ہم واپڈا ٹاؤن سے نکلے ۔ شوکت خانم ہسپتال کی طرف جاتے
ہوئے پٹرول ڈلوانے ایک معروف کمپنی کے پٹرول پمپ پر رکے ۔بریگیڈیر صاحب نے
دو ہزار کا پٹرول ڈالنے کا کہا اور میٹر کی طرف دیکھنے لگے۔ لڑکے نے پٹرول
ڈالنا شروع کیا۔ اسی اثنا میں پٹرول پمپ کا ایک دوسرا ملازم ان کے پاس آیا
اور کہنے لگا کہ جناب یہ چھوٹی سی بوتل لے لیں اس ایک بوتل کا محلول پٹرول
میں شامل کرنے سے گاڑی کی مالیج بہت بہتر ہو جائے گی۔ ابھی یہ بات جاری تھی
کہ پٹرول ڈالنے والے نے پٹرول ڈال دینے کی نوید دی۔ بریگیڈیر صاحب نے حیران
ہو کر پوچھا کہ دو ہزار کا پٹرول اور اتنی تیزی سے ڈال دیا وہ کیسے۔ مجھے
گڑبڑ لگتی ہے۔ وہ باہر نکلے اور پٹرول ڈالنے والے کو پوچھا کہ کیا چکر
چلایا ہے۔ ایک تو دوہزار کا پٹرول تم نے لمحوں میں ڈال دیا ہے ، دوسرا اس
نوزل کو پمپ پر واپس لگاتے ہوئے بڑی پھر تی سے میٹر بھی زیرو کر دیا ہے۔
جبکہ عام طور پر یہ رقم میٹر پر اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک دوبارہ پٹرول
نہ ڈالا جائے۔ لڑکے نے جواب دیا ، جناب ایک تو ہماری مشین تیز ہے، دوسرا
معذرت خواہ ہوں ، بس غلطی سے ہاتھ لگ گیا اس لئے میٹر زیرو ہو گیا۔ آپ فکر
نہ کریں پٹرول پورا ہے۔ دیکھ لیتے ہیں یہ کہہ کر بریگیڈیر صاحب گاڑی میں
بیٹھ گئے۔
وقت بہت بدل گیا ہے ۔ گاڑیوں میں بھی بہت جدت آ گئی ہے۔ اب سپیڈو میٹر یہ
بھی بتا دیتا ہے کہ گاڑی میں موجود پٹرول سے گاڑی کتنے کلو میٹر چلے گی۔
میں اگر ایک ہزار کا پٹرول ڈلواؤں تو میٹر کی رینج میں ایک سو پانچ (105)
سے ایک سو دس(110) کلومیٹر تک کا اضافہ ہوتا ہے۔ اگر میٹر اس سے کم رینج
دکھائے تو ظاہر ہے کہ پمپ والے بے ایمان ہیں ۔میں دوبارہ اس پمپ پر نہیں
جاتا۔بریگیڈیر صاحب نے پرانی رینج چیک کی ، گاڑی چلائی اور گھما کر پھر پمپ
پر لے آئے ۔ لڑکے کو بلایااور اسے بتایا کہ اس نے تقریباً آٹھ سو کا پٹرول
ڈالا ہے۔میٹر صاف بتا رہا ہے۔ اسے کہا کہ مینجر کو بلائے ۔ ایک صاحب بھاگے
ہوئے آئے اور پوچھنے لگے کہ جناب حکم۔ بریگیڈیر صاحب نے ساری بات بتائی
تولڑکے کو گالیاں دینے لگااور کہا کہ گاڑی پمپ کے پاس لے آئیں۔ایک لڑکا
مزید پٹرول ڈالنے لگا اور وہ صاحب لڑکوں کو لگاتار گالیاں نکالتے رہے۔فقط
پانچ سو کا پٹرول ڈالنے کے بعد اس نے کہا۔ لیں جناب پانچ سو کا مزید ڈال
دیا ہے اب توخوش ہیں۔ بریگیڈیر صاحب نے اس کی طرف غور سے دیکھا اور بولے،
کہ یہ کہتے ہوئے تمھیں شرم محسوس نہیں ہو رہی تم لوگوں نے فراڈ یہ کیا ہے
