گجرات سے اچھی خبر کم آتی ہے لیکن ایسا بھی نہیں
کہ بالکل نہیں آتی ابھی حال میں یکے بعد دیگرے دو دلچسپ معاملات سامنے آ
ئے ۔ گئوکشی کی روک تھام کے لیے وہاں ایک نیاقانون سال 2017 میں وضع کیا
گیا ۔پہلے ایسے معاملات میں زیادہ سے زیادہ 3 سال قید کی سزا دی جاتی تھی
لیکن ترمیم کے بعد گائے کے گوشت کی فروخت اور رکھ رکھاؤ کے لیے 7 سے 10 سال
قید کی سزا تجویز کی گئی ۔ اس احمقانہ ترمیم شدہ ایکٹ کےتحت گائے کا گوشت
لے جانے میں استعمال ہونے والی گاڑیوں کو مستقل طور پر ضبط کیا جا سکتا
ہے۔بدنامِ زمانہ گجرات نے گئو کشی پر اتنا سخت قانون بنادیاجبکہ وہاں
انسانی جان کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے ۔ اس قانون کے تحت گائے کی ہڈیاں یا
گوشت کے ساتھ پکڑے جانے والوں کے لیے بھی سزا کا اہتمام کیا گیا۔ اس سال کے
اوائل میں 29 جنوری 2019 کو ستار کولیا کی شکایت پر سلیم مکرانی نامی ایک
شخص کے خلاف راجکوٹ ضلع میں بچھڑا چرا کرذبح کرنے اور اپنی بیٹی کی تقریبِ
نکاح میںضیافت کے ا ہتمام کالزام لگاکرایف آئی آر درج کی گئی ۔سلیم کو
مجرم قرار دے کر سزا سنانے سے پہلے نو ترمیم شدہ ایکٹ کے تحت گواہوں کی
شہادت اور فارینسک رپورٹ پر غور کیا گیا۔ اس کے بعد گجرات کے راج کوٹ ضلع
کی عدالت کےایڈیشنل ضلع اور سیشن جج ایچ کے دوے نے سلیم مکرانی کو نہ صرف
10 سال قید کی سزا سنا ئی بلکہ ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کردیا ۔
عدالت کے اس جارحانہ رویہ پر کسی کو حیرت نہیں ہوئی کیونکہ مودی اور شاہ کے
آدرش گجرات میں اور ہو بھی کیا سکتا ہے؟ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ اس
ظالمانہ فیصلے کے ڈھائی ماہ بعد گجرات کے ہائی کورٹ نے گئوکشی کے مجرم سلیم
مکرانی کی سزا رد کرکے فوری رہائی کا حکم صادر کردیا۔ گجرات ہائی کورٹ نے
اپنے فیصلے میں حیران کن انکشافات کیے۔ سلیم مکرانی کے وکیل سمیر خان نے
عدالت میں یہ تسلیم کیا کہ دعوت میں بچھڑے کے گوشت کی بریانی کھلائی گئی
تھی ۔ سمیر نے کہاسلیم کے خلاف لگائے گئے الزامات بے شک سچ ثابت ہو سکتے
ہیں لیکن پھر بھی یہ گئو کشی کا معاملہ نہیں ہے۔ ان کا موکل حالات کا شکار
ہوا ہے کیونکہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کا جشن منا رہا تھا اور شادی میں
بریانی کے لئے اس نے بیف کا استعمال کیا تھا۔ ان کا موکل مویشیوں کی خرید و
فروخت میں ملوث نہیں ہے ۔سرکاری وکیل نے سزا رد کئے جانے کی مخالفت کرتے
ہوئے کہا کہ گجرات مویشی تحفظ ایکٹ میں حال ہی میں ہوئے اہتماموں میں گئو
کشی کے لئے سخت سزا کی مانگ کی گئی ہےاس لیے ضلعی عدالت کے ذریعہ دیا گیا
فیصلہ درست ہے۔
جسٹس آر پی دھولاریا کی سنگل بنچ نے دونوں فریقوں کے دلائل سننے اور شواہد
