تحریرَعطیہ رانی، کراچی
ہمارے معاشرے میں استاد کا احترام آج سے چند سال پہلے ایسا ہوا کرتا تھا
جیسے والدین کا
اگر میں یہ کہوں کہ والدین بھی خود سے زیادہ اساتذہ کے احترام کو ترجیح دیا
کرتے تھے تو غلط نہ ہوگا
اس کی وجہ یہ تھی کہ بچے کی تربیت تو والدین کی گود سے شروع ہوجایا کرتی ہے
لیکن بچے کو عقل وشعور اور عِلم یہ ملتا ہے اساتذہ کے پاس سے۔ استاد چاہے
چھوٹا ہو یا عمر میں بڑا ہو اگر وہ آپ کو دینی یا دنیاوی تعلیم دے رہا ہے
تو آپ کے لئیے قابلِ احترام ہے وہ ہستی۔۔۔ جو قومیں اپنے اساتذہ کا احترام
نہیں کرتیں کبھی ترقی نہیں کرسکتیں۔۔۔ ہمارے دینی استاد نبی پاک ﷺ ہیں اور
ہمیں نبی پاک کی ﷺ کی سُنت پہ عمل کرتے ہوئے اپنے اساتذہ کا احترام کرنا
چاہئے
لیکن لمحہ فکریہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل اپنے اساتذہ کو وہ عزت و احترام
نہیں دے رہی جو ان کا حق ہے۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یعلمھم الکتاب والحکمۃ۔کہہ کر حضور ﷺ کی شان
بحیثیت معلم بیان کی ہے۔خود رسالت مآب ﷺ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے۔
انما بعثت معلما۔”کہ میں استاد بنا کر بھیجا گیا ہوں۔“”اسلامی نظام تعلیم
میں استاد کو مرکزی مقام حاصل ہے۔معلم کی ذات ہی علمی ارتقاء سے وابستہ
ہے۔نئی نسل کے مستقبل کی تعمیر کے سلسلے میں استاد کی مثال ایک کسان اور
باغبان کی سی ہے
علامہ محمداقبال رحمۃ اللہ علیہ کے یہ الفاظ معلم کی عظمت و اہمیت کے عکاس
ہیں۔”استاد در اصل قوم کے محافظ ہیں۔کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان
کو ملک کی خدمت کے قابل بنایا انہیں کے سپرد ہے۔سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی
محنت میں سب سے زیادہ بیش قیمت ہے۔کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی، تہذیب و
تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی ڈور اس کے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سر
چشمہ اس کی محنت ہے۔“
ہنری '' کا کہناہے:مُعلم فروغ علم کا ذریعہ ہے۔لیکن اس کے علم سے فائدہ و ہ
نیک بخت اُٹھاتے ہیں۔جن کے سینے ادب و احترام کی نعمت سے مالا مال ہوں ''
”ادب ایک درخت ہے اور علم اس کا پھل۔اگر درخت ہی نہ ہوتو پھل کیسے لگے گا؟“
اب ملت اسلامیہ کی قابل قدر،قد آورچنداہم شخصیات کے احوال و اقوال کا ذکر
کیا جاتا ہے۔جنہوں نے اپنے اساتذہ کے ادب و احترام کی درخشندہ مثالیں قائم
کیں اور جو ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
خلیفہ چہارم امیر المومنین حضرت سیدنا علی مولود کعبہ علی علیہ السلام نے
فرمایا!”جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا میں اس کا غلام ہوں۔“وہ چاہے مجھے
بیچے۔آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے۔“ایک دوسرے موقعہ پر فرماتے ہیں کہ”عالم
کا حق یہ ہے کہ اس کے آگے نہ بیٹھو اور ضرورت پیش آئے تو سب سے پہلے اس کی
خدمت کے لئے کھڑے ہو جا?۔“ اللہ اکبر!! آج ہم اپنے والدین کے آگے چلتے ہیں
اساتذہ کے احترام میں کھڑا ہونا تو دور ان سے آگے چلنا انکے برابر بیٹھنے
کو فخر سمجھتے ہیں '' کاش ہم ان ہستیوں کے احترام کو جان سکیں کہ آج ہم جو
ہیں وہ اپنے استاد اپنے مُعلم اپنے محسن کی وجہ سے ہیں '' ورنہ ہم تو جاہل
تھے ''
آپ احباب کی نذر چند مثالیں بیان کرتی چلوں کہ کتنی عظیم ہستیاں تھیں لیکن
پھر بھی اساتذہ کااحترام ان کے دلوں میں کس مقام پہ تھا ''
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام مالک کی مجلسِ درس بڑی
باوقار ہوتی تھی۔تمام طلبہ مودب بیٹھتے۔یہاں تک کہ ہم لوگ کتاب کا ورق
آہستہ اُلٹتے کہ کھڑکھڑاہٹ کی آواز پیدا نہ ہو۔
امام قاضی ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ:امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ کبھی ایسا
نہیں ہوا کہ میں نے نماز پڑھی ہو اور اپنے استاد سیدنا امام ابو حنیفہ رضی