کہ بارہ سو کا پٹرول کم ڈالا ہے اور اب فقط پانچ سو کا ڈال کر مجھ پر احسان
کر رہے ہو۔ مجھے لگا کہ جھگڑا بڑھ جائے گا۔ میں نے بریگیڈیر صاحب کی منت کی
کہا اوپر شکایت کریں ان سے لڑنے کا کوئی نتیجہ نہیں ہو گا کیونکہ یہ سب
مالک اور ملازم ملیں ہوں گے اس لئے یہ بے غیرت پن کرتے ہیں۔ اور بے غیرت
لوگ عزت داؤ پر لگائے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ خود کو ان سے لڑ کر خود کو آلودہ نہ
کریں۔ یہ عجیب مسلمان ہیں کہ جانتے ہیں کہ رب کا ارشاد ہے،’’تباہی ہے کم
دینے والوں کے لئے جن کا حال یہ ہے لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں اور
جب انہیں ناپ کر ، تول کر دیتے ہیں تو انہیں گھٹا کر دیتے ہیں، کیا یہ لوگ
نہیں سمجھتے کہ ایک بڑے (قیامت کے) دن یہ اٹھا کر لے جانے والے ہیں‘‘۔ جو
رب کے منکر ہیں وہ انسانوں کی زبان کیا سمجھیں گے۔ میرے کہنے پر اس وقت
بریگیڈیر صاحب چپ رہے اور ہم واپس آگئے۔ بعد میں شکایت کا مجھے کچھ پتہ
نہیں۔
ایک ڈیڑھ دہائی پہلے تک ہمارے پٹرول پمپ بہت سادہ سے تھے۔ہر پمپ پرفقط
پٹرول ہوتا تھا اور واحد سہولت ہوا کی فراہمی تھی۔ لوگ گاڑیوں میں خود ہی
ہوا بھرتے اور کبھی خود بھرنے کا موڈ نہ ہوتا تو ہارن دیتے ۔پٹرول پمپ کا
ملازم بھاگا آتا ۔ سلام کرتا، ہوا بھرتا اور واپس چلا جاتا۔ ہوا بھرنے کی
اجرت نہ کبھی کسی نے دی اور نہ کسی نے مانگی۔ پھر کمپنیوں میں مقابلے کا
رحجان شروع ہوا جس کے نتیجے میں عوام کو سہولتیں دینے کا رحجان شروع ہوا۔
پٹرول پمپوں پر شاندار واش روم بن گئے۔ نماز کے لئے جگہ فراہم کی گئی۔ ہر
پمپ پر ایک سٹور وجود میں آیا جہاں چھوٹی موٹی خریداری ممکن ہو گئی۔ گاڑیوں
میں پنکچر لگانے والے پٹرول پمپ کی حدود میں آ کر بیٹھ گئے یوں گاڑی مالکان
کو ایک ہی جگہ تمام سہولیات میسر آنے لگیں۔ہوا بھرنے کا کام اب پٹرول پمپ
کے کنٹرول سے نکل کر پنکچر لگانے والے کے کنٹرول میں چلا گیا۔ ہر پنکچر
لگانے والے کے پاس کچھ بچے کام کرتے ہیں جو چائلڈ لیبر والوں کو کبھی نظر
نہیں آتے، یہ بچے ہوا بھر نے کا کام کرتے ہیں۔ کسی بھی گاڑی میں ہوا بھرنے
کے بعد وہ سیلوٹ مارنے کے انداز میں کھڑے ہو جاتے جس کا مطلب ہوتا کہ کچھ
دے کر جاؤ۔ لوگ ایک دو روپے دے دیتے۔ کوئی نہ بھی دیتا تو وہ خوش دلی سے
ایک طرف ہو جاتے۔ ہوا بھرنے کا ریٹ بھی مہنگائی کے ساتھ بڑھتا گیاپہلے پانچ
پھر دس اور پھر وصولی بھی لازمی۔ پچھلے ایک سال سے ہوا بھرنے والے بڑے زور
