ہم ناکام کیوں؟؟؟

دنیا میں اگر سب سے اقلیتی قوم ہے تو وہ قوم یہودیوں کی ہے اور اس قوم کی دنیابھر میں5.23 ملین یعنی 2 کروڑ35 لاکھ کے قریب میں ہے۔یہ اندازہ2018 کے ایک سروے کے مطابق کیاگیا ہے ،یہ اور بات ہے کہ ان کی اصل آبادی انہوںنے اپنے دوسری سازشوں کے مطابق ہی چھپا رکھی ہے۔لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس چھوٹی سی آبادی والے یہودیوںنے آج دنیاکے بیشتر ممالک پر اپنا قبضہ جما رکھا ہے۔بات چاہے تجارت کی ہو یا تعلیم کی،اقتصادیات کی ہو یا معاشیات کی۔اس قوم نےدنیا پر اپنا شکنجہ مضبوط کرلیا ہے اور یہ قوم پوری طرح سے دوسری طاقتور قوموں پر حاو ی ہوچکی ہے۔دنیاکی دوسری سب سے بڑی قوم مانے جانے والی مسلم قوم کا بھی بُرا حال ہے،یہ قوم اندازے کے مطابق دنیا کے52 ممالک میں اسلامی حکومت بنا چکی ہے،کئی ایسے ممالک ہیں جو اس قوم کی تائید سے ہی وجو دمیںآئی ہیں۔اب ہم بات کرتے ہیں ملک عزیز ہندوستان کی۔یہ ملک بھلے ہی آج انگریزوںکے شکنجے سے آزاد ہوچکا ہے،70 سالوں سے اس ملک کو آزاد ملک کہاجاتا ہے،لیکن اس آزاد ملک میں مسلمانوں کی حالت سب سے بدتر ہے۔ملک میں چار فیصد کی آبادی والے برہمنوں کے ماتحت تمام قومو ں کو کام کرنا پڑرہا ہے،ہندوستان کے آئین کے مطابق دلت،پسماندہ اور اقلیتی طبقوں کیلئے ریزرویشن موجود ہے۔لیکن 60 فیصد کے ریزرویشن کے باوجود بھی آج سرکاری دفاتر و سرکاری محکموں میںاقلیتوں وپسماندہ طبقات کی نمائندگی کم ہے،اگر کوئی ان محکموں و دفاترمیں کام کررہا ہے تو وہ برہمن سماج سے تعلق رکھنے والاہے۔یہی برہمن آج پورے ملک کو چلا رہے ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ تعلیم وروزگار میں3 فیصد کا ریزرویشن مسلمانوں و دیگر اقلیتوں کو ملنے کے باوجود یہ قومیں ترقی نہیں کرپارہی ہیں۔جواب ڈھونڈا جائیگا تو یہ بات واضح ہوجائیگی کہ اس ناکامی کے پیچھے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی اہم وجہ ہے۔ہم مسلمان اپنے بچوں کو اچھی تعلیم تو دلوانے کیلئے اچھے اسکولوں میںداخلہ دلواتے ہیں،لیکن ان بچوں کو اس بات سے واقف و بیدارکرانے میں ناکام رہے ہیںکہ ہماری زندگی میںتعلیم کی اہمیت کیا ہے او رکیوں ہے؟۔اسی وجہ سے ہمار ے بچوں کے پاس آج ڈگری کی سرٹیفکیٹ تو موجود ہے لیکن ایک یونیورسٹی میں کو ن بڑا،رجسٹرار کون اور وی سی کون اس بات کا بھی علم نہیں ہے۔ہمارے بچے دن رات سنگھم ،ایک تھا ٹائگر،دبنگ جیسی فلموں کے متوالے ضرور ہیں،لیکن اپنی زندگیوں میں حقیقی طور پر ان کاموں کواپنانے کیلئے یہ نوجوان بالکل بھی تیارنہیں ہیں۔اصل میں آج ہمارے نوجوانوںکی ذہن سازی کی ضرورت ہے،نوجوان جو تعلیم حاصل کررہے ہیں ان کی تربیت جب تک نہیں ہوتی اُس وقت تک سماج کی بھلائی ناممکن ہے۔اپنی گلیوں ومحلوں میںدیکھیں کہ کتنے نوجوان پڑھ لکھ کر بھی بےکار گھومتے ہیں،ان نوجوانوں کے پاس کچھ کرنے کاجذبہ ہی نہیں ہے،ان کے پاس جذبے کی کمی اس وجہ سے ہے کہ ان میں جذبہ پید اکرنے کی ذمہ داری رکھنے والے والدین اور سماج کے قائدین توجہ نہیںدیتے۔برہمنوں کی بات لے لیں کہ ان کی سماج میں بچے کی تعلیم وتربیت سے لیکر روزگار حاصل کرنے تک یہ لوگ محنت کرتے ہیں ،لیکن ہمارے یہاں یہ نظام ہی نہیں ہے۔اسی طرح سے اس بات کا بھی جائزہ لیں کہ آج برہمنوں کے مذہبی پیشواء اپنے مٹھوں کے ذریعے سے ان کے مذہب اور دنیائوی تعلیمات کا عام کررہے ہیں۔زعفرانی رنگ میں ملبوس یہ لوگ دنیا بھر میں اپنے مٹھوں و آشرموںمیں تعلیم حاصل کرنے والے اپنے نوجوانوں کو دنیا پر راج کرنے کیلئے پھیلا رہے ہیں،جو حقیقی برہمن ہے اور جو زعفرانی رنگ کا لباس پہن کر سوامی بن چکا ہے وہ نہ تو کسی عہدے کاخواہشمند ہوتا ہے اور نہ ہی اسے سیاست سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے،مگر ہمارے یہاں کا جائزہ لیں تو ہمارے پاس بھی تعلیمی اداروںکی ایک لمبی فہرست بنائی جاسکتی ہے،لیکن ان تعلیمی اداروں کاہم ہندوستان۔ پاکستان کی طرح بٹوارا کرلیا ہے۔عصری تعلیم حاصل کر نے والے ہندوستانی اور دینی تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی بن چکے ہیں،ایسے بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے عصری تعلیم و دینی تعلیم کے نام پرتعلیم کابٹوارا کرلیا ہے۔اگر ہماری قوم کے علماء اس تعلیم کا بٹوارا نہ کرتے تو شائدآج مسلمان تعلیم کے میدان میں بہت آگے ہوتے۔مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ آج اپنے تعلیمی اداروں سے تعلیم کی ایسی تحریک شروع کریں کہ اس تحریک کی زدمیں گلی گلی محلے محلے میں تعلیم کے چراغ جلنے لگیں اور ہر محلے سے ایسے نوجوان کامیاب ہوکر نکلیں جو مسلمانوں کو ان کا حق دلانے کیلئے پابندہوجائیں ۔

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197744 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.