اللہ عنہ کیلئے دعا نہ مانگی ہو۔
ایک روایت ہے کہ آپ ہر نماز کے بعد پہلے امام آعظم کیلئے دعائے مغفرت کرتے
تھے۔پھر اپنے
والدین کیلئے۔
امام ربیع رحمۃ اللہ علیہ:آپ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے استاد حضرت امام
شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی نظروں کے سامنے مجھے کبھی پانی پینے کی جرات نہیں
ہوئی۔
ہارون الرشید:ہارون الرشید کے دربار میں کوئی عالم تشریف لاتے تو بادشاہ ان
کی تعظیم کیلئے کھڑا ہوجاتا۔درباریوں نے کہا کہ اس سے سلطنت کا رُعب جاتا
رہتا ہے '' تو ہارون رشید نے جواب دیا کہ اگر علمائے دین کی تعظیم سے رعب
سلطنت جاتا ہے تو جانے ہی کے قابل ہے۔
الاملاء،والاستملائللسمعانی،صفحہ145۔)
11)صاحب تعلیم المتعلم لکھتے ہیں کہ امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ کو
میں نے بادشاہ کے پاس دیکھا کہ بادشاہ ان کی بے انتہا تعظیم کرتا تھا اور
یہ بات بار بار کہتا تھا کہ میں نے یہ سلطنت اور عزت صرف استاد کی خدمت کی
وجہ سے حاصل کی ہے۔کیونکہ میں اپنے استاد قاضی امام ابو زید رحمۃ اللہ علیہ
کی بہت خدمت کیا کرتا تھا۔یہاں تک کہ میں نے تیس سال تک متواتران کا کھانا
پکایا۔ سبحان اللہ یہ ہے قدرو منزلت ہمارے اساتذہ کی جو ہم سمجھنے سے قاصر
ہیں ''
علامہ محمداقبال'' مولوی سید میر حسن اقبال کے اساتذہ میں وہ باکمال شخصیت
ہیں۔جنہوں نے آپ کی تربیت میں یادگار کردار ادا کیا۔جب اقبال کو ”سر“ کا
خطاب دیا جانے لگا۔ تو آپ نے کہا کہ پہلے میرے استاد سید میر حسن کو شمس
العلمائکا خطاب دیا جائے۔تب میں یہ خطاب قبول کروں گا۔۔ اللہ اللہ کیا شان
تھی کیا احترام تھا اپنے استاد کا '' آپ نے اپنے اس عظیم محسن کو ان الفاظ
میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
''مجھے اقبال اس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہے
پلے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلے ہیں ''
میں نے معروف اسلافِ اسلام کی شخصیات کے اقوال و احوال پڑھے جن سے ثابت ہوا
کہ اُن لوگوں نے اپنے اساتذہ کرام کی تعظیم و توقیر کس انداز سے کی اور ان
قد آوار شخصیات کا عمل ہمارے لئے قابل تقلید ہے۔میرا خیال ہے دنیا میں علم
کی قدر اُسی وقت ہوگی جب اساتذہ کا مقام معاشرے میں بحال کیا جائے گا۔ آج
ایک پولیس کے آنے سے پورا محلہ کانپ اٹھتا ہے۔مجسٹریٹ کا رعب و دبدبہ افراد
پر کپکپی طاری کر دیتا ہے۔لوگ پولیس والے،مجسٹریٹ،جج اور دیگر افسران کے
برابر بیٹھنا اُس کی بے ادبی تصور کرتے ہیں۔لیکن استاد جس کی محنت،کوشش اور
شفقت سے یہ افراد ان بالا عہدوں پر فائز ہیں اُن کی قدر معاشرہ کرنے سے
قاصر ہے۔حکومت اساتذہ کو ”سر“ کا خطاب دینا چاہتی ہے،
ٹیچر ڈے منایا جاتا ہے۔مگر افراد کے دل میں حرمت اساتذہ کا جذبہ ناپائید
ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ کا جائز مقام معاشرہ میں بحال کرتے ہوئے
حکمران اپنے اسلاف کی زندگیوں سے راہنمائی لیتے ہوئے ان کی معاشی حالت بہتر
بنائیں۔
اساتذہ کی عظمت معاشرہ میں بحال ہونے سے شرح خواندگی میں اضافہ ہو گا اور
اساتذہ کی معاشی حالت بہتر ہونے سے اساتذہ اپنے منصب پر فرائض کی انجام دہی
پورے لگن سے کریں گے جس سے علمی انقلاب اور ملکی ترقی کی راہیں کھلیں
گی۔پاکستان میں اساتذہ اپنے حقوق کے لئے احتجاج کرتے ہیں۔مطالبات تسلیم نہ
ہونے پر تعلیمی بائیکاٹ ہوتا ہے اور سڑکوں پر بھوک ہڑتالی کیمپ لگتے ہیں۔اس
احتجاج کو روکنے کے لئے انہی کے شاگردان پر لاٹھیاں برساتے ہیں۔کیا یہی
استاد کا مقام ہے؟ حکومت حقوق اساتذہ پورے کرنے کیلئے احتجاج کا انتظار
کئیے بغیر ان کا معاشی،معاشرتی اور مِلی مقام بحال کرنے کیلئے قانون سازی
کرے تاکہ ملک و ملت نظریہ پاکستان و نظریہ اسلام کو پروان چڑھا سکے۔
''ادب تعلیم کا جوھَر ہے زیور ہے جوانی کا
وہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں۔
|