پاکستان کا قومی ترانہ اس کا پسِ منظر، معنی ومفہوم اور وضاحت: آخری قسط

المختصر،قوموں کی تاریخ عروج و زوال کی داستانوں کا نام ہے اور قوموں کی زندگیوں میں ان نشیب وفراز ہی کی بدولت جفاکشی اور جد وجہد جیسے عوامل کار فرما رہتے ہیں۔اگر تواریخِ عالم کے اوراق پلٹ کر دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سربلندی اور سرخروئی صرف انہی قوموں کے حصے میں آئی جن کے عوام اپنے جفاکش، محبِ وطن اور بے لوث قائدین کی قیادت میں نہ صرف جبر اور نا انصافی کے خلاف ڈٹ گئے بلکہ ہر طرح کے ظلم واستبدادکے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔تاریخِ عالم میں تحریکِ پاکستان کا تذکرہ ہمیشہ سنہرے حروف میں ہوتا رہے گا کیونکہ یہ دنیا کی واحد تحریک ہے جو بہت ہی قلیل وقت میں اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوئی۔پاکستان معرضِ وجود میں آگیا اور پھر اس کا قومی ترانہ اور قومی پرچم زندہ قوم کی علامت بن کر دنیا کے سامنے آگئے۔ حفیظ ؔ جالندھری نے قومی ترانہ لکھا تو کئی دوسرے شاعروں نے بھی قوم کی نمائندگی کے لیے اپنی سوچ و فکر اور الفاظ کو کچھ اس انداز میں جمع کیا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قوم کی علامت بن گئے۔ پاکستان زندہ باد اور اللہ تعالی حفیظ جالندھری اجر عظیم عطا فرمائے اور انہیں جنت میں بلند ترین مقام سے نوازے، آمین۔ تمت بالخیر

مسلمانوں کے ماضی و حال کا ایک تقابلی جائزہ علامہ اقبال ؒ نے اپنی شہرہ آفاق نظم ”شکوہ جواب شکوہ“ میں کیا ہے نیزنظم ”خطاب بہ نوجوانانِ اسلام“میں نوجوانوں کو پیغام دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر اپنا رویہ ماضی کے مسلمانوں جیسا اپناؤ گے تو نہ صرف تمہارا حال بلکہ مستقبل بھی شاندار ہو سکتا ہے۔اس کے برعکس اگر اپنے شاندار ماضی کو پسِ پشت ڈال دیا اور بے راہ روی کا شکار ہوئے تو نہ صرف حال بلکہ مستقبل بھی تاریک ہو جائے گا اسی لیے علامہ ؒ کی یہ نظم
نوجوانوں کو باورکراتی ہے کہ:
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کِیا تُو نے
وہ کیا گردُوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹُوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبّت میں
کُچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ مُنعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
غرض مَیں کیا کہُوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں‌گیر و جہاں‌دار و جہاں‌بان و جہاں‌آرا
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تُو گُفتار وہ کردار، تُو ثابت وہ سیّارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلَّم سے کوئی چارا
مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

اس نظم میں ماضی کے مسلمانوں کی وہ تمام خوبیاں گنوائی ہیں جن کی کمی زمانہ حال کے مسلمانوں میں شدت سے محسوس ہوتی ہے۔”جانِ استقلال“سے یہ مراد ہے کہ تو(پرچم)ہماری قوم کے مستقبل کی جان ہے۔ ابوالاثرحفیظؔ نے پرچم کو مستقبل کی جان کہہ کریہ اشارہ کیا ہے کہ ترقی اور خوشحالی پر یقین زمانوں (ماضی، حال اور مستقبل) سے منسلک ہے۔ اس لیےہوش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے ماضی سے سبق حاصل کیا جائے۔ اپنے حال میں ہر کوشش کو جاری رکھا جائے اور مستقبل کے لیے بہترین حکمتِ عملی اختیار کی جائے اور ایسے اقدامات کیے جائیں، جن سے معاشی، معاشرتی اور عسکری ترقی ہو اور مذہب وثقافت کی خوب صورت شکل سامنے آئے۔یہ سب تبھی ممکن ہے جب میرِ کارواں میں وہ سب خوبیاں ہوں جن کا تذکرہ شاعرِ مشرق، حکیم الامت علامہ محمد اقبالؔ نے کیا ہے، کہتے ہیں:
نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

گویا ایسے دور اندیش حکمرانوں کی ضرورت ہے جن کے مقاصد کی بلندی ثریا کو چھو لے، جن کی گفتگو پر تاثیر ہو، جو اپنی دور نگاہی سے ملک کو پیش آنے والے خطرات کوقبل از وقت بھانپ لیں اور وہ اپنی دنشمندانہ حکمتِ عملی سے اپنی راہ میں آنے والی ہر دیوار کو مسمار کر نے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ پس حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ اقتدار کی ہوس کو پسِ پشت ڈال کر اور کھینچا تانی سے دامن بچا کرنیز دور نگاہی سے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک توازن کو برقرار رکھیں نیز ساتھ ہی ساتھ دشمن کی چال پر بھی نظر رکھیں۔
”قومی ترانے“ ک وضاحت کے آخر میں درج ذیل الفاظ کے ساتھ اس کی توضیح و پسِ منظر اختتام کو پہنچتا ہے۔امید کرتی ہوں کہ قارئین ان اقساط سے یقیناً مستفید ہوئے ہوں گے اور اپنے بچوں کے ساتھ اسےشئیر بھی کیا ہو گا۔

المختصر،قوموں کی تاریخ عروج و زوال کی داستانوں کا نام ہے اور قوموں کی زندگیوں میں ان نشیب وفراز ہی کی بدولت جفاکشی اور جد وجہد جیسے عوامل کار فرما رہتے ہیں۔اگر تواریخِ عالم کے اوراق پلٹ کر دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سربلندی اور سرخروئی صرف انہی قوموں کے حصے میں آئی جن کے عوام اپنے جفاکش، محبِ وطن اور بے لوث قائدین کی قیادت میں نہ صرف جبر اور نا انصافی کے خلاف ڈٹ گئے بلکہ ہر طرح کے ظلم واستبدادکے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔تاریخِ عالم میں تحریکِ پاکستان کا تذکرہ ہمیشہ سنہرے حروف میں ہوتا رہے گا کیونکہ یہ دنیا کی واحد تحریک ہے جو بہت ہی قلیل وقت میں اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوئی۔پاکستان معرضِ وجود میں آگیا اور پھر اس کا قومی ترانہ اور قومی پرچم زندہ قوم کی علامت بن کر دنیا کے سامنے آگئے۔ حفیظ ؔ جالندھری نے قومی ترانہ لکھا تو کئی دوسرے شاعروں نے بھی قوم کی نمائندگی کے لیے اپنی سوچ و فکر اور الفاظ کو کچھ اس انداز میں جمع کیا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قوم کی علامت بن گئے۔ پاکستان زندہ باد اور اللہ تعالی حفیظ جالندھری اجر عظیم عطا فرمائے اور انہیں جنت میں بلند ترین مقام سے نوازے، آمین۔ تمت بالخیر

 

Syeda F GILANI
About the Author: Syeda F GILANI Read More Articles by Syeda F GILANI: 38 Articles with 70684 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.