میں خود اس وقت ماشاءاللہ ۷۴ برس کا ہوں۔ خیال آیا کہ
کراچی کی ان یادوں کو نئی نسل سےشیئر کروں۔ کراچی مِیں ایک جگَہ پرانی
نمائش ہے ۔ پاکستان بنّے سے پہلے یہاں نمَائِش لگا کرتی تھی۔ اسکے بعد ایک
چھوٹا سا ٹیلہ تھا جو اب مزار قائد ہے۔ آگے بڑھ کر الٹے ہاتھ کی طرف
گرومندر ہے۔ عمومی طور پر وہاں ایسی کوئی عمارت نظر نہیں آتی۔ مرحوم
قائدِآعظم کے مقبرے کے قریب،پٹرول پمپ کے بعد ایک مسجد ہے سبیل والی مسجد،
یہ مسجد گرو مندر کے پارک مَیں بنی ہوئی ہے اور گرو مندر کی عمارت پٹرول
پمپ اور مسجد کے درمیان مَیں ہے۔ پرانی عمارتوں مِیں آگے چوراہا پار کر کے
ایک پوست آفس تھا ۔اور ساتھ ہی مذبح خانہ تھا جو ابھی تک تو تھا۔ یہاں سے
آگے سڑک سنٹرل جیل کو جاتی ہے۔ جو ابھی بھی ہے۔۱۹۵۱ ہی سے پروگرام تھا کہ
جیل کو شہر سے باہر شفٹ کریں گے۔ جیل اس وقت جنگل میں تھا۔ شہید ملّت روڈ
کی ابتداءجہاں سے ہوتی ہے یہاں ایک بڑا پہاڑ تھا جسکو بعد میں کاٹ کر شہید
ملّت روڈ بنائی گئی۔یہ کراچی کواپریٹِیو ہاؤسنگ سوسَائٹی کی انٹری ہے۔جسکو
علی اکبرصَاحَب مَرحوم نے قائم کیا تھا۔ سنٹرل جیل سے موجودہ عسَکری پارک
کے سامنے سے ایک جگَہ جسِکو نئی نمائش کہتے تھے ۔ آجکل نیو ٹاؤن کہتے ھیں ۔
شائد ۱۹۵۲میں یہاں ایک نمائش لگی تھی جِس مِیں مصنوئی ٹھنڈک کا مظاہرہ کیَا
گیَا تھَا اور ٹیلیوژن بھی َہم نے یِہیں دیکَھا تھَا۔ یہَاں سےگذرتے ہوئے
آگے جَاکر۔ اکسپو سنٹر ہے ۔ پاکستان بننے کے بعد تیِسری بار نمَائش
یہَاںلگی تھی۔ جِس مِیں سب سے بڑا اسٹال روس کا تھا۔ جسکا سرخ ستارہ اتنی
بلندی پر تھا کہ کراچی مِیں دور دور تک نظر آتا تھا۔ موجودہ عسکری پارک سے
لیکر اکسپو سنٹر تک کوئی تعمیرات نہیں تھیں، یہ سا راجنگل تھا۔ اب شہر کی
وسعت کی وجہ سے ضرورت اس بات کی ہے کہ اکسپو سنٹر کراچی مَیں کسی کنارے پر
لے جایا جائے تاکہ ٹرَیفک کی روانی میں فرق نَہ پڑے۔ اسی طَرح اسٹِیڈیم بھی
مَرکزی شہِرمِیں بڑی گڑ بڑ پَیدا کرتا ہے،جیل،اسٹیڈیم، ایر پوٹ،اور ایکسپو
سنٹر، شہر سے باہر ہونے چاہیئے۔ تا کہ شہر کی دوسری اہم سر گرمیوں میں
رکاوٹ نہ پڑے۔ |