و حقائق کا جائزہ لینے کے بعد کہا کہ مجرم مبینہ طور پر مویشیوں سے جڑی کسی
طرح کی اقتصادی سرگرمی میں ملوث نہیں ہے ۔ اس نے اپنی بیٹی کی شادی کی
تقریب کے لئے بریانی تیار کرنے کے لئے بیف کا استعمال کیا تھا اس لئے عدالت
سزا کو مسترد کرنے کے لئے اپنے عدالتی اختیارات کا استعمال کرتی ہے اور
قصوروار کی سزا ردکرتی ہے۔ عدالت نے انسانی مجبوری کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے
اپنے اختیارات کا بہترین استعمال کیا اور سلیم مکرانی کو فوری رہائی کا حکم
دے دیا۔ جسٹس آر پی دھولاریا نے جس جرأتمندی کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابلِ
تعریف ہے ۔ اس فرقہ وارانہ ماحول کے اندر گجرات کی سرزمین پر بھی ایسا
فیصلہ صادر ہوسکتا ہے یہ تصور بھی محال تھا لیکن سلیم مکرانی مایوس نہیں
ہوئےاور ان کے وکیل سمیر خان نے کمال خوداعتمادی کا مظاہرہ کیا اور یہ
فیصلہ آیا ۔ مثل مشہور ہے ہمت مرداں مدد خدا۔
گجرات کے اس حیرت انگیز واقعہ کے بعد ایک ایسا معاملہ دیکھیں جس میں گجرات
کی پولس اور اتر پردیش کی عدالت کا عمل دخل تھا ۔ یہ معاملہ اعظم گڈھ میں
رہائش پذیر ایس آئی ایم کے سابق صدر ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کے ساتھ پیش
آیا۔ ہندوستان کے اندر فسطائیت کی گاڑی گائے اور دہشت گردی کے سہارے چل
رہی ہے ایسے میں ایس آئی ایم کا نام آتے ہی اچھے خاصے مسلمان بھی بلاوجہ
مدافعانہ پوزیشن میں آجاتے ہیں۔ ہوا یہ کہ گجرات کی بدنامِ زمانہ پولس
ڈاکٹر شاہد بدر کو گرفتار کرنے کی خاطر ۵ ستمبر (۲۰۱۹)کی شب ان کے آبائی
وطن میں وارد ہو گئی۔ انہیں ایک پرانے کیس میں گرفتار کر کے اعظم گڑھ کے
کوتوالی میں لایا گیا ۔ پولس کا دعویٰ تھا کہ 2001 کے اندر جب گجرات کے بھج
ضلع میں قیامت خیز زلزلہ آیا تھا تو متاثرین کی راحت رسانی میں ایس آئی
ایم بھی پیش پیش تھی ۔ اس موقع پر ڈاکٹر شاہد بدر راحت کاری کے دوران
مسلمانوں کے کچھ اجتماعات سے بھی خطاب فرمایا تھا۔ ان میں سے کسی تقریر
اشتعال انگیزی کا الزام لگا کر گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا گیا ہے ۔
ایس آئی ایم پر پابندی کے بعدسابق صدر ڈاکٹر شاہد بدر فلاحی کو کئی مقدمات
میں ملوث کرنے کی مذموم کوشش کی گئی اور انہیں تہاڑ سمیت مختلف جیلوں میں
رکھا گیا لیکن 2004 میں وہ تمام مقدمات سے باعزت بری کردیئے گئے ۔ اس دوران
گجرات پولس نے مذکورہ معاملے میں انھیں کوئی وارنٹ تو دور سمن تک نہیں
بھیجا اور اچانک گرفتار کرکے راتوں رات گجرات لے جانے کے لیے پہنچ گئی۔ اس
طرح کی صورتحال میں عام لوگ گھبرا کر اپنی قسمت کا ماتم کرنے لگتے ہیں ۔
امت کے دیگرافراد خوفزدہ ہوکر مظلوم سے دوری اختیارکرلیتے ہیں لیکن ڈاکٹر
