اس دفعہ مرکزی تربیت گاہ لاہور کے لیے جماعت اسلامی
ضلع اسلام آباد اور کراچی ضلع غربی کے کارکنان کا انتخاب کیا گیا ۔مرکزی
تربیت گاہ کے نا ظم جناب حافظ سیف الرحمان صاحب نے تربیت گاہ کے لیے جامع
مسجد منصورہ میں بہترین انتظام کیاہوا تھا ۔ تربیت کے لیے آنے والے کارکنوں
میں تقسیم کیے گئے نظام اوقات کے مطابق سارے مقررین وقت پر تشریف لائے اور
اپنے اپنے مضامین کے ساتھ مکمل انصاف کیا۔ کارکنوں نے بھی مکمل یک سوئی کے
ساتھ سارے پروگرام سنے اور دل لگا کر تربیت حاصل کی۔ رہائش اور کھانے کا
انتظام بھی مناسب تھا۔منصورہ کی جامع مسجد میں ہرفجر کی نماز کے بعد روزانہ
تھوڑی دیر کے لیے مولا ناعبدالمالک صاحب شیخ الحدیث کا درس حدیث ہوتا رہا۔
پروگرام سے پہلے ایک دن لطف الرحمان صاحب اور ایک دن حافظ سیف الرحمان صاحب
نے اجتماہی طور پر مسنوں دعائیں یاد کرائیں۔جماعت اسلامی ضلع اسلام آباد کے
امیرنصراﷲ رندھاوا صاحب اور سیکرٹیری زبیر صفدر صاحب نے پورے پروگرام میں
بڑی ہمت سے صدارتی فرائض انجام دیے۔تربیتی پروگرام کے نظام اوقات کے مطابق
کاروائی ۴؍ اکتوبر ساڑھے آٹھ بجے تلاوت قرآن پاک سے شروع ہوئی۔ اس کے
بعدکراچی کے ایک کارکن محمدمنیر صاحب نے انگریزی زبان میں․․․ we are the
muslim umma․․․ ترانا سنا کرحاضرین کے دل گرمائے۔افتتاعی کلمات کے لیے امیر
جماعت اسلامی ضلع اسلام آبادجناب نصراﷲ رندھاوا صاحب کو اسٹیج پر بلایا
گیا۔آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا۔ہم اﷲ کی رضا کے لیے ایک لمبا سفر طے کر کے
لاہور جماعت اسلامی کے مرکزمنصورہ میں تین دن کے لیے تربیت حاصل کرنے کے
لیے آئے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اپنے وقت کا صحیح
ترین استعمال کرتے ہوئے اس تربیت گاہ سے فاہدہ اُٹھائیں ۔ وقفوں کے دوران
وقت نکال کر مرکزی رہنماؤں سے تعارف حاصل کریں۔ یہ تربیتی پروگرام ہماری
دینی دنیوی ضرورت پوری کرتے ہیں۔اس تربیتی پروگرام سے زیادہ سے زیادہ فاہدہ
حاصل کر کے واپس میدان عمل میں اُتر کر اﷲ کے دین کو قائم کرنے میں مصروف
عمل ہو جائیں۔ اسلام آباد اور کراچی کے کارکن ایک دن پہلے ،یعنی۳ ؍اکتوبر
کو رات گئے اس تربیت گاہ لاہور منصورہ پہنچ گئے تھے۔
۴ ؍اکتوبر رجسٹریشن کے بعد صبح ۸ بج کر ۳۰ منٹ پرپہلا پروگرام درس قرآن
بعنوان’’میر راستہ اﷲ کا راستہ۔میں اﷲ کی طرف بلاتاہوں‘‘ تھا۔جناب ڈاکٹر
اشتیاق گوندل صاحب کے ایمان افروز کلمات سے شروع ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر
غور سے دیکھا جائے قرآن میں اُردو زبان کے کافی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔
اس لیے قرآن سمجھنا آسان ہے۔یہ قرآن صرف مسلمانوں کے لیے نہیں اُترا ۔ قرآن
سارے انسانوں، جس میں عیسائی، یہودی، ہندو اور سکھ بلکہ سارے انسانوں کے
لیے بھی اُترا ہے۔ اس لیے کہ اﷲ سارے انسانوں کا رب ہے صرف مسلمانوں کا رب
نہیں۔ اس طرح رسولؐ اﷲ سارے انسانوں کے پیغمبر ؐ ہیں صرف مسلمانوں کے نہیں۔
قرآن میں جب لفظ ’’ قل‘‘ آیا ہے۔ یعنی جب اﷲ اپنے پیغمبرؐ سے کہے کہ قل
یعنی کہو ۔ تو ہمیں بھی سب سے پہلے پیارے پیغمبر صلی اﷲ وسلم کی طرف متوجع
ہونا چاہیے۔اس لیے کہ آپؐ اﷲ کے پیغمبرؐ ہیں، یعنی پیغام پہنچانے والے ہیں۔
اس لیے پیغمبر ؐ پر ایمان لانا ضروری ہے۔بقول شاعر اسلام علامہ شیخ محمد
اقبال:۔
نگاہ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآن ،وہی فرقان، وہی یسیٰس ،وہی طہٰ۔
انہوں نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ جو رسولؐ دے وہ لے لو۔ جس
چیز سے روکے رک جاؤ۔ دوسری بات ،کیوں کہ اﷲ کے دین کو قائم کرنے والے سارے
مسلمان ہیں اس لیے ہمارے دلوں میں ان کے لیے وسعت ہونی چاہیے۔خاص کر جماعت
اسلامی کے کارکنوں کے دلوں میں وسعت زیادہ ہونی چاہیے۔ ویسے بھی انسان کے
اخلاق اچھے ہونے چاہییں۔رسولؐ اﷲ مکارم اخلاق کے لیے اُٹھائے گئے ہیں۔اس
لیے جن کے اخلاق اچھے ہیں وہ ہی رسولؐ اﷲ کے قریب تر ہیں۔حقوق العباد سب
پہلے ہیں۔رسولؐ اﷲ نے کافروں کے سامنے پہلے اخلاق پیش کیے تھے۔اسی لیے کافر
آپ کو صادق وامین کہتے تھے۔ آپ نے جب اﷲ کے حکم سے اﷲ کے دین کو پھیلانے کے
اعلان عام کیا تو کوہ صفا پہاڑپر چڑھ کر کافروں کو پکارا’’ یا صبا حایا
صباحا ‘‘ صبح کا خطرہ صبح کا خطرہ۔ رسولؐ اﷲ نے قریش کے لوگوں سے کہا میں
اگر میں تم سے کہوں کی پہاڑ کی دوسری طرف خطرہ ہے تو مانوں گے۔ سب نے یک
زبان ہوکر کہا ہم مانیں گے کیونکہ آپ صادق اور امین ہیں۔ یعنی سچ بولنے
والے ہیں۔جب رسولؐ اﷲ نے کہ سنو، اﷲ ایک ہے ۔ میں اﷲ کا پیغمبرؐ ہوں ،تو وہ
فوراً پلٹ گئے اور آپ ؐ کو برا بھلا کہنے لگے۔گوندل صاحب نے اپنے خطاب میں
کہا کہ اﷲ کی طرف بلانے والے کچھ لوگوں نے ایک چیز عام کر دی ہے کہ دین پر
چلنا مشکل کام ہے۔جبکہ اﷲ قرآن کہتا ہے کہ دین پر عمل کرنا میں نے آسان
بنایا ہے۔رسولؐ اﷲ نے بھی یہی تعلیم دی کہ دین کا کام کرنا بہت آسان ہے۔خاص
کرجب لوگ اجتماہی طور پر کام کریں تو اﷲ آسانیاں پیدا کر دیتا ہے۔ پھر دین
کا کام کرنے والے کچھ حضرات یہ بات بھی عام کرتے رہتے ہیں کہ اسلام میں
دولت کمانا ناپسندیدہ کام ہے۔ بکری کے مرے ہوئے بچے کی مثا لیں ،غلط انداز
میں بیان کر کے عام آدمی کا ذہن ایسا بنا دیتے ہیں کہ لوگ اس کو ناپسندیدہ
ہی سمجھنے لگتے ہیں۔حالاں کہ اﷲ جن عشرہ مبشرہ صحابہؓ سے راضی ہوا، ان میں
چھ مالدار تھے۔ اس لیے مسلمانوں کو دولت مند ہونا چاہیے تاکہ وہ اﷲ کی راہ
میں خرچ کر سکیں۔کیا دنیا کی ساری آسائشیں اور دولت صرف کافروں کے لیے پیدا
کی گئی ہے۔کیا علامہ اقبالؒ نے قرآن کی تفسیر بیان کرتے ہوئے عام مسلمانوں
کو سمجھانے کے لیے شکوہ جواب شکوہ میں نہیں کہا تھا:۔
قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حورو قصور۔
اور بیچارے مسلماں کوفقط وعدہ حور
پہلے دن کادوسرا پروگرام ’’سوشل میڈیا کا موثر استعمال اور توازن‘‘ تھا۔ اس
کے لیے سید وقاص جعفری صاحب کو بلایا گیا۔ انہوں نے فرمایا کہ قرآن میں لفظ
’’بیان ‘‘سے مراد کسی چیز کا ابلاغ کرنا ہے۔یعنی بیان کرنا ہے۔ چائے وہ چیز
صحیح ہو یا غلط۔ ابلاغ کے ذریعے ہی سے انسانوں کی تذکیر کی جاتی ہے۔ اب تو
ابلاغ کی بے انتہا ترقی ہوگئی ہے ۔ ایسے ایسے ذرائع ایجاد ہو گئے ہیں کہ آپ
کچھ بھی کہیں تو ساری دنیا ایک سیکنڈ میں آپ کی بات سن سکتی ہے۔ چائے وہ
بات صحیح ہے یا غلط۔جب نیا نیالاؤڈ اسپیکر ایجاد ہوا تو علماء نے اسے حرام
قرار دے دیا تھا۔ مگرمولانا موددیؒ نے کہا تھاکہ آپ لاؤڈ اسپیکر کی بات
کرتے ہیں، کوئی ایساآلہ ایجاد ہو، کہ اس کے ذریعے میری بات پوری دنیا سنے
میں اسے بھی حلال قرار دیتا ہوں۔ چاقو کا کیا قصو رہے۔ ڈاکو اس سے قتل کرتا
ہے اور ڈاکٹر اس سے عمل جرائی کرتا ہے۔ ابلاغ کی افادیت نیایت ضروری ہے۔
نئی نئی ایجادات نے دنیا کا رخ بدل دیا ہے۔ ہمیں بھی ابلاغ کے ان ذرائع کو
استعمال کر کے قرآن کے پیغام کواچھی طرح عوام میں پھیلاناچاہیے۔ ان ذرائع
کو استعمال کر کے ہم اﷲ کے پیغام کو اﷲ کے بندوں تک آسانی اور جلد از جلد
پہنچا سکتے ہیں۔سوشل میڈیا بھی ابلاغ کی ایک قسم ہے اسے زیادہ سے زیادہ
استعمال کر نا چاہیے۔ ایک سروے کے مطابق دنیا کی سات ارب آبادی میں سے سوا
تین ارب لوگ اسمارٹ فون استعمال کرتے ہیں۔ہر نئی آنی والی ٹیکنالوجی پہلے
