد جوار رسولﷺ میں اس طرح زندگی گزاری کہ کسی غزوہ
میں شرکت اور کسی فرض کی ادائیگی سے کبھی پیچھے نہ رہے۔
اس دور میں ایک روز ایسا بھی آیا کہ آ پ نے جنوبی جزیرہ عرب میں دو سر پھرے
جھوٹوں کو دیکھا جو نبوت کا دعویٰ کرتے تھے اور لوگوں کو گمراہی کی طرف لیے
جا رہے تھے۔ ان میں ایک صنعاء میں نمودار ہوا جس کا نام اسود بن کعب عنسی
تھا اور دوسرا یمامہ میں منظر عام پر آیا اس کا نام مسیلمہ کذاب تھا۔ ان
دونوں کذابوں نے اپنے اپنے قبیلوں میں لوگوں کو ان مؤمنین کے خلاف اکسانا
اور بھڑکانا شروع کر دیا، جنھوں نے اﷲ اور اس کے رسولﷺکی دعوت پر لبیک کہا
تھا۔ انھوں نے لوگوں کو یہ کہہ کر ورغلانا شروع کر دیا کہ وہ ان علاقوں میں
محمد رسول اﷲﷺکے نمائندے ہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ گئے اور خود نبوت کے
دعویدار بن بیٹھے اور زمین کو فساد و گمراہی سے بھرنے لگے۔اچانک ایک روز
مسیلمہ کی طرف سے بھیجا ہوا ایک نمائندہ رسول اﷲﷺ کے پاس آیا جو مسیلمہ کا
ایک خط لایا تھا جس میں مسیلمہ نے رسول اﷲﷺکو مخاطب کیا تھا:
’’مسیلمہ رسول اﷲ کی طرف سے محمد رسول اﷲ کی طرف! تم پر سلامتی ہو، امابعد!
سن لیں کہ میں اس معاملے میں تمہارا شراکت دار ہوں۔ آدھی زمین ہماری ہو گی
اور آدھی قریش کی، مگر قریش ایک ایسی قوم ہے جو ظلم کرتی ہے!‘‘رسول اﷲﷺنے
مسیلمہ کے خط کا جواب ان الفاظ میں املا کرایا:’’بسم اﷲ الرحمن
الرحیم‘‘محمد رسول اﷲ کی طرف سے مسیلمہ کذاب کی طرف۔ اسلام اسی شخص کے لیے
ہے جو ہدایت کی پیروی اختیار کر لے امابعد! سن لو کہ! زمین تو اﷲ تعالیٰ کی
ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔ لیکن اچھا
انجام ڈر جانے والوں کا ہی ہوگا۔‘‘رسول اﷲ ﷺکے یہ الفاظ سپیدہ سحر کی مانند
نمودار ہوئے اور بنوحنیفہ کے کذاب کو رسوا کر کے چھوڑ گئے جس نے نبوت کو
بادشاہت سمجھ لیا تھا اور نصف زمین اور نصف رعایا کا مطالبہ کرنے لگا
تھا۔مسیلمہ کے ہر کارے نے رسول اﷲﷺکا یہ جواب مسیلمہ تک پہنچایا تو وہ مزید
گمراہی میں پڑ گیا اور لوگوں کو مزید گمراہ کرنے لگا۔ یہ کذاب اپنا افک و
بہتان پھیلانے لگا۔ مومنوں کو دی جانے والی سزاؤں کو اُس نے بڑھا دیا اور
لوگوں کو اُن کے خلاف بھڑکانے کا کام شروع کر دیا۔
رسول اﷲﷺنے اس صورت حال میں اس کی طرف ایک خط بھیجنے کا فیصلہ کیا جس میں
آپﷺاس کو اس کی حماقتوں سے منع کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے رسول اﷲﷺکی
نگاہ انتخاب حضرت حبیب بن زید پر پڑی کہ آپؓ یہ مکتوب مسیلمہ تک پہنچائیں۔
حضرت حبیب ؓنے تیز قدمی سے سفر شروع کر دیا تاکہ اس مہم کو بخوشی سر کریں
جو رسول اﷲﷺنے اس نیت سے ان کو سونپی تھی کہ مسیلمہ کا دل حق کی طرف
رہنمائی پا لے ۔ حضرت حبیب بن زیدؓنے مطلوبہ مقام پر پہنچ کر خط مسیلمہ کے
حوالے کر دیا۔ مسیلمہ کذاب نے خط کھولا تو خط کے نور و ضیا نے اس کی آنکھیں
اندھی کر دیں اور وہ غرور و ضلالت میں مزید بڑھ گیا۔ ادھر دین عظیم یعنی
اسلام کے معیارات اور پیمانوں نے چاہا کہ عظمت و شوکت کے وہ دروس جو اس نے
مکمل طور پر انسانیت کے سامنے پیش کر دیے ہیں، ان کے اندر ایک نیا درس شامل
کر دے جس کا موضوع اور استاد اس بار حضرت حبیب بن ز ید ؓ ہو ں،مسیلمہ ایک
