“شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے پہ
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا”
آج انشاء جی کے اس شعر نے میرا ہاتھ تھام کر آئینے کے سامنے لا کھڑا کیا۔۔۔!
لفظوں نے آج یہ کیسی چال چلی تھی ۔۔۔!ہنس کر شہہ مات کہہ کر چل دیئے۔۔۔!
اور میں زندگی کی شطرنج پر ایک اکیلا پیادہ ۔۔۔ بساط اُلٹنے پر حیران کھڑا
تھا ۔۔۔! رات دھیرے دھیرے بیت رہی تھی۔۔۔! زندگی کئی برس گزار چکی تھی۔۔۔!
کتابِ ہستی کا ورق ورق میرے سامنے تھا۔۔۔! ہر باب پر کوتاہی لکھا تھا۔۔۔!
ابّا جی کہا کرتے تھے بیٹا آخری عمر میں تو سبھی سجدے میں گِر جاتے ہیں۔۔۔!
اللہ کو جوانی کی عبادت بہت پسند ہے۔اُٹھ جا نماز پڑھ لے۔۔۔! پھر ابّا جی
چلے گئے کوئی کہنے والا ہی نہ رہا۔۔۔!
آج رات گئے یہ کیسی دَستک ہوئی تھی۔۔۔؟ آج مجھے اپنا آپ اُس بلبل کی مانند
لگا جس نے سارا موسمِ بہار گاتے اور خوشی مناتے ہوۓ گزار دیا۔۔۔! جاڑے کی
کچھ فکر ہی نہ تھی نادان کو۔۔۔! کچھ بھی تو جمع نہیں کیا تھا اُس نے۔۔۔! جب
جاڑا آیا تو ہوش بھی آیا۔۔۔! ایسا بے خبر ہی توتھا میں بھی ۔۔۔! بہت دیر کر
دی۔۔۔! جوانی ڈھلنے کو تھی عمر کی نقدی ختم ہونے کو۔۔۔! جھولی خالی۔۔۔! کیا
لے کر جاؤں گا ُاس کے پاس کیا بہانہ بناؤں گا۔۔۔؟ نہ عمل اچھے نہ جبیں پر
ہی سجدوں کے نشاں۔۔۔! بس اِک چاکِ گریباں ہے اور ہم ہیں دوستو۔۔۔! جی بھر
کر دنیاوی لذتوں کی مے پی کہ ہوش ہی کھو بیٹھے۔۔۔! سودوزیاں کا حساب کیا تو
چند کھوٹے سِکّوں کے سوا جھولی میں کچھ تھا ہی نہیں۔۔۔!بہت کھنک ہوتی ہے نا
کھوٹا سِکّوں میں دلرُبا دھن ہو جیسے اور میں نے اس دُھن پر کیا خوب رقص
کیا۔۔۔! پاؤں میں آبلے پڑے اور روح پر گھاؤ۔۔۔!
عصر کی قسم انسان خسارے میں ہے۔۔۔! ہدایت کے بدلے گمراہی خریدتا ہے۔۔۔!
اب پچھتاۓ کیا ہووت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت
کئی راتیں قطار در قطار سامنے آ کھڑی ہوئیں جب وہ بلاتا رہا اور مقدر غفلت
کی نیند سوتا رہا ہزار نعمتوں کے ہوتے ہوۓ بھی دل خوشی سے محروم رہا اور
روح پیاسی خشک ٹہنی کی مانند جیسے پودے کو وقت پر پانی نہ ملے اور وہ مرجھا
جاۓ۔۔۔!
مٹی کا یہ ُپتلا تو خود کوزہ گر کی محبت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔۔۔! ساری
زندگی “ہاۓ آئی لو یو ٹو ڈارلنگ” کہنے والا کبھی کوزہ گر کی محبتوں کے جواب
میں “آئی لو یو ٹو” کہہ ہی نہ سکا آہ کتنا بدقسمت ہے رے تو۔۔۔! اے جسدِ
خاکی “مدرزڈے” اور “فادرز ڈے” منانے والے اپنے رب کے ساتھ کتنے دن مناۓ
تونے۔۔۔؟ تیری تو ہر سانس مقروض ہے اُس کی نعمتوں کی۔۔۔!
“اس دل کے دریدہ دامن میں دیکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوۓ اس جھولی کا پھیلانا کیا”
زندگی کوزہ گر کی عنایتوں کا حساب کرنے چلی آئی۔۔۔! ہر نعمت ہر عطا کی
ناشکری نے دل میں ببُولوں بھری بُوٹی اگا دی جو اندر سے لہو لہان کر رہی
تھی۔۔۔!! زندگی کی مدھانی میں ڈال کر اپنے اعمال کو بہت بلویا دودھ خالص
ہوتا تو مکھن آتا نا۔۔۔! کچی لَسّی منہ چِڑا رہی تھی۔۔۔! میں تھا رات کا
پچھلا پہر اور آنسو۔۔۔ آج زندگی نے کس موڑ پر لا کھڑا کیا تھا۔۔۔؟
“شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا”
رات گئے یہ کیسی دستک ہوئی تھی۔۔۔؟
شاید میں مر چکا تھا اور حساب کتاب ہو رہا تھا میں رو رہا تھا۔۔۔! آہ و
زاری کر رہا تھا۔۔۔! بہت اندھیرا تھا ایک پتلی گلی تھی ،اُس کے دوسری طرف
قبر۔۔۔! میرا اعمال نامہ سامنے پڑا تھا۔۔۔؟؟؟ خوف سے رخسار پر نمی سی محسوس
ہوئی۔۔۔! سانس چل رہی تھی۔۔۔! اچانک ایسے لگا جیسے خشک مٹی پر موسلادھار
بارش ہو رہی ہو۔ بارش کا پہلا قطرہ پڑتے ہی آنکھ کُھل گئی تھی۔اللہ
اکبر۔۔۔!
میں نے اُٹھ کر وضو کیا۔ جبیں سجدے کی لذت سے آشنا ہوئی تھی۔۔۔! زندگی کی
ریل گاڑی نے ایمرجنسی زنجیر کھینچ دی تھی مسافر نے راستہ بدل لیا تھا۔۔۔!
“انشاء جی اُٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں میں جی کو لگانا کیا ؟؟؟؟؟
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا۔۔۔؟
|