سے موجود ٹیکنالوجی کو مات کر دیتی ہے۔اسمارٹ فون کے ذریعے آپ پوری دنیا کی
باتیں سمجھ سکتے ہیں۔لوگوں سے رابطہ کر سکتے ہیں۔آپ گھر بیٹھے بیٹھے ضرورت
کی ہر شے ای مارکیٹنگ کے استعمال سے خرید سکتے ہیں۔فیس بک،ٹیوٹر،ووٹس ایپ
تقریباً ۶۰ سے ۶۵؍ ایجادات سے دنیا فاہدہ اُٹھا رہی ہے۔پاکستان کے تین کروڑ
لوگ فیس بک استعمال کرتے ہیں۔ان ٹیکنالوجیز نے اپنی اپنی سلطنتیں قائم کر
رکھی ہیں۔مشہور مقرر عطا اﷲ شاہ بخاری صاحب عشاء کے وقت تقریر شروع کرتے
تھے تو فجر تک جاری رہتی تھی۔ اب لوگوں کے لیے اتنی آسانی پیدا ہو گئی ہے
کہ کسی مقرر کی تقریر سننے کے لیے ساری رات جاگنا نہیں پڑھتا ۔بلکہ کسی بھی
وقت، کہیں بھی ،کسی کی بھی تقریر آپ یوٹیوپ پرگھر بیٹھے بیٹھے سن سکتے ہیں۔
اگرہمیں میڈیا کی افادیت سمجھنا ہے تومشہور دو کیسوں پر غور کریں۔پہلے کیس
میں با اثر لوگوں نے مجرم شاہ زیب کو بچانے کی بہت کوشش کی ،مگر سوشل میڈیا
پر جاری مہم نے اسے سزا دلائی۔اسی طرح ایک سابق صدر کے داماد عرفان اﷲ مرو
ت ، سندھ میں نون لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ مگر
مرحومہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی صاحب زادیوں نے اسے پسند نہیں کیا اور سوشل
میڈیا پر مہم چلا کر اسے روک دیا۔یہ صحیح ہے کہ سوشل میڈیا میں برائی بھی
اور اچھائی بھی ہے۔ ہمیں سوشل میڈیا کی اچھائی اپنا کر فاہدہ حاصل کرنے
چاہیے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا نے انسان کی معلومات میں اضافہ تو
کیا مگر انسان کو نقصان بھی پہنچایا۔سوشل میڈیا نے لوگوں کو ننگا کر
دیا۔ہمیں سوشل میڈیا کی اچھائی کو استعمال کر، دنیا میں اسلام کا پیغام
پہنچانا ہے۔ مولانا سید ابو اعلی موددیؒ کہتے تھے کہ قرآن اور سنت کی دعوت
کو لے کر اُٹھو اور پوری دنیا پر چھاجاؤ۔ہمارے پاس موددیؒ کے اس پیغام کو
پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کا ٹول موجود ہے۔ اس سے فاہدہ اُٹھا نا چاہیے۔
پہلے دن کا تیسرا پروگرام’’ اسلامی تحریکات اور عصر حاضر‘‘ جناب
عبدالغفارعزیز کا تھا۔ انہوں بات شروع کرنے سے پہلے شرکاء پروگرام سے مخاطب
ہو کر کہاکہ آپ دور دراز سے محنت کر جہاں تشریف لائے ہیں۔ اﷲ آپ کی محنت
قبول فرمائے اور ہماری قسمت بدل دے۔ اﷲ تو فرد کی رائی برابرنیک کام کو بھی
بہت پسند کرتا ہے۔ عبدالغفار عزیز صاحب کے آنے کے خلا کے دوران اسٹیج سیکر
ٹیری نے راقم کو(صدی کا بیٹا سید ابو اعلی موددیؒ ) مضمون پڑھنے کا موقعہ
دیا گیا۔ بعد میں عبدالغفار عزیز صاحب نے بھی اپنی تقریرصدی کا بیٹا سید
ابو اعلیٰ موددی ؒ ہی سے شروع کی۔انہوں نے بتایا کہ مووددیؒ ۱۹۰۳ء میں پیدا
ہوئے۔ ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔حسن البناؒ نے اس سے قبل مصر
میں اﷲ کے دین کو اﷲ کی زمین پر قائم کرنے کا کام شروع کر دیا تھا۔اﷲ کے اس
نیک بندے کو اﷲ کے باغیوں نے شہید کر دیا۔حسن ا لبناؒ موذنوں کو فجر کے وقت
منادی کر کے جگایا کرتا تھا۔حسن البناؒ نے فحاشی کے خلاف کام کیا۔فحاشی
پھیلانے والوں کے نام خطوط لکھا کرتا تھا۔۱۹۰۶ء میں پیدا ہوا ۔۲۳ سال کی
عمر میں صرف چھ افراد کے ساتھ مل کر کام کا آغاز کیا۔ان چھ افراد نے حسن
البناؒ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ تنظیم کے نام پر مشاورت ہوئی تو اس تنظیم کا
نام اخوان المسلمین نا م رکھا گیا۔سارے عالم عرب کے لوگ حسن البناؒ اور سید
ابو علی مودددیؒ کو اپنا دینی و سیاسی رہبر مانتے ہیں۔ ان دونوں رہنماؤں نے
حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کرکے دنیا کے سامنے رکھا۔ فروری ۱۹۴۹ء کو
مصر میں حسن البناؒ کو ظالموں نے شہید کردیا۔اس کے بعد پوری اخوان المسلمین
تنظیم کو مصر کی جیلوں میں قید کر دیا گیا۔ حسن البناؒ کے جنازے میں شرکت
سے لوگوں کو روک دیا گیا۔ گھر کے صرف چار افراد جنازے میں شریک ہو سکے۔ اُس
وقت سید قطبؒ امریکا میں مقیم تھے۔ اِس واقع پرسید قطبؒکے کان کھڑے ہوئے ۔
بلکہ اس واقع نے سید قطب ؒ کو مفسر قرآن میں بدل دیا۔ سید قطبؒ نے فی ظلال
القرآن مشہور معروف قرآن کی تفسیر لکھی۔ عبالغفار عزیز صاحب نے بتایا کہ
ایک لمحہ بھی مصر، مراکش اور تیونس میں نہیں گرزا ہو گا کہ اخوان المسلمین
فرعونوں کے عتاب میں نہ رہی ہو۔اخوان کا ہر کارکن ۲۰۔ ۲۰ سال قید کی صعبتوں
سے گزرا ہے۔حبیب ابو رقیبا اور زین العابدین ے اخوان پر ظلم ستم کے پہاڑ
توڑے۔،مگر یہ لوگ پہاڑوں کی طرح باطل کے سامنے ڈٹے رہے۔ان فرعونوں کو
اسلامی شعار سے نفرت تھی۔ مگر اﷲ کا کرنا کہ جب زین العابدین فوت ہوا تو
ایک تو اس کے جنازے میں صرف چالیس لوگ شریک تھے اور یہ سارے کے سارے باریش
تھے۔جن داڑھی والوں کووہ ختم کرنا چاہتا تھا وہ زندہ جاوید اس کے جنازے میں
شریک تھے۔آج تیونس اسلامی نظام زندگی کے رائج کرنے میں تمام اسلامی ملکوں
سے آگے آگے ہے۔جہاں تک مصر کی بات ہے تو اب بھی ۷۰ ہزار اخوان جیلوں میں و
قید ہیں۔سا بق منتخب صدر مرسی اعلی تعلیم یافتہ تھا۔اس کے ساتھی بھی اعلی
تعلیم یافتہ ہیں۔ یہ لوگ فجر کی نماز کی آواز سن کر فوراًمسجد باجماعت
نمازادار کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ وقت کے فرعون سیسی نے ان اعلی تعلیم یافتہ
لوگوں کو،اور ان کے لیڈر جوجمہوری طریقے سے منتخب ہوئے، سابق صدرمرسی کو
ناکردہ گناؤں کی پادائش میں چھ سال سے لوہے کے ایک پنجرے میں بند کر کے قید
تنہائی میں رکھا گیا۔ فرعونی عدالت میں آخری پیشکی پر کمرہ عدالت میں بیان
دیتے ہوئے ،جج کو مخاطب کرتے ہوئے ،مرسی نے کہاکہ جج صاحب حکمرانوں نے مجھے
ختم کرنے کے لیے چھ سال سے ایک لوہے کے پنجرے میں قید تنہائی میں بند رکھا
ہوا ہے۔ اور عدالت میں اس بیان کے بعد گر کر جان دے دی۔ مرسی ؒاور سید قطب
ؒکو اﷲ نے پہاڑ جتنا دل دیا تھا۔ عبدالغفارعزیز نے حاضرین سے کہاکہ کیا ہم
ایسی شہادت کے لیے تیار ہیں؟جب سیدقطب ؒکو پابند سلاسل رکھا ہوا تھا تو ان
سے کہا گیا کہ صرف معذرت کی ایک سطر لکھ دیں۔ اسی طرح مرسیؒ سے بھی کہا
گیاکہ آپ ایک سطر لکھ دیں تو آپ کو رہائی مل سکتی ہے۔ مگر مرسیؒ نے کہا کہ
جب تک میرے ۷۰ ہزارساتھیوں کو چھوڑ نہیں دو گے میں کوئی بات سننے کے لیے
تیار نہیں۔اب اﷲ کا کرنا کہ مصرمیں محمد علی نام کا ایک گورنمنٹ ٹھکیدار
ہے۔ یہ شخص اربوں کا مالک بن گیا۔ اس شخص نے مصر میں ڈکٹیٹر سیسی کے خلاف
کرپشن کی مہم، سوشل میڈیا پرچلائی ہوئی ہے۔ اس نے ظالم ڈکٹیٹر سیسی پر
کرپشن کے الزامات لگائے ہیں۔اس نے مصری عوام سے کہا کہ ڈکٹیٹر سیسی کرپٹ
ہے۔ مصری عوام کے اربوں ڈالر ہڑپ کر چکا ہے۔ سیسی کے خلاف مصر کے عام لوگ
اُٹھ گھڑے ہوئے ہیں۔ ۲ ہزار لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔اس ٹھکیدار نے
سوشل میڈیا کے ذریعے مصری عوام کو بتایا کہ ایک جرنل کے مکان کے سامنے ایک
قطہ زمین خالی پڑا ہوا ہے ۔ اس نے اپنی زمین کی قیمت بڑھانے کے مجھ سے
مطالبہ کیا کہ میرے گھر کے سامنے خالی زمین پر ۵؍ اسٹار ہوٹل کی بنیا دایک
دن کے اندر اندر رکھو۔محمد علی ٹھکیدار نے کرپٹ اورظالم مصری فوجیوں کے
خلاف مہم چلائی ہوئی ہے۔ ان کو جب قربانیاں دینے والے لوگ نہیں مل رہے تو
یہ اخوان المسلمین سے رابطہ کر رہے ہیں کہ وہ ہمارا ساتھ دیں۔ اپنی تقریر