شعبدہ باز سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ وہ جگہ جگہ شعبدہ بازی کرنے والوں کی تمام
تر عادات و خصائل اپنے اندر رکھتا تھا۔ اس طرح اس کے اندر کوئی مروت تھی نہ
عرب نسلیت اور نہ کوئی آدمیت جو اس کو اس پیغام رساں کے قتل سے باز رکھتی۔
جس کا عرب بڑا احترام کرتے اور مقدس جانتے تھے۔مسیلمہ کذاب نے اپنی قوم کو
ایک روز اکٹھے ہونے کا کہا۔ پھر رسول اﷲﷺکے پیغام رساں جناب حبیب بن زیدؓ
کو لایا گیا جن کے اوپر اس تشدد سے تعذیب کے آثار دکھائی دے رہے تھے جو
مجرموں نے ان کے اوپر توڑے تھے۔ ا ن کا خیال تھا کہ اس طرح وہ جناب حبیب ؓ
کی روح شجاعت کو سلب کر لیں گے اور آپص لوگوں کے سامنے آئیں گے تو مطیع ہو
چکے ہوں گے اور جب مسیلمہ پر ایمان لانے کے لیے کہا جائے گا تو فوراً ایمان
لے آئیں گے۔
مسیلمہ کذاب اس طریقے سے اپنے ذہن میں تیار کیا ہوا معجزہ اپنے فریب خوردہ
پیروکاروں کے سامنے دکھانا چاہتا تھا۔ مسیلمہ نے حضرت حبیب ؓ سے پوچھا: کیا
تم یہ شہادت دیتے ہو کہ محمدﷺاﷲ کے رسول ہیں؟ حضرت حبیب ؓ نے جواب دیا۔
ہاں! میں شہا د ت دیتا ہوں کہ محمدﷺاﷲ کے رسول ہیں! جناب حبیب ؓکے منہ سے
یہ کلمات نکلے تو رسوائی اور ناکامی کی زردی نے مسیلمہ کا چہرہ زرد کر دیا
اور اس نے پھر سوال کیا: کیا تم یہ شہادت دیتے ہو کہ میں اﷲ کا رسول
ہوں؟حضرت حبیب ؓنے مضحکہ خیز انداز میں جواب دیا:انا اصم لا اسمع، میں بہرہ
ہوں۔ میرے کان تمہاری بات سننے سے انکاری ہیں۔ اس جملے کے بعد کذاب کے چہرے
کی زردی جل کر راکھ ہو جانے والے کوئلے کی سیاہی میں بدل گئی۔ اس کی منصوبہ
بندی ناکام ہو گئی اور اس کے تشدد نے بھی کوئی کام نہ دکھایا۔ اسے ان لوگوں
کے سامنے جن کو وہ اپنا معجزہ دکھانا چاہتا تھا، ایسا زور دار طمانچہ پڑا
کہ اس کی جعلی ہیبت ہوا ہو گئی۔ وہ ذبح شدہ سانڈ کی طرح پھنکارا اور اپنے
اس جلاد کو آواز دی جو اپنی تلوار کے دانتوں سے حضرت حبیب ؓ کے جسم کی بوٹی
بوٹی کر ڈالنے والا تھا۔اس نے چیخ کر جلاد سے کہا: تلوار مار کر اس کے بدن
کا ایک ٹکڑا اڑا دو۔ جلاد نے تلوار ماری اور جناب حبیب ؓ کا بازو بدن سے کٹ
کر زمین پر جا گرا۔مسیلمہ نے پھر مخاطب ہو کر جناب حبیبؓ سے پوچھا: کیا تم
گواہی دیتے ہو کہ محمد اﷲ کے رسول ہیں؟حضرت حبیب ؓنے جواب دیا: ہاں میں
گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اﷲ کے رسول ہیں۔ مسیلمہ نے کہا: اور یہ بھی گواہی
دیتے ہو کہ میں اﷲ کا رسول ہوں؟
حضرت حبیب ؓ بولے: میں نے تم سے کہا ہے کہ میرے کان وہ بات سننے سے قاصر
ہیں جو تم کہتے ہو۔ مسیلمہ نے جواب سنا تو جلاد کو حکم دیا کہ اس کے جسم کا
دوسرا بازو بھی اڑا دو۔ جلاد نے فوراً تلوار ماری اور حضرت حبیب ابن زیدؓکا
دوسرا بازو بھی اڑا کر رکھ دیا۔ لوگ آپ پر نظریں گاڑے حیرت و تعجب سے دیکھے
جا رہے تھے کہ کس قدر عزیمت و استقامت ہے۔مسیلمہ مسلسل اسی طرح سوال کرتا
رہا اور جلاد آپؓ کے بدن کی بوٹیاں اڑاتا رہا اور آپؓ بھی مسلسل یہی جواب
دیتے رہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺاﷲ کے رسول ہیں۔
اس مسلسل عمل سے آپ ؓ کے بدن کا آدھا حصہ کٹ کر ٹکڑوں کی صورت میں زمین پر
بکھرا ہوا تھا اور آدھا دھڑ باقی رہ گیا تھا۔ بالآخر آپ ؓ کی پاکیزہ و عظیم
روح پرواز کر گئی مگر زبان پر ختم نبوت زندہ باد کا ورد جاری تھا۔ (اﷲ
