گزشتہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ
اگلی مجلس میں اسلامی انقلاب برپا کرنے اور خلافت اسلامیہ قائم کرنے کے لئے
کیا کچھ ضروری ہے اور اس ضمن میں ہم پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس سلسلے
میں کچھ عرض کیا جائے گا ۔ اس وقت انقلاب کی صدا تو بہت سنائی دے رہی ہے
لیکن کوئی بھی سیاسی یا نیم مذہبی سیاسی جماعت اپنا موقف واضح نہیں کر رہی
کہ وہ کس قسم کا انقلاب چاہتی ہے اوراس انقلاب کے لئے ان کا دستور، منشور
اور طریقہ کار کیا ہے؟ اس لئے ہمارے نوجوان طبقے میں یہ ذہنی و فکری خلاء
باعث انتشار بنا ہوا ہے کہ وہ اپنی بے چین طبیعت کو کس طبقے سے وابستہ کر
کے سکون پہنچا سکتے ہیں اور کس جماعت سے وابستہ ہو کر اور کس قائد کے
ہاتھوں میں ہاتھ تھما کر اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے اپنی کاوشیں موثر
انداز سے صرف کر سکتے ہیں؟ شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کے اکثریتی تعلیم یافتہ
نوجوان طبقے میں ایک غیر یقینی اور انتشار زدہ صورتحال ہے اور وہ کوئی
فیصلہ نہیں کر پا رہے۔ آج کے کالم میں ایسے ہی انقلاب چاہنے والے سیماب
فطرت جوانوں کی خدمت میں چند گزارشات پیش کی جاتی ہیں۔ ان پر ٹھنڈے دل و
دماغ اور سنجیدہ فکر و نظر سے غور کیا جائے تو انشاء اﷲ بہت سے دھندلائے
نقوش، صاف نکھر کر سامنے آجائیں گے اور پھر فیصلہ کرنا بھی آسان ہو گا۔
اِسلامی خلافت کے اِحیاء اور اسلامی اِنقلاب کے لئے ایک منظم جماعت اور ایک
باصلاحیت امیر کا وجود ناگزیر ہے۔ یہ دونوں امور طے شدہ ہیں۔ لیکن افسوس اس
امر کا ہے کہ جب ہم جماعت اور امیر کی بات کرتے ہیں تو عام طور سے ہر لب پر
یہی شکوہ سنائی دیتا ہے کہ اے کاش! مسلمانوں کا ایک امیر ہوتا اور سب مل کر
اس کی اطاعت سے وابستہ ہوتے اور متحد ہو کر آگے بڑھتے تو آج دنیا کا نقشہ
ہی کچھ اور ہوتا۔ مگر اِن سے جب یہ پوچھا جائے کہ جناب ایک امیر آئے گا
کہاں سے؟ کیا اﷲ تعالیٰ ہماری آنکھوں کے سامنے آسمانوں سے کسی شخص کو نازل
کریں اور ساتھ ہی یہ اعلان ہو کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس خاص شخص کو تمہارا
امیر بنایا جاتا ہے لہٰذا تم سب اسے اپنا امیر تسلیم کرو اوراس کی اطاعت سے
وابستہ ہوجاؤ!۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہوگا بلکہ خود مسلمانوں کو اپنے میں سے
کسی باصلاحیت فرد کو چن کر اس کی مدد پر کمر بستہ ہو کر غلبہ اسلام کے لئے
کوشاں کارواں کو آگے بڑھانا ہوگا، اس کی واضح مثال تحریک سید احمد شہیدؒ ہے
۔مولانا شاہ اسماعیل شہیدؒ اور مولانا عبدالحئی بڑھانویؒ بلکہ برصغیر ہی
نہیں عالم اسلام کے مثالی خانوادہ ولی اللہٰی نے سید احمد شہیدؒ کے ہاتھ پر
بیعت کر کے ان کی معیت میں غلبہ اسلام کی حقیقی جدوجہد کو جس انداز سے
پروان چڑھایا اور اس راہ میں جو قربانیاں دیں وہ ایک مثالی تاریخی نقوش ہیں
جو ہمارے لئے راہنما ہیں۔ رہی ظاہری کامیابی و ناکامی یہ ہمارے دائرہ
اختیار کی چیز ہے ہی نہیں جس کے لئے فکر مند ہوا جائے۔
اب ہم اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں تو ہمیں بہت سے قائدین بلکہ قائدین کی ایک
فوج ظفر موج نظر آتی ہے لیکن ان میں قیادت و امارت کے شرعی تقاضے موجود ہیں؟
ان میں سے کس کس کو وقت کے اَکابر اہل علم جو اہل حق کے تمام طبقات میں
