ارسطو رہے گا تو ہزاروں سکندر آئیں گے

حضور صلی اﷲ علیہِ وسلم نے فرمایا کہ ان سب میں سے افضل تمہارے لیے وہ ہے جس نے تم کو علم دیا۔کسی قوم کی ترقی کا راز جاننا ہو تو اس ملک و قوم کے اساتذہ کے ساتھ ہونے والا سلوک بہت اہمیت رکھتا ہے اشفاق احمد آپ بیتی میں کہتے ہیں کہ اٹلی میں میرا ٹریفک چالان ہوا میں کچھ مصروفیات کی وجہ سے چالان فیس وقت پر نہ دے سکا جس پر مجھے کورٹ جانا پڑا جج کے سامنے پیش ہوا جج نے وجہ پوچھی میں نے کہا پروفیسر ہوں مصروف ایسا ہوا کہ وقت ہی نہیں ملا۔ابھی میری بات مکمل ہی نہیں ہوئی تھی کہ جج نے کہاA TEACHER IS IN THE COURT کمرے میں موجود تمام لوگ کھڑے ہوگئے اور مجھ سے معافی مانگی اُس روز میں اُس قوم کی ترقی کا رازجان گیاایک مشہور مقولہ ہے کہ استاد بادشاہ نہیں ہوتے لیکن بادشاہ بنا دیتا ہے یہ محض ایک مقولہ ہی نہیں بلکہ سچائی بھی ہے جس کی حقیقت ہمیں روزمرہ زندگی میں نظر آتی ہے یعنی ڈاکٹر،انجینئر،وکیل،صحافی،سیاست دان حتیٰ کہ ہر شعبہ جات میں بے شمار لوگ ہیں جن کے پیچھے ایک استاد کا ہاتھ ہوتا ہے آج کا کالم لکھنے کا مقصداپنے اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرنا ہے دنیا بھر میں استاد کو بہت اعلیٰ رتبہ حاصل ہے استاد سے مراد صرف سکول یا کالج میں پڑھانے والے نہیں بلکہ ہر وہ شخص استاد ہے جو کسی کو کوئی اچھی بات بتلائے یا کوئی ہنر سکھا دے۔جیسا کہ حضرت علی کا قول ہے کہ جس نے مجھے ایک لفظ بھی پڑھایا گویا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے۔استاد و ہستی ہے جو اپنے علم کو دوسروں تک پہنچانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ استاد کی عظمت کی کوئی قیمت نہیں ہوتیوہ بے لوث ہوتا ہے اگر کسی استاد کو ضرورت ہے تو صرف عزت و تکریم کی جو اس کو خوشی دیتی ہے اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہر سال 5اکتوبر کو دنیا بھر میں عالمی یوم اساتذہ منایا جاتا ہے مختلف ممالک میں یہ دن مختلف تاریخوں کو منایا جاتا ہے عالمی یوم اساتذہ باقاعدہ طور پر United Nations Educational, Scientific and Cultural Organization کی جانب سے 5اکتوبر 1994کو منایا گیا یوم اساتذہ کی مناسبت سے ہر سال لاکھوں شاگرد اپنے اساتذہ کو تحائف پیش کرتے ہیں۔
اب تو شاگردوں کا استاد ادب کرتے ہیں
سنتے ہیں ہم کبھی شاگرد ادب کرتے تھے