کے آخر میں عبدالغفار عزیز صاحب نے کہا کہ جب اﷲ چاہے گا مصر میں مثبت
تبدیلی آئے گی۔اس کے بعد دوپہر کے کھانے اورنماز جمعہ کا وقفہ ہوا۔ اس کے
بعد پروگرام میں سارے کارکنوں کو مختلف ٹولیوں میں بانٹ کر کئی گروپوں بنا
دیے گئے۔ ان گروپوں کو ڈسکشن کے لیے کہا گیا۔گروپوں نے اجتماعی مطالعہ کر
کے دین کو قائم کرنے کے طریقوں پر سیر حاصل بحث کی۔
اس کے بعد پہلے دن کے آخری پروگرام ’’ حکومت الہیٰہ کا قیام‘‘ کے لیے نائب
امیر جماعت اسلامی پاکستان اور سابق ناظم اعلی اسلامی جمعیت طلبہ، جناب
راشد نسیم کو اسٹیج پر بلایا گیا۔ آپ نے سروے کی غرض سے حاضرین سے کہا کہ
۴۰ سال سے کم عمر کے لوگ ذرا گھڑے ہوجائیں۔پھر آپ نے جماعت اسلامی کے
تاسیسی اجلاس کو یاد کراتے ہوئے، تاسیس میں شامل لوگوں کی عمریں بتائیں۔ ۷۵
؍لوگوں میں سے۶؍ لوگ ۴۰ سال سے زیادہ تھے باقی کم۔ مولانا ؒ ۳۸ سال کے
اورمیاں محمد طفیل ۲۷ سال کے اورباقی لوگ بھی نوجوان تھے۔اب بھی ملت
اسلامیہ کی آبادی کے پاس ۶۵ فی صد نوجوان ہیں۔یہ اﷲ کی خاص مہربانی ہے۔
انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ پہلے رسولؐ اﷲ نے مدینے کے
اندر اسلامی فلاحی جہادی ریاست قائم کی ۔ پھر اس ریاست کو خلفائے رشدینؓ نے
کامیابی سے چلا کر دینا کو دکھایا۔ آج بھی یہ حکومتیں مسلمانوں کے لیے
آئیڈئیل حکومتیں ہیں۔پھر بادشاہت آئی۔ آخر میں ۱۹۲۴ء میں ترک عثمانی خلافت
کو صلیبیوں نے پہلی جنگ عظیم کے بعد ختم کر کے ترکی میں ۱۰۰ سالہ معاہدے کے
تحت قوم پرست کمال اتاترک کے ذریعے سیکولر حکومت قائم کی۔ راشد نسیم صاحب
نے ایک حدیث پر روشنی ڈالتے ہوئے تفصیل بیان کی، کہ رسولؐاﷲ نے فرمایا۔
پہلے مدینے کی اسلامی ریاست ،پھرخلافت راشدین کا دور، پھر بادشاہت کادور ،
پھرجبر کا دور، جو اب گزر رہا ہے۔ اور آخر میں منہاج النبوۃ قائم ہوگی۔اﷲ
تعالی نے یہ کام اپنے بندوں کے ذریعے ہی کرانا ہے۔ اس تشریع کے بعد راشد
صاحب نے کہا کہ واقعہ یہ ہے کہ مسجدوں میں نوجوانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ان
شاء اﷲ یہ جوان ہی حکومت منہاج النبوۃ قائم کریں گے۔ پاکستان میں اسلام کی
طرف عوا م کارجوع بڑھ رہا ہے۔ عورتوں کے پردے کے متعلق ایک سروے کے حساب سے
پاکستان میں ۵۰ فیصد عورتیں برقعہ اور ۴۰ فی صد چادر اُڑتیں ہیں۔۲فی صد
بغیر پردے کے ہیں۔اﷲ کے دین کو قائم کرنے میں مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے
فرمایا کہ مصر میں منتخب صدر مرسی کو چھ سال ایک لوہے کے پنجرے میں بند
رکھا گیا۔ کھانے کے لیے پنجرے کے نیچے سے ایک ہفتہ کے لیے سوکھی روٹیاں ڈال
دی جاتی تھیں۔ناکردہ گناؤں کی معافی کے لیے کہا جاتا تھا۔مگر مرسیؒ مجاہدنے
معافی نہیں مانگی۔مشرقی پاکستان میں پاکستان بچانے کے لیے جماعت اسلامی کے
مرکزی رہنماؤں کو بھی معافی کے لیے کہا جاتارہا مگر کسی نے بھی معافی نہیں
مانگی اور تختہ دار پر چڑھ کر اسلاف کی یاد تازہ کر دی۔مشرقی پاکستان جماعت
اسلامی کے رہنماؤں پر الزام ہے کہ انہوں نے پاکستانی فوج کا ساتھ دیا۔
مشرقی پاکستان میں شہید ہونے والوں نے ،ظا لموں سے کہا کہ پاکستان لا الہ
الااﷲ کے نام سے بنا ہے۔ ہم اسے مسجد سمجھتے ہیں۔ ہم نے مسجد بچانے کے لیے
پاکستانی فوج کاساتھ دیا۔ سیاسی جماعتوں کے کردار کی بات کرتے ہوئے، راشد
نسیم صاحب نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنی اپنی حکومت قائم کرنے
کے لیے جدو جہد کرتیں ہیں۔ مگر جماعت اسلامی سیاست صرف حکومت الہیٰہ قائم
کرنے کے لیے کرتی ہے۔اسی لیے جماعت اسلامی اپنے کارکنوں کے لیے ایسی تربیت
گاہوں کا انتظام کرتی ہے کہ کارکن حکومت الہیٰہ قائم کرنے کی تیاری کریں۔ان
شاء اﷲ پاکستان میں حکومت الہیٰہ قائم ہو گی اور ایسی تربیت گاہوں سے گزر
کر جماعت اسلامی کے کارکن حکومت الہیٰہ قائم کریں گے۔اس لیے ہمارے کارکنوں
کو حضرت یوسف ؑ کی طرح بہترین پاک دامنی اور اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہو
گا۔بادشاہ جب لوگوں کو اپنا بندہ بناتے ہیں تو ان پر اﷲ کا سایہ نہیں
ہوتا۔جن پر اﷲ کا سایہ ہو گا، وہی حکومت الہیٰہ قائم کریں گے۔ خلفائے
راشدین ؓکا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ خلیفہ اوّل حضرت ابو بکرؓ کی بیوی نے
ایک دفعہ سویٹ ڈش بنا دی ۔ خلیفہ ؓنے پوچھا یہ کیسے بن گئی ۔ بیوی نے کہا
کہ میں تھوڑاتھوڑا آٹابچا لیتی تھی۔ ایک دن راشن میں اس بچے ہوئے آٹے کی
سویٹ ڈش بنائی ہے۔خلیفہ ؓنے بیت مال کے انچارج سے کہا کہ بھائی ہمارے راشن
میں اتنا آٹا فاضل آجاتا ہے اسے کم کر دو۔ہمارے دوسرے خلیفہ حضرت عمر
ؓراتوں کومدینے کی گلیوں میں گھوم پھر کر اپنے عوام کی حالت کا جائزہ
لیاکرتے تھے۔ جب ہمارے حکمرانوں کا رویہ ان جیسا ہو گا تو پھر اﷲ کاسایہ ان
حکمرانوں پر ہو گا۔ جماعت کے کارکنوں کو اس تربیت کے بعد اپنے اپنے علاقوں
میں جاکر حکومت الہیٰہ قائم کرنے کی تیاری شروع کر دینی چاہیے۔
۵؍ اکتوبردوسرے دن کا پہلا پروگرام درس قرآن تھا۔ اس کا عنوان’’ رزق حلال
کی اہمیت و فضیلت قرآن روشنی میں‘‘ اس پروگرام کے لیے پروفیسر قاری محمد
عظمت صاحب کو زحمت دی گئی۔انہوں نے اپنی گفتگو میں فرمایا کہ اﷲ سوائے اپنی
ذات کے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے محفوظ رکھے۔اﷲ کہتاہے کہ میرے بندے مجھ
سے مانگیں۔انسان کہتا کہ اﷲ میں صرف تیرا بندہ ہوں۔اے اﷲ مجھے اپنی غلامی
میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرما۔ ایسے ہی ہم لوگ کشمیریوں کے ۷۰ سال سے
دعائیں مانگ رہے ہیں، مگر ہماری دعائیں قبول نہیں ہو رہیں۔ہم پھر بھی اﷲ ہی
دعا کرتے ہیں ۔اے اﷲ کشمیریوں کی
مددفرما،عراق،شام،روہنگیا،افغانستان،بوسینا،چیچنیا،جہاں جہاں مسلمانوں پر
ظلم ہو رہا ہے ان کی مدد فرما۔اﷲ تیرے پیارے نبیؐ کانام کو پکار پکار کر
،اﷲ تیرے سے مدد مانگ رہے ہیں،اﷲ ہماری مدد فرما۔اﷲ قرآن کوہمارے دلوں کا
نور بنا دے۔ایسا قرآن پڑھنا سیکھا دے، جیسے صحابہ کرام ؓ پڑھتے تھے۔اﷲ ایسا
قرآن سننا نصیب فرمادے جیسے اس کے سننے کا حق ہے۔قرآن کو ہمارے دلوں میں
بسا دے۔جب ایسی حالت ہو گی تو قرآن انقلاب لائے گا اور ملک میں انقلاب
آجائے گا۔تمدن میں ، معاشرت میں اور سیاست میں انقلاب آئے گا۔ یہ انقلاب
جماعت اسلامی کے کارکنوں کے ہاتھوں آئے گا۔ایک قاعدہ ہے کہ جوقرآن کو
اُٹھاتا ہے قرآن اس کو اُٹھاتا ہے۔جو قرآن کو گراتا ہے قرآن اس کو گرادیتا
ہے۔ سید ابو اعلیٰ مودددیؒ نے فرمایاتھا کہ قرآن اور حدیث کو لے کر اُٹھو
اور ساری دنیا پر چھا جاؤ۔یاد رکھیں انقلاب طرف دعاؤں سے نہیں آئے گا۔اس
لیے ہمیں جد وجہد کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا۔اﷲ کے رسولؐ کا کام اﷲ
کے بندوں تک اﷲ کا پیغام پہنچانا اور اس پر عمل کرانا تھا۔اسی طرح اﷲ کے
رسولؐ کی سنت پر عمل کر کے ہم اسلامی انقلاب لا سکتے ہیں۔ہم کو کلمہ طیبہ
کو عام کرناہوگا۔ کلمہ خبیثہ کوکو ختم کرنا ہو گا۔قرآن کے حلال کیے کوعام
کرنا ہو گا اور حرام کو ختم کرنا ہو گا۔غیبت،رشوت،زیادتی،بدکاری، ساری
برائیوں کو ختم کرنا ہو گا۔محبت ، اخوت،صلہ رحمی کو عام کرنا ہو گا۔کرپشن
کو ختم کرنا ہو گا۔ نیب کے سابق انچارج فصیح بخاری صاحب کے مطابق پاکستان
میں روزانہ ۱۲؍ ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ اب تو یقیناً اس سے زیادہ ہوتی