اکبر)اگر حضرت حبیب ابن ز ید جان بچانے کی خاطر دل سے ایمان پر قائم رہتے
ہوئے مسیلمہ کذاب کی ہم نوائی کر لیتے تو ان کے ایمان میں کوئی نقص واقع نہ
ہوتا اور نہ ان کے اسلام کو کوئی نقصان پہنچتا مگر یہ شخص جو اپنے والد،
والدہ، بھائی اور خالہ کے ہمراہ بیعت عقبہ میں حاضر ہوا تھا اور جس نے ان
مبارک اور فیصلہ کن لمحات سے ہی اپنی بیعت اور بے نقص ایمان کامل کی ذمہ
داری اٹھا رکھی تھی۔ اس کے نزدیک یہ جائز نہیں تھا کہ وہ اپنی زندگی اور
آغاز اسلام کے درمیان ایک لمحے کا بھی موازنہ کرتا اور زندگی کو اہم سمجھ
کر اس کو بچانے کی راہ اختیار کرتا۔ لہٰذا ان کے پیش نظر یہ بات نہیں تھی
کہ وہ اس واحد موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے زندگی کو بچا لیتے جس موقع پر ان
کے ایمان کی تمام داستان، ثبات و عظمت، قربانی و بطولت اور راہ حق و ہدایت
میں جان قربان کر کے مرتبہ شہادت پا لینے کے ایسے نمونے میں ڈھل گئی کہ
قریب تھا کہ وہ اپنی حلاوت و دلکشی میں ہر کامیابی اور فتح و نصرت سے آگے
نکل جاتی۔ادھر اﷲ کے رسولﷺکو اپنے معزز پیغام رساں کی شہادت کا علم ہوا۔ آپ
ﷺ نے اپنے رب کے فیصلے پر صبر کیا کیونکہ آپﷺ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ
نور بصیرت کی روشنی میں مسیلمہ کذاب کا انجام دیکھ رہے تھے۔ادھر حضرت حبیب
کی والدہ جناب نسیبہ بنت کعبص نے لمبے عرصے تک اپنے دانتوں کو بھینچے رکھا۔
پھر یہ قسم کھاتے ہوئے دانتوں کو کھولا کہ وہ خود مسیلمہ سے اپنے بیٹے کا
انتقام لیں گی اور اس ناپاک کے جسم میں اپنا نیزہ اور تلوار گھسا کر رہیں
گی۔ قدرت جو اس وقت ان کے صدمے، صبر اور تکلیف کو دیکھ رہی تھی، نہ معلوم
اسے ان کی یہ ادا کس قدر پسند آئی کہ اس نے اس وقت یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ
اس خاتون کے ساتھ رہے گی، یہاں تک کہ وہ اپنی قسم پوری کر لے۔کچھ وقت گزرا
کہ وہ موقع آ گیا جس کے نقوش دائمی ہیں یعنی جنگ یمامہ کا موقع! خلیفہ رسول
اﷲ حضرت ابوبکر صدیق نے یمامہ کی طرف جانے والے لشکر اسلام کو تیار
کیا۔جہاں مسیلمہ نے ایک بہت بڑا لشکر تیار کر رکھا تھا۔ حضرت نسیبہ رضی اﷲ
عنہا بھی لشکر اسلام کے ساتھ نکل پڑیں اور میدان جنگ کے اندر معرکہ کارزار
میں اس طرح گھس گئیں کہ آپؓ کے دائیں ہاتھ میں تلوار اور بائیں ہاتھ میں
نیزہ تھا اور زبان یہ للکار رہی تھی کہ ’’اﷲ کا دشمن مسیلمہ کذاب کہاں
ہے؟‘‘جب مسیلمہ قتل ہو گیا اور اس کے پیروکار دھنکی ہوئی روئی کی مانند
گرنے لگے اور اسلام کے جھنڈے کامیاب و کامران ہو کر بلند ہو گئے تو حضرت
نسیبہؓ کھڑی ہو گئیں اور آپؓ کی حالت یہ تھی کہ آپ کا تنومند و طاقتور جسم
زخموں سے چھلنی تھا۔ آپؓ اس طرح کھڑی تھیں گویا اپنے شہید بیٹے حضرت حبیب
کے روئے مبارک کو صاف طور پر دیکھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ آپؓ نے اپنے لخت
جگر کو یوں محسوس کیا کہ اس نے زمان و مکان کو اپنی عظمت سے بھر دیا
ہے!ہاں…… بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ حضرت نسیبہ فتح و نصرت کی خوشی سے مسکراتے
اور لہراتے جس بھی پرچم کی طرف نگاہ اٹھاتیں، اس کے اوپر اپنے بیٹے حضرت
حبیب ص کا چہرہ ہنستا اور مسکراتا دیکھتیں
|