شاہد بدر کے رفقاء کی کیفیت یکسر مختلف تھی۔ اعظم گڈھ کے عمائدین شہر
فوراًایڈوکیٹ ارون سنگھ جی،ایڈوکیٹ عبدالخالق صاحب اور ایڈوکیٹ شمشاد احمد
کے ساتھ تھانے جا پہونچے اور ایک موثر حکمت عملی کے ذریعہ ضمانت حاصل کرنے
میں کامیاب ہوگئے۔ گجرات کی پولس کا یوگی راج میں بے نیل و مرام لوٹنا کسی
معجزے سے کم نہیں تھا ۔
جبرو استبداد کے ماحول میں ڈاکٹرشاہد بدر فلاحی کو ضمانت دے کر چیف جوڈیشیل
مجسٹریٹ آلوک کمار ورما نے بڑے حوصلہ کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف
ہونے والی اپیل کی سماعت کے دوران اعظم گڑھ عدالت میں ایڈیشنل سیشن جج
لالتا پرساد نے استغاثہ کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے وارنٹ کی فوٹو کاپی پر
یہ سوال کیا کہ اگرپانچ سو روپئے کے نوٹ کی فوٹو کاپی کرواکر کوئی بازار
میں جائے تو کیا اسے کوئی سامان ملے گا؟ موصوف نے بڑی جرأتمندی کا مظاہرہ
کرتے ہوئے کارروائی کے دوران یہ بھی کہا کہ اگر پولس کی اس کوتاہی کے خلاف
ہائی کورٹ میں اپیل ہوجائے تواس کو بھاری جرمانہ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایک رات اعظم گڑھ کوتوالی میں گذارنے کے بعد جج نے عبوری ضمانت تو دے دی
مگر ١٣ ستمبر تک گجرات کی بھج عدالت میں پیش ہو نے کی ہدایت بھی کی ۔
عدالتی احکامات کی بجا آوری میں ڈاکٹر شاہد بدر١١ ستمبر کو بھجکی عدالت
میں پیش ہوئے توجج نے انکی حاضری درج کرکےضمانت پر ہونے کے سبب ١٣ ستمبر کو
حاضر ہونے کا حکم دیا ۔
١٣ ستمبر کو جب وہ چیف جوڈیشیل مجسٹريٹ جے۔ڈی سولنکی کی عدالت میں پیش ہوئے
تو سرکاری وکیل نے جج سے کہا کہ ہمیں کم از کم پانچ گھنٹے کا ریمانڈ دیا
جائے تاکہ انہیں پولیس کے حوالے کیا جاسکے۔ ڈاکٹر شاہد کے وکیل کنن نے واضح
کیا کہ جن دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے وہ تمام قابل ضمانت ہیں اور
اعظم گڑھ میں پہلے ہی ان کوضمانت مل چکی ہےاس لیے دوبارہ سے گرفتار ی کا
جواز نہیں بنتا۔ وکیل نے کہا تفتیش سے انکار نہیں ہے مگر اس کے لیے
گرفتاریکی کیا ضرورت ۔ دوطرفہ بحث کی سماعت کے بعد جج صاحب نےگجرات پولیس
کی جانب سے دوبارہ گرفتاری کا مطالبہ خارج کردیا۔ انہوں نے دوری کے سبب
14,15,16 تک بھج میں سماعت کی تاریخ دی اور اس دوران پولیس کو پوچھ تاچھ
مکمل کرنے کی تلقین کی ۔ یہ فیصلہ بھی خاصہ حوصلہ افزاء ہے کہ اس میں عدلیہ
نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولس کو دھاندلی سے روک دیا ۔اس سے
معلوم ہوتا ہے کہ امت اگر حوصلہ رکھے اوررونے دھونے کے بجائے مل جل کر
احتجاج کے ذریعہ دباو بنائے نیز ٹھیک ٹھاک قانونی چارہ جوئی کرے تو کامیابی
مل سکتی ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں عنبر سے قطار اندر قطار اب بھی
|