ہو گی۔ہم سب کو مل کر اس کرپشن کے ناسور کو ختم کرنا ہے۔اس میں ایک دوسرے
کی مدد کرنا ہو گی۔کرپشن نے ملک کو کنگلا کر دیا ہے۔جب کرپشن ختم ہو جائے
گی تو پھر ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔پروفیسر قاری
محمدعظمت صاحب نے فرمایا کہ سرکاری بیان کے مطاق ۲۰۰؍ ارب ڈالر اور سول
ذرایع کے مطابق۳۷۵؍ارب ڈالر پاکستانیوں کے باہر ملکوں میں پڑے ہیں۔ اگر
کوئی حکومت یہ روپے باہر سے پاکستان لے آئے تو ہمیں کسی سے قرضے لینے کی
ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ کام صرف حلال روزی پر یقین رکھنے والے ہی لا سکتے
ہیں۔اﷲ ہمیں حلال روزی عطا فرمائے۔
دوسرے دن کا دوسراپروگرام، جناب مشاق احمد خان سینیٹر اور امیر جماعت
اسلامی خیبر پختوخواہ کا تھا۔ بعنوان’’ سارلار کاروان ہے میر احجاز اپنا‘‘
کے تحت انہیں اسٹیج پر تشریف لانے اور گفتگو شروع کرنے کی دعوت دی
گئی۔انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے
پیغمبر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو سراج المنیرکہہ کر پکارا ہے۔یعنی
چمکنے والاسورج۔جس کے ذکر کو اﷲ بلند کرے اس کی کیا شان ہے۔ماننے والوں اور
نہ ماننے والوں نے ان کے حق میں لکھاہے،لکھ جارہا ہے اور لکھا جاتا رہے
گا۔ہمارے لیے عشق کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنے پیغمبرؐ سے بے انتہا محبت
کریں۔مال ودنیا،ماں باپ،بچوں سے زیادہ محبت اپنے پیغمبرؐ کی محبت ہے۔ایک
صحابی ؓ سے معلوم کیا گیا کہ رسولؐ اﷲ کیسے تھے۔ وہ کہنے لگامجھے نہیں
معلوم۔ استفار پر بتایا کہ ہمیں رسولؐ اﷲ کی طرف آنکھ بھر کے دیکھنے کہ ہمت
ہی نہیں ہوتی تو کیا بتائیں کہ وہ کیسے تھے۔ ایک دفعہ باہر سے روم کا سفیر
آیا اور رسولؐ اﷲ کی محفل کا جائزہ لے کر واپس اپنے بادشاہ کے دربار میں
گیا۔ روداد سناتے ہوئے گویا ہوا کہ رسولؐ اﷲ کو ماننے والے اس کے سامنے دست
بدستہ کھڑے رہتے ہیں۔ اس کی محفل میں اس کی باتیں خاموشی سے سنتے ہیں۔وہ جو
حکم دیتا ہے تو وہ دوڑ پڑھتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے تم نہیں لڑ سکتے۔لہٰذاآپ ا
س سے لڑائی کا سوچو بھی نہیں۔اﷲ کے رسولؐ نے جہالت کے نظام کو یک سر ختم کر
کے اﷲ کا نظام قائم کیا۔ہمارے نبی ؐان پڑھ تھے۔مگر اپنی امت کو رسول ؐ اﷲ
نے علم اور معلومات کے خزانے دیے۔یہ ان کا ہی اعزاز ہے۔اس لیے امت مسلمہ کو
پڑھا لکھا ہونا چاہیے۔رسولؐ نے یہ تک کہا تھا کہ اگر علم حاصل کرنے کے چین
، یعنی دُور دراز،جانا پڑھے تو جاؤ اور علم حاصل کرو۔یہ امت محمدیؐکا اعزاز
ہے۔ہم داعی اﷲ ہیں۔ہم نے اﷲ اور رسول ؐ کا پیغام اس دنیا میں عام کرنا اور
اسے نافذ بھی کرنا ہے۔ وہ پر امن اسلامی انقلاب جس میں ۵۶ سریے اور ۲۶ غزوے
ہوئے مگر ان لڑائیوں میں صرف سیکڑوں لوگ ہلاک ہوئے اورنظام قائم ہو
گیا۔جماعت اسلامی پاکستان میں کل ۳۵۰۰۰ ہزارمرد ارکان اور۵۰۰۰ ہزار خواتین
ارکا ن ہے جو اس عظیم کام کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ہمیں اس تعداد کو
بڑھانا ہو گا۔سیرت کا اگر گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ
اس جدوجہد میں عورتوں کاکافی رول ہے۔ اس لیے ہمیں خواتین میں کام کو بڑھانا
ہو گا۔ شروع کی خواتیں کا معاشرے میں نمائیں مقام تھا۔ام المومنین حضرت
خدیجہ ؓتجارت کرتی تھیں۔ ان کا امپورٹ ایکسپورٹ کاکاروبار تھا۔ام لمومنین
حضرت عا ئشہ صدیقہ ؓ شاعرہ ، عالمہ اور طبیبہ تھیں۔ انہوں نے کئی حدیثیں
بھی بیان کی ہیں۔اس لیے ہمیں بھی عورتوں کو معاشرے میں اعلیٰ مقام دینا ہو
گا۔ جب عورتیں مردوں کے کام میں برابر کی شریک ہو جائیں گے تو اسلامی
انقلاب کا راستہ زیادہ آسان ہو جائے گا۔ہمارے ملک پاکستان کی آبادی کے ۶۵
فی صد نوجوان ہیں۔ہمیں ان نوجوانوں کو جماعت کے ہراول دستے کے طور پر شامل
کرنا چاہیے۔ اﷲ ہمارا مدد گار ہو۔
اس بعد تربیتی نشست کے انچارج حافظ سیف الرحمان صاحب نے منصورہ لاہور کی
مختصر تاریخ حاضرین کے سامنے بیان کی۔انہوں کہا کہ منصورہ پورے دنیا کی
اسلامی تحریکوں کا ہیڈ کواٹر ہے ۔ساری اسلامی تحریکیں جمات اسلامی کو مدر
تنظیم مانتی ہیں۔اس جگہ کو جس کمیٹی نے خرید تھا اس نے اس کا نام منصورہ
رکھا تھا۔مدرسہ نصرت سے یہ نام نکلا ہے۔ اس کا کل رقبہ ۲۳۲ کنال ہے۔ اس میں
جماعت اسلامی کی ملکیت ہے۔ ۱۶۰ کنال ہے باقی جماعت اسلامی کے لوگوں کی ذاتی
ملکیت ہے۔جماعت اسلامی کے نظم نے اپنے لوگوں کوترکیب دی تھی کہ منصورہ کے
ارد گرد کی زمین خریدیں۔منصورہ کی سامنے آبادی جماعت اسلامی کے لوگوں کی
ہے۔منصورہ میں کل۹۰۰؍ افراد کی آبادی ہے۔۱۵۰ گھر وں میں کچھ گھرجماعت
اسلامی کے لوگوں کے ہیں۔قاضی حسین صاحب کا گھر بھی منصورہ میں ہے۔الیکشن
ووٹ تقریباً ۵۵۰ نکلتے ہیں۔۱۶۰ کنال جماعت کی جگہ میں جماعت اسلامی کے
دفاتر ہیں۔ایک بلڈنگ میں جماعت اسلامی کے مختلف شعبے ہیں۔پہلے جماعت اسلامی
کا ہیڈ کواٹر اچھرا میں تھا۔ضلع اٹک میں جماعت اسلامی کے ایک ہمدرد نے
جماعت اسلامی کاہیڈ کواٹر بنانے کے یے جگہ دی تھی۔مشاورت کے بعد اس جگہ کو
فروخت کرکے پہلے منصورہ میں ۸۰ کنال جگہ ۱۹۶۸ء میں خریدی گئی تھی۔ اس کے
برابر۵۵ کنال پر ایک شخص جو مولانا ثنا اﷲ امرت سری کا نواسہ تھا کی ملکیت
تھی۔ اس جگہ فلمیں بنانے کاا سٹڈیو تھا۔ جس میں وہ مذہبی فلمیں بناتا
تھا۔جب پہلی دفعہ جگہ خریدی گئی تھی تو اسٹڈیو کے مالک پریشان ہوا اور کہا
کہ ہم تو فلمیں بنائیں گے۔ آپ نے تودین کا کام کے لیے جگہ خریدی ہے۔ لہٰذا
یہ میری جگہ بھی آپ خریدلیں۔میں آپ کو فروخت کرنے کے لیے تیار ہو۔ مشاورت
کی گئی۔ مگر پیسے موجود نہیں تھے۔ مودددیؒ نے کہا کہ بھائی ٹھیک ہے آپ اپنا
کام کرتے رہیں ہم آپنا کام کرتے رہیں گے۔جماعت اسلامی کے پرانے کارکن صفدر
صاحب نے بتایا کہ اس جگہ پہلے دفعہ مولاناگلزار احمد مظاہریؒ صاحب نے جمعہ
پڑھایا۔اس میں اسٹڈیو کا مالک بھی شریک تھا۔ پھر۱۹۷۸ء میں جہاد افغانستان
بھی شروع ہو گیا اور مجائدین منصورہ آنے لگے توجگہ کی ضرورت پڑی۔اُس وقت
جماعت اسلامی کے امور خارجہ کے سفیرحامدی صاحب کی مدد سے کویت کے وفد نے
جگہ کا معائنہ کیا اورفنڈ کا انتظام ہو گیا۔ پھر ۵۵ لاکھ روپے میں یہ
اسٹڈیو والی جگہ خرید لی گئی۔ اسٹڈیو کے مالک نے بھی ۵ لاکھ فنڈ میں بھی
دیے۔ اسٹڈیو کی بلڈنگ میں کافی عرصہ وپرگرام ہوتے رہے۔اب اسٹڈیو کی بلڈنگ
خستہ حال ہو گئی ہے۔ ۵۰ لاکھ روپے اس کی مرمت کا اسٹیمیٹ ہے۔ اس میں مرمت
کا کام جاری ہے۔اس جگہ معارف اسلامی کادفتر ہے۔بچوں کاہائی اسکول اور کالج
ہے۔ ایک ہسپتال ہے۔ پہلے باہر کے بچے تعلیم حاصل کرنے کے لیے منصورہ آیا
کرتے تھے۔ مگر ڈکٹیٹر پرویزمشرف کے دور میں بند کر دیے گئے۔لڑکیوں کا اسکول
دارالبنات کام کر رہا ہے۔جماعت کے سارے امیروں نے منصورہ میں اپنے گھر نہیں
بنائے۔ سید منور حسن صاحب پہلے جماعت اسلامی پاکستان کے سیکر ٹری اور پھر
امیر کی حیثیت ۲۶ سال منصورہ میں۱۲؍بائی ۱۲؍ کے ایک کمرے میں زندگی گزار کر
واپس کراچی جاتے ہو صرف ایک ہینڈ بیگ میں اپنی کپڑے ساتھ لے گئے۔
دوسرے روز کا چوتھاپروگرام’’ہمارے اسلاف،ہزیمت کے راہی‘‘ حافظ محمد ادریس
صاحب کا تھا۔ حافظ صاحب نے اپنے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا عزیمت کے