بلند پایہ رکھتے ہوں کی تائید و سرپرستی حاصل ہے بلکہ انہوں نے باقاعدہ کسی
کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر مسلمانوں کے لئے ایک مسدود راہ کھولی ہو اور
انہیں یہ بتایا ہو کہ یہ وہ شخص ہے جو اسلامی امارت و قیادت کا صحیح حقدار
ہے اور اب جو شخص بھی اسلامی درد اپنے دل میں رکھتا ہو اور غلبہ اسلام کا
سچا خواہش مند ہو وہ اس کی بیعت و امارت سے وابستہ ہو جائے اور اس کی اطاعت
میں اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لے آئے۔ تو یقیناً ایسا شخص ہی اس وقت
اس بات کا حقدار ہے کہ تمام مسلمان خاص کر اسلامی انقلاب کی راہ تکنے والے
پورے اخلاص اور دیانت داری اور تمام جاہلی جذبات سے ہاتھ جھاڑ کر اس سے
وابستہ ہو جائیں اور ”ایک امیر نہ ہونے“ کا بہانہ چھوڑ دیں کیونکہ کم از کم
اپنی ذات کی حد تک تو وہ ایک باصلاحیت و حقدار امیر سے وابستہ ہوچکے ہیں۔اب
آپ خود فیصلہ کیجئے کہ کون سا قائد اس معیار پر پورا اُترتا ہوا دکھائی
دیتا ہے؟
ہم بغیر کسی کی تنقیص یا توہین کے یہ عرض کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ایسا
شخص جو اسلامی خلافت کے احیاء کے تمام تقاضوں سے واقف ہے ،اس کے لیے شرعی
تقاضوں کے مطابق پوری جدوجہد میں مصروف ہے اور وہ خود باصلاحیت قائد ہے اور
اسے اپنے وقت کے اکابر اہل علم کی سرپرستی اور شرف بیعت حاصل ہے وہ امیر
المجاہدین حضرت اقدس مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اﷲ تعالیٰ کی ذات گرامی
ہے۔ ان کے پاس ایک منظم جماعت بھی ہے اور وہ خود ایک باصلاحیت امیر بھی ہیں،
اور ان کے زیر امارت یہ جماعت، اسلام کے تمام شعبوں میں مصروف خدمت ہونے کے
ساتھ ساتھ غلبہ اسلام کے حقیقی اور موثر راستے، جہاد فی سبیل اﷲ کو اختیار
کئے ہوئے ہے ،تو اب ہماری ذمہ داری کا سِرنامہ ہی یہ ہے کہ ہم ان سے وابستہ
ہو جائیں اور پھر ان کے زیر امارت میدان عمل میں قدم زن ہوں۔
آج ہمارے سامنے زمانے کے حالات میں کس سرعت سے تبدیلی آرہی ہے ، گویا گردش
ایام کی رفتار غیر معمولی طور پر تیز ہو گئی ہے حدیث نبویﷺ میں آخری زمانے
کے بارے میں جو فرمایا گیا کہ”زمانہ سمٹ جائے گا، سال ایک مہینے کی مانند،
مہینہ ایک ہفتہ کی مانند، ہفتہ ایک دن کی مانند، دن ایک ساعت کی مانند اور
گھنٹہ بجلی کوندنے کی مانندہو کر رہ جائے گا“ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس
ارشاد کا ظہور شروع ہو چکا ہے۔ دنیا میں جو تبدیلیاں کہیں صدیوں میں ہوا
کرتی تھیں اب وہ سالوں میں ہو رہی ہیں ،جو سالوں میں ہوا کرتی تھیں وہ
مہینوں میں، مہینوں کی دنوں میں ،دنوں کی گھنٹوں میں اور گھنٹوں کی لمحوں
میں۔زمانہ کی اس تیز روی کا اثر ہے کہ لوگ شدت سے اس بات کے منتظر رہتے ہیں
کہ ہمارے سوتے سوتے رات کو دنیا میں کیا انقلاب آگیا ہے اور صبح اٹھتے ہی
اخباروں پر پل پڑتے ہیں۔افغانستا ن ،عراق میں امریکہ کی جارحانہ مداخلت کے
بعد حالیہ عوامی احتجاجات نے دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک تموّج
پیدا کر دیا ہے اور اس کی آتش زدہ لہریں مشرق و مغرب سے اُبھر اُبھر کر
ہمارے کانوں کی دیواروں سے ٹکرا رہی ہیں اور ہر شخص اپنی اپنی عقل و فہم کے
مطابق ان پر رائے زنی اور قیاس آرائی کرتا ہے اور صبح دم کسی انقلاب کا
منتظر نظر آتا ہے۔
اس قسم کے حالات میں قرآن کریم نے مسلمانوں کے لئے جو لائحہ عمل تجویز
