رنگ و نور .سعدی کے قلم سے
اﷲ تعالیٰ نے اپنے سب سے محبوب اور آخری نبی حضرت محمدﷺ کو حکم فرمایا کہ.
آپ جنّاتی شیطانوں اور انسانی شیطانوں کے شر سے. اﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگیں.
معلوم ہوا کہ شیاطین کی دو قسمیں ہیں ﴿۱﴾ انسانی شیطان﴿۲﴾ جنّاتی شیطان.
قرآن پاک میں ایک اور جگہ بھی ان دونوں قسم کے شیاطین کا تذکرہ ہے.
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ
وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا
﴿الانعام ۲۱۱﴾
ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے شرارتی آدمیوں اور جنّوں کو دشمن
بنا دیا جو کہ ایک دوسرے کو ملمع کی باتیں دھوکا دینے کے لئے سکھاتے ہیں.
آپ نے قرآنِ پاک کی آخری سورت تو پڑھی ہو گی.’’سورۃ الناس‘‘. اس میں اﷲ
تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو حکم دیا کہ آپ. ’’الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ‘‘ سے اﷲ
تعالیٰ کی پناہ مانگیں. ’’الْوَسْوَاسِ‘‘. بہت زیادہ وسوسے ڈالنے والا.﴿ یہ
مصدر ہے مبالغہ کے لئے﴾. الْخَنَّاسِ پیچھے ہٹ جانے والا، چھپ جانے والا.
یعنی وسوسہ ڈال کر غائب ہوجاتا ہے. اور پھر واپس ہو کر نئے وسوسے ڈالتا ہے.
ہر دن نیا وسوسہ، ہر گھڑی نیا شوشہ. انسان جب’’ذکر اﷲ‘‘ میں لگے تو وسوسہ
ڈالنے والا بھاگ جاتا ہے. مگر جیسے ہی انسان غافل ہوتا ہے یہ دوبارہ وسوسہ
ڈالنے پہنچ جاتا ہے. اصل میں یہ کام تو شیطان کا ہے مگر کچھ انسان بھی
بدقسمتی سے’’شیطان‘‘ بن جاتے ہیں. اور بعض اوقات انسان کا اپنا نفس
بھی’’شیطان‘‘ بن جاتا ہے اور ہر وقت پلٹ پلٹ کر وسوسوں کے حملے کرتا رہتا
ہے. شیطان. خواہ وہ انسان ہو یا جنّ ان دونوں کا وسوسہ انسان کے لئے اتنا
خطرناک ہے کہ اس کی وجہ سے انسان ہر بُرائی میں جا پڑتا ہے اور ہرسعادت سے
محروم ہوجاتا ہے. آپ دین کا کام کر رہے ہیں اور صبح و شام نیکیاں کما رہے
ہیں. اچانک کوئی جنّاتی یا انسانی شیطان آپ کو وسوسے میں ڈالتا ہے. اگر آپ
اُس کا وسوسہ قبول کر لیتے ہیں تو. فوراً دل سے تمام اطمینان ختم ہو جاتا
ہے اور انسان مایوسی اور اندھیرے کے دلدل میں غوطے کھانے لگتا ہے. جنّات کی
نظر تو سیدھی دل پر اثر کرتی ہے. دَھار والے نیزے سے بھی زیادہ تیز. ایسی
نظر لگتے ہی دل بے چین ہو جاتا ہے. اور ایسی شدید تنگی اور الجھن ہوتی ہے
کہ انسان سکون حاصل کرنے کے لئے نشے اور گناہ کی طرف بھاگنے لگتا ہے. اور
دین کا ہر کام اُسے قید اور مصیبت نظر آنے لگتا ہے. اﷲ تعالیٰ نے ہم پر بڑا
احسان فرمایا کہ اس کے علاج کے لئے قرآن پاک کی آخری سورت. سورۃ الناس نازل
فرما دی اور ہمیں سکھا دیا کہ . میں تمہارا ربّ ہوں، میں تمہارا مالک اور
حکمران ہوں اور میں تمہارا معبود ہوں. تم فوراً میری پناہ میں آجاؤ. تم
جیسے ہی میری پناہ میں آؤ گے مکمل طور پر محفوظ ہو جاؤ گے. پھر کوئی بھی
شیطان. خواہ وہ جنّ ہو یا انسان تمہیں اپنے وسوسوں کے جال میں نہیں پھنسا
سکے گا. کوئی بھی شیطان تم سے نورِ ایمان. اور دل کے سکون کو نہیں چھین سکے
گا. کسی جادوگر کا جادو اور کسی نظر لگانے والے کی نظر تمہارا کچھ نہیں
بگاڑ سکے گی. اﷲ اکبر کبیرا . اﷲ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کے بعد پھر کس کی
ہمت ہے کہ. وہ ہمیں نقصان پہنچا سکے.
