حکومت کو خوف کس چیز کا ہے ۔؟

حکومت کی کارکردگی نہایت شاندارہے ،وزیراعظم جنرل اسمبلی میں تاریخی تقریرکرنے کے بعد اب سعودی عرب اورایران کے درمیان ثالثی کے عظیم مشن پرہیں ،عسکری قیادت اورحکومت ایک پیج پرہیں ،نیب اور عدالتیں بھی حکومت کی پشت پرہیں ،میڈیامیں اتنادم نہیں کہ حکومت مخالف تحریک کی کوریج کرسکے ،سیاسی مخالفین جیلوں میں قیدہیں چندایک جوآزادہیں انہیں بھی جیلوں میں بھیجنے کی تیاریاں کی جارہی ہے ،تین صوبوں میں پاکستان تحریک انصاف اوران کے اتحادیوں کی حکومت ہے ،وزاراء ،مشیروں اورخصوصی معاونین کی ایک لمبی قطارہے ،اوران تمام کی کارکردگی بھی شاندارہے ،ماشاء اﷲ یہ وزیراورمشیرایسے ہیں کہ مخالفین کوبولنے بھی نہیں دیتے ۔

وزیراعظم کشمیریوں کامقدمہ لڑچکے ہیں اب فیصلے کاانتظارہے ،افغان طالبان رابطے میں ہیں ،امریکہ ہماراشکرگزارہے کہ ہم نے افغان امن مذاکرات بحال کرانے میں اہم کرداراداکیاہے ،چین سے بھی وہ غلط فہمیاں دورہوگئی ہیں جوپی ٹی آئی کی حکومت کے اقتدارمیں آنے کے بعد پیداہوئی تھیں ،برطانوی شاہی جوڑابھی پاکستان کی سیرپرہے ،تاجروں کوبھی بتادیاگیاہے کہ ان کے مسائل حل کردیئے جائیں گے ،باغی ججزکوبھی لگام ڈالی جارہی ہے ،وزیراعظم ریاست مدینہ کاباربارنعرہ لگارہے ہیں جس کی وجہ سے انہیں چندنامی گرامی مذہبی رہنماؤں کی بھی حمایت حاصل ہے ،دینی مدارس بھی حکومت سے رابطے میں ہیں کیوں کہ ان کے مسائل حل ہونے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے ،مہنگائی اوربے روزگاری اگلے تین ماہ میں ختم ہونے کی نویددی جارہی ہے ،پچاس لاکھ گھروں کاشاہکارمنصوبہ شروع ہوچکاہے ایک کروڑنوکریاں دینے کی منصوبہ بندی بھی کرلی گئی ہے،

ایف اے ٹی ایف بھی ہماری کارکردگی سے مطمئن ہے،جہادیوں اورشدت پسندوں کابھی خاتمہ کیاجاچکاہے ،توہین رسالت کے تین ملزموں کوعدالتوں نے بری کردیاہے ایک ملزمہ کوہم سرکاری پروٹوکول کے ساتھ بیرون ملک بھیج چکے ہیں،سکھ کمیونٹی بھی ہم سے خوش ہے کرتارپورہ راہداری کھولنے کابھی ہم ساماں کرچکے ہیں،پی ٹی آئی کاسوشل میڈیاونگ مکمل فعال ہے وہ جوجس کی پگڑی اچھالے اسے مکمل آزادی ہے اورسوشل میڈیاونگ کوزاراء کی مکمل سرپرستی حاصل ہے یہ سب کچھ ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کوڈرکس بات کاہے ؟خوف کس چیزکاہے کہ مولانافضل الرحمن کانام آتے ہی وہ خواب میں بھی ڈرکراٹھ جاتے ہیں ۔

