ہم اُس معاشرے کا حصہ ہیں

 معاشرہ انسانوں کے گروہ کو کہتے ہیں جسکی ضروریات زندگی ایک دوسرے کے ساتھ جڑی رہتی ہیں۔ضروری نہیں کہ ایک معاشرے کے تمام افرادکا تعلق ایک ہی قوم ۔قبیلے۔رنگ۔نسل ۔ایک ہی مذہب یاایک ہی مسلک کے ساتھ ہو۔معاشرہ مذہب ۔سیاست۔ثقافت وتجارت سے بالاتر کسی قسم کی تفریق کے بغیرمل جل کریاٹکراؤکے ماحول میں ایک ہی دورمیں زندگی گزارنے والے انسانی گروکوکہتے ہیں جس میں منفی اورمثبت دونوں قسم کے رویے موجودرہتے ہیں۔جب کسی خاص قوم یا مذہب کی تاریخ کے حوالے سے بات کی جاتی ہے توعام طورپر اسکا نام معاشرے کے ساتھ اضافہ کردیا جاتا ہے جیسے ہندوستانی معاشرہ ۔مغربی معاشرہ یا اسلامی معاشرہ یعنی دنیا بھر کے انسان ہردورمیں کسی نہ کسی معاشرے کاحصہ ہوتے ہیں۔خوش قسمتی سے ہم ایسے معاشرے کاحصہ ہیں جس کی کوئی سمت۔کوئی ترتیب نہیں۔ پیار۔ محبت۔احترام۔ادب۔لحاظ۔تنقید۔تعریف۔عقیدت۔تقلیدکاکوئی معیارنہیں کوئی دلیل نہیں۔جہاں رشتے خلوص۔اپنایت۔پیار۔محبت اورصلہ رحمی کی بجائے مالی حالات کے محتاج ہیں۔ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ضروریات انسان سے زیادہ اہم ہیں۔جہاں انسان کھانانہیں کھاتے بلکہ کھاناانسانوں کوکھارہاہے۔جہاں انسان کی نہیں بلکہ جوتوں۔کپڑوں۔عمارتوں۔گاڑیوں اوربینک بیلنسوں کی عزت کی جاتی ہے۔جہاں معاشی طورپرکمزوربہن بھائیوں کے ساتھ لوگ یہ سوچ کررابطہ ختم کردیتے ہیں کہ کہیں کچھ مانگ نہ لیں۔ہم اُس ایماندار معاشرے کاحصہ ہیں جہاں جان بچانے والی ادویات ہی نہیں زہربھی خالص نہیں ملتا۔جہاں بڑی مرغی چھوٹاانڈادیتی ہے جہاں چھوٹے قدوالے بونے لوگ بلندمقام پرفائزہیں۔جہاں اہلیت کامعیارکسی صاحب اختیارکی خوش آمد۔رشتہ داری یاحرام کمائی میں شراکت داری ہے۔ہم اُس خوبصورت وخوب سیرت معاشرے کاحصہ ہیں جہاں لوگ اس قدر تنگ دل۔تنگ ذہن ہیں کہ ساری زندگی کی بھلائی۔خلوص۔محبت اوراحترام کے رشتوں کوایک پل میں فراموش کردیتے ہیں وہ بھی کسی غلطی کی بجائے ذاتی پسندناپسندکی بنیادپر۔ہم اس معزز۔معتبرمعاشرے کاحصہ ہیں جس میں جسم فروش عورت فحاشہ کہلاتی ہے۔اس کی اسی معاشرے میں کوئی عزت نہیں جس معاشرے کے مرد اس کی مجبوری خریدتے ہیں۔باعزت معاشرے کے معزز مردچندپیسوں کے عوض اس کاجسم نوچتے ہیں۔جسم فروش عورت جہنمی ہے یہ فتوی اسے کے جسم کے خریداردیتے ہیں۔فحاشہ کسی باعزت مردکی بہن۔بیٹی۔بیوی کہلانے کے لائق نہیں پردرندگی کانشانہ بنانے کیلئے وہی بہترین ہے۔جہاں فحاشہ جہنمی کاجسم خریدنے والے نیک ہی نہیں بلکہ جنتی ہیں؟ہم اس معاشرے کاحصہ ہیں جس میں لوگ دوسروں کیخلاف مقدمات تھانیداربن کر درج کرتے ہیں۔وکیل بن کروکالت کرتے ہیں۔گواہ بن کرگواہی دیتے اورخودہی جج بن کرفیصلے سنادیتے ہیں۔ہم اس معاشرے کاحصہ ہیں جہاں سب جنتی ہیں اورسب ہی جہنمی ہیں۔جہاں سب سچے پکے مسلمان۔عاشق رسول ہیں۔جہاں سب کے سب سود جیسی لعنت کے معاملے پرخاموش ہیں۔ہم اس معززمعاشرے کے فردہیں جہاں اپنی ماں بہن۔بیوی اور بیٹی کے علاوہ ہرعورت کوبدکردارسمجھاجاتاہے۔