راہی توہمارے پیارے پیغمبرؐ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و سلم تھے جوہمیشہ سچ ہر
قائم رہے۔ وہ عزیمت کے پہاڑ تھے۔صحابہ ؓ بھی عزیمت کے پہاڑ تھے۔صحابیؓ
پیغمبر ؐکے ساتھیوں کوکہتے ہیں۔جس نے ایک دفعہ بھی رسول ؐ سے ملاقت کی وہ
صحابیؓ قرار پایا۔ ایک صحابی ؓاسود الرایؓ نے حضورؐ سے کہا کہ میں اگر اگلی
صفوں میں جاکر لڑوں اور شہید ہو جاؤں تو کیا میں جنت میں داخل ہو سکوں
گا۔رسولؐ اﷲ نے فرمایا،ہاں تم ضرور جنت میں جاؤ گے۔خاتون اسلام،حضرت سمیہؓ
سے کہا گیا کہ رسولؐ کا ساتھ چھوڑ دو۔ حضرت سمیہ ؓ نے انکار کیا اور عزیمت
کی رہ اختیار کی۔ ابو جیل مشرک، کافر، بذدل نے حضرت سمیہؓ کوبرچھی مار کر
شہید کر دیا ۔حضرت سمیہ ؓنے کہا رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گئی۔حضرت
سمیہ ؓ خواتین اسلام میں پہلی شہیدہ ہیں اورخواتین اسلام کا یہ ایک
بڑااعزاز ہے۔حافظ صاحب نے عزیمت کے راہیوں کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا کہ رسالہ
آئین میں’’ روشنی کے مینار‘‘مضمون لکھا۔یہ رسالہ بعد میں بند ہو گیا۔ اس کے
ایڈیٹر مظفر بیگ صاحب تھے۔ اس کے بعد تو عزیمت کے راہیوں پر کئی کتابیں
لکھیں۔صحابہؓ نے جو محنت کے کارنامے چھوڑے تھے وہ بعد میں جاری رہے۔امام
مالک ؒ کو وقت کے حاکم نے بیعت کے لیے فتویٰ کا کہا۔ امام ملکؒ سے بہت
زبردستی کی گئی۔ مگرامام مالکؒ نہیں مانے۔پھر فتویٰ دیا کہ ذبردست کی بیعت
نہیں ہوتی۔جب قرآن کے مخلوق ہونے کا قصہ چھیڑا گیاتو امام احمد بن حنبل ؒ
نے کہا کہ قرآن مخلوق نہیں خلق ہے۔ یعنی قرآن کا ایک ایک لفظ اﷲ تعالیٰ کی
طرف سے حضرت جبرائیلؑ رسول ؐ اﷲ کے پاس لائے۔احمد بن حنبل ؒ کو وقت کے حاکم
نے کوڑے لگوائے ۔ بعد میں متوکل نے امامؒ کو تحفے میں اشرافیوں کی تھلی
بھیجی۔ امام حنبلؒ نے کہا کہ عباسی بادشاہ مامون کے کوڑوں سے زیادہ خطرناک
متوکل کی اشرفیاں ہیں۔ ڈکٹیٹر ایوب خان کے دور میں جماعت اسلامی کے لاہورکے
جلسہ میں لاہوڈ اسپیکر کی اجازت نہیں دی گئی۔مولاناؒ کی تقریر سننے کے لیے
۱۲؍ نقیب مقرر کیے گئے تھے۔مولاناؒنے تقریر شروع کی توغنڈوں شامیانے اور
قناتوں کو آگ لگا دی۔ایوبی غنڈوں نے مولاناؒ پر گولی چلا دی۔ لوگوں نے
کہاکہ آپ بیٹھ جائیں ۔ مولاناؒ نے وقت تاریخی بات کی تھی ۔کہا کہ’’ میں
بیٹھ جاؤ تو پھر کھڑا کون ہو گا‘‘۔ غنڈوں کی فائرنگ سے جماعت اسلامی کا ایک
کارکن شہید ہو گیا۔ مولاناؒ نے ہدایت دی کی اس شہید کی میت ایک طرف رکھ دو۔
اس کے بعد مولاناؒ نے اطمینا ن سے اپنی تقریر مکمل کی۔ یہ ہیں ہزیمت کے
راہی ۔اخوان المسلمین کے رہنماؤں کوظلم کی چکی میں پیساگیا۔ اسلاف کی
قربانیوں کی بات آگے بڑھاتے ہوئے حافظ صاحب نے مصر کے اخوان المسلمین کے
رہنماحسن البناؒ کا ذکر کیا۔ان کو بھی بادشاہ کے دور میں شہید کیا گیا تھا۔
شہر میں کرفیو لگا دیا گیا ۔جنازے میں عام لوگوں کر شرکت کی اجازت نہیں دی
گئی ۔حسن البناؒ کے والد نے جنازہ پڑھایا۔جنازے کی چار پائی گھر کے چار
افرادجن میں والد،ماں،بیوی اور بیٹی تھی نے اُٹھائی۔پھر ان ہی گھر کے چار
افراد نے قبرستان میں دفن کیا۔عبدالغفار ہوداؒ کو پھانسی پر چڑھا یا
گیا۔سید قطبؒ کو بھی سفاکی سے شہید کیا گیا۔ اس کے جنازے میں عوام کو شرکت
کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس کے بھی گھر والوں نے جنازہ پڑھایا اور شہید کو
دفنایا۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو پھانسیوں پر چڑھایا گیا۔
یہ سب عزیمت کے راہی ہیں۔میر قاسم علی ؒ کو بنگلہ دیش کی خونی صفت شخصیت
حسینہ واجد نے اپنے جعلی انٹرنیشنل ٹریونیونل کے ذریعے پھانسی پر
چڑھایا۔حافظ صاحب نے بتایا کہ خواب میں کیا دکھتا ہوں کہ شہیدمیر قاسم علی
ؒکو دیکھ کر میرے آنسو نکل رہے ہیں۔میر قاسم علیؒ میرے آنسوں کو صاف کر کے
کہتے ہیں بھائی کیوں رو رہے ہو یہ تو خوشی کا مقام ہے۔یہ ہیں عزیمت کے
راہی۔
دوسرے دن کا پانچواں پروگرام’’اسلامی معاشرہ۔ نفاذکی راہیں‘‘لیاقت بلوچ
صاحب نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان کا تھا۔جناب لیاقت بلوچ نے اپنے تقریر
شروع کرتے ہوئے فرمایا کہ رسولؐ اﷲ نے کہا کہ مومن کی شان تو یہ ہے کہ مشکل
آئے تو صبر کرتا ہے اور آسانی ہوتو شکر کرتا ہے۔یعنی ہرحال میں فاہدہ ہی
فاہدہ۔ ہمیں اﷲ کے کلمے کو بلند کرنا ہے ،چاہیے مشکل ہو یا آسانی۔اصلاح
معاشرہ جب تک قائم نہیں ہوسکتاجب تک پہلے فرد کی اصلاح نہ ہو جائے۔معاشرے
میں رہ کر انسان کو اﷲ کے حقوق اور انسانوں کے حقوق ادا کرنے ہوتے ہیں۔اﷲ
تو شاید اپنے حقوق معاف کر دے۔ مگر فرد جب تک اپنے حقوق معاف نہیں کرے گا
تواﷲ بھی معاف نہیں کرتا۔ یہی انصاف کا تقاضہ ہے۔ دیکھا جائے تو ہمارے ملک
میں مقتدر حلقوں نے عوام کے حقوق ضبط کر رکھے ہیں۔عوام کے معاشی، تعلیمی
اور بنیادی حقوق مار جا رہے ہیں۔جبکہ مقتدر حلقے چاہیں تو عوام کے حقوق ادا
کر سکتے مگر وہ نہیں چاہتے۔ عوام کے حقوق ادا کرنے کے بجائے باہرکے نظریات
عوام پر مسلط کر دی جاتی ہیں۔ پاکستان کے سارے سروے بتاتے ہیں کہ پاکستان
کے عوام اسلام سے محبت کرتے ہیں۔مگر مقتدر حلقے عوام کی رائے کا احترام
نہیں کرتے۔ ملک میں بے دینی عوام پر مسلط کر دی جاتی ہے۔ یہ عوام کے حقوق
ضبط کرنے کی بدتریں شکل ہے۔جماعت اسلامی عوام کو ان کے جائز حقوق دلانے کی
کوشش کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی کو جمہواری طریقے سے جدو جہد کر عوام کو ان
کے حقوق دلانا ہے۔ہماری پر امن جمہوری جد وجہد کی وجہ سے پہلے پاکستان کے
آئین میں قراردادپاکستان داخل ہوئی۔پھر ۱۹۷۳ء کا آئین بنا۔اسی آئین میں
نظریاتی کونسل بنی۔ اسلامی آئین کی وجہ سے حکمران ملک میں غیر اسلامی قانون
بنانے سے روکے ہوئے ہیں۔ ۲۰۱۸ء کا الیکشن ہوا تو باریاں باٹنے والی نواز
لیگ اور پیپلزپارٹی سے عوام کی جان چھوٹی۔ عمران خان اقتدار میں آئے تو
لوگوں نے توقع باندھی تھی کہ عمران خان مشہور معروف آدمی ہے ۔کرپشن سے پا ک
ہے اس کے دور میں عوام کو غموں سے نجات ملے گی۔ مگر عمران خان بھی عوام کی
توقعات پر پورا نہیں اُترا۔جہاں تک دین اسلام کی دعوت کا معاملہ ہے تو
مولانا مودددی ؒ نے کہا تھا کہ اس ملک میں بے دینی نظام حکومت نہیں چل
سکتا۔اﷲ کے دین کو قائم کرنے کے جماعت اسلامی کے کارکنوں کو جدید طریقے
اختیار کرنے چاہیں۔ملک میں اسلامی نظام حکومت کے لیے کثیر تعداد میں رائے
موجود ہے۔کارکنوں کو پریشان ہونے کے بجائے عوام میں جانا چاہیے۔ ان کو ساتھ
کر چلنا چاہیے ۔اپنے بیانیہ اور اپنے جھنڈے کو سامنے رکھتے ہوئے دوسروں کے
ساتھ اتحاد کر کے اپنے قدم آگے بڑھانے چاہییں۔کسی سے بھی غیر ضروری ٹکراؤ
کی پالیسی سے بچنا چاہیے۔اپنا کام زیادہ سے زیادہ کریں لوگوں تک اﷲ کے دین
کاپیغام پہنچائیں۔الحمد اﷲ کراچی میں تاریخ کی کشمیر بچاؤ بڑی ریلی ہوئی
ہے۔اب کل۶؍ اکتوبر کو لاہور میں کشمیر بچاؤ بڑی ریلی ہونے والی ہے۔اس کے
ذریعے پاکستانی عوام اور دشمنوں تک ہمارا پیغام جائے گا۔نوجوان آبادی کا
بڑا حصہ ہیں ان تک ہمارا پیغام جانا چاہیے ان پر ہمیں زیادہ کام کرنا
چاہیے۔اﷲ ہمیں دین کو قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دوسرے دن کا چھٹا پروگرام’’جماعت اسلامی کی کامیابیاں‘‘ جناب ڈاکٹر طارق
