دوسری جنگ عظیم کے بعد ۱۹۴۵ کو ۲۴ اکتوبر کا سورج طلوع
ہوا تو ہر طرف ایک ہی آوازہ بلند تھاکہ اب ظلم کی گردن ٹوٹ جائے گی، ظالم
کے ہاتھ کٹ جائیں گے، ہر کوئی دوسرے کا محافظ بن جائے گا اورانصاف کا بول
بالا ہوگا۔ کسی گورے کو کسی کالے پر یا کسی کالے کو کسی گورے پر، کسی
طاقتور کو کسی غریب پر یا کسی غریب کو کسی طاقتور پر کچھ اہمیت اور فوقیت
حاصل نہ ہوگی۔ یہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی اور ہر سو قانون کی
بالادستی کا پرچار ہو گا۔ ہاں ہاں بلا تفریق قومیت اور مذہب کے انسانیت
پروان چڑھے گی۔ اس مقصد کے لیےکائنات کے نقشے پر ایک ایسا ادارہ اُبھر ا جس
کا انگریزی میں نام United Nations Organization رکھا گیا ہے۔اردو میں
ترجمہ کروں تو "قوموں کے اتحاد کی تنظیم” ، مزید یہ کہ اقوام متحدہ کے نام
سے جانا جاتا ہے۔
اس خوبصور ت نام اور بامعنی مقصد کے پیش نظر مختلف ممالک اس تنظیم کی آغوش
میں پلنے لگےہیں۔ ابتدامیں تو تعداد مختصر تھی مگر بعد میں یہ تعدا د بڑھتی
بڑھتی اقوم متحدہ کی آفیشل ویب سائیٹ کے مطابق ۱۹۳ تک جا پہنچی ہے جن میں
پاکستان بھی سرفہرست ہے۔ جبکہ ایک محتاط اندازے کےمطابق کل ممالک ۱۹۵ ہیں۔
اس ادارے کے اخراجات یہی ممالک ہی برداشت کرتے ہیں۔ اس تنظیم کی ساخت میں
جنرل اسمبلی، سیکیوررٹی کونسل ،معاشی اور سماجی کونسل، ٹرسٹ شپ کونسل، بین
الاقوامی انصاف کی عدالت اورسیکرٹریٹ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تمام حصے اپنی
اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام سرانجام دیتے ہیں۔
ظلم و بربریت کی روک تھام کے لیےان میں سے جانے پہچانے نام اقوام متحدہ کی
جنرل اسمبلی اور عالمی عدالت ہیں۔ عالمی عدالت کا کام اپنے قواعد وضوابط کے
مطابق انصاف کو یقینی بنانا اورجنرل اسمبلی وہ ایوان ہے جس میں ہرسال اجلاس
منعقد ہوتاہے۔ جس کا صرف ایک ہی مطلوب ومقصود ہےکہ ہر ملک اپنے درپیش مسائل
کو بیان کرےتاکہ اُن کا بروقت مناسب حل تلاش کیا جائے اور اس اجلاس کی ساری
کاروائی براہ راست نشر کی جاتی ہے جسےتمام ممالک کے لوگ گھر بیٹھے بآسانی
دیکھ سکتے ہیں۔ لہذا تمام ممالک کے اعلٰی عہدوں پر فائز لوگ اقوام متحدہ کی
جنرل اسمبلی کی طرف سفر کرتے نظر آتے ہیں اور ایوان میں اپنی نمائندگی ظاہر
کرتے ہیں۔یوں عوام کے ٹیکس کے پیسےیعنی سرکاری خزانے سے ایک خطیر رقم صرف
ہو جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے قیام کو ستر سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ مگر بد قسمتی
کا عالم یہ ہےکہ انھی سالوں میں انسانیت سوز معاملات دیکھنے کو ملے ہیں اور
یہ تمام عموماً امت مسلمہ پر ہی تھے۔ جو کہ تقریباً 1.9بلین مسلمانوں کے
ساتھ دنیا کا دوسر ا سب سے بڑا مذہب ہے۔ جسے اسلام کے نام سے جانا جاتاہے۔
عقیدے کے اعتبار سےاس مذہب سے وابستہ لوگ ایک اللہ پر یقین رکھتے ، آخری
نبی حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اپنا رہبر و رہنما مانتے ہیں اور
تمام انبیاؑ پر یقین رکھنا اپنا ایمان کامل سمجھتےہیں۔ مگر مسلم امہّ کے
لوگ اسی اقوام متحدہ کی موجودگی میں ظلم وبربریت کا نشانہ بنتے نظر آئے،
