ایک طرف ملک میں بدنامی کا باعث بننے والی ہماری پولیس ہے
جو بے گناہ افراد کو پکڑ پکڑ کرتھانہوں اور پھر جیلوں میں بند کررہی ہے
جہاں سے پھر وہ افراد اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ازالے کے لیے قانون
ہاتھ میں لیے پھرتے ہیں تو دوسری طرف دنیا میں ملک کا نام روشن کرنے والی
ہماری فوج ہے جی ہاں پاکستان کی مسلح افواج اپنے ملک کا دفاع اور دشمن کو
منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج اس کا شمار
دنیا کی طاقتور ترین افواج کی فہرست میں 15 ویں نمبر پر کیا گیا ہے۔ گذشتہ
روز گلوبل فائر پاور نے 2019 کی عالمی طاقتور ترین مسلح افواج کی فہرست
جاری کی جس میں 55 سے زائد عوامل کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔اس فہرست کو فوج کی
مین پاور، جیوگرافی، لاجسٹک استعداد اور ملک میں دستیاب قدرتی وسائل سمیت
ملک کی انڈسٹری کے اسٹیٹس کی بنیاد پر جاری کیا گیا ہے۔فہرست میں 25 ممالک
کی فوج کو دنیا کی طاقتور ترین فوج قرار دیا گیا ہے جب کہ رینکنگ میں ہر
ملک کے ہتھیاروں کی نوعیت کا تخمینہ بھی لگایا گیا ہے۔اس کے علاوہ اس فہرست
میں 25 ملٹری طاقتوں میں سے جن کے پاس ایٹمی طاقت ہے اس کو بونس دیا گیا ہے
لیکن رینکنگ میں ان ایٹمی قوتوں کے پاس جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کی تعداد
کو بطور فیکٹر نہیں لیا گیا۔تاہم فہرست کے مطابق اس اعتبار کو مدنظر رکھتے
ہوئے پاکستان کی مسلح افواج دنیا کی 15 ویں طاقتور فوج ہے جب کہ سرفہرست
امریکا، دوسرے نمبر پر روس، تیسرے پر چین اور چوتھے نمبر پر بھارت کی فوج
ہے۔ فہرست کے مطابق پاکستان کا ڈیفنس بجٹ 7 ارب ڈالرز ہے جب کہ پاکستانی
فوج کی تعداد تقریبا 12 لاکھ چار ہزار ہے جبکہ137 ممالک میں طیاروں کے حساب
سے پاکستان 7ویں نمبر پر ہے جس کے طیاروں کی تعداد 1342 ہے، ان میں سے 348
فائٹر ائیرکرافٹ ہیں اور اس وقت پاکستان کے پاس 2200 کمباٹ ٹینک بھی ہیں جب
کہ بحری جنگی اثاثوں کی تعداد 197 ہے جس میں آبدوزیں میزائل بردار کشتیاں
اور جدید ترین جاسوس لڑاکا طیارے شامل ہیں۔ گلوبل فائر پاور 2019کی عالمی
طاقتور ترین مسلح افواج کی فہرست میں
امریکا1،روس2،چین3،بھارت4،فرانس5،جاپان6،جنوبی
کوریا7،برطانیہ8،ترکی9،جرمنی10،
اٹلی11،مصر12،برازیل13،ایران14،پاکستان15،انڈونیشیا16، اسرائیل17،شمالی
کوریا18، آسٹریلیا19،اسپین20، کینیڈا21،تائیوان22،ویتنام23 پولینڈ24سعودی
عرب25 نمبر پر ہے اور اگر اسی طرح کبھی پولیس کے حوالہ سے رینکنگ کی گئی تو
مجھے قوی امید ہے کہ ہماری کرپٹ پولیس کا آخری نمبر ہوگا کیونکہ پہلے کالی
اور اب زیتون کے سبز رنگ جیسے کپڑوں میں چھپے ہوئے دنیا آخرت سے بے نیاز یہ
بھیڑیے اپنی اپنی نوکری پکی کرنے کے لیے بے گناہ افراد کو پکڑ پکڑ کر جس
وحشیانہ تشدد کا شکار بنا رہے ہیں اس سے معاشرہ میں انتقام کا رجحان بڑھتا
جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے گلی محلوں پولیس کے بنائے ہوئے بدمعاش
پیدا ہورہے ہیں اور اس بگار کا ذمہ دار ڈی پی او ہے جو اپنی نوکری بچانے کے
لیے بغیر کسی میرٹ اور قابلیت کے ایس ایچ او تعینات کررہا ہے اس وقت لاہور
جو پنجاب کا دارالحکومت ہے یہاں پولیس بے لگا ہے اور جو دور دراز کے علاقے
ہیں وہاں پر پولیس کسی بھی غریب کو کسی کھاتے میں نہیں لکھتے آئی جی پولیس
جناب جوتہ صاحب کے کہنے کے باوجود نجی ٹارچر سیل قائم ہیں جہاں سادہ لوح
افراد کو جرائم کی ابتدائی تربیت دیکر جیل جیسی عظیم یونیورسٹی میں بھجوا
دیا جاتا ہے جہاں پر گیا ہوا ایک معصوم شخص جب باہر نکلتا ہے تو پھر وہ
اپنے اندر انتقام کی آگ لیے جب باہر نکلتا ہے تو پھر اسکے ظلم سے کوئی بھی
محفوظ نہیں رہتا پولیس کے غنڈے اور نہ ہی عام شہری اور وہ اپنے ظلم کی
داستان تب تک لکھتا رہتا ہے جب تک اسے موت کی نیند نہ سلا دیا جائے اگر
پولیس کو اسی طرح بے لگا رہنے دیا گیا تو پھر ایک دن آئے گا کہ مظلوم ظالم
کے روپ میں نظر آئے گاجسطرح کہ آج تک ہوتا آیا ہے میں اگر یہ کہوں کہ ہمارے
معاشرہ میں جرائم اور ظالم کے پیچھے پولیس کا ہاتھ ہے تو بے جا نہ ہوگا
کیونکہ اس بات کا عملی مشاہدہ میں تھانہ کوٹ ادو میں دیکھ آیا ہوں جہاں صرف
سفارشی ہی تعینات ہیں جنہوں نے اپنی مثلوں کو لکھنے کے لیے بھی کرایہ پر
بندے رکھے ہوئے ہیں ان نااہلوں کی وجہ سے کوٹ ادو شہرمیں منشیات فروشی عام
ہے نیٹ کیفوں پر گندی فلمیں سرعام چل رہی ہیں چوری کی وارداتیں عام ہیں اصل
چوروں کو پکڑنے کی بجائے جو بھی سامنے آیا اسی پر باقی کے مقدمات بھی ڈال
کر اپنے نمبر ٹانگ لیے جاتے ہیں یہ صرف ایک تھانے کا المیہ نہیں بلکہ ہر
تھانے میں یہی کچھ ہورہا ہے اور رزلٹ سب کے سامنے ہے کہ پیسے والے نے پولیس
کو گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے وہ اپنی مرضی سے اپنے ان زر خریدوں کو استعمال
کرتا ہے اور وارداتیں ہیں کہ کنٹرول ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی دن بدن
جرائم کی دنیا میں اضافہ ہوتا جارہا ہے مگر پولیس اہلکار اپنے کاغذوں میں
سب اچھا کی رپورٹ اوپر بھجوا کر خوشی کے شادیانے بجا نے میں مصروف ہیں اور
جرائم ہیں کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے آئے روز پولیس کے خلاف مردہ
آباد کے نعرے لگ رہے ہوتے ہیں ڈی ایس پی ،ایس ایچ او اور تفتیشی اپنے ہی
تھانوں میں بند ہورہے ہیں مگر اسکے باوجود ایک کانسٹیبل سے لیکر تفتیشی
،ایس ایچ او اور اعلی افسران اپنی من مانیوں میں مصروف ہیں اسی لیے تو وزیر
اعلی پنجاب عثمان بزدار اور وزیراعظم عمران خان پولیس کے اس بوسیدہ نظام
میں تبدیلی لانے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ عوام میں پولیس کی عزت بحال ہو
پولیس مردہ بادہ کی بجائے جس طرح پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگتے ہیں اسی
طرح پنجاب پولیس کے حق میں بھی نعرے لگیں۔
|