دوسری طرف مولانافضل الرحمن کے پاس نہ حکومت ہے نہ وزارت ہے ،وہ الیکشن ہارچکے ہیں ان کے پاس قومی اسمبلی کی صرف 16نشستیں ہیں ،22نمبربنگلہ وہ خالی کرچکے ہیں ،انہوں نے پورے ملک میں پندرہ بڑے بڑے مظاہرے کیے میڈیانے ان کی کوریج نہیں کی ،فاٹاانضمام کی انہوں نے مخالفت کی مگرحکومت نے ان کی نہیں مانی ،آج بھی ان کی پریس کانفرنس کی کوریج پرپابندیاں لگائی جارہی ہیں ،مولاناکی نہ کوئی آف شورکمپنی ہے اورنہ ہی فیکٹریاں ہیں ،مولاناسے سرکاری سیکورٹی واپس لی جاچکی ہے ،حکومتی دباؤ کی وجہ سے مدارس بھی ان کے ساتھ کھل کرکھڑے نہیں ہورہے ،دیگرچھوٹی موٹی مذہبی جماعتیں بھی مولاناکے ساتھ نظرنہیں آرہی ہیں ۔

اپوزیشن جماعتیں بھی کماحقہ ان کے ساتھ نہیں ہیں ،مسلم لیگ ن کے صدرشہبازشریف محاذآرائی کے مخالف ہیں ،بلاول نے بھی واجبی سی حمایت کی ہے ،مولاناسیاسی رہنماء ہیں شدت پسندی کی انہوں نے ہمیشہ مخالفت کی ہے یہی وجہ ہے کہ انہیں تین مرتبہ خودکش حملوں کے ذریعے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی حال ہی میں کوئٹہ میں ان کے مرکزی رہنماء مولاناحنیف کوشہیدکردیاگیا جس سے واضح ہوتاہے کہ وہ نہتے بھی ہیں توایک نہتے مولاناسے حکومت خائف کیوں ہے ؟

مولاناپریہ اعتراض کیاجارہاہے کہ جس احتجاج اوردھرنے کی وہ مخالفت کرتے تھے آج خود اسی راستے پرکیوں نکل کھڑے ہوئے ہیں پہلی بات تویہ ہے کہ پانچ سال قبل اپوزیشن کواس طرح سے دیوارسے نہیں لگایاگیاتھا جس طرح سے آج اپوزیشن کوکچلا جارہاہے ،2014میں عوام اس عذاب کاشکارنہیں تھے جس عذاب کاموجود حکومت میں شکارہیں ،پانچ سال قبل ملک کی نظریاتی وجغرافیائی سرحدیں تبدیل نہیں کی جارہی تھیں ،ملک میں ترقی کاپہیہ جام نہیں ہواتھا دوسری بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تووزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں تقریرکرتے ہوئے بڑی رعونت اورتکبرسے اپوزیشن کودعوت دی کہ آؤ ڈی چوک میں دھرنادو کنٹینراورکھانابھی دیں گے ،مولانافضل الرحمن نے 27اکتوبرکوآزادی مارچ کااعلان کیاتووزیراعظم کابیان شائع ہواکہ مولانااب بھاگنانہیں ۔تواچانک ایساکیاہوااب حکومت بھاگ رہی ہے حکومت نے پہلے دھرنے کی دعوت دی مگراب پتلی گلی ڈھونڈرہی ہے ،جس سے واضح ہوتاہے کہ حکومت کمزوروکٹ پرہے ،اسے اپنی ناپائیداری کاخوف کھائے جارہاہے ،یہی وجہ ہے کہ جھوٹ کابازارسجایاجارہاہے منفی پروپیگنڈہ کیاجارہاہے ،حکومتی اپنی کارکردگی دکھانے کی بجائے باتوں اوربھڑکیلے بیانات سے لوگوں کے دل بہلانے کی ناکام کوشش کررہی ہے ،طوفان بدتمیزی برپاہے۔