سلیم امیر صوبہ پنجاب شمالی کا تھا۔ ڈاکٹر سیلم صاحب نے اپنی گفتگو کرتے
ہوئے کہا جماعت اسلامی کی پہلی کامیابی ،وہ ۲۶ سال کا ایک نوجوان تھا۔ یہ
نوجوان اپنی ضلع کا اکلوتا بی اے ایل ایل بی وکیل تھا، بغیر داڑھی، تھری
پیس سوٹ،یعنی فرنگی لباس پہنے ہوئے حکومت الہیٰہ قائم کرنے والی جماعت
اسلامی کے تاسیسی اجلاس میں حلف برداری میں تشریک تھا۔ اس شخص پر دوسرے
شریک حضرت نے ا عتراض کیا ۔ مشاورت سے اسے اپنی شکل وصورت اسلامی بنانے کے
لیے ۶ ماہ کاوقت دیا گیا۔ جس نے اپنی شکل و صورت ہی نہیں اسلامی بنائی بلکہ
اپنے آپ کو ہمیشہ کے لیے اسلامی بنا کرجماعت اسلامی کے حوالے کردیا۔ساری
زندگی اقامت دین میں گزار دی۔یہ شخص پہلے جماعت اسلامی کا جرنل سیکر ٹیری
بنا۔ بانی جماعت کے بعد امیر جماعت اسلامی بنا۔ اِس کا نام میاں محمد طفیل
صاحب ہے۔ دوسری کامیابی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت کا قیام
تھا۔اسلامی جمعیت کے نوجوانوں نے اسلامی تعلیمات کے زور پر پاکستان کے
تعلیمی اداروں میں انقلاب پر پا کیا۔ایشیا سرخ ہے کے نعرے والے کیمونزم کو
تعلیمی اداروں سے رخصت کیا۔مسلمانوں میں یہ بات عام ہو گئی تھی کہ بندہ
جب۵۰۔۶۰ سال کی عمر کو پہنچاتا ہے تو داڑھی رکھتا ہے۔ مگراسلامی تعلیمات سے
متاثر ہو کر جمعیت کے نوجوانوں نے اوّل عمر کے اندر ہی نورانی چہروں پر سنت
رسولؐ ،داڑھیاں نظر آنے لگیں۔اسلامی جمعیت طلبہ نے پنجاب یونیورسٹی میں
کامیابی حاصل کی۔پنجاب یونیورسٹی میں پہلی تقریر سیرت نبیؐ پر تھی۔جماعت
اسلامی نے دستور کے اندر قراداد پاکستان کے اندر داخل کرانے کی تحریک شروع
کی۔پھر ۱۹۴۹ء میں لیاقت علی خان صاحب وزیر اعظم پاکستان نے قانون سازسمبلی
میں قراراداد پس شامل کرنے کے لیے پیش جسے منظور کر کے آئین پاکستان کا
دیپاچہ بنا دیا گیا۔جس سے حکومتِ پاکستان کا مذہب اسلام ہو گیا۔اس پر
مولانا مودودی ؒ نے کہا تھا کہ اب پاکستان مسلمان ہو گیا ہے۔پیپلز پارٹی کے
بانی ذاولفقار علی بھٹو کے دور وزارت میں پاکستان میں یوم شوکت اسلام منایا
گیا۔۱۹۷۱ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے چار ممبران قومی اسمبلی منتخب
ہوئے۔جماعت اسلامی نے ایسے ممبران قومی اسمبلی تیار کیے کہ پنڈاٹ کے سروے
کے مطابق اُن کی اسمبلی میں کارکر دگی پہلے نمبر پر تھی۔ ۲۰۰۲ء میں متحدہ
مجلس عمل کے انتخاب کے تحت ۲۲ قومی اسمبلی،۴۳ممبران صوبائی اسمبلی اور
پاکستان کی سینٹ کے اندر ۷؍ افراد منتخب ہوئے۔ پاکستان میں ایک وقت ایسا
بھی تھا کہ اگر کوئی فرد اسلامی نظام کی بات کرتا تھا تو لوگ فوراً کہتے یہ
جماعت اسلام کا ہی بندہ ہو سکتا ہے۔اگر انتظامیہ میں کوئی ایسا نیک فرد
ہوتا جو رشوت نہیں لیتا تو کہا جاتا یہ جماعت اسلامی کا ہی ہو سکتا ہے۔کسی
جج نے بھی کہا تھا کہ جماعت اسلامی کا بندہ عدالت میں کبھی بھی جھوٹی گواہی
نہیں دیتا۔ اﷲ کی طرف سے یہ جماعت اسلامی کے لیے انعام تھا کہ پاکستان میں
جماعت اسلامی کو نیک جماعت سمجھا جاتا ہے۔چیف جسٹس صاحب نے بھی نواز شریف
صاحب کے کیس میں تبصرے کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پاکستان کے آئین کی دفعہ
۶۲۔۶۳ کو سیاست دانوں پر لاگو کیا جائے تو پاکستان کے سیاست دانوں میں صرف
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب ہی پورے اُتر سکتے ہیں۔جماعت اسلامی
نے مشکل کی گھڑی میں ہمیشہ مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ سیلاب ،زلزلے یا کوئی بھی
قدرتی آفات ہوں جماعت اسلامی کے کارکن مدد کے لیے پہنچے۔ جہاد کشمیر کو
جماعت اسلامی زندہ رکھا۔افغانستان کے جہاد میں بھر پور ساتھ دیا۔ مشرقی
پاکستان میں بھارتی فوج کے خلاف پاکستانی فوج کا ساتھ دیا۔تعلیمی اداروں
،مزدور تحریک اور پاکستان کی سیاست سے سے کیمونزم کا دیس نکلا کیا۔ پاکستان
کاسلامی دستوربنانے میں دستوری مہم شروع کی جس کے نتیجے میں ۱۹۷۳ء میں
پاکستان کا اسلامی دستور بنا۔جماعت اسلامی ایسی لیڈر شپ مہیا کی جس میں
کرپشن کا نام ونشان تک نہیں۔ یہ ہیں جماعت اسلامی کی کامیابیاں۔
اس کے بعد دوسرے دن کا ساتوں اور آخری پروگرام’’پھونکوں سے یہ چراغ
بھجایانہ جائے گا‘‘ جناب حافظ نعیم الرحمان ، امیر جماعت اسلامی حلقہ کراچی
کا تھا۔ حافظ نعیم صاحب نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ مولانا سید ابو
اعلیٰ موددیؒ نے اپنے کام کے آغاز میں کہا تھا جماعت اسلامی معروف میں صرف
سیاسی جماعت ہی نہیں اور نہ ہی مذہبی جماعت ہے۔بلکہ یہ اسلامی نظریاتی
تحریک ہے جس کا نام جماعت اسلامی ہے۔ اُس وقت اسلام دشمنوں نے مشہور کر دیا
تھا کہ اسلام کے پاس نہ سیاسی نظام ہے ،معاشی ،نظام ہے ۔ سید مودددیؒ نے
اپنی کرادر اور تحریروں اور عملی کاموں سے ثابت کیا کہ اسلام کے پاس جدید
حکومت چلانے کے لیے سیاسی اور معاشی نظام موجود ہیں۔کیا مسلمان اس دنیا میں
ہزار سال تک کامیابی سے ا ن نظاموں کا استعمال کر کے حکومتیں نہیں چلاتے
رہے؟یہ غلط بات کہ اسلام کے پاس جدید حکومت چلانے کے لیے کوئی نظام ہی
نہیں۔ اسی دنیا میں مسلمانوں کے پیغمبرؐ نے مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست
قائم نہیں کی تھی؟ کیاخلفائے راشدین ؓنے اسے کامیابی سے چلا کر دنیا کو
نہیں دکھایا؟ حضرت عمرؓ کی حکومت۲۲ ہزار مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی۔بعد
میں بنو امیہ، بنو عباس اور ترک عثمانی حکومت ۱۹۲۴ء دنیا کے کثیر علاقہ پر
پھیلی ہوئی تھی۔سید مودودیؒ نے ثابت کیا کہ مسلمانوں پر پاس سیاسی،
معاشرتی، تمدنی، ثکافتی اور تہذیبی تمام جدید چیزیں موجود ہیں۔جماعت اسلامی
کے کارکنوں نے اسلام دشمنوں کے پروپیگنڈے کو ایک طرف رکھ کر یکسوئی سے
اسلامی نظام حکومت کے لے کام کرنا ہے۔جس طرح یک سو ہو کر ہم نماز پڑھتے ہیں
۔ اسی طرح ایک سو ہو کر معاشرے میں اسلامی نظام کو قائم کرنا ہے۔علماء نے
نماز، روزہ ،حج اور رمضان کو ہی پر زور دیا ہے ۔ہم نے جدید دور کے لیے
انجینئر،ڈاکٹر،سیاست دان،معاشی ماہرین پیدا کرنے ہیں۔پھریہ جدید تعلیم
یافتہ لوگ اسلامی حکومت کے کل پرزے بنے گے۔ترکی میں صلیبیوں کی سازش سے قوم
پرست کمال اتاترک نے ۱۹۲۳ء میں ایک معاہدہ جس میں ایک طرف روس،برطانیہ،ہائر
لینڈ اور فرانس شامل تھے، عثمانی خلافت ختم کر کے ترکی میں سیکولر نظام
حکومت قائم کیا۔اسلامی شعار، آذان، پردہ اور داڑھی پر پابندی لگائی۔ اسلامی
مدرسے بند کیے۔ اب اس معاہدے کو ۲۰۲۳ء میں ختم ہونا ہے۔ترکی پھر طیب اردگان
کی لیدر شپ میں اسلام کی طرف گامزن ہے۔ ساری دنیا اردگان کی مخالف ہو گئی
ہے۔ترکی کی سیکولر فوج نے اردگان کے خلاف انقلاب لانے کی کوشش کی مگر
اردگان کی حمایتی پولیس اور عوام کی مدد کے ذریعے اس فوج انقلاب پر مکمل
کنٹرول حاصل کر لیا۔ اب اﷲ نے ایسے اسباب پیدا کر دیے کہ ترکی میں اسلام کا
راستہ کوئی بھی نہیں روک سکتا ۔ان شاء اﷲ۔ہمیں بھی ضرورت اس امر کی ہے ہم
پاکستان میں جماعت اسلامی کومضبوط سے مضبوط تر بنائیں۔عمران خان وزیر اعظم
پاکستان کی تقریریں مودددیؒ اور سیدمنور حسن صاحب کی تقریروں کا پرتو
ہیں۔سیکولر لابی اور مغرب پاکستان کے اسلامی دستور کوختم کرنا چاہتے ہیں۔
ساری دنیا ان کے پیچھے ہے۔مگراﷲ نے چاہا تو پاکستان میں اسلام نظام قائم ہو
کر رہے گا۔یہ کام جماعت کے ہاتھوں سے ہوگا۔کشمیریوں کی جد وجہد کو اﷲ کی