دنیا بھر میں اساتذہ کو جہاں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہاں کئی ایسے علاقے ہیں جہاں استاد کو انتہائی ہتک آمیز جملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے حتکہ اپنے ہی چند مال دار یا بگڑے شاگردوں سے گالیاں بھی سننے کو ملتی ہیں لیکن استاد کا دل بہت بڑا ہوتا ہے وہ ایسی باتوں کو درگزر کرتا ہے اور ا?سی شاگرد کو اپنے گلے لگا کر کہتا ہے کہ بیٹا گالم گلوچ اور برُے کام اچھی بات نہیں۔کیونکہ استادکامیابی کی جانب پہلی سیڑھی ہے امام یوسف فرماتے ہیں کہ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جو استاد کی قدر نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فاتح عالم سکندر اعظم اور اس کے استاد ارسطو کا ایک واقع یاد آیا واقع کچھ یوں ہے کہ ایک دفعہ گھنے جنگلات سے گزر رہے تھے راستے میں ایک نالہ آگیا جو کہ برسات کی وجہ سے طغیانی پرآیا ہوا تھا اب صورتحال یوں تھی کہ پْل پر ایک وقت میں ایک شخص گزر سکتا تھا ارسطو اور سکندر میں پہلے نالہ پار کرنے کی بحث شروع ہوگئی آخر کار ارسطو نے سکندر کو پہلے نالہ عبور کرنے کی اجازت دے دی یوں سکندر نے پہلے اور ارسطو نے بعد میں نالہ عبور کیا۔نالہ عبور کرنے کے بعد ارسطونے سکندر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا تو نے پہلے نالہ عبور کر کے اپنے استاد یعنی میری توہین نہیں کی جس پر سکندر نے جواب دیا نہیں ایسا بلکل نہیں ہے میں نے تو اپنا فرض ادا کیا ہے میں نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ اگر ارسطو رہے گا تو ہزاروں سکند ر تیار ہو سکتے ہیں لیکن سکندر ایک بھی ارسطو تیار نہیں کرسکتا۔حضرت یحییٰ بن معین بہت بڑے محدث تھے امام بخاری ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ محدثین کا جتنا احترام وہ کرتے تھے اتنا کرتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا۔امام بخاری کے فرمان کو اگر آج کل کے دور میں دیکھا جائے تو وہ اس کے بلکل برعکس ہے یعنی استاد کا احترام ہمارے معاشرے سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔

تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب ہندوستان کی انگریز حکومت نے حضرت علامہ اقبال کو سر کا خطاب دینے کا ارادہ کیا تو اقبال کو اس وقت کے گورنر نے اپنے دفتر آنے کی دعوت دی۔ اقبال نے یہ خطاب لینے سے انکار کردیا۔ جس پر گورنر بے حد حیران ہوا۔ وجہ دریافت کی تو اقبال نے فرمایا:۔’’میں صرف ایک صورت میں یہ خطاب وصول کرسکتا ہوں کہ پہلے میرے استاد مولوی میرحسن کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دیا جائے‘‘۔یہ سن کر انگریز گورنر نے کہا’’ڈاکٹر صاحب! آپ کو تو’’سر‘‘کا خطاب اس لیے دیا جا رہا ہے کہ آپ بہت بڑے شاعر ہیں۔آپ نے کتابیں تخلیق کی ہیں، بڑے بڑے مقالات تخلیق کیے ہیں۔ بڑے بڑے نظریات تخلیق کیے ہیں۔ لیکن آپ کے استاد مولوی میر حسن صاحب نے کیا تخلیق کیا ہے…؟‘‘یہ سن کر حضرت علامہ اقبال نے جواب دیا کہ’’مولوی میر حسن نے اقبال تخلیق کیا ہے‘‘ انگریز گورنر نے حضرت علامہ اقبال کی بات مان لی اوران کے کہنے پر مولوی میر حسن کو’’شمس العلماء ‘‘ کا خطاب دینے کا فیصلہ کرلیا۔ اس پر علامہ صاحب نے مزید کہا کہ’’میرے استاد مولوی میر حسن کو ’’شمس العلماء ‘‘ کا خطاب دینے کے لیے یہاں سرکاری دفتر میں نہ بلایا جائے بلکہ ان کو یہ خطاب دینے کے لیے سرکاری تقریب کو سیالکوٹ میں منعقد کیا جائے ، یعنی میرے استاد کے گھر‘‘اور پھر ایسا ہی کیا گیا۔اپنی تحریر کے آخر میں ایک بات کہنا چاہوں گا کہ جہاں شاگرد استادکا احترام کرنا بھول گئے ہیں وہاں استاد کا اپنے شاگردوں سے ناروا سلوک بھی نظر آتا ہے۔ایک زمانہ تھا کہ گورنمنٹ یا پرائیوٹ سکولز میں ٹیچرز کی باقاعدہ ٹریننگ کی جاتی تھی لیکن انتہائی افسوس کہ ساتھ یہ کہوں گا کہ موجودہ دور کے چند پرائیوٹ سکولز میں ایسی خواتین اساتذہ بھی ہیں جو محض اپنا بی اے یا ایف کا رزلٹ آنے تک استاد بن جاتی ہیں جوکہ ان اساتذہ کے لیے انتہائی تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی اپنے شاگردوں کی کامیابی کے لیے گزاری ہوتی ہے۔

 

irfan ajaz
About the Author: irfan ajaz Read More Articles by irfan ajaz: 3 Articles with 3418 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.