اب آئے گا اونٹ پہاڑ کے نیچے


معاشی میدان میں ہمارے کرتا دھرتا بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے یوئے۔
وہ بھی ان عالمی مہاجنوں کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل کھیلتے رہتے ہیں ۔

اندھیر نگری اندھیر راجا ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا

ہم نے اپنے ابا جان سے یہ کہانی بچپن میں سنی تھی۔
اب اس کہانی کو حقیقت کا روپ دھارتے دیکھ رہے ہیں ۔

کہانی کچھ یوں یے کہ ہماری حکومتوں کا گزر اوقات بیرونی قرضوں پر ہوتا ہے اور عالمی مالیاتی ادارے ہمیں یہ قرضے ناک رگڑوا کر دیتے ہیں ۔
یہ قرضوں پر اسقدر بھاری شرح سود وصول کرتے ہیں کہ نہ ہماری پچھلی نسلیں یہ ادا کرپائی ہیں اور نہ ہی آئندہ آنے والی کر پائیں گی۔
مہنگائی کے جو جھٹکے آجکل ہم محسوس کررہے ہیں اسکی بنیادی وجہ یہی ہے۔
بھاری شرح سود پر قرضے دیتے وقت ان کے من میں تو لڈو پھوٹ رہے ہوتے ہیں مگر یہ اپنی اہمیت جتلانے کیلئے ہمیں ترسا ترسا کر قرض دیتے ہیں تاکہ ہمیں ہمیشہ انکی حاکمیت کا احساس رہے۔
کڑی سے کڑی شرائط لاگو کرتے ہیں جوکہ ہمارے جیسے نیم خواندہ اور ترقی پذیر ممالک کیلئے پوری کرنا ناممکن ہوتا ہے ۔

مگر ہمارے کرتا دھرتا بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے یوئے۔
وہ بھی ان مہاجنوں کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل کھیلتے رہتے ہیں ۔
نئی حکومت کے ساتھ بھی کچھ ایسے ہی معاملات ہیں ۔IMF کی کڑی شرائط گلے میں پھنسی ایسی چھچھوندر ہے کہ جس کو نہ اگلا جاسکتا ہے نہ ہی نگلا جاسکتا ہے۔

عالمی مہاجنوں نے ہمیں ٹیکس کا ایک پھندا دیا ہے جوکہ عوام کی گردنوں میں فٹ کرنا ہے۔

مگر اس کے ناپ کی گردن نہیں مل پارہی۔
یہاں سب کی گردنیں ہی پتلی ہیں ۔
اور موٹی گردن والے پتلی گلی سے صاف نکل جاتے ہیں۔

بحرحال ہماری سرکار کو ایک عدد موٹی گردن درکار ہے۔ ایسی موٹی گردن جس کے گلے میں ٹیکس کا پھندہ فٹ آجائے ۔
وہ گردن نظروں میں آچکی ہے اور جلد یا بدیر سرکار کے ہاتھ آیا ہی چاہتی ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریبا دو کروڑ پاکستانی بیرون ملک مقیم ہیں یہ اوور سیز پاکستانی کہلاتے ہیں ۔ایک سروے کے مطابق صرف سات لاکھ پاکستانی امریکہ میں مقیم ہیں ۔اس سے کہیں زیادہ یورپ اور کینیڈا میں برسرروزگار ہیں ۔
یہ اوورسیز پاکستانی پاکستان کے غم میں نڈھال رہتے ہیں ۔
خوش قسمتی سے یہ مسٹر خان پر فریفتہ ہیں ۔

انکو اندھیر راجا نہیں بلکہ نجات دہندہ سمجھتے ہیں ۔
انکی نطر میں صرف مسٹر خان ہی وہ لیڈر ہے جو اس قوم کی کایا پلٹ کر اسے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرسکتا ہے۔

زبانی کلامی محبت کے دعووں سے اب کام نہیں چلے گا۔قربانی کا وقت آچکا ہے۔
اہل دانش نے ارباب اختیار کو یہ تجویز پیش کردی ہے کہ ان اوورسیز پاکستانیوں سے بھاری ٹیکس وصول کیا جائے ۔

ان کی بیرون ملک ٹیکس ادائیگی کے بعد جو بچت ہوتی ہے اس پر 50% ADDITIONAL BIRTH TAX ا ٹیکس لاگو کیا جائے ۔
جن کے پاس دو گاڑیاں ہیں ایک پاکستانی سفارتخانے میں جمع کروائی جائے ۔
جن کے پاس ریائش کے علاوہ پراپرٹی ہے وہ بھی حکومت پاکستان کی تحویل میں لے لی جائے ۔
ان کو پابند کیا جائے کہ کم از کم اپنا ایک بچہ پاکستان تعلیم کیلئے بھیجیں تاکہ ہمارے بچوں کا معیار تعلیم بلند ہوسکے۔اور ان میں ترقی یافتہ ممالک کے طلبہ سے مقابلہ کی فضا پیدا ہوسکے۔
جن کی دو یا زائد بیگمات ہیں کم ازکم ایک کو پاکستان میں سیٹل کریں تاکہ ان کے نان نفقہ کی ڈالر میں ادائیگی وصول ہوتی رہے۔اور قیمتی زر مبادلہ حاصل ہو۔
( اکلوتی بیوی کی صورت میں پاکستان میں دوسری شادی لازمی قرار دی جائے )

کاروباری لوگوں کو پابند کیا جائے کہ پاکستان میں مفت لنگر کا انتظام کریں ۔
ہر سال چھٹی لیکر پاکستان آئیں اور اپنے اپنے شعبے سے وابستہ اداروں میں رضاکارانہ خدمات سر انجام دیں۔
یہ تیکس ان اوورسیز پاکستانیوں پر اس دھرتی کاقرض ہے ۔
وہ جو پر آسائش زندگی بسر کررہے ہیں وہ پاکستان ہی کی مرہون منت ہیں ۔
وہ اگر افریقہ کے جنگلات میں یا غاروں میں پیدا ہونے ہوتے تو یورپ و امریکہ کیسے جاسکتے تھے ۔

اگر یہ لوگ ٹیکس دینے میں تامل کریں تو فوری طور پر ایکشن لیا جائے ۔

انکے سبز پاسپورٹ منسوخ کردیئے جائیں۔

انکو انٹر پول سے پاکستان واپس بلا کر پاکستان میں نوکری کا انتظام کیا جائے ۔
سفارتخانے اس سلسلے میں متحرک کردار ادا کرسکتے ہیں ۔
اس تیکس کلیکشن سے یقینا خاطر خواہ رقم جمع ہوجائے گی۔
تن مردہ میں جیسے جان پڑ جائے گی۔
ہر طرف خوشی کے شادیانے بجیں گے۔
لنگر چلتے رہیں گے۔عوام مست و بے فکر سوئے گی ۔راوی چین یہ چین لکھے گا۔
اور ملک ترقی کی شاہراہ پر سر پٹ دوڑنے لگے گا۔
سب سے بڑھکر اوورسیز پاکستانیوں کی دیوانگی میں بھی افاقہ ہوگا۔
( محمد منورسعید )
 

M Munnawar Saeed
About the Author: M Munnawar Saeed Read More Articles by M Munnawar Saeed: 37 Articles with 49678 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.