اس سے پہلے سورۃ الفلق میں چار چیزوں سے پناہ مانگی گئی ہے.
﴿۱﴾ تمام مخلوق کے شر سے﴿۲﴾ اندھیرے کے شر سے جب وہ چھا جائے﴿۳﴾ جادو کرنے
والی عورتوں کے شر سے ﴿۴﴾ حاسدین کے شر سے جب وہ حسد پر اُتر آئیں.
قرآن پاک کی ان دو مبارک سورتوں کو’’معوّذتَین‘‘ کہتے ہیں.
پورا قرآن پاک جو عظیم نعمتیں ہم سب کو عطا فرماتا ہے. یہ نعمتیں کوئی دشمن
ہم سے چھین نہ لے اس کے لئے قرآن پاک کے آخر میں. حفاظت کی یہ دو سورتیں
نازل فرما دیں. جو مسلمان ان دو سورتوں کا اہتمام کرتا ہے وہ اﷲ تعالیٰ کی
حفاظت اور پناہ میں آجاتا ہے. بعض مفسرین نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ. ہر
مسلمان ان دو سورتوں کا بے حد محتاج ہے. اور ان دو سورتوں کی ضرورت سانس
لینے، کھانے پینے اور لباس پہننے سے بھی زیادہ ہے. ان دو عظیم سورتوں پر
تھوڑا آگے چل کر بات کریں گے اُس سے پہلے آپ مجھے ایک سوال کا جواب دیں.
کیا حضور اقدسﷺ سے بڑھ کر کسی کی روحانی طاقت ہو سکتی ہے؟. یقیناً آپ سب کا
جواب یہی ہوگا کہ نہیں، ہرگز نہیں. اﷲ تعالیٰ نے سب سے زیادہ روحانی طاقت
اپنے محبوب تاجدار حرمین ﷺ کو عطا فرمائی ہے. پھر تھوڑا سا اندازہ لگائیے
کہ. جس جادو نے آپﷺ پر بھی اثر کرلیا وہ کتنا خوفناک اور طاقتور جادو
ہوگا؟. یقینی بات ہے کہ اگر وہ جادو مجھ پر یا آپ میں سے کسی پر ہوجاتا تو
اُس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا . آج کل کوئی ایسا جادو گر نہیں جو اتنا تیز اور
سخت جادو کر سکے. ہم سب جانتے ہیں کہ مدینہ منورہ کے ایک یہودی لبید بن
اعصم نے آپﷺ پر جادو کیا. یہ شخص اصل میں تو کافر تھا مگر ظاہری طور پر خود
کو مسلمان قرار دے کر رسول اﷲﷺ کے پاس آتا جاتا تھا. قصہ طویل ہے اور آپ نے
بارہا سنا ہوگا. اصل بات یہ ہے کہ اتنے سخت جادو کے علاج کے لئے اﷲ تعالیٰ
نے یہ دو سورتیں نازل فرمائیں. اور ان دو سورتوں نے اُس جادو کو جڑ سے کاٹ
دیا. معلوم ہوا کہ. یہ دو سورتیں سب سے سخت جادو کو بھی توڑ دیتی ہیں تو
پھر آج کے مسلمان کیوں ہر در کے دھکّے کھاتے پھرتے ہیں اور ان دو سورتوں سے
فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے؟. دراصل یقین، توکّل اور ایمان کی کمزوری ہے.آپ کے
پاس کوئی مسلمان آئے اور بتائے کہ مجھ پر جادو ہے آپ اُسے یہ دو سورتیں بتا
دیں وہ فوراً مایوس ہو جائے گا.کہ مجھے کوئی بڑا علاج ہی نہیں بتایا