فرمایا وہ یہ ہے کہ : وہ سب سے پہلے اپنی ذات میں تبدیلی پیدا کریں اور
انہیں یہ وثوق رکھنا چاہئے کہ جس نوعیت کا انقلاب خود ان کی اپنی ذات کے
اندر اُبھرے گا، اسی کے مطابق باہر کی دنیا میں انقلاب رونما ہو گا، اگر
اندر کی تبدیلی شر سے خیر کی طرف، کفر و نفاق سے ایمان کی طرف، بدکاریوں سے
نیک اعمال کی طرف، اور غیر اﷲ سے اﷲ کی طرف پلٹ آنے کی ہوگی، تو دنیا کے
حالات میں بھی خیر کا انقلاب برپا ہو گا۔ اور اگر اندر کی تبدیلی خیر سے شر
کی طرف ہو گی تو باہر بھی شرکا طوفان ہی برپا ہوگا، جیسا کہ ارشاد باری
تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ”ظاہر ہو ا فساد بروبحر میں، لوگوں کے اپنے اعمال کی وجہ سے“(الروم
(۱۴)
دوسری ہدایت ہمیں یہ دی گئی ہے کہ ہم اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے
ہوئے دشمن کے مقابلہ میں اپنی قوت مجتمع کریں، چنانچہ قرآن کریم میں ہے:
ترجمہ:” اور تیار رکھو ان کے مقابلے میں جو تم سے بن پڑے قوت، اور سامان
جنگ ،تاکہ تم ڈراتے رہو اس کے ذریعہ اﷲ کے دشمنوں کو اور اپنے دشمن
کو“۔(الانفال: ۰۶)
اسلامی خطوں کو حق تعالیٰ نے فراوانی کے ساتھ جن وسائل سے نوازا ہے اور
انہیں جس قدر مالی و افرادی قوت عطا کر رکھی ہے، اگر یہ مجتمع ہو جائے تو
مسلمان آج بھی دنیا کی سب سے بڑی طاقت کی حیثیت سے ابھر سکتے ہیں۔مادی سازو
سامان کی فراہمی اور ہمدرد ممالک واقوام سے حلف و معاہدہ سے زیادہ اہم حق
تعالیٰ شانہ کی نصرت و مدد ہے، یہی مسلمانوں کا اصل سہارا ہے اور اسی پر ان
کی فتح و کامیابی کا انحصار ہے، قرآن کریم میں ہے:
ترجمہ:” اگر اﷲ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ
تمہاری مدد سے ہاتھ کھینچ لے تو پھر کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرے؟
اور اہل ایمان کو اﷲ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔“
مسلمانوں کی سب سے بڑی قوت”جہاد فی سبیل اللہ “ ہے ۔قرآن کریم اور حدیث
نبوی میں مسلمانوں کو اﷲ کی راہ میں لڑنے مرنے کی بے حد ترغیب دی گئی ہے،
قرآن کریم میں ہے:” اﷲ نے مسلمانوں کی جان و مال کو خرید لیا،اس بدلے میں
کہ ان کو اس کے عوض جنت ملے گی، وہ لڑتے ہیں اﷲ کی راہ میں پس قتل کرتے ہیں
، اور قتل ہوتے ہیں ، یہ اﷲ تعالیٰ کا سچا وعدہ ہے جو اس نے تورات، انجیل
اور قرآن میں کیا ہے، پس اﷲ تعالیٰ سے بڑھ کر اپنے وعدے کا سچا کون ہو سکتا
ہے؟ پس تم خوش ہو جاؤ اسی سودے پر ، جو تم نے اﷲ تعالیٰ سے کیا ہے، یہ بہت
بڑی کامیابی ہے۔“(التوبہ:۱۱۱)
اس ارشاد باری تعالیٰ سے واضح ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کی جان و مال اﷲ
تعالیٰ کے ہاتھ فروخت ہو چکی ہے، اور اب اس کا مصرف صرف اور صرف جہاد فی
سبیل اﷲ ہے، عالم اسلام خصوصاً پاکستان میں جذبہ جہاد موجود ہے،اب خیر
خواہاں ملت کا فرض ہے کہ اس جذبہ سے فائدہ اٹھائیں ،تمام مسلمان ایسی منظم
جماعت کے ساتھ وابستہ ہوکر متحد ہوجائیں ۔ یہ مبارک جماعت ،ایک امیر اور
منظم جماعت کے ساتھ جہاد فی سبیل اﷲ کا اہم فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ اب
دیکھئے کون اپنی صلاحیتیں اور قوتیں ان کے قدم بقدم ملا کر غلبہ اسلام کی
حقیقی جدوجہد کو آگے بڑھاتا ہے اور کون محض دکھاوے کے ٹسوے بہانے اور ”ایک
امیر اور منظم جماعت نہ ہونے“ کے جھوٹے سہاروں اور کمزور بے ساکھیوں سے جڑا
رہتا ہے ؟ |