مدد حاصل ہے۔ کشمیری بھارت کے سارے ظلم وستم برداشت کر رہے ہیں۔برہان وانی
کی قربانی نے آزادی کشمیر تاریخ کے روشن ترین دور میں داخل کر دیا
ہے۔کشمیری سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی ماند ڈٹ گئے ہیں۔کشمیری اپنی ایمان کی
پختگی کی وجہ سے پاکستان کے حکمرانوں کوبھی للکارتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں
جماعت اسلام اتنی تن آور ہو چکی ہے کہ اب اسلامی نظام حکومت کا کوئی بھی
راستہ نہیں روک سکتا۔کیو ں کہ پھونکوں سے یہ چراغ بھجایا نہیں جا سکتا؟
۶؍اکتوبر آخری دن کا پہلا پروگرام درس قرآن بعنوان’’ اپنے اور اولاد کو
دوزخ کی آگ سے بچاؤ‘‘ جناب معراج الہدیٰ صدیقی نائب امیر جماعت اسلامی
پاکستان کا تھا۔ معراج صاحب نے کہا کہ ہم لوگ بچوں کے کیریئر بنانے کے لیے
پلائنگ کرتے ہیں ،کہ بیٹے کو انجینئر ، ڈاکٹر ،سیاست دان یا سائنسنٹ بنانا
ہے۔مگر اولاد کی آخرت بنانے کے لیے کوئی بھی پلائنگ نہیں کرتے۔حضورؐ کی
حدیث ہے کہ تم میں ہر کوئی کسی نہ کسی کا راہی ہے۔ ہم اپنی اولاد کے راہی
ہیں۔عام معنی میں چروائے کو بکریوں کا راہی کہتے ہیں۔کیوں کہ چرواہا اپنی
بکریوں کے لیے چارے، پانی اور آرام کا بندوبست کرتا ہے۔ بکریوں کو آگے
پیچھے چلنے کا ڈسپلن سکھاتا ہے۔ شام کو چرواہا بکریوں کی گنتی کرتا ہے کہ
پوری ہیں کہ نہیں۔ہم جماعت اسلامی کے کارکن داعی اﷲ ہیں۔ہم بچوں کی دینوی
تعلیم کا تو انتظام کرتے ہیں مگر دینی تعلیم یعنی قرآن کی طرف دھیان نہیں
دیتے۔آج کل موبائل دیکھنے والی نسل پیدا ہو رہی ہے۔موبائل فون استعمال کریں
مگر ضرورت کے تحت۔آئی پیڈ،اور آئی فون جب بچے بالغ ہو جائیں تب استعمال
کرنے کی اجازت دینا چاہیے۔اپنے بچوں کی تربیت کاخیال رکھنا چاہیے۔اپنے
گھروں میں اجتماع اہل خانے کا انتظام کرنا چاہیے۔بچوں کے ساتھ دوستی اور
محبت والا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ایک صاحب کا بیٹا مغرب میں رہائش پذیر
تھا۔ اس کا والد فوت ہوا۔ لوگ جنازہ پڑھ رہے تھے وہ ایک کنارے کھڑا
رہا۔جنازہ میں شرکت نہ کرنے کا معلوم کیا گیا تو کہا کہ میں آزاد خیال
معاشرے میں رہتا ہوں․․․ معراج صدیقی صاحب نے واقعہ بتاتے ہوئے کہا کہ رسولؐ
اﷲ گھر میں بیٹھے تھے کہ حسن ؓ اور حسینؓ آپ ؐ کے قریب آئے۔آپؐ نے دونوں سے
پیار کیا۔ایک پیچھے سے آپؐ کے کندھوں پر سوار ہو گیا۔ اس وقت آپ کی محفل
میں ایک سردار بھی بیٹھا ہوا تھا۔سردار نے رسولؐ اﷲ سے کہاکہ میرے دس بیٹے
ہیں مگر میں ان سے ایسا پیار نہیں کرتا۔رسولؐ اﷲ نے اس کو جواب دیا کہ اگر
لوگوں کے دل پتھر جیسے ہو گئے ہیں تو میں کیا کروں۔آپ جانتے ہیں کہ رومانیہ
دنیا کا ایک ملک ہے۔ریسرچ کے لیے انہوں نے ۲۰ بچوں کو ان کی ماؤں سے علیحدہ
ایک جگہ رکھا۔جتنی بھی سہولتیں ہو سکتی ہیں ان ۲۰ بچوں کو مہیا کی گئیں۔۶
ماہ کے بعد ایک ایک کر کے سارے بچے فوت ہوگئے۔اس لیے کہ ان کو ماؤں کی محبت
نہیں ملی۔انسان کوپیار محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے عام
جانداروں سے انسان کے بچے کو ماں کے ساتھ دیر تک رکھا جاتا ہے۔ کیوں کہ
انسان کے بچے کو محبت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔اسی لیے قرآن کہتا کہ اپنے آپ
اور اپنے بچوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ دوزخ کی آگ سے انسان اﷲ کے احکامات
پر عمل کر ہی بچ سکتا ہے ۔ اﷲ کے احکامات دین کی تعلیم سیکھنے سے ہی حاصل
ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اپنے بچوں کو دین کی تعلیم دلانا چاہیے۔
آخری دن کا دوسرا پروگرام’‘ تحریک شعور اور تحریک مزاج‘‘ امیر لعظیم
سیکرٹیری جماست اسلامی پاکستان کا تھا۔امیرلعظیم صاحب نے کہا کہ کئی چیزیں
مل کر انسان کامذاج بناتی ہیں۔دور صحابہ ؓ کا مذاج کچھ اور ہی تھا۔سید
مودددیؒ نے ایک حدیث کی تشریع کرتے ہوئے کہا کہ اس حدیث کا مذاج یہ ہے۔جب
ہم تذکیر کرتے ہیں تو قرآن کی تعلیم سکھاتے ہیں تو ایک مذاج بنتا ہے۔مگر آج
کل لوگوں کا مذاج یہ کہ وہ جب ملتے ہیں توووٹ گنتے ہیں کہ کتنے ہیں۔ کہتے
ہیں پارلیمنٹ میں کیا پوزیشن ہے۔اسلام کو سمجھنے والا جب قرآن کی تعلیم
حاصل کرتاتو اس کا مذاج قرآن کا مذاج بن جاتا ہے۔ عام انسان نسلی مسلمان
ہیں۔جماعت اسلامی انسانوں کو شعوری اور عملی مسلمان بنانا چاہتی ہے۔ انسان
شعوری مذاج دعوت دینے سے بنتا ہے۔رسولؐ اﷲ نے فرمایا کہ ایسا دوست بناؤ کہ
تمھیں اس سے مل کر خدا یاد آ جائے۔کارکنوں کو ایسا مذاج بنانے کے لیے
تحریکی لٹریچر کے مطالعہ کی ضرورت ہے۔جماعت اسلامی نے دین پر ایک مدت سے
پڑی گرد جھاڑ جنکار کو صاف کر کے خالص اﷲ کے لیے کر دیا ہے۔اس لیے جماعت
اسلامی کہتی ہے اﷲ کی بندگی کرو۔منافقت چھوڑ دو۔زمام کار صالحین کے حوالے
کردو۔ تاکہ دنیا کی گاڑی اپنے صحیح راست پر چلے۔جماعت اسلامی کے کارکن داعی
اﷲ ہیں۔ان کو اﷲ کی زمین پر اﷲ کے کلمے کو بلند کرنا ہے۔اس طرح کے کام کرنے
سے انسان کو جنت ملتی ہے۔جماعت اسلامی کے کارکنوں کو جماعت اسلامی کا
لٹریچر پڑھنا چاہیے۔جتنے بھی جدید علوم ہیں اس دور میں مغرب کی طرف سے آئے
ہیں۔مغرب نے اسلام دشمنی میں اسلام کے سیاسی نظام کو گم کر دیا ہے۔ مشہور
کر دیا گیا کہ اسلام میں سیاسیات معاشیات وغیرہ کوئی نہیں۔سید مودددیؒ ے
ایسا لٹریچر تیار کیا ہے کہ مغرب کا پروپیگنڈہ اب دم توڑ گیا ہے۔مولاناؒ نے
کہا کہ جو قوم دنیا پر ۱۲؍ سو سال کامیابی سے حکومت کرتی رہی ،کیا اس کے
پاس حکومت چلانے کا کوئی نظام نہیں یہ سفید جھوٹ ہے؟۔ اسی لیے ہم تربیتی
پروگرام میں آ کر اپنی بیٹریاں چارج کرتے ہیں۔ایک صحابی حضرت ہنظلہ ؓ رسولؐ
اﷲ سے کہتا کہ رسولؐ اﷲ جب ہم آپ کے محفل میں ہوتے ہیں تو اسلام کی طرف
زیادہ ہوتے ہیں۔ جب واپس اپنے گھروں میں یا بازاروں میں ہوتے تو ہماری
پوزیشن کچھ اور ہوتی ہے۔رسولؐ اﷲ نے فرمایا اگر باہر بھی تم ایسے ہو جیسے
میری محفل میں ہوتے ہو تو فرشتے تمھیں سلام کریں۔سید مودددی ؒ نے کہیں کہا
تھا کہ اگر انسان قرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنے دل میں ایسی کیفیت پیدا
کرے کہ قرآن اُس پر ابھی نازل ہو رہا ہے۔ تو اسے ویسے ہی کردار نظر آئیں گے
جیسے قرآن کے اُترتے وقت نظر آتے تھے۔جماعت کے کارکن اسلام کو تر جیح اوّل
بنائیں۔پھر ان کاکام آسان ہو جائے گا۔کتنے لوگ ایسے ہیں کہ جنہوں نے
مولاناؒ کا لٹریچر پڑھا اور اپنی نوکریاں چھوڑ کر یکسو ہو کر جماعت اسلامی
کے پروگرام کو آگے بڑھانے کے کام میں لگ گئے۔جماعت اسلامی میں حریت فکر
موجود ہے۔مگر اختیاط لازم ہے۔جب کسی چیز میں اختلاف ہو جائے تو اﷲ اور
رسولؐ کی طرف رجوع کر کے معاملات کر درست کر لینا ط چاہیے۔یہی تحریکی شعور
اور مذاج ہے۔
آخری اور تیسرے دن کا تیسرا پروگرام’’موثرتنظیم، کارکن اور قیادت سے تحریک
کے تقاضے‘‘جناب شاہد عاشمی، ڈاریکٹر معارف اسلامی کراچی کا تھا۔ عاشمی صاحب
نے فرمایاکہ جماعت اسلامی کے قیام سے قبل اسلام کہیں کہیں ذاتی زندگیوں میں
نظر آتا تھامگر سیاست اور معیشت وغیرہ میں نہیں تھا۔اسی پوزیشن کو بیان
کرتے ہوئے شاعر اسلام حضرت شیخ علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے ایک شعر میں بیان
کیا تھا:۔
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