استغفراﷲ، استغفراﷲ. اس کی جگہ آپ اُس کو چند تعویذ دیں کہ ان کو یوں موم
لگانا، فلاں پانی چھڑکنا. کسی چراغ میں جلانا. پھر دور دریا میں ڈالنے
جانا. وہ خوش ہو گا کہ اب ٹھیک علاج جا رہا ہے. اناﷲ وانا الیہ راجعون. اﷲ
رب العزت کا عظیم کلام تو مسلمانوں کی نظر میں کچھ نہیں. اور الٹے سیدھے
نفسیاتی شعبدوں کو وہ بہت بڑی طاقت سمجھتے ہیں. بندہ دعوے کے ساتھ عرض کرتا
ہے کہ دنیا بھر کے عاملوں کے عملیات، اُن کے تعویذ، اُن کے چراغ اور اُن کے
شعبدے، ان کے دھاگے اور فلیتے ان دو مبارک سورتوں کی ایک آیت کے کروڑویں
حصے جتنی طاقت بھی نہیں رکھتے. لوگوں کو جو ظاہری فائدہ محسوس ہوتا ہے وہ
محض نفسیاتی اور ذہنی ہوتا ہے.روحانی فائدہ تو روحانیت کے مرکز قرآن پاک سے
ہی مل سکتا ہے.
اخبار میں جاپان کے کسی چالاک تاجر کا قصہ لکھا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو
اپنی پسندیدہ فلم دکھانے لے گیا. دوران فلم بیوی کے سر میں شدید درد ہوا وہ
کراہنے لگی. تاجر درمیان سے اٹھ کر جانا نہیں چاہتا تھا اُس نے فوراً
عاملوں والا حربہ استعمال کیا. بیوی سے کہنے لگا میں امریکہ گیا تھا وہاں
ایک ڈاکٹر نے مجھے بہت ہی مہنگی گولی بتائی کہ بس منہ میں ڈال کر بیٹھ جاؤ
جیسا بھی درد ہو فوراً ٹھیک ہوجاتا ہے. وہ کافی دیر اس گولی کی اہمیت،
فوائد اور قیمت بتاتا رہا اور پھر اپنی قمیض کا ایک بٹن توڑ کر بیوی کے منہ
میں ڈال دیا. دو منٹ بعد بیوی نے لمبا سانس لیا اور کہا عجیب گولی ہے، درد
کا تو نام و نشان ہی ختم کر دیا. آہ مسلمان! تیرے پاس قرآن پاک ہے پھر بھی
کبھی مزاروں کے دھکّے، کبھی عاملوں کے چکّر. کبھی دور دراز کی درگاہوں کی
ذلّت اور کبھی دھوکے بازوں کی مِنّت اور سماجت. اچھا ایک اور بات بتائیں.
حضور اقدسﷺ کے مبارک زمانے کے کافر اور منافق جتنے سخت تھے. کیا ویسے سخت
کافر اور منافق کسی اور زمانے میں ہو سکتے ہیں؟. یقیناً آپ سب کا جواب ہو
گا کہ. ہرگز نہیں. وہ کافر واقعی بہت سخت اور ظالم تھے. آہ میرے محبوب آقاﷺ
کے رخ انور کو دیکھ کر بھی جن کا کفر اور نفاق نہ پگھلا. اُن جیسا سخت بد
نصیب اور کون ہو سکتا ہے؟.ان کافروں اور منافقوں میں بہت سے ’’الْوَسْوَاسِ
الْخَنَّاسِ‘‘ بھی تھے. جی ہاں وسوسے ڈالنے والے. اسلام کے خلاف، رسول اﷲﷺ
کے خلاف. اور دین کے خلاف. کبھی مسلمان ہو جاتے پھر کافر ہو جاتے تاکہ اپنے
ساتھ اوروں کو بھی گھسیٹ کر لے جائیں. صحابہ کرام(رض) سے ملاقاتیں کر کے.