سے لازمی بیس روپے وصول کرتے رہے ۔ ہفتہ پہلے میں نے گاڑی میں ہوا بھروائی
اور بیس روپے دئیے تو اس نے بتایا کہ اب ریٹ تیس روپے ہو گیا ہے پوچھا وہ
کیوں؟ جواب ملا ۔ بجلی بہت مہنگی ہو گئی ہے۔ مالکان نے ٹھیکے کا ریٹ بڑھا
دیا ہے۔عجیب عالم ہے کہ کمرشل پن ہر جگہ آ گیا ہے۔ پمپ والوں نے ہوا بھرنا
بھی ٹھیکے پر دے دیا ہے۔
میرے ساتھ ایک دوست تھا۔ ہنس کر کہنے لگا کہ میری گاڑی کے ایک ٹائر میں ہوا
کم تھی۔ ہوا بھرتے وقت اس نے بتایا کہ پنکچر ہے ۔ آپ کہیں تو دو منٹ میں
لگا دوں آپ کا وقت بھی ضائع نہیں ہو گا۔ میرے ہاں کہنے پر اس نے ایک سوا
ٹائر میں پنکچر والی جگہ ڈالاجس کے ساتھ ایک ربڑ تھا، پھر اس نے سوا نکال
لیا ۔ ربڑٹائر کے اندرہی رہا۔ ہوا بھری اور فقط ایک منٹ میں پنکچر لگ
گیا۔ایک پنکچر کا معاوضہ اس نے ایک سو بیس روپے مانگا ۔ میں نے حیران ہو کر
پوچھا کہ یہ پچاس روپے سے یک دم معاوضہ ایک سو بیس کیسے ہو گیاتو یہی جواب
ملا کہ بجلی مہنگی ہو گئی ہے ، میں نے کہا کہ اس پنکچر میں بجلی کا تو کوئی
عمل دخل نہیں۔ کہنے لگا۔ ہوا بھرنے میں اس کا دخل ہے۔ ہم مزدور اتنی گرمی
میں پنکھا بھی چلاتے ہیں وہ دخل بھی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ کچھ تو مہنگائی حد سے زیادہ بڑھی ہے۔ کچھ حکومت کی نا
اہلیوں کے سبب ہر شخص کو لوٹ مار کی کھلی اجازت ہے۔ کسی کو کوئی پوچھنے
والا ہی نہیں۔ پٹرول پمپ مالکان بھی اسی معاشرے کا فرد ہیں۔ وہ اپنی لوٹ
مار میں مصروف ہیں ، حکومتی اہلکار اپنا حصہ وصول کرنے کے علاوہ کچھ نہیں
کرتے ۔ اب پمپوں پر نماز کی جگہ ختم ہو گئی ہے۔ عوام کے لئے واش روم ختم۔
ملازمین کے واش روم اتنے گندے کہ پاس سے گزرنا مشکل۔ پمپ کے سٹوروں پر بکنے
والی چیزیں کی مارکیٹ سے دگنی قیمت اور پھر بچوں کی دلچسپی کی چیزیں سامنے
اس طرح سجا کر رکھتے ہیں کہ بچے کی ضد سے ہتھیار ڈال کر لوگ خریدنے پر
مجبور ہوں۔نوے فیصد پٹرول پمپ کم پٹرول دیتے ہیں۔ بس ایک سہولت رہ گئی ہے
جو فری ہے کہ پٹرول پمپ پر گاڑی کی سکرین صاف کر دیتے ہیں۔ وہ بھی بعض
پمپوں پر ملازم سکرین صاف کرکے سیلوٹ مارنے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ شاید گاڑی
والے کو شرم آ جائے اور کچھ دے جائے۔ ایسی صورت میں گاڑی والے تو شرم کر
لیتے ہیں۔ شرم اگر نہیں آتی تو حکومتوں کو نہیں آتی کہ اپنے فرض کو پورا
کریں اور عوام کو اس طرح کی لوٹ مار سے بچائیں۔ |