ہاں ہاں لہومیں تربتر دیکھے گئےہیں۔جس کا منہ بولتا ثبوت آج کا سوشل
میڈیا، الیکٹرونک میڈیا اور اخبارات میں چھپنے والی شہ سُرخیاں ہیں۔ جن
ملکوں میں یہ خون کی ہولی کھیلی گئی ہے ان میں برما، فلسطین ، شام ، عراق
،لیبیا اور افغانستان وغیرہ شامل ہیں۔ جن میں لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ
اُتار دیا گیا، آزادی جیسی نعمت سے محروم کر دیا گیا، خطرناک کیمیائی بموں
سے حملے کیے گئے، مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا، بچوں کو چُھریوں سے ذبح کیا
گیا، گھروں کو مسمار کر دیا گیا، جمع پونجی لوٹ لی گئی، عورتوں سے زیادتی
کے واقعات اور دیگر مصائب سے دوچار کیا گیا ہے۔
اسی طرح بھارت کی ریاست گجرات میں انگریزی کیلنڈر کے مطابق ۲۰۰۲ میں گودھرا
ریل آتشزدگی کی آڑ میں مسلمانوں پر جھوٹا الزام لگایا گیا اور بی ۔جے ۔پی
پارٹی کے رکن نریندر مودی جو اس وقت کے وزیر اعلٰی تھے کی سرپرستی میں
ہزاروں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی ،عورتوں کی عصمتوں کو پامال کیا گیا اور
لوگ بے گھر ہوئے مگر کسی ہندو کےخلاف کوئی مقدمہ درج نہ ہوا۔ افسوس اب یہی
نریندر مودی بھارت کا وزیر اعظم بن چکا ہے یعنی بھارتی ریاست کے مکمل
اختیارات کا کنٹرول رکھتا ہے۔ اس نے اقتدار میں آتے ساتھ ہی کشمیر کی
سالمیت پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے دستور ۳۷۰ اور ۳۵ اے کا خاتمہ ہی نہیں کیا بلکہ
اس کے ساتھ مظلوم کشمیری مسلمانوں پر ظلم ڈھانا شروع کردیا ۔
اس سے قبل بھی ۷۰ برس سےکشمیر میں ظلم کی داستان رقم ہو رہی ہے مگر اب اس
میں کچھ تیزی آچکی ہے۔ تقریباً نوّے لاکھ کشمیریوں پر ۹ لاکھ بھارتی فوج
تعینات ہے۔ ہر روز کئی کشمیریوں کو شہید اور درجنوں کو درد ناک طریقے سے
زخمی کردیا جاتا ہے۔ زخمی ہونے والوں میں لوگ آنکھوں جیسی پُرنور نعمت سے
محروم ہوئے، قدم کاٹ دیے گئے، بازو جسم سے جدا کر دئیے گئےاور طرح طرح کے
زخم دئیے گئے ہیں جن کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ مگر اب کشمیر کے
مسلمانوں کوکئی دنوں سے گھروں میں محصور کر دیا گیا ہے ،مارکیٹیں مکمل طور
پر شٹر ڈاؤن ، ہسپتال بند گویا کے ہرطرف جنگل کا سناٹا چھایا نظر آتا ہے
۔ہاں ہاں اگر کسی کے ہاں گھر میں کھانے کو راشن نہیں توبھوک سے بلک رہا ہے
۔ بیمار بیماری سے مر رہے ہیں اور بچے دودھ کی غیر دستیابی سے دم توڑ چکے
ہیں۔ لوگوں نے اپنے مردوں کو گھروں میں ہی دفن کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس
سارے گھناؤنے فعل کو کرفیو کا نام دیا جاتا ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں
ملتی ۔
روزنامہ ایکسپریس لاہور میں۱۴ اکتوبر ۲۰۱۹ کو چھپا ” عمران مسئلہ کشمیر کو
اٹھاتے رہیں دنیا کچھ نہیں کرے گی ،مزید ۴ ماہ کرفیو رہے گا :بھارت”۔
سچی بات ہے یہ وہ مسئلہ کشمیر ہے جس کے حوالے سے اقوام متحدہ متعدد بار
قراردادیں پیش کرچکی ہےکہ کشمیر کے لوگوں کو حق خودارادیت میں آزادی حاصل
ہوگی یعنی اپنا فیصلہ کرنے میں مکمل آزاد ہوں گے۔ مگر ہندوستان نے ان
