شادی کی اگلی صبح ہوتے ہی دولہا نے پورے خاندان کو اکٹھا
کر لیا اور سب کے سامنے اعلان کیا کہ دلہن کنواری نہیں ہے میرے ساتھ دھوکہ
ہؤا ہے کورا بتا کے کھوٹا مال میرے حوالے کیا گیا ۔
دلہن کا باپ بھائی اور کچھ چچا زاد سب اپنی بندوقیں سنبھالے آگے بڑھ آئے
اور بولے ایسی بےغیرت لڑکی کو ہم خود اپنے ہاتھوں سے جہنم واصل کریں گے اسے
زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔
دولہا نے کہا نہیں! یہ سزا بہت کم ہے ۔ سزا ایسی ہونی چاہیئے کہ باقی کی
تمام لڑکیوں کو عبرت حاصل ہو اور وہ آئندہ کبھی اپنے خاندان کی عزت سے
کھیلنے کا سوچیں بھی نہیں ۔ اسے زمین میں گاڑ کے سنگسار کیا جائے گا ۔
اور پھر ایک رات کی نئی نویلی دلہن کو کسی صفائی کا موقع دیئے بغیر گھر سے
باہر ایک کھلے میدان میں گڑھا کھود کر گردن تک دبا دیا گیا ۔ اس کے منہ پر
ایسا ہی سیاہ نقاب چڑھا دیا گیا جیسے پھانسی کے مجرم کو تختہء دار پر
پہنایا جاتا ہے ۔ اب نہ تو کوئی اس کے بہتے آنسو دیکھ سکتا تھا اور نہ ہی
وہ خود غیظ و غضب میں بھرے ہوئے اپنے عزت دار سسرالیوں اور غیرتمند میکے
والوں کے کف اڑاتے منہ دیکھ سکتی تھی ۔
دولہا نے کہا یہ اصل میری مجرم ہے سب سے پہلا پتھر اسے میں ماروں گا ۔ اس
سے پہلے کہ سنگ باری شروع ہوتی نا جانے کہاں سے ایک مجذوب بکھرے بال
پراگندا حال پھٹا پرانا چولا اور گلے میں منکوں کی مالا پہنے اُدھر آ نکلا
اور چِلایا ٹھہرو! اور منہ ہی منہ میں پتہ نہیں کیا پڑھنے لگا سب حیرت سے
اس کی طرف دیکھ رہے تھے وہ لڑکی کے قریب گیا اور ہاتھ میں پکڑی سوٹی سے اس
کے گرد ایک حصار سا کھینچ دیا اور بولا اب اسے پتھر وہی مارے جس نے اپنی
پوری زندگی میں کبھی زنا نہ کیا ہو ۔ اگر کوئی خود زانی ہؤا تو پتھر لڑکی
کو لگنے کی بجائے واپس پلٹ کر اس پھینکنے والے کے اپنے منہ پر لگے گا ۔
سب لمحے بھر کو دم بخود رہ گئے موت کا سا سناٹا چھا گیا ۔ دولہا استہزائیہ
انداز میں ہنسا اسے مجذوب کی بات محض ایک دیوانے کی بڑ ہی لگی ۔ اس نے ہاتھ
میں پکڑا ہؤا پتھر تاک کے اپنی منکوحہ کی طرف پھینکا مگر یہ کیا؟ پتھر
واقعی پلٹ کر آیا اور تڑاخ سے اس کے منہ پر آنکھ کے بالکل قریب لگا خون
پھوٹ پڑا اور اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا وہ اپنا سر پکڑے وہیں
بیٹھتا چلا گیا ۔ مجمع میں مکھیوں کی سی بھنبھناہٹ پھیل گئی سبھی لوگ سخت
سراسیمہ نظر آ رہے تھے پھر ایک چچا زاد ہمت کر کے آگے بڑھا اور مجذوب کی
بات کی مزید تصدیق کے لئے پتھر لڑکی کی طرف پھینکا وہ پوری طرح چوکنا تھا
پتھر کو تیر کی طرح واپس اپنی طرف آتا دیکھ کر سرعت سے ایک جانب جھک گیا
اور پتھر اس کے عقب میں کھڑے ایک باریش معمر شخص کی پیشانی پر لگا اور خون
کا فوّارہ ابل پڑا ۔
مجذوب چیخ کر بولا اب تم لوگ اس پر گولی بھی چلا کر دیکھ لو اس بیگناہ لڑکی
کے اصل مجرم کو وہ خود ہی ڈھونڈ لے گی اور مجمع کی پہلی صف میں کھڑے ایک
رشتے کے چچا کو خون اپنی رگوں میں منجمد ہوتا ہؤا محسوس ہؤا ۔ سبھی پر سخت
خوف و ہراس کی کیفیت طاری تھی اور وہ ایک دوسرے سے نظریں نہیں ملا پا رہے
تھے ۔ ننگوں کے اس حمام میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود تھے جنہوں نے کپڑے پہن
رکھے تھے مگر اس وقت اُن سمیت سبھی کے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے پتھر چھوٹ چھوٹ
کر نیچے گر رہے تھے اور وہ سب خود اپنی نظروں سے (رعنا تبسم پاشا) |