تحریر عرفان اعجاز
عالمی یوم خوراک کے موقع پر اگر ہم اپنے ملک پاکستان کی بات کریں تو
پاکستان میں بھی کافی حد تک خوراک کی قلت کا سامنا رہتا ہے اور اس کی سب سے
بڑی وجہ ماہرین یہ بیان کرتے ہیں کہ پاکستان میں دوسرے ممالک کی نسبت فی
ایکڑ پیداوار کم ہے جو کہ خوراک کی قلت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ماہرین زراعت
کے مطابق مستقبل میں پاکستان کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو کہ
کسی بھی وقت ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں شعبہ زراعت میں کسانوں کی جدید
طریقہ پیداوار سے نا واقفیت ہونا بھی ہے ایک سروے کے مطابق 1990 کے بعد سے،
دنیا میں بھوکے لوگوں کی تعداد 200 ملین سے زائد ہے جس کی بڑی وجہ عالمی
آبادی میں اضافہ اور غذا کی پیداوار میں کمی بتائی جاتی ہے اسی سروے میں
ایک اور بات بتائی گئی ہے کہ795ملین لوگ اب بھی رات کوبھوکے سو جاتے ہیں
اور 1.2 بلین لوگوں کو غذائیت کا کھانا بھی نہیں مل رہا ہے جو انہیں زندہ
رہنے اور پھیلانے کی ضرورت ہے لیکن اس عمل کو روکنے کے لیے عالمی طور پر بے
شمار اقدامات کیے جا رہے ہیں جن میں ایک مقصد یہ بھی ہے کہ 2030تک دنیا بھر
سے خوراک کی کمی کے اہداف ختم کرنا ہے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و
زراعت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں 34 ایسے ممالک ہیں جن کے پاس اپنے
شہریوں کے لیے کافی خوراک موجود نہیں ہے اور ان میں سے تقریباً سب ممالک کا
تعلق براعظم افریقہ سے ہے۔گزشتہ سال دسمبر میں ان ملکوں کی فہرست میں سوئزر
لینڈ کے شامل ہونے سے خوراک کی کمی کا شکار ملکوں کی تعداد میں اضافہ ہوا
ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کی رپورٹ میں خوراک کی کمی کی
وجہ غیر معمولی موسمیاتی سرگرمی النینو سے پیدا ہونے والی خشک سالی اور
دنیا کے کئی علاقوں میں سیلابوں اور جنگ کو قراردیا گیا ہے۔ انٹرنیشنل
سینٹر آف کیمیکل اینڈ حیاتیاتی سائنسز (کے یو) ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری
اپنے ایک بیان میں کہتے ہیں کہ ‘‘ملک سخت قحط کی طرف آ رہا ہے کیونکہ پانی
کی قلت کی وجہ سے آبپاشی کی قلت کم ہو رہی ہے اورپاکستان کے زراعت شعبے نے
متعلقہ حکام کی توجہ کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ کھانے کی حفاظت کو یقینی
بنانا، مجموعی مالیاتی ترقی کو پیدا کرنے، غربت کو کم کرنے اور صنعتی بنانے
کی طرف تبدیل کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے’’اقوام متحدہ نے غذا کی
کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے تعاون سے ہر
سال 16اکتوبر کو دنیا بھر میں عالمی یوم خوراک منانے کا اردہ کیا اس دن کو
منانے کا بنیادی مقصد عوام میں خوراک کی کمی کو پورا کرنا اور عوام میں
خوراک کی پیداوار میں اضافہ کرنے کا طریقہ کار واضح کرناہے شعبہ زراعت میں
بہتری لانے کے لیے سب سے زیادہ اہم عمل پانی کی وافر مقدار ہوتی ہے لیکن
اگر پانی کی بات کی جائے تو پانی لوگوں کو پینے کے لیے میسر نہیں ہے پانی
کی قلت کی مناسب سے واٹر ایڈ نامی ایک غیر سرکاری بین الاقوامی تنظیم کے
اعداد و شمار کے مطابق چھ کروڑ تیس لاکھ دیہاتیوں کو، جو کہ برطانیہ کی
مجموعی آبادی سے زیادہ تعداد ہے، پینے اور روزمرہ کے استعمال کے لیے صاف
پانی میسر نہیں ہے۔ اس کی بڑی وجہ ناقص منصوبہ بندی، انفراسٹرچکر کی عدم
دستیابی اور دشوار گزار علاقوں میں آبادی ہے واٹر ایڈ رپورٹ نے مزید کہا ہے
کہ چین دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں چار کروڑ چالیس لاکھ لوگوں کو صاف
پانی دستیاب نہیں ہے۔ اس کے بعد تیسرے نمبر پر افریقی ملک اتھوپیا اور
نائجیریا ہے جہاں چار کروڑ لوگ اس بنیادی سہولت سے محروم ہیں پانی شعبہ
زراعت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حثیت رکھتا ہے کیونکہ جب فصل کو بروقت پانی کی
فراہمی نہیں ہوگی تو فصل کی پیداوار بھی نہیں ہوگی اور پھر منڈی میں شے
نہیں پہنچے گی جس سے عوام میں اس چیز کی فراہمی نہیں ہوگی وہ عمل خوراک کی
کمی کا باعث بن سکتا ہے آخرمیں اس بات کے ساتھ اختتام کہ کھانے پینے کی
اشیاء کو ضائع نہ ہونے دیں جیسا کہ آجکل کے دور میں شادی بیاہ کی تقریبات
میں دیکھنے کو ملتا ہے اور یہی اسلام کا سنہری اصول ہے کہ خوراک کو اپنی
ضرورت کے مطابق محفوظ کیا جائے نہ کہ دوسروں کی حق تلفی کرکے اس کے حصے کی
خوراک کو ذخیرہ کر لیا جائے٭
|