قراردادوں پر کچھ عمل نہیں کیا بلکہ مزید ظلم کی داستانیں رقم کیں ہیں۔اور
اقوام متحدہ ان قراردادوں پر عمل کروانے میں بے بس نظر آتی ہے۔
حال ہی میں اقوام متحدہ کا اجلاس ستمبر میں ہوا ہےجس میں ترکی کے صدر طیب
اُردوان نے بھی اپنی شرکت یقینی بنائی اور اُنھوں نے اپنی تقریر کے دوران
اسرائیل کی بدعنوانیوں کا ذکر کرتے ہوئےایک کاغذکے ٹکڑے کو بلند کیا جس پر
دنیا کا نقشہ بنا ہواتھا اور انھوں نے حاضرین کو متوجہ کرتے ہوئے کہاایک
وقت تھا جب فلسطین اس نقشے پر پھیلا ہوا تھا اوراسرائیل انتہائی محدودتھا
مگر آج اسرائیل پھیلا ہوا ہے جبکہ فلسطین سُکڑ چکاہے۔ یعنی فلسطین دنیا کے
نقشے سےغائب ہوتا جا رہا ہے۔
یہ بات ایک حقیقت ہے کہ امت مسلمہ کے لوگ اقوام متحدہ کی اس خاموشی پر
سراپا احتجاج تو نظر آتے ہیں ۔مگر یہ احتجاج تاحال عام عوام تک ہی محدود
ہے جس کو کوئی میڈیا کوریج نہیں ملتی۔صرف چند ایک ممالک کے سربراہان جو
اپنی آواز کو ظلم کے خلاف بلند کرتے ہیں باقی سب معیشت کی بھاگ دوڑ میں
مصروف عمل ہیں۔شاعر انجم لدھیانوی کے الفاظ میں
دوستی بندگی وفا و خلوص
ہم یہ شمع جلانا بھول گئے
ایک محتاط اندازے کے مطابق اسلامی ممالک کی تعداد ۶۰ کے لگ بھگ ہے مگر ان
میں سے ہر ایک دوسرے پر ہونے والے ظلم سے لاپرواہ ہو چکا ہے۔ لاپرواہ ہی
نہیں بلکہ ذاتی معاملہ قرار دے کر ردّی کی ٹوکری کا حصہ بنا دیا
جاتاہے۔کوئی ایک بھی انسانی ہمدردی میں ظالم کے خلاف عملی اقدامات نہیں
کرتاہے۔ بلکہ اقتدار کو طول دینے کے لیے تو بھر پور طریقے سے سراپا احتجاج
نظر آتے ہیں۔آج دل خون کے آنسو روتا ہے کہ اقوام متحدہ سےکیا شکوہ کریں؟
ہمارے اپنے ہی پرائے ہوچکے ہیں۔
شاعر کے الفاظ میں
اپنے بیگانوں میں میں نے فرق کچھ پایا نہیں
اس لئے لب پر کوئی شکوہ کبھی لایا نہیں
اسلامی ممالک کا یہ رویّہ ان کے اتحاد پرہی ایک سوالیہ نشان ہے ۔یعنی ہر
کسی کو اپنے پر ہونے والا ظلم خو د ہی سہنا پڑے گاکوئی دوسرے کےدکھ درد میں
برابر کا شریک نہ ہوگامگر ہاں مذمت کا لفظ ضرور استعمال ہو جائے گا۔ باقی
مظلوم جانے یا ظالم ۔دوسرا یہ کہ مسلمان حکمران کل قیامت کو اللہ کی عدالت
میں پیش ہوں گے تو کیا جواب دیں گے ؟ محمد عربی ﷺکو کیا چہرہ دکھائیں گے؟۔
قرآن کریم کی سورہ المائدہ کی آیت نمبر ۳۲ میں ارشاد ہے۔
جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے کے بٍغیر یا زمین میں فساد (روکنے) کے
علاوہ قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا، اور جس نے کسی کو
زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی بخشی۔
داغ دہلوی کے الفاظ میں
اڑ گئی یوں وفا زمانے سے
کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں
ہر سال ۱۰ دسمبر کو پورے جوش خروش سے انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا
ہے۔جس میں مسلمان ، عیسائی ، ہندو، سکھ ، بدھ مت ، یہودی یعنی ہر مذہب کے
لوگ برابر کے شریک ہوتے ہیں مگر بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ یہ دن صرف منانے
تک ہی محدود ہو چکا ہے اس کا عملی مظاہرہ کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔
|