مولاناؒ نے قرآن کا باریکی سے مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ رائج اسلام تو
نامکمل ہے۔لہٰذا مولاناؒ نے پورے کے پورے اسلام کونافذ کرنے کے لیے جماعت
اسلامی کی بنیاد رکھی۔اس وقت شادی، طلاق اورزمین کے معاملے طے کرنے کے لیے
اسلام توموجود تھا مگر زندگی کے کسی اور شعبے میں اسلام نہیں۔۱۹۴۱ء میں
لاہور میں ۷۵؍ افراد اور ۷۵؍ آنے مالیت سے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی
گئی۔جماعت اسلامی اپنی نوعیت کی منفردتنظیم ہے۔پہلے دینی جماعت ایسے بنتی
تھیں کہ کوئی برزگ اُٹھا اور اس نے دینی جماعت کی بنیاد رکھ دی۔ لوگوں سے
بیعت لی اور کام چل پڑھا۔مگر مولانا مودودیؒ نے پہلے جماعت بنائی اور اس کے
بعد مشورے سے جماعت کے امیر کا انتخاب ہوا۔یعنی فرد کے بجائے یہ اجتماعی
بیعت تھی۔پہلے کسی جماعت کا سربراہ ایک بزرگ ہوتا تھا۔ اس کی وفات کے بعد
اس کابیٹا جماعت کا سربراہ بنتا تھا۔مگر جماعت اسلامی کا سربراہ مشورے سے
چنا گیا۔اور اس کی امارت کی مدد کا تعین کر دیا گیا۔ اسطرح جماعت اسلامی
کاپہلا امیر سید ابو اعلی ٰمودددیؒ ،پھر میاں محمد طفیل ؒ،پھر قاضی حسین
احمدؒ،پھرپر سید منور حسن ؒ اور اس کے بعد موجودہ امیر سرالج الحق جماعت
اسلامی کا امیر بنا۔ جماعت اسلامی والے کسی بزر گ شخص کے ہاتھ پر بیعت نہیں
کرتے بلکہ اجتماہی بیعت ہوتی ہیں۔ جماعت اسلامی میں صرف امیر تبدیل ہوتا ہے
جماعت اسلامی اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے۔اس لیے اس میں گدھی کے لیے لڑائیں
نہیں ہوتیں ۔۱۹۷۲ء میں مولاناؒ نے ارکان کے نام خط لکھا کہ میں بیماری ہوں
مجھے ووٹ نہ دیا جائے۔آپ اپنا امیر منتخب کر لیں۔اسی طرح آج تک جماعت
اسلامی کے امیر تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور جماعت اسلامی اپنی جگہ پر قائم
رہتی ہے۔جماعت اسلامی میں نیچے سے لوگ اُوپر کی طرف بڑھتے ہیں اور امیر بن
جاتے ہیں۔جب کہ دوسری پارٹیوں میں باہر ، یعنی دوسری پارٹیوں کو چھوڑ کو
کسی بھی پارٹی کے صدر یا سیکرٹیری بن جاتے ہیں۔جماعت اسلامی میں ایسا کوئی
رواج نہیں ہے۔کارکن اپنی محنت کی بنیاد پر آگے بڑھتے ہیں۔جماعت اسلامی
منفرد تنظیم ہے۔جنون، جذبہ اور دین سے لگاؤ ایسا ہے کہ لوگ اس میں گم ہو
جاتے ہیں۔ جہاں نقد دے کراُدھار کا سودا کرنا پڑھتا ہے۔اس جماعت میں بے
شعوری میں کوئی بھی شامل نہیں ہو سکتا۔مکمل شعور کے ساتھ لوگ جماعت میں
شریک ہوتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں بیڑیاں جلا کر جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔جو
ایک دفعہ جماعت میں شامل ہو گیا پھر وہ اسی کا ہو گیا۔جماعت اسلامی کی
قیادت جماعت اسلامی کے کارکنوں کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے۔کوئی بھی جماعت کا
کارکن جماعت کے امیر کامحاسبہ کر سکتا ہے۔ یہ رواج دوسری پارٹیوں میں
نہیں۔تصور دین گروہی نہیں، فرقہ وارانہ نہیں اور خانقاہی نہیں، اسلامی اور
صرف اسلامی ہے۔اﷲ کو ماننے والوں کو انقلابی ضرور ہونا چاہیے۔جماعت اسلامی
کا نظام کار حالات بدلنے سے نہیں بدلتا بلکہ یہ داہمی ہے۔جماعت اسلامی کی
دعوت اس کے بانی کی طرف یا کسی اور کی طرف نہیں۔یہ صرف اسلام کی دعوت
ہے۔جماعت اسلامی قوم پرستی کی بھی دعوت نہیں دیتی۔اگر کہیں مسلمان کسی سے
بھی زیادتی کر رہے ہوں تو جماعت اس کے مخالفت ہے۔جماعت اسلامی تصور ملت اور
تقویٰ پر قائم ہے اور ان شاء اﷲ قائم رہے گی۔ یہی جماعت اسلامی کی موثر
تنظیم ،کارکن اور قیادت کا گلدستہ ہے۔
تیسرے دن کا آخری اور چوتھااختتامی پروگرام، امیرجماعت اسلامی، سینیٹرجناب
سرالحق صاحب کا تھا۔تربیتی کارکنوں نے امیر جماعت کی آمد پر کھڑے ہو کر ان
کا استقبال کیا۔ سراج الحق صاحب نے کہا کہ جماعت اسلامی ضلع اسلام آباد اور
کراچی ضلع غربی کے کارکن تین دن سے تربیتی پروگرام سے گزر رہے ہیں ،اﷲ ان
کی محنت قبول فرمائے۔ اس کے بعد امیر جماعت اسلامی پاکستان نے اسلام آباد
کے امیر اور کراچی غربی کے امیرکو کتابوں کا تحفہ دیا گیا۔امیر جماعت نے
اپنی تقریر میں کہا کہ ہمیں وقت کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ وقت کا صحیح
استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ فاہد اُٹھایا جا سکے۔جماعت اپنے کارکنوں کو
مثالی دیکھنا چاہتی ہے۔کارکنوں کی زندگیاں بہتر سے بہتر ہوں۔اور جب اﷲ کے
حضور پیش ہو تواﷲ کی جنت کا بھی مستحق ٹھیریں۔ جماعت اسلامی کے کارکن اﷲ کے
بتائے ہوئے طریقوں پر چل کراس دنیا میں اﷲ کا کلمہ بلند کریں گے تو ہی جنت
مل سکتی ہے۔ہمیں ایسا نظام قائم کرنا ہے کہ ملک کا حکمران اس امر کا خیال
کرے کہ میرے عوام کسی پریشانی میں مبتلا تو نہیں۔اس کے ساتھ جماعت اسلامی
اپنے کارکنوں کا خوشحال دیکھنا چاہتی ہے۔دوسری پارٹیوں کی طرح نہیں کہ کام
نکال کر کارکنوں کو بھول جائے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ حکمران قوم کی
کمائی کھاتے کھاتے سو جائیں۔جماعت اسلامی اﷲ کے دین کو پورے کا پورا،
اکستان اور پوری دنیا میں نفاذ کرنا چاہتی ہے۔ ایسے کامل انسان دیکھنا
چاہتی ہے،جس کی یہ دنیا بھی اچھی ہو اور آخرت بھی اچھی ہو۔دنیا میں سب سے
مشکل کام انسان سازی ہے اور آپ اسی کام پر لگائے گئے ہیں۔جب سارے لوگ سوئے
ہوئے ہوتے ہیں تو آپ اُٹھ کراﷲ سے اﷲ کے نظام کو قائم کرنے کے لیے اﷲ سے
دعائیں مانگتے ہیں کہ اﷲ تو ہماری مدد فرما۔ کارکن اﷲ کو حاضر و موجود سمجھ
کر معاملہ کریں۔اس دنیا کے زمام کار کو چلانے کی صلاحیت پیدا کریں۔ اپنی
کوشش اور محنت بھی جاری رکھیں۔ اﷲ کی سنت ہے کہ اگر ایک مسلمان کھیت میں
صحیح دانا نہ ڈالے اور نہ پانی دے تو فصل اچھی نہ ہوگی۔جب کہ کافر یہ سارے
کام صحیح طریقے کرے تو اس کی فصل زیادہ اوراچھی ہو گی۔اس لیے ہر کام کے لیے
کوشش اور محنت ضروری ہے۔دنیا چاہتی ہے کہ آپ بھی مغربی دنیا میں گم ہو
جائیں۔مگر آپ نے معاش کا بندہ نہیں بنا ہے۔بلکہ اﷲ کابندہ بننا ہے۔ہم نے اس
دنیاکانظام کیمونزم، سیکولرزم اورسرمایا دارانہ نہیں بلکہ دنیا کا نظام
اسلامی بنانا ہے۔معاشرے سے انسانوں کے خلاف ظلم کو بند کرنا ہے۔اسی لیے
جماعت اسلامی قائم کی گئی ہے۔ امیر جماعت اسلامی کے امیر کی اختتامی تقریر
کے بعد ۳ روزہ تربیتی اجتماع اختتام پذیر ہوا۔کارکنوں نے اس کے بعد نماز
ظہر ادا کی اور دوپہر کے کھانے کے بعد واپس اپنی اپنی مزلوں کی طرف عازم
سفر ہوئے۔
ہم نے سہ روزہ تربیت گاہ کی ساری کاروائی نوٹ کی۔ اسے اس غرض سے کمپوز کیا
کہ جماعت اسلامی ضلع اسلام آباد کے جو کارکن اس تین روزہ تربتی پروگرام میں
کسی وجہ سے شریک نہیں ہو سکے، ان تک پہنچانے کی اگر کوئی سبیل ہو جائے تووہ
بھی اس اہم سہ روزہ اہم تربیتی گاہ میں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنماؤں کی
طرف سے کی گئی تقاریر سے مستفیض ہوسکیں۔ اﷲ کے دین کو اﷲ کے بندوں پرنافذ
کرنے کے کام میں تازہ دم ہونے کے لیے اس کا مطالعہ کریں۔ پاکستان اور دنیا
سے ظلم کے اندھیرے چھٹیں اور اﷲ کا نور عام ہو جائے۔ اﷲ جماعت اسلامی کے
کارکنوں کی اس سہی کو قبول فرما کر انہیں اپنی جنت کامستحق بنائے ۔جماعت
اسلامی کے کارکنوں کو اﷲ کے دین کو قائم کرنے کے لیے یہ سبق سکھانے والے
مولانا سید ابو اعلیٰ مودددیؒکی قبر کو نور سے بھردے۔ آمین۔
|