جہاں عورت کواس کاوراثتی حق نہیں دیاجاتا۔جہاں دوسروں کے منہ سے نکلے الفاظ کا نہ صرف مفہوم بدل دیاجاتاہے بلکہ لفظ ہی بدل دیتے ہیں یعنی دوسروں کی زبان سے اپنے مفادات کی زبان بولتے ہیں لوگ۔ہم اُس انصاف پسند معاشرے کاحصہ ہیں جہاں لوگ دوسروں کے معاملے میں خدابن کرسزاوجزاکے فیصلے سناتے ہیں۔دوسروں کی عبادت میں ایسے عیب نکالتے ہیں جیسے دوسرے اﷲ کی نہیں ہماری عبادت کرتے ہیں۔کیاعبادت خالق و مخلوق کے درمیان معاملہ نہیں؟مقدس ہستیوں کے مقام و مراتب پرایسے بحث کرتے ہیں جیسے مقدس ہستیوں کے مقام و مراتب کم یازیادہ کرنااُن کے اختیارمیں ہو۔مقدس ہستیوں کے پاؤں کی خاک سے بھی کم مقام رکھنے والے لوگ مقدس ہستیوں کے مقام و درجات کویوں آگے پیچھے کرتے ہیں۔آپس میں لڑتے مرتے ہیں جیسے مقدس ہستیاں ان کے دربارمیں فیصلہ کروانے آتی ہوں۔ہم اس معاشرے کاحصہ ہیں جہاں لوگ دوسروں کی نیت پڑھ لیتے۔ارادے بھانپ لیتے ہیں۔جہاں لوگ دوسروں کے چہرے کے تاثرات سے اُن کے حالات کااندازہ لگالیتے ہیں پرکسی حقدار۔کسی مسکین کی آنکھوں میں ہچکیاں لیتے سوال سمجھ کربھی جواب کوئی نہیں دیتا۔جہاں صاحب حیثیت کولوگ تحائف دیتے ہیں اورکمزورکاحق ثواب سمجھ کرکھاجاتے ہیں۔کسی بیوہ۔یتیم۔مسکین کی اﷲ کی رضاکیلئے مددنہیں کرتے جبکہ جسم کی قیمت بڑھ چڑکردیتے ہیں اورپھرنیک محافل میں بڑے دکھ سے بیان کرتے ہیں دیکھافلاں عورت نے جسم فروشی کادھندہ شروع کردیاہے۔معمولی سی بات پرہمسائے کے گلے پڑجاتے ہیں۔ہمسائیگی کے حقوق یاددلاتے ہیں جبکہ خود کبھی ہمسائے کاحال تک نہیں پوچھتے۔ہم اس سخی معاشرے کاحصہ ہیں جہاں لوگ پیٹ بھرکھانے کے بعدباقی رزق کچرے میں ڈال کر نظام ہضم کی درستگی کیلئے دوائی لیتے ہیں اورہمسائے کے بچے رات بھربھوکے جاگتے ہیں۔کبھی یہ خیال نہیں کرتے کہ بھوکے نے حملہ کرکے پیٹ پھاڑدیاتوکیابنے گا۔کبھی نہیں سوچتے رزق دینے والاجب حساب مانگے گاکہ تمہیں اضافی رزق کچرے میں ڈالنے کیلئے تونہیں دیاتھا۔میرے راستے میں غریب کی مددکیوں نہیں کی توکیاجواب دیں گے؟کسی پرتہمت لگاتے وقت کبھی یادنہیں رکھتے کہ ہم خود غلطیوں کا مجموعہ ہیں۔ہم اُس حسین معاشرے کاحصہ ہیں جہاں ماں۔باپ۔بہن بھائی۔بیوی اوربچوں سمیت پورامعاشرہ ایک مرد کے کسی غیرمحرم عورت کے ساتھ ناجائزتعلقات پرتبصروں کے ساتھ قبول کرلیتاہے پرمردکے دوسرے نکاح کوبرداشت نہیں کیاجاتا۔ہم اُس رحم دل معاشرے کاحصہ ہیں جہاں چاندجیسی۔خوبصورت۔خوب سیرت بہوچنددنوں بعد ہی بدکردار۔بدصورت۔بدسیرت۔بے ہنر اورجاہل ہوجاتی ہے۔ایسی ہی بیشمارخوبیاں اوربھی ہیں ہمارے معاشرے میں اورہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم اسی معاشرے کاحصہ ہیں اورمعاشرہ ہم سے ہے یعنی ہم ہی معاشرہ ہیں ۔ہم ہی نیک ہیں۔ہم ہی بدہیں۔ہم جنتی ہیں۔ہم ہی جہنمی ہیں۔ہم جسم فروش ہیں۔ہم ہی جسموں کے خریداربھی ہیں
 

Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 512506 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.