وزیراعظم عمران خان نے اقتدارمیں آنے سے قبل قوم سے جووعدے کیے تھے وہ ان سب سے یوٹرن لے چکے ہیں ان کے پاس پی ٹی آئی کے کارکنوں کومطمئن کرنے کے لیے کوئی کارنامہ موجود نہیں ان کاتوشہ خالی ہے البتہ مخالفین کوزیرکرنے کے لیے ان کی کمانوں میں الزام تراشیوں کے تیربے شمارہیں اوریہی ان کی حکومت کررہی ہے ،مولانافضل الرحمن کے آزادی مارچ کوروکنے کی سنجیدہ کوشش کی بجائے دھمکیوں اوربہتان طرازیوں سے کام لیاجارہاہے ۔اگرپی ٹی آئی کی حکومت عوام کورام کرنے میں کامیاب ہوچکی ہوتی توظاہرہے کہ انہیں ان چیزوں کاسہارہ نہ لیناپڑتا۔آج پی ٹی آئی مکافات عمل کاشکارہے جواس نے بویاتھا وہی کاٹنے جارہی ہے مگرفرق یہ ہے کہ سابقہ حکومتوں نے نہایت حکمت عملی سے پی ٹی آئی کوناکام کیاتھا اب پی ٹی آئی اپنی غیرسنجیدگی سے احتجاجی مارچ اوردھرنے کوکامیاب کرنے جارہی ہے ،مولاناآزادی مارچ شروع کرنے سے قبل ہی بہت کچھ حاصل کرچکے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت چنددنوں میں بہت کچھ کھوچکی ہے ۔

مولانافضل الرحمن نے پرسب سے بڑااعتراض یہ کیاجارہاہے کہ احتجاج ،مظاہروں اوردھرنوں کے ذریعے حکومت کاخاتمہ جمہوری عمل نہیں پارلیمنٹ کے ذریعے تبدیلی لائی جائے یہ اعتراض کرنے والے کتنے بھولے ہیں پارلیمنٹ میں چیئرمین سینٹ کی تبدیلی کے الیکشن کوچندہی دن ہوئے ہیں کہ اپوزیشن کی جمہوری تحریک کوکس طرح غیرجمہوری طریقے سے ناکام کیاگیا اوراس پرفخربھی کیاجارہاہے ،جمہوریت یہی ہے کہ اکثریت کوحکومت کاحق دیاجائے توپھرسینٹ کے ایوان میں اکثریت متحدہ اپوزیشن کی ہے ان سے یہ حق کیوں اورکس نے چھیناہے کس کے حکم پریادباؤپراپوزیشن کے سینٹ ارکان کے ضمیرکاسوداکیاگیا کیاجمہوری معاشروں میں اس طرح ہوتاہے اگرنہیں ہوتاتوپھرمولانافضل الرحمن کوبھی حق دیجیے کہ وہ احتجاج اورمظاہروں کے ذریعے حکومت کوگھربھیجنے کی کوشش تو کریں ۔

ایک اعتراض یہ کیاجارہاہے کہ ماضی میں احتجاج اوردھرنوں کے ذریعے حکومتوں کاخاتمہ نہیں ہوا،سوال یہ ہے کہ ایک چیزاگرماضی میں نہیں ہوئی تومستقبل بھی نہیں ہوگی ؟تاریخ میں ایسی متعدد حکومتیں رہی ہیں جن کا اچانک ہی خاتمہ ہوگیا۔ اچانک اقتدار کے خاتمے کے ان واقعات نے باضابطہ اختیارات کے حامل سربراہانِ ریاست کو اقتدار سے ہٹایا، مضبوط ترین اور حد سے زیادہ کٹھ پتلی وزرائے اعظم کی حکومت کا خاتمہ کیا، بلکہ ہٹائے گئے سربراہانِ حکومت کی جگہ پر کرنے کے لیے لائے جانے والے بقیہ وزرائے اعظم بھی نہ بخشے گئے۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اقتدار کے خاتمے کی چکرا دینی والی وجوہات میں موت (ایک بار)، قتل (2 بار)، سربراہ ریاست کی جانب سے مبینہ عہدے سے برطرفی (6 بار)، جبری استفعی (8 بار)، کمزور عدالتی فیصلے (2 بار)، مارشل لا (4 بار)، مشکوک اسمبلی ووٹ(دو بار) اور سڑکوں پر احتجاجی مظاہرہ (ایک بار) شامل ہیں۔کیایہ سب طریقے جمہوری تھے ؟جب ووٹ کوپامال کیاجائے گا جب اکثریت کواقلیت میں تبدیل کیاجائے گا توپھرسیاسی جماعتوں کے پاس احتجاج اوردھرنوں کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتاہماری تاریخ اس کی گواہ ہے ۔
 

Umer Farooq
About the Author: Umer Farooq Read More Articles by Umer Farooq: 129 Articles with 81212 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.