اپنے وسوسے اُن میں منتقل کرنے کی کوشش کرتے اور طرح طرح کے الزامات اور
طرح طرح کا رونا روتے. اﷲ تعالیٰ نے حضرات صحابہ کرام(رض) کو یہ دو سورتیں
عطا فرمائیں. ان دو سورتوں میں ہر طرح کی جسمانی اور روحانی آفتوں سے حفاظت
کا سامان ہے. حضرات صحابہ کرام(رض) نے ان مبارک سورتوں سے خوب فائدہ اٹھایا
اور ہر طرح شیطان سے الحمدﷲ محفوظ رہے. آج بھی تمام مسلمان کو عموماً اور
دین کا کام کرنے والوں کو خصوصاً ان دو سورتوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے. اب
ان دو سورتوں کے بارے میں اگلی عبارت خوب غور سے پڑھیں. بلکہ کوشش کریں کہ
دو بار پڑھ لیں. مجھے اﷲ تعالیٰ سے امید ہے کہ آپ کے بہت سے مسائل انشا اﷲ
حل ہو جائیں گے.
’’حافظ ابن قیم(رح) نے معوذتین کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ان دونوں سورتوں کے
منافع و برکات بے شمار ہیں اور سب لوگوں کو ان کی حاجت و ضرورت ہے. کوئی
ایک انسان بھی ان سے مستغنی نہیں ہو سکتا.ان دونوں سورتوں کو سحر، نظر بد،
آفاتِ جسمانی اور امراضِ روحانی کے دور کرنے میں تاثیرِ عظیم ہے. اور حقیقت
کو سمجھا جائے تو انسان کو ان کی ضرورت سانس لینے، کھانے پینے اور لباس
پہننے سے بھی زائد ہے. یہ تو ہر مؤمن کا عقیدہ ہے کہ دنیا و آخرت کے منافع
و نقصانات سب اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، بغیر اُس کی مشیّت کے کوئی کسی کو
ذرہ برابر نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان. اس لئے دنیا و آخرت کی تمام آفات سے
محفوظ رہنے کی اصل صورت یہی ہے کہ انسان اپنے آپ کو اﷲ تعالیٰ کی پناہ میں
دے دے. اور اپنے عمل سے اس کی پناہ میں آنے کے قابل بننے کی کوشش کرے. ان
دو سورتوں میں سے پہلی سورت﴿الفلق﴾ میں تو دنیوی آفات سے اﷲ تعالیٰ کی پناہ
مانگنے کی تعلیم ہے . اور دوسری سورت﴿الناس﴾ میں اُخروی آفات سے بچنے کے
لئے اﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا طریقہ سکھایا گیا ہے. یا یہ کہیے کہ سورۂ
فلق میں جسمانی شرور سے اور سورۂ ناس میں روحانی آفات سے پناہ مانگنے کی
تعلیم دی گئی ہے. مستند احادیث میں ان دو سورتوں کے بڑے فضائل اور برکات
منقول ہیں‘‘.﴿ درسی تفسیر ص ۵۸۴﴾
انشا اﷲ رنگ و نور کی کسی مجلس میں. ان دو سورتوں کے مسنون فضائل اور کچھ
مجرب طریقے عرض کر دیئے جائیں گے. فی الحال تو اس عظیم خزانے کی طرف توجہ
دلانا مقصود ہے کہ مسلمان اس کی قدر و قیمت کو پہچانیں. جو لوگ جادو، نظر
یا وساوس میں مبتلا ہیں. وہ روزآنہ سو سو بار ان دو سورتوں کا اہتمام کریں.
