تحریر: ناصر محمود بیگ ․․․․․․کسووال
ایک روز اسکول سے واپسی پرمیں جی ٹی روڈ پر اپنے گھر کی جانب آرہا تھا۔میں
نے ایک رکشے کو اوور ٹیک کیا۔رکشے کے ڈرا ئیور کو دیکھا تو حیرت کی انتہا
نہ رہی کیوں کہ اس کا قد بمشکل تین فٹ ہوگا۔اور پاؤں اور ٹانگیں بھی نارمل
نہیں تھیں،اسے روک کر کچھ گفتگو کی۔اس کے لہجے میں بلا کا اعتماد تھا۔اس کی
باتوں سے ذرا بھی نہیں لگا کہ وہ عام انسانوں سے کسی طرح کم ہے۔پیر بخش
نامی یہ خود دار نو جوان میرے قریبی گاؤں کا رہنے والا ہے۔وہ رکشہ چلا کر
نہ صرف اپنا رزق حلال کما تا ہے بلکہ اپنے گھر والوں کا بھی سہارا ہے۔یہ
نوجوان ان لوگوں کے لیے مثال ہے جو ہاتھ پاؤں سلامت ہونے کے باوجود دوسروں
کے آگے ہاتھ پھیلا تے ہیں۔ اور ہمارے پڑ ھے لکھے نو جوان جو بے روزگاری کا
رونا روتے ہیں مگر ہاتھ ہلا نا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ان کو بھی اس
سے سبق سیکھنا چاہیے۔اس نو جوان کو دیکھ کر ایک ایک اور کہانی میرے ذہن میں
گردش کرنے لگی ہے۔ امریکا کی ایک ریاست کا وزیر خارجہ جو ٹانگوں سے معذور
بھی تھا ۔اسے ایک صحافی نے سوال کیا: ’’اگر آپ معذور نہ ہوتے تو کیا
ہوتے‘‘۔اس سوال کااس نے بہت خوب صورتی سے جواب دیا :’’اگر میں معذور نہ
ہوتا تو محض ایک معمولی کسان ہوتا‘‘۔
وہ ایک معمولی کسان ہی تھا ۔صبح سویرے کھیتوں کے لیے نکلنا اور کام کاج
نپٹا کر گھر واپس آنا اس کا روز کا معمول تھا۔ایک دن معمول کے مطابق وہ
کھیتوں سے واپس آرہا تھا کہ ایک ٹرک کی ٹکر سے شدید زخمی ہوگیا اور بے ہوشی
کی حالت میں اسے ہسپتال لایا گیا۔جب اسے ہوش آیا تو پتا چلا کہ اس کی دونوں
ٹانگیں ختم ہو چکی ہیں ۔اور اب اسے ساری زندگی ایک معذوروں کے ادارے میں
گزارنی ہو گی ۔یہ خبر اس کے لیے کسی طوفان سے کم نہ تھی ۔مگر وہ اپنی زندگی
سے مایوس نہ ہوا اور اس کے بعد اس نے اپنی معذوری کو اپنی طاقت بنانے کا
فیصلہ کر لیا ۔اس نے اپنا زیادہ تر وقت اپنے محلے کی لائبریری میں گزارنا
شروع کر دیا ۔وہاں کی تمام کتب کا مطالعہ کیا اور پھر اپنے شہر کی سب سے
بڑی لائبریری کا رخ کیا ۔اس نے معا شیات ،سیاسیات ،سماجیات اور اخلاقیات کے
موضوعات پر تمام کتب کا سیر حاصل مطالعہ کیا۔اس کے بعد وہ اپنے ملک کی سب
سے بڑی لائبریری پہنچ گیا ۔خوب پڑھ کر جب واپس اپنے گاؤں آیا تو اسے کافی
علم حاصل ہو چکا تھا ۔اب اس نے خدمت خلق کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔
اس نے اپنے محلے سے کام کا آغاز کیا ،کسی کا کوئی دفتر میں کام ہوتا تو اس
کی مدد کے لیے ساتھ چلا جاتا۔کسی کی گھر کوئی چیز خراب ہوتی تو ٹھیک کروا
دیتا۔الغرض لوگوں کی سماجی خدمت کے کام بڑھ چڑھ کر کرنے لگا۔اس کے کاموں کو
دیکھتے ہوئے شہر کے لوگوں نے اسے میونسپل کمیٹی کا ممبر منتخب کر لیا ۔پھر
ملکی سطح کے الیکشن میں وہ ریاست کی قانون ساز اسمبلی کا ممبر منتخب ہو گیا
۔اور آج وہ ایک معمولی کسان سے ایک معتبر وزیر بن گیا۔یہ صرف اس جذبہ کی
بدولت ممکن ہوا جسے یقین اور خود اعتمادی کہتے ہیں ۔اگر وہ اپنی ٹانگوں کی
معذوری کو اپنی زندگی کی حد سمجھ لیتا تو شا ید اسے کوئی جانتا بھی نہ ہوتا
اور وہ کسی کی امداد اور خیرات پر پلتا رہتامگر اس نے اپنی معذوری کو اپنی
مجبوری نہیں بنایا۔اپنے یقین سے انسان ہر نا ممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔اگر
اس کی نیت صاف ہو اور خود پر یقین ہو تو آسمان سے رب کی مدد بھی شامل حال
ہوجاتی ہے۔جس کا اﷲ پر کامل ایمان ہو وہ کبھی مایوس ہو ہی نہیں سکتا،وہ
ہمیشہ ممکنات کی دنیا میں رہتا ہے۔کیونکہ جہاں دنیا کے اسباب ختم ہو جائیں
وہاں سے اﷲ عزوجل کی قدرت شروع ہوتی ہے۔اس نے زندگی کو بہت وسیع بنایا ہے
کوئی بھی رکاوٹ اس کا راستہ نہیں روک سکتی ۔زندگی اپنا راستہ خود بنا لیتی
ہے کیونکہ زندگی محدود نہیں۔
|