جو اپنے دینی کاموں اور جماعت کے بارے میں وساوس میں مبتلا ہیں وہ بھی یہ
عمل پوری توجہ سے کریں. اور دونوں سورتیں ہر بار بسم اﷲ الرحمن الرحیم کے
ساتھ پڑھیں. اور پہلی مرتبہ اعوذ باﷲ من الشیطن الرجیم بھی پڑھ لیں. فتنوں
کی کثرت کیو جہ سے کم از کم صبح شام گیارہ بار، یا سات بار ان دو سورتوں کا
ہر مسلمان کو اہتمام کرنا چاہئے. ورنہ تین بار تو کبھی ناغہ نہ کریں. ایک
بات اور یاد رکھیں کہ’’عمل‘‘ وہی ہوتا ہے جسے انسان خود کرے. بے شک دوسروں
کے دم کرنے سے بھی اثر ہوتا ہے مگر وہ تو اس دم کرنے والے کا عمل ہوا. اب
اگر اُس کے دل میں اخلاص ، تقویٰ اور آپ کے لئے خیر خواہی ہے تو آپ کو بھی
فائدہ پہنچے گا. اور اگر اُس کی نظر صرف آپ کی جیب پر ہے تو ایسے عمل سے
کیا مل سکتا ہے. ہمارے معاشرے میں آج کل دونوں طرح کے عامل موجود ہیں. صاحب
نسبت مخلص بھی اور محض پیشہ وَرْ بھی. لیکن جب آپ خود پڑھیں گے تو یہ آپ کا
’’عمل‘‘ ہوگا. اور اصل ’’عمل‘‘ ہوتا ہی وہی ہے جو انسان خود کرے. ایسا
’’عمل‘‘ انشا اﷲ ضرور کارگر ہوگا. آپ سوچیں گے کہ کرکٹ کا میدان گرم ہے.
اور سیمی فائنل کا میچ دشمن ملک میں ہو رہا ہے.ہمارے وزیراعظم صاحب بھی سج
دھج کر اس مقتل میں جائیں گے. اس پر تو ایک کالم ہونا چاہئے تھا. دراصل بات
یہ ہے کہ آج پیر کا دن ہے . اخبار بُدھ کے دن شائع ہوگا اور آپ حضرات تک
جمعرات یا جمعہ کو پہنچے گا. اُس وقت تک تو ہاتھ دُھل چکے ہوں گے. ہم کرکٹ
کے خلاف جتنا لکھیں، مسلمان باز نہیں آتے. یہ کھیل بھی مستقل شیطانی وسوسہ
ہے اس لئے اس کا علاج بھی یہی ہے کہ. اﷲ تعالیٰ سے پناہ مانگی جائے. بعض
لوگ سوچتے ہیں کہ ہم نے تیونس اور مصر کے مظاہروں کی حمایت کی جبکہ. بحرین
کے مظاہروں پر کچھ نہیں لکھا تو ایک بات بالکل صاف صاف عرض ہے. ہم نہ
جمہوریت پسند ہیں اور نہ بادشاہت پسند. ہم تو صرف اور صرف خلافت پسند،
اسلام پسند، جہاد پسند اور توحید پرست ہیں. ہماری حمایت یا مخالفت کا معیار
کوئی طرز حکومت نہیں بلکہ اسلام ہے. جہاں ہمیں اسلام کا فائدہ قریب یا دور
نظر آئے گا وہاں حمایت کریں گے. اور جہاں نقصان نظر آئے گا وہاں مخالفت
کریں گے. اندھی حمایت نہیں کہ جو بھی ڈنڈا اٹھا کر کھڑا ہو جائے ہم اُس کے
پیچھے تالی بجا دیں. ’’سوریا‘‘یعنی’’شام‘‘ میں جو مظاہرے ہو رہے ہیں ہم دل
و جان سے اُن کے حامی ہیں. اور دل کی گہرائیوں سے دعا کرتے ہیں کہ. اﷲ
تعالیٰ مُلک شام کو آزادی نصیب فرمائے. حافظ الاسد اور اب اُس کے بیٹے بشار
الاسد نے مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے ہیں وہ کسی بھی طرح. تاتاری مظالم سے
کم نہیں. اﷲ کرے ان بد عقیدہ بھیڑیوں کا اقتدارجلد ختم ہو اور مُلک شام
دوبارہ عالم اسلام کی تگ و تاز کا مرکز بن جائے. آمین یا ارحم الراحمین
اللھم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک و سلم